Monday, August 6, 2018

::::: قران کے سایے میں ::::: نفس کی اِصلاح کے چار ذریعے :::::


::::: قران کے سایے میں ::::: نفس کی اِصلاح کے چار ذریعے :::::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان مُبارک ہے ﴿ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ؁ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ؁ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ؁  وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا:::اور نفس کی قَسم اور اُس کی قَسم  جِس نے اُس نفس کو بنایا  ؁ پھر نفس کو اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری الہام کے ذریعےسمجھا دی ؁ یقینا ً جِس نے اپنے نفس کو پاکیزہ  کر لیا وہ کامیابی پا گیا ؁ اور جِس نے اُسے (گُناھوں اور نا فرمانی ) میں دبا  دِیاوہ تباہ ہو گیا سُورت الشمس(91)  /آیات7تا10،
اِن آیات کی  کریمہ کی تفسیر میں صحابہ رضی اللہ عنہم اور أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے مُختلف انداز میں تقریباً ایک ہی جیسا بیان ملتا ہے جِس کا حاصل کلام یہ ہے کہ :::
"""﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا آغاز میں اُٹھائی گئی قَسم کا جواب ہے جِس میں فرمایا گیا ہے کہ جو کوئی  اپنے نفس (اپنی رُوح  اپنے باطن) کو  اللہ عزّ و جلّ ، وار اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر سچے اِیمان اور اُن دونوں کی تابع فرمانی کے ذریعے پاکیزہ کر لے گا ، تو وہ یقیناً کامیاب ہو گا اور نجات پائے گا،کہ اللہ تعالیٰ اُس کے نفس کو پاکیزہ ہی بنا دے گا ، اور  اُسے تقویٰ عطاء فرمائے گا اور اُسے اپنی اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت کی توفیق عطاء فرمائے گا اور اپنی رحمت سے اُسے جنّت کی نعمتیں حاصل کر کے ہمیشگی والی صفائی اور  پاکیزگی والا بنا دے گا ،
 اور﴿ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا میں یہ خبر ہے کہ جِس کِسی نے بھی اپنے نفس کو گناھوں اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  نا فرمانی  میں دھنسا دِیا وہ تباہ ہو جائے گا ، اور اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے گناھوں اور نافرمانیوں کے سبب آخرت کی  ھلاکت میں دھنسا کر رکھ دے گا ،  
اِن حقائق کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی اِس دُعاء میں بیان کرتے تھے جو دُعا ءوہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اکثر کیا کرتے تھے کہ ﴿اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِى تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لاَ يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لاَ يُسْتَجَابُ لَهَا:::اے میرے اللہ میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں عاجز ہو جانے سے، اور سُستی سے ، اور بُزدلی سے ، اور کنجوسی سے ، اور بُڑھاپے سے ، اور قبر کے عذاب سے ، اے میرے اللہ میرے نفس کو اُس کا تقویٰ عطاء فرما اور اُسے پاکیزہ کر دے تُو ہی نفس کو پاک کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ خیر والا ہے ، تُو ہی اُس کا ولی ہے اور تُو ہی اُس کا مولا ہے ، اے میرے اللہ میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں ایسے عِلم سے جو (دِین دُنیا  اور آخرت میں )فائدہ مند نہ ہو ، اور ایسے دِل سے جو (تُجھ سے )ڈرنے والا نہ ہو، اور ایسے نفس سے جو (خواھشات اور گناھوں سے)بھرتا ہی نہ ہو ، اور ایسی دُعاء سے جسے قُبول نہ کیا جائے صحیح مُسلم/حدیث7081/کتاب الذِکر و الدُعاء و التوبہ/باب18 ،
