Friday, November 7, 2014

::::::: ہم حاصل کردہ دِینی تعلیمات پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ :::::::




::::::: ہم حاصل کردہ  دِینی تعلیمات   پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟  :::::::
بِسمِ اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ ، و أفضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہِ مُحمدٍ ابن عَبدُاللہ ، خَاتمُ الرُسلِ والأنبیاءِ و المَعصومِین ، و صَلوۃُ اللہِ عَلیٰ أصحَابِہِ و أزوَاجِہِ و مَن تَبِعَھُم بِأحسانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین ، وأما بعد ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
میری آج کی گفتگو کاعنوان اور آغاز یہ سوال ہے کہ"""ہم حاصل کردہ دِینی تعلیمات پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ """،
یہ سوال صِرف ایسے لوگوں کے لیے نہیں جو دِینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ، یا دِین داری کی طرف مائل ہوتے ہیں ، یا دِین داری سے تعلق والے لگتے ہیں ،  بلکہ یہ سوال ہر ایک مُسلمان کے لیے  ہے ، کیونکہ تقریباً ہر ایک مُسلمان اپنے دِین کے بارے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور جانتا ہے جِس پر وہ جاننے کے بعد بھی عمل نہیں کرتا ، اور کچھ نہ  کچھ ایسا ضرور جانتا ہے جِس جاننے کے باوجود بھی وہ اُس کے خِلاف کام کرتا ہے،  
لہذا اِس سوال کا جواب ، اور سوال میں مذکور کمزوری کا علاج اِن شاء اللہ ہر مُسلمان کے لیے فائدہ مند ہے ،
آیے اِس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں ، اور اِس کی تلاش میں سب سے پہلے اپنے نفوس کا حساب کرتے ہیں کہ اِیمان والوں کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے نفوس کا حساب کرتے رہا کریں ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ:::اے اِیمان لانے والو ، اللہ(کی ناراضگی اور عذاب )سے بچو ، اور ہر ایک شخص دیکھے کہ اُس نے کل (قیامت)کے لیے آگے کیا بھیج رکھا ہےاور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو، جو کچھ تم لوگ کرتے ہو یقینا ً اللہ اس کی خُوب خبر رکھتا ہےسورت الحشر (59)/آیت 18،
پس ہم بھی اپنے نفوس کا محاسبہ کرتے ہوئے اِس سوال کا جواب تلاش کریں گے کہ ، جو کچھ ہم سیکھتے ہیں اُس پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟بالخصوص دِینی معلومات اور تعلیمات  پر ؟
ذرا سوچیے ، ہم نے اپنے دِین اور مذھب کے بارے میں ، دِینی مسائل و معلومات پر مبنی  کتنی تقریریں سنی ہوں گی ؟
کتنے خطبے سنے ہوں گے ؟
 کتنے درس سنے ہوں گے ؟
 کتنی کتابیں پڑھی ہوں گی ؟
 کتنے مقالے ، مضامین اور تبصرے پڑھے ہوں گے ؟
کتنی نصیحت آموز باتیں پڑھی سنی ہوں گی ؟
 کتنی بحثیں سنی یا پڑھی ہوں گی ؟
 بلکہ کتنی بحثوں میں حصہ بھی لیا ہو گا ؟
 کتنی دِینی محفلوں میں ، درس کی کتنی مجالس میں ،ذِکر و اَذکار کی کتنی نشستوں میں شامل ہوئے ہوں گے ؟
کتنی دفعہ قران کریم پڑھا ہو گا ؟
 اور اس پڑھائی میں کتنی دفعہ غور و تدبر کیا ہو گا ؟
کتنی دفعہ اُسے سمجھنے کی کوشش کی ہو گی ؟
 اور اُس غور و تدبر میں سے ، تفہیم کی کوششوں میں سے کتنی کوششیں ایسی ہوں گی جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی مقرر کردہ حُدُود میں محدود رہنے والی رہی ہوں ؟
