Thursday, March 26, 2020

::: کرونا وائرس اور فراغت ، موقع غنیمت جانیے :::


:::  کرونا وائرس اور فراغت ، موقع غنیمت جانیے :::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی دُوسراسچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور اُنہوں  وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے اِرداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دِی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
کرونا وائرس کی حملہ آوری کے مثبت نتائج  میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اچھے خاصے مصروف لوگوں کو بھی کافی فراغت مُیسر ہو گئی ہے، لیکن،،،،،،،، وہ اپنی اِس فراغت کو کِس طرح استعمال کر رہے ہیں ، یہ ہم سب ہی جانتے ہیں ،
اپنے ایسے ہی مُسلمان بھائی بہنوں کو ، جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اِس وقت صحت بھی  عطاء فرما رکھی ہے، اور اِس کرونا وائرس کو سبب بنا کر فراغت بھی مہیا کر دی ہے ،  لیکن وہ اِن دونوں ہی نعمتوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا رہے،
اللہ عزّ و جلّ کی طرف رجوع کر کے، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی اختیار کر کے ، اللہ پاک کی مدد طلب کرنے کی بجائے ، نافرمانی والے کاموں میں مشغول ہیں ،
میں اپنے ایسے ہی مُسلمان بھائی بہنوں کو خصوصاً اور سب ہی مُسلمانوں کو عمومی طور پر ، رسول اللہ  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چند فرامین سُنانا ، پڑھانا چاہتا ہوں ، اِس اُمید کے ساتھ کہ جِس دِل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تھوڑی سی بھی محبت ہو گی وہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِرشادت پر عمل کرے گا ،
اور جو نہ کر پائے وہ اپنے بارے میں خود ہی فیصلہ کر لے  کہ وہ کتنا صاحبء اِیمان ہے اور کِس قدر  محبتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہے اُس کے دِل میں ،
تو سنیے ، پڑھیے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بتایا کہ    ﴿ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِن النَّاس  الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ ::: دو نعمتوں کے بارے میں لوگوں کی اکثریت غلط کاری کا شکار رہتی ہے (1)صحت اور (2) فراغتصحیح البخاری/کتاب الرقاق کی پہلی حدیث ،
کہیں آپ بھی تو اِنہی لوگوں میں نہیں ؟
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم بھی دِی کہ  ﴿ اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ : شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ :::پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں سے فائدہ اُٹھا لو (1) تُمارے بڑھاپے سے پہلے تُمہاری جوانی (کا فائدہ اُٹھا لو)اور (2) تُمہاری بیماری سے پہلے تُمہاری صحت (کا فائدہ اُٹھا لو)اور (3)تُماری غُربت سے پہلے تُمہاری مالداری(کا فائدہ اُٹھا لو)اور(4) تُمہاری مشغولیت سے پہلے تُمہاری فراغت(کا فائدہ اُٹھا لو)اور (5) تُمہاری موت سے پہلے تُمہاری زندگی(کا فائدہ اُٹھا لو) المستدرک الحاکم /حدیث 7846،صحیح الجامع الصغیر  1077،
کیا ہم ایسا کر رہے ہیں ؟  یا ہمارے کام  اِ س تعلیم کے  خِلاف  ہیں ؟
صاحب القران صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیکھ سیکھ کر جو  اہل الذکر ہوئے ، حقیقی معنوں میں اہل القران ہوئے وہ ایک دُوسرے کو یہ سمجھاتے رہے اور ہمارے لیے بھی یہ پیغام چھوڑ گئے کہ """"" إذا أمسيتَ فلا تَنتَظِر الصباحَ وإذا أصبحتَ فلا تنتظر المساءَ ، وخُذ مِن صحتكَ لِمرضك ومِن حياتكَ لِموتك :::تُم پر اگر شام آجائے تو صُبح کا انتظار مت رکھو اور اگر صبح ہو جائے تو اگلی شام کا انتظار مت رکھو ، اور اپنی صحت میں سے اپنی بیماری کے لیے حصہ لے لو ، اور اپنی زندگی میں سے اپنی موت کے لیے حصہ لے لو """""صحیح البخاری /کتاب الرقاق /باب3،
کیا ہمارے صُبح و شام ایسے ہیں ، کہ ہم آنے والے وقت میں ممکنہ مصیبت سے نمٹنے کی  تیاری کرتے ہوں ؟
کیا ہم اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی اختیار کر کے اللہ کی رضا اور مدد پانے والے کام کر رہے ہیں ؟
یا خود ساختہ اورغیر ثابت شدہ   عقائد و عبادات اپنا کر اپنے رب تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہیں ؟
یا محض مادی وسائل اور خود اعتمادی  وغیرہ  پر  بھروسہ کر کے زندگی انجوائے کر رہے ہیں ؟
کِسی مُصیبت اور پریشانی وغیرہ  کے آنے کی صُورت میں ، عموماً   اِنسانوں میں تین رویے ظاہر ہوتے ہیں ،
:::(1) ::: مادی وسائل یا اپنی خود اعتمادی وغیرہ کے گُمان میں رہتے ہوئے، بزعم خود  اُس مُصیبت  سے مقابلہ کرنا ،
::: (2) ::: مادی وسائل کو قابل توجہ نہ سمجھتے ہوئے ، اپنے عقیدے کے مُطابق اپنے خداؤں ، معبودوں ، اور مشکل کشاؤں وغیرہ  کی طرف رجوع کرنا ، اپنی بنائی یا اختیار کردہ عبادات میں  مصروف ہونا ،
::: (3) :::  اصل بھروسہ اور توکل صِرف اپنے اکیلے سچے اور حقیقی معبود اللہ جلّ جلالہُ پر رکھتے ہوئے، اُسی کی اطاعت کرتے ہوئے  ، روحانی اور مادی وسائل اِستعمال کرتے ہوئے اُس مُصیبت سے نجات پانے کی کوشش کرنا ،
پہلی دو قسم کے رویے تو مُسلم غیر مُسلم سب ہی میں ظاہر ہوتے ہیں ، لیکن تیسرا رویہ فقظ سچے  اِیمان والوں میں ظاہر ہوتا ہے ،
آیے ہم سب اپنے اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ ہمارے رویے کِس گروہ والے ہیں ؟ اور ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت و مدد کی طرف بڑھ رہے ہیں ، یا، اُس کے عذاب اور اُس کی طرف سے دُھتکارے جانے کی طرف ؟
و السلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 02/18/1441 ہجری ، بمطابق ، 25/03/2020عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