اپنے نفس کی اِصلاح اور اُس کی پاکیزگی دِین ،دُنیا  اور آخرت کی کامیابی اور خیر کے حصول کے بڑے اور بنیادی  اسباب میں سے ایک ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بنیادی سبب ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ جب تک نفس ہی صاف و پاک نہ ہوگا کوئی پاکیزہ چیز اُس میں داخل نہ ہو سکے گی اور اگر کبھی داخل ہو بھی گئی تو وہاں رہ نہ سکے گی ،  پس نفس کی طہارت اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس میں موجود  عیوب اور گندگی کو پہچانیں ،
اِمام ابن قدامہ المقدسی رحمہ ُ اللہ نے اپنی """مختصر منھاج القاصدین / الربع الثالث ، ربع المھلکات """ میں لکھا :::
""""" یاد رکھیے ، کہ اللہ جب کِسی بندے کے لیے خیر والا فیصلہ کرتا ہے تو اُس بندے کو اُس کے عیوب دیکھنے کی توفیق دے دیتا ہے ، اور اُس بندے پر اُس کے عیوب نمایاں ہو جاتے ہیں ، جب کوئی بندہ اپنے عیوب جاننے لگتا ہے تو پھر اُس کے لیے اپنے اُن عیوب کا عِلاج  کرنا بھی آسان ہو جاتاہے ، لیکن عموماً لوگ اپنے عیوب کی بصیرت سے محروم ہوتے ہیں کہ  اپنے بھائیوں کی آنکھوں  میں بال  بھی دیکھ لیتے ہیں اور اپنی آنکھ میں پتھر بھی نہیں دیکھ پاتے ، جو کوئی بھی اپنے نفس کے عیوب جاننا چاہتا ہے اُس کے لیے چار درج ذیل مجرب طریقے ہیں :::
::: (1) ::: کِسی ایسے صاحبء بصیرت عالِم  کے پاس حاضری رکھے  جسے اللہ نے لوگوں کے نفوس کے عیوب جاننے کی بصیرت عطاء کر رکھی ہو ، تا کہ وہ اُس بندے کو اُس کے نفس کے عیوب سے آگاہ کرے اور اُن عیوب کے علاج کے طریقے بتائے ، لیکن ہمارے اِس زمانے میں ایسے صاحبء بصیرت عُلماء کی کمی ہے ، پس جو کوئی  کِسی ایسے صاحبء بصیرت عالِم کو پا سکے تو یقین رکھے کہ اُس نے ایک ماہر معالج کو پا لیا ہے ، لہذا اُسے چاہیے کہ پھراس کا ساتھ نہ چھوڑے ۔
::: (2) ::: ایسے صاحبء صِدق اور دِین دار دوست کو تلاش کرے جو اُس کے نفس کے عیوب جاننے میں اُس کا مددگار ہو ، اور اپنے اُس دوست کو اپنے نفس پر ، اُس کے عیوب کے ظاہر ہونے اور واقع ہونے پر  نگران بنائے رکھے ، تا کہ وہ دوست اُسے اُس کے نفس کی طرف سے واقع ہونے والے بُرے اور نا پسندیدہ کاموں پر تنبیہ کرتا رہے اور اُن کاموں کی تکرار سے بچنے میں مددگار بنتا رہے ، ایسا کرنے کی تعلیم ہمیں سلف الصالحین رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ جمعیاً  سے ملتی ہے کیونکہ وہ لوگ ایسے لوگوں کو پسند کیا کرتے تھے جو اُنہیں اُن کی  کِسی غلطی  یا کِسی عیب کے بارے میں بتاتےہوں ، جیسا کہ دُوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفاروق  رضی اللہ عنہ ُ فرمایا کرتے تھے کہ (((((رَحِمَ الله امرأً أهدى إلينا عُيوبنا ::: اللہ اُس پر رحم کرے جو ہمیں ہمارے عیوب بتاتا ہے)))))،
لیکن اب  ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں وہ شخص سب سے زیادہ برا لگتا ہے جو ہمیں ہماری کِسی غلطی یا کِسی عیب کے بارے میں بتائے  (لیکن اگر ہم واقعتا اپنے نفس کی اِصلاح کرنا چاہتے ہیں اور اُسے پاکیزہ بنانے چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے دوستوں کو تلاش کر کے اُنہیں اپنے ساتھ رکھنا ہی چاہیے جو ہمیں ہمارے نفوس کے عیوب کے بارے میں آگاہ کرتے ہی رہیں )۔
::: (3) ::: اپنے  بارے میں اپنے دُشمنوں کی ز ُبانوں سے جاری ہونے والے بیانات  کو بغور سُنا پڑھا جائے اور ٹھنڈے دِل و دِماغ سے اُن پر غور کر کے اُن میں بیان کردہ اپنے عیوب کو پہچانا جائے ، یاد رکھیے آپ کو غُصے سے دیکھنے والی نظر آپ کی برائیاں ضرور دیکھے گی لہذا ٓپ اُس نظر پر نظر رکھیے اور اُسے سمجھنے کی کوشش کرتے رہا کیجیے ، اور یاد رکھیے کہ اِنسان اپنی ذات کی اِصلاح کے لیے  ، اپنے نفس کے پاکیزگی کے لیے اپنے خاموش دوست کی نسبت اپنے  جھگڑالو  منہ ُ پھٹ دُشمن سے کہیں زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے ۔