قران کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف جو کچھ کرنے کے احکام  ہیں اور جن کاموں سے باز رہنے کے احکام ہیں اُن  أوامر اور نواھی پر کتنا عمل کیا ہے ؟
ہمارے عقائد و عبادات میں ،اخلاق و کِردار میں،تعلیم و تربیت میں ، عادات و اطوار، خرید و فروخت میں ، محبتوں اور نفرتوں میں ، دوستیوں اور دشمنیوں میں ، غرضیکہ تقریباًمَعاشی اور مُعاشرتی معاملات میں ،قران کریم پر عمل کتنا ہے ؟   
کتنی دفعہ سیرت اور سُنّتء رسول صلی اللہ  علیہ  وعلی آلہ وسلم کا مطالعہ کیا ہوگا ؟ اور صحیح اور نا دُرُست روایات کی تمیز کے ساتھ کیا ہو گا ؟ اور اُس مطالعہ میں سے کتنی دفعہ ہم نے کچھ دُرُست طور پر  سمجھا ہو گا ؟ اور اُس دُرُست طور پر سے سمجھے ہوئے میں سے کتنے کو ہم نے اپنایا ہو گا ؟ اور اُس اپنائے ہوئے میں سے کتنے پر ہم نے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہو گا ؟
قران فہمی ، قران سے محبت ، قران کی حفاظت ، قران پر اِیمان ، سنّت سے محبت ، سنّت کی حفاظت ،سنّت پر اِیمان ، اور اِسی قسم کے عناوین پر مشتمل کتنی دعوتیں پیش کرتے ہوں گے ؟ اور خود اِس دعوت پر کتنا عمل کرتے ہیں ؟
اگر ہم دیانت داری سے اِن سب سوالات کے جوابات اپنے اندر سے ، اپنے نفوس میں سے تلاش کریں تو ہم میں سے اکثریت کو جواب ملے گا کہ """سنا پڑھا تو بہت ہے لیکن اس کی دُرُست تفہیم اور عمل  بہت ہی کم ہے """
اسی کم عملی کا سبب جاننے کے لیےہی  میں یہ گفتگو کر رہا ہوں ،     
اِن سوالات کے علاوہ کچھ مزید سوالات بھی ایسے ہیں جن کے جوابات میرے آج کے موضوع کے طور پر کیے گئے سوال کا جواب حاصل کرنے میں مدد گار ہوں گے ، اِن شاء اللہ ،
ایسا کیوں ہے کہ ہم اللہ کی آیات مُبارکہ پڑھتے ہیں ، وہ آیات کہ جو کسی پہاڑ پر نازل ہوئی ہوتِیں تو وہ پہاڑ بھی اللہ کی خوف سے لرزتا رہتا ، وہ آیات شریفہ پڑھ کے ہمارے دِلوں میں اللہ کا خوف کیوں پیدا نہیں ہوتا ؟ ہمارے اعمال اللہ کی تابع فرمانی والے کیوں نہیں بنتے ؟ اللہ  کی طرف سے جو کچھ کرنے کے احکام  ہیں ہمارے اقوال و افعال اُن احکام کے پابند  کیوں نہیں ہوتے؟ جن کاموں سے باز رہنے کے احکام ہیں ، اُن احکام کے مطابق  ہم ممنوع کاموں سے باز کیوں نہیں رہتے ؟
ایسا کیوں کہ ہم اکثر ایسے لوگ دیکھتے ہیں جو قران کریم ، سُنّت شریفہ اور دِینی علوم کی اَسناد کے حامل ہوتے ہیں ، دِین داری کی علامت بنے ہوتے ہیں ، دِینی جماعتوں اور دُرُوس کی مجالس کی رُوح رواں ہوتے ہیں، دِینی حلقوں کے امیر اور ناظم وغیرہ وغیرہ ہوتے ہیں ، لیکن جو کچھ اپنی دعوت و تبلیغ ، تقریر و تحریر میں کہتے ہیں اُس پر عمل پیرا دکھائی نہیں دیتے ؟ اُن کا اِخلاق ،عِبادات ،  لوگوں کے ساتھ معاملات ،انداز و اطوار ، بُود وباش سب ہی کچھ اپنی ہی دعوت کے خلاف ہوتے ہیں ؟اُن کے اہل و عیال میں اُن کی دعوت و تبلیغ کا کوئی پَرتو دکھائی نہیں دیتا ؟
ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ فرائض کی ادائیگی میں تو سُستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نوافل یا خود ساختہ عبادات کی ادائیگی میں  خُوب جان ، مال اور وقت لگاتے ہیں ؟
ان سب سوالات کو اگر ایک ہی سوال بنایا جائے تو وہی بنتا ہے جو میری آج کی گفتگو کا عنوان ہے کہ """ ہم  حاصل کردہ دِینی تعلیمات   پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟"""،
اس کاجواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی بے عملی ، اور غلط عملی کےبنیادی  اسباب  پہچانیں اور پھر ان کو دُور کرنے کی کوشش کریں ،    
::::::: علم کے عدم نفاذ کے اسباب :::::::
::: (1) :::  حصول ء علم میں منھج کی دُرُستگی نہ ہونا، آخرت کی کامیابی کا خیال نہ ہونا :::
اِس کا  پہلا اور بڑا سبب ہماری غیر سنجیدگی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھتے اور سنتے ہیں اُسےکبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ، لہذا اُسے  اپنانے کی طرف توجہ ہی نہیں ہو پاتی ، بلکہ عموماً صِرف اپنی مجالس، دُرُوس کلاسز اور لیکچرز  وغیرہ میں  حاضری لگوا کر کسی صاحب کو راضی کرنا ہوتا ہے ، یا اپنے مَن کو موٹا کرنا،
اور دِینی علوم کے بارے میں تو بطور خاص یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اُن کے حصول میں آخرت کی خیر اور کامیابی پانے کو ہدف نہیں بناتے بلکہ عموماً دُنیاوی مقاصد پانے کو بناتے ہیں ، دِینی تعلیم کو بھی عام طور پر دُنیا کمانے کا ذریعہ سمجھ کر ہی حاصل کیا جاتا ہے ، خواہ وہ مال و دولت کی صُورت میں ہو یا نام و نمائش کی صُورت میں ، یا کہیں اُس عِلم کو  دِین کے کام کے طور پر استعمال کیا جانا نظر آتا ہے تو اس میں بھی زیادہ تر یہی دکھائی اور سُجھائی دیتا ہے کہ اللہ کے دِین کے لیے اُس عِلم کو استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے اپنے مسلک ، مذھب ، جماعت و گروہ ، سوچ و فسلفے وغیرہ  کو سچا دکھانے کے لیے کیا جاتا ہے ،
 اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے اِرداے سے دِینی تعلیم حاصل کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں ، پس جس اِرادے سے اُنہوں نے یہ عِلم حاصل کیا ہوتا ہے اُسی کے مطابق وہ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں ، اِن سب باتوں کی گواہی کےلیے  کسی لمبے چوڑے بیان کی ضرورت نہیں ، دِینی علوم، دِینی معاملات ، دِینی جماعتوں اور دِینی تبلیغ  سے متعلق لوگوں کے روز مرہ  اعمال ہی کافی ہیں ،
سوائے اُن لوگوں کے جِن پر اللہ نے رحم کیا ہو اور وہ اللہ کے دِین کی خاطر ہی دِین کے عِلم کو استعمال کرتے ہوں ،کسی مذھب ، مسلک ، جماعت ، گروہ ، خود ساختہ سوچ و فِکر ،  کی تائید و نُصرت کے لیے یا کسی شخصیت کی عقیدت یا ضِد کے لیے نہیں ،     
اِس حقیقت پر غور فرمایے کہ قران کریم اُس پر اِیمان لانے کے ساتھ ہی ساتھ اُس پر عمل کرنے کے لیے نافذ فرمایا گیا ، جیسا کہ قران حکیم کے اولین مخاطبین  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کر دکھایا ، کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  قران پاک کا ایک ایک حرف سیکھتے ہی اُس کی تنفیذ کرنے لگتے تھے،  اور انہیں ایسے کام سیکھنے کی لگن ہوتی جو اُن کی دُنیا اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہوں ، اور پھر جو کچھ سیکھتے اُس پر مستقل طور پر عمل بھی کرتے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم کی حصول ء علم کی لگن ، نیک نیتی جو صرف آخرت کی کامیابی کے حصول پر مبنی تھی ، کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں :::