::: (4) :::  لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا رکھے اور  اُن  کے انداز و اطوار میں اچھی طرح سے غور  کرتا رہے تا کہ اُن میں پائی جانے والی بُری عادات کو پہچانے اور خُود کو اُن عادات سے بچائے """""۔
جیسا کہ حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ ُ  کیا کرتے تھے کہ """كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّىَ الله عَلِيهِ وَ عَلیٰ آلِہِ وسلَّم عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِى::: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور مین اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا ، اس ڈر سے کہ کہیں شر مجھے پکڑ نہ لے (اور میں اُسے جانتا پہچانتا ہی نہ ہوں ، خیر سمجھ کر ہی اُس کا شِکار ہو جاؤں )"""،
اور کِسی حکیم شاعر کا کہنا ہے"""عَرَفْتُ الشّرَّ لا لِلشّرِّ  لَكِنْ لِتَوَقّيهِ ::: وَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الشّرَّ  مِنَ النَّاسِ يَقعْ فِيهِ
میں نے شر سےبچنے کے لیے اُسے جانا نہ کہ اُس پر عمل کرنے کے لیے  :::  اور جو کوئی لوگوں میں سے شر کو نہیں جانتا وہ اُس میں جا ہی پڑتا ہے"""،
پس لوگوں کے ساتھ مَیل جول رکھنا اور اپنے نفس کی اِصلاح کے لیے ، خُود کو برائی سے بچائے رکھنے کے لیے  اُن کی عادات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے رہنا اپنے نفس کے لیے پاکیزگی حاصل کرنے کے أہم ذرائع میں سے ہے ، یاد رکھیے کہ مذکورہ بالا باتوں سے یہ سمجھنا چاہیے کہ،
 اپنے نفس کے عیب دیکھنے کی بجائے دُوسروں کے عیوب تلاش کرنے میں وقت ضائع کرنا مقصود نہیں ، بلکہ دُوسروں کے عیوب دیکھ کر اپنے نفس میں اُن کو تلاش کرنا ہے ،
جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ غلطیوں ، کوتاہیوں اور گناھوں سے دُور رہ سکے اور راہ حق پر اِستقامت اور مضبوطی سے چل سکے اور اُس کے قدم لڑکھڑانے نہ پائیں ، تو وہ اپنے دِل کی مکمل حاضری کے ساتھ اِمام حسن البصری رحمہ ُ اللہ کا یہ سنہری قول پڑھے """ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن میں کوئی عیب نہ تھا ، لیکن وہ لوگوں کی عیب گوئی کرتے رہے تو اللہ نے اُن پہلے والے بے عیب لوگوں میں ہی عیب مہیا کر دیے، اور میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن میں خُود بھی  عیب تھے لیکن پھر بھی وہ دُوسروں کی عیب گوئی کرنے میں خاموش رہے ، تو اللہ نے اُن خاموش رہنے والوں کے عیوب پر بھی پردہ ڈال دِیا   """،
یہ بہت دُکھ والی حقیقت ہےکہ اِنسانوں کی اکثریت اور بالخصوص ہم مُسلمانوں کی اکثریت اپنے عیوب جاننے کی بجائے  دُوسروں کے عیوب جاننے میں لگی رہتی ہے ، اگر ہم اِس معاملے کو  دِینی لحاظ سے دیکھیں تو سوائے چند شرعی طور پر مقبول حالات کی صورت میں دُوسروں کے بارے میں تجسس اور تحسس  ممنوع کام ہیں ( الحمد للہ ، تجسس اور تحسس کے بارے میں ایک مضمون پہلے نشر کیا جا چکا ہے)،اور نفسیاتی طور پر اِن کاموں پر نظر کی جائے تو یہ کام نفسیاتی کمزوری کی علامت مانے جاتے ہیں ، کہ جو شخص اپنے نفس کے عیوب تلاش کرنے کی بجائے دُوسروں کے عیوب تلاش کرتا رہتا ہے وہ نفیساتی طور پر کمزور اور مریض ہوتا ہے کہ اُسے اپنے اندر جھانکنے سے خوف ہوتا ہے اور دُوسروں کے عیوب تلاش کر کے وہ اپنے عیوب سے اپنی اور دُوسروں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ،
جو اُسکی بُزدلی کی عِلامت ہے کہ وہ اپنے اندر اتنا حوصلہ ہی نہیں رکھتا کہ اپنے نفس کے عیوب جان کر اُنکی اِصلاح کی کوشش کر سکے ، اِس میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ اپنی ذات میں پائی جانی والی بُرائیاں اور کمزوریاں مان سکے اور اُنکے خِلاف کام کر سکے ،