::: () ::: ابی بکر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت  ہے کہ ، اُنہوں نے رسول اللہ صلی سے درخواست کی کہ """مجھے کوئی ایسی دُعا سیکھایے جو اپنی نماز میں کیا کروں """
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جواب اِرشاد فرمایا ﴿قُلِ اللَّهُمَّ   إِنِّى ظَلَمْتُ نَفْسِى ظُلْمًا كَبِيرًا  وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ فَاغْفِرْ لِى مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِى إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ  :::کہا کرو ، اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے ،  اور تیرے عِلاوہ کوئی بھی گناہوں کی بخشش نہیں کر سکتا ، لہذا تیرے  پاس سے تیری بخشش  میں سے مجھے معاف  فرما ،اور مجھ پر رحم فرما بے شک تُو بخشش کرنے والا ہے اور بہت رحم کرنے والا ہے،
قتیبہ کی روایت میں "بہت بڑے "کی جگہ "بہت زیادہ" ہے ، دونوں روایات کا حوالہ :صحیح مُسلم/حدیث 7044/ کتاب الذِکر و الدُعاء و التوبہ/باب13 ،
::: () ::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض کی """اے اللہ کے نبی کون سا کام جنّت کے سب سے زیادہ قریب ہے ؟ """
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿الصَّلاَةُ عَلَى مَوَاقِيتِهَا :::نماز کے اوقات پر نماز ادا کرنا،
میں نے پھر عرض کی """ اور کیا اے اللہ کے نبی ؟ """
اِرشاد فرمایا ﴿﴿بِرُّ الْوَالِدَيْنِ :::والدین کے ساتھ اچھا سلوک،
میں نے پھر عرض کی """ اور کیا اے اللہ کے نبی ؟ """
اِرشاد فرمایا ﴿الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ :::اللہ کی راہ میں جہاد کرناصحیح مُسلم /حدیث263 /کتاب الایمان/باب38 ،
عِلم حاصل کرنے کی یہ لگن کہ ہم پوچھ پوچھ کر، تلاش کر کر کے عِلم حاصل کریں اور اُس کا سبب اُس عِلم پر عمل کرنا ہو ، دراصل یہ لگن ہی ہم میں نہیں ہے ،
جی یہ حقیقت ہے ، اور حاصل کردہ عِلم پر ہمارا عمل نہ ہونے کا  بنیادی بڑا سبب ہے کہ ہمارا حصولِ عِلم عموماً اُس عِلم کو نافذ کرنے کے لیے نہیں ہوتا ،
لوگوں میں عَالِم بننے یا کہلانے کے لیے ہوتا ہے ، یا لوگوں کو نصیحتیں کرنے کے لیے ہوتا ہے ، یا لوگوں سے بحثیں کرنے کے لیے ہوتا ہے ، یا لوگوں کے نقائص نکالنے کے لیے ہوتا ہے ، یا مال کمانا ہوتا ہے، یا کوئی بھی اور سبب ہوتا ہے، بہر حال اپنی اور اپنے دُوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کی آخرت کی خیر کی کوشش ، اور اپنے اللہ کی رضا پانے کے لیے اُس عِلم کے حصول کی کوشش نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئی ہے ،
جب کہ یہ لازمی امر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب قران کریم پڑھیں تو صرف ثواب کمانے کے لیے نہ پڑھیں، اور نہ ہی ثواب بانٹنے کے لیے پڑھیں ،اور نہ ہی حافظ جی،یا قاری صاحب کہلانے کے لیے پڑھیں، اور نہ ہی قُران کے ذریعے کوئی مال و متاع کمانے کے لیے پڑھیں ،اور نہ ہی لوگوں پر حجت بازی کرنے کے لیے پڑھیں اور نہ ہی اپنے آپ پر قران کامُحب ہونے کا پردہ اوڑھنے کے لیے پڑھیں ، بلکہ اُس میں بتائے گئے عقائد اپنانے کے لیے پڑھیں، اور اُس میں  دیے گئے احکام پر عمل کرنے کے لیے پڑھیں ، کہ اُسی میں خیر ہے اور یقینی خیر ہے اور اِیمان میں اضافے اور مضبوطی  کا سبب ہے، یہ بھی  اللہ عزّ وجلّ نے ہی اُسی قران میں بیان فرمایا ہے﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا:::اور اگر یہ لوگ وہ کچھ کرتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو ایسا کرنا اُن کے لیے بہتر ہوتا اور(اِیمان پر)ثابت رہنے میں مضبوطی والا ہوتاسُورت النساء(4)/آیت 66،
::: (2) ::: تربیت کی کمی ، تربیت کی کمزوری ، تربیت کا نا دُرُست انداز :::
ہماری زندگیوں میں بچپن سے لے کر بڑھاپے تک یہ سب کمزوریاں پائی جاتی ہیں ، گھر ، مدراس ،سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز ، ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹس وغیرہ میں  دیے اور پائے جانے والے علوم کے ساتھ اُن پر عمل کرنے کی تربیت نہ ہونے کے برابرہوتی ہے اور جو ہوتی ہے تو اُس میں بھی عموماً صِرف چند دُنیاوی فوائدحاصل کرنا ہی سیکھایا جاتا ہے ،
بنیادی مقصد أسناد ،سرٹیٖفیکیٹس ،اور ڈگریز وغیرہ حاصل کر کے دُنیا کمانا ہی ہوتا ہے،   
::: (3) ::: اچھی تربیت دینے والوں کا میسر نہ ہونا  :::
بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کا اِرادہ تو بالکل دُرُست ہوتا ہے لیکن اُسے کوئی اچھی  تربیت دینے والا مُیسر نہیں ہوتا ، کبھی کسی کو ایسے ماں باپ نہیں ملتے جو اُسے اُس  کے دِین ، دُنیا اور آخرت کے بارے میں دُرُست تربیت دے سکیں ، تو کبھی کسی کو مدرسے ، سکول ، کالج یا دیگر تعلیمی اداروں میں ایسا کوئی اُستاد نہیں ملتا جو اُس کے اِرادوں کی اِصلاح کر تے ہوئے اُس کی دُرُست تربیت کر سکے ، بلکہ ایسی شخصیات اور ایسے وسائل اور اسباب با کثرت ہوتے ہیں جو اُسےاپنے اور دُوسروں کے لیے  ایک اچھا نفع بخش مُسلمان  بنانے کی بجائے ، اُن کی اپنی شخصیات تک محدودد رہنے والا، اُن کا ہی پابند رہنے والا، یا، خود غرض اور ہوائے نفس کا پیروکار بنا دیتے ہیں ،
ایسی کمی ،ایسے  نُقص کو دُور کرنا ، ختم کرنا ، ہم سب مُسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے ، لیکن ،،،،، جب ہم خُود ہی اپنے حاصل کردہ عُلوم کے مُطابق عمل نہیں کرتے تو دُوسروں کو کیا سکھائیں گے؟
جب ہم خُود ہی اپنے حاصل کردہ عُلوم کے مُطابق اپنا ہی محاسبہ نہیں کرتے تو دُوسروں کو کیا سکھائیں گے؟
::: (4) ::: اِسلامی تعلیمات کے مُطابق قوت عمل اور قوت مزاحمت کی کمی :::
کسی نیک کام پر ملنے والے اجر و ثواب پر یقین کی کمی اُس پر عمل کرنے میں کمزوری کا سبب ہوتا ہے ،
 اور اِسی طرح کسی گناہ کی سزا اور عذاب پر یقین میں کمی اس سے دُور رہنے میں کمزوری کا سبب ہوتا ہے ،
 اور اس یقین کی کمی کا سبب یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ سنتے ، پڑھتے اور سیکھتے ہیں اسے دُنیا کے فوائد حاصل کرنے لیے سیکھتے ہیں ،
اگر ہم دِینی تعلیمات حاصل کرتے ہوئے ، قران پاک کا مطالعہ کرتے ہوئے ، سُنّت مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہوئے نیکیوں کے اجر اور گناہوں کی سز ا کے ذِکر کو صرف پڑھ سن کر نکلنے کی بجائے ان پر رُک کر ، اُن پر تدبر کریں ، تو اِن شاء اللہ نیکیوں پر عمل کی قوت میں اضافہ ہو گا ،ا ور گناہوں کے خلاف مزاحمت کی قوت کو بھی تقویت ملے گی ،