پس وہ اپنے نفس کے بارے میں خوش فہمیوں کا شکار ہو کراُسے  مزید آلودہ کرتا رہتا ہے اور اُس کی پاکیزگی سے دُور ہی دُور ہوتا چلا جاتا ہے ، خیالی دُنیا میں خود کو اچھا اور دُوسروں کو برا ، خود کو بے عیب اور دُوسروں کو معیوب سمجھتا رہتا ہے ، اور حقیقت میں خود کو بُرا  اور عیب دار بناتا چلا جاتا ہے ،
جب یہ خیالات رُخصت ہوتے ہیں تو اُس کے پاس سوائے دُنیا اور آخرت کی رُسوائی کے اور کچھ نہیں بچتا ،  لہذا ہم میں سے ہر ایک کو اپنے نفس کے سامنے بہادر حقیقت پسند بن کر قائم رہنا چاہیے ، اُس پر غیر جانبدار نقاد بن کر رہنا چاہیے ، دُوسروں کے عیوب کی تلاش کی بجائے اپنے عیوب تلاش کرتے رہنا چاہیں اور اللہ کی رضا کے لیے اُن کی اِصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی اور تمام تر خوش فہمیوں سے بچائے اور اپنے نفوس کے عیوب جاننے ، ماننے اور اُن کی اِصلاح کرنے  کی ہمت دے ،
ڈاکٹر مصطفی السباعی نے اپنی کتاب """ علمتنی الحیاۃ  """ میں لکھا ہے :::
""" اگر تُمہارا نفس تمہیں گناہ کی طرف مائل کرے تو اُسے اللہ کی عظمت یاد کروایا کرو ، اگر تو وہ ڈر جائے تو اللہ کا شکر ادا کرو ، اور اگر نہ ڈرے  تو اُسے نیک لوگوں کے اِخلاق و کِردار کے ذریعے نصیحت کرو ، اگر تو وہ یہ نصیحت قبول کر لے تو اللہ کا شکر ادا کرو ، اور اگر وہ یہ نصیحت قبول نہ کرے تو اُسے بُرائی کے ظاہر ہوجانے کی صُورت میں  لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونے کا خوف دلاؤ ، اگر وہ خوف زدہ ہوجائے تو اللہ کا شکر ادا کرو اور اگر وہ خوف زدہ نہ ہو تو یاد رکھو کہ اُس  مرحلے کے بعدتُمہارا نفس حیوان بن چکا ہے """،
اللہ نہ کرے اگر کِسی کا نفس اِس حد تک سرکش ہو چکا ہو تو اُسے کِسی بھی تاخیر کے بغیر اور کہیں زیادہ شدت اور سختی کے ساتھ ابھی ابھی بیان کیے گئے ذرائع اختیار کرنے کی ضرورت ہے ،
کِسی نیک صاحبء بصیرت کا کہنا ہے کہ """ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نفسانی خواہشات کے بغیر عقل عطاء فرمائی اور جانوروں  کو بلا عقل نفسانی خواہشات  عطاء فرمائیں ، اور اِنسان کو عقل اور نفسانی خواہشات دونوں ہی عطاء فرما کر نیک و بد کی پہچان کے ذرائع بھی عطاء فرمائے ،  پس اگر اِنسان اپنی عقل کو دُرُست طور پر اِستعمال کر کے اپنی نفسانی خواہشات پر غالب آجائے تو وہ فرشتوں سے بھی بہتر مُقام پاتا ہے اور جِس کی نفسانی خواہشات اُس کی عقل پر غلبہ پا جائیں وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے """،
آخری بات کے طور پر کہتا ہوں کہ ، ہم سب کو ہی اپنے نفس کے عیوب اور چالبازیاں جاننے کی بھر پور کوشش کرتے ہی رہنا چاہیے ، خوش فہمیوں ، غلط فہمیوں ، خوش پسندیوں وغیرہ سے دُور رہنا ہی چاہیے ، کہ یہ سب کام اپنے عیوب جاننے کی راہ میں بڑی روکاٹ ہوتے ہیں اور اپنے نفس کے عیوب جاننے  اور اُن کی اِصلاح کے لیے مذکورہ بالا ذرائع کو اِستعمال کرتے رہنا چاہیے اور اُن کے ساتھ ساتھ تضرع کی کیفیت میں ، اللہ تعالیٰ  کے خوف سے بھرے دِل کے ساتھ ، اللہ پاک  کے خوف سے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ ، اللہ جلّ جلالہ ُ  کے سامنے سجدہ ریز پیشانی کے ساتھ ، پوری توجہ ، شوق ، لگن ، تڑپ اور چاہت کے ساتھ اللہ  سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے اپنے نفس کی پاکیزگی طلب کرتے ہی رہنا چاہیے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
 وا لسلام علیکم،
طلب گارء دُعاء ،
 عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 16/01/1433 ہجری ، بمطابق ، 11/12/2011عیسوئی،
تاریخ تجدید  و تحدیث : 02/01/1439 ہجری ، بمُطابق ، 22/09/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