::: (5) ::: فرائض کی ادائیگی پر رُکے رہنا  ، اور سُنّت اور نوافل کو أہمیت نہ دینا  :::
اکثر لوگ صرف دِینی فرائض کی ادائیگی تک ہی رکے رہتے ہیں ، اور دیگر نفلی نیک کاموں کے بارے میں جان کر بھی اُن پر عمل نہیں کرتے ، ایسے لوگوں کی اکثریت اِس دھوکے کا شکار ہوتی ہے کہ """بس جی ، جو فرض ہے وہ ادا کر لیجیے ، اللہ غفور و رحیم ہے """
جی ہاں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ غفور و رحیم ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ شدید العقاب بھی ہے ، اور اُس کی گرفت بڑی مضبوط ہے ،
اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سُنّت مُبارکہ پر عمل اور نفلی نیکیاں اللہ کے قُرب کے حصول کا ، اور فرائض کی ادائیگی میں ثابت قدمی کا بہت بڑا سبب ہیں ، جب سُنّت مُبارکہ پر عمل چھوڑا جائے ، نفلی نیکیوں پر عمل چھوڑا جائے تو کچھ ہی عرصے میں فرائض کی ادائیگی میں بھی کمزوری اور کمی ہونے لگتی ہے اور معاذ اللہ ایسا وقت بھی آ ہی جاتا ہے جب انسان فرائض کی ادائیگی سے بھی غافل ہو جاتا ہے ،
انبیاء اور رُسل علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد ، سب سے زیادہ پاکیزہ اور اعلیٰ اِیمان والے لوگ ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سُنّت مبارکہ پر اِس قدر عمل پیرا رہتے تھے کہ اُن کی زندگیاں سُنّت مبارکہ پر عمل کا مُستقل و مسلسل نمونہ تھیں ، جب کہ اُن میں سے ایسے بھی تھے جنہیں اللہ نے، یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جنّتی قرار دے رکھا تھا ، اور اُن کی ساری ہی جماعت اپنی جگہ اللہ کے محبوب بندے ہونے کی سند اللہ کے کلام میں حاصل کر چکی تھی ، وہ چاہتے تو صرف فرائض کی ادائیگی تک محدود رہتے ، کیا ضرورت تھی ہر ایک  سُنّت پر عمل کر کر  کےجان ہلکان کرنے کی ،  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں سُنت مبارکہ پر عمل کرنے اور نفلی نیکیاں کرنے کی مثالیں تو اَن گنت ہیں،تقویت کے لیے   ایک دو  مثالیں  پیش کرتا چلوں ،
::::: زیاد بن جبیر رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ:::
""" میں نے ابن عُمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ اُن  کا گذر ایک ایسے آدمی کے پاس سے ہوا جو اپنی قربانی کی  اُوٹنی کو ذبح کرنے کے لیے بِٹھا  چُکا تھا ، تو یہ دیکھ ابن عُمر رضی اللہ عنہ ُنے فرمایا (((ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً ، سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلّی اللہ عَلیہِ و عَلیَ آلہِ و سلّم :::اِسے باندھ کر کھڑا رکھو ، محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق)))صحیح البخاری /کتاب الحج /باب118، 119، صحیح مُسلم /کتاب الحج/باب 63،
::::: ابی وائل رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ ُ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع و سجود جلدی جلدی کر رہا  تو جب و ہ نماز سے فارغ ہوا تو انہوں نے فرمایا """تُم نے نماز نہیں پڑھی """،
اُس شخص نے کہا ، میرا خیال ہے میری نماز ہو گئی ہے ،
حذیفہ رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا ((( لَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَى غَيْرِ سُنَّةِ مُحَمَّدٍ صَلّی اللہ عَلیہِ و عَلیَ آلہِ و سلّم  ::: اگر تُم اسی حال میں مر گئے تو تُمہاری موت سُنّت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے علاوہ کسی اور ہی حال پر ہوگی)))صحیح البخاری /کتاب الصلاۃ / باب 26،
یعنی سُنّت مُبارکہ کا معاملہ صرف اتنا ہی نہیں کہ """سُنّت ہی  توہے """ کہہ کر اسے چھوڑتے جایے ، بلکہ بہت  زیادہ أہم ہے ،
ان احادیث شریفہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاں سُنّت مُبارکہ کا درجہ ، اُس سے محبت اور وفاء کا ناقابل بیان انداز نظر آتا ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ کی کتاب پر اِیمان لا کر اسے عمل کرنے کے لیے سیکھا ، اور اس پر عمل کیا ، اور اس کتاب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی اور اتباع کے احکام کا عِلم حاصل کر کے ان پر ہمیشہ عمل کرتے رہے ،اورہمارے ہاں تو اب ایسے لوگ بھی ہیں جو سُنّت مبارکہ کو اپنی نفسانی خواہش کے مقابلے میں رد کرتے ہیں اور یہ بہانہ بناتے ہیں کہ """ سُنّت ہی تو ہے"" اور اُن سے بدتر وہ ہیں جو اپنی جہالت کی بنا پر سُنّت مُبارکہ میں نقائص نکالتے ہیں اوریہاں تک گمراہ ہو جاتے ہیں سُنّت شریفہ کا اِنکار ہی کر دیتے ہیں ،  
اِسی طرح نفلی عبادات اور نیکیوں کا معاملہ ہے ، جن کا بہترین اجر اِس حدیث قُدسی میں بیان ہوا کہ ﴿إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِى وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِى بِشَىْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِى يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِى يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِى يَمْشِى بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِى لأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِى لأُعِيذَنَّهُ ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَىْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ :::بے شک اللہ نے فرمایا ہے ، جِس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو اُس کے لیے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ، اور جب بھی میرا  کوئی بندہ میرے فرض کیے ہوئے  کاموں میں سے میرے کسی پسندیدہ کام کے ذریعے میرا قُرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور میرا جو بندہ نوافل کے ذریعے میری قُربت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، اور جب میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اُس کی سماعت بن جاتا ہوں جِس سے وہ سُنتا ہے ، اور اُس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ گرفت کرتا ہے ،اور اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اور اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرے تو ضرور دیتا ہوں ، اور اگر میری پناہ طلب کرے تو ضرور اسے پناہ دیتا ہوں  اور مجھے کسی کام میں کبھی کوئی تردد نہیں ہوتا جس قدر تردد مجھے کسی اِیمان والے کی جان لینے میں ہوتا ہے ، کہ وہ اِیمان والا موت (کی سختیوں اور تکلیفوں کے ڈر سے )اس  پسند نہیں کرتا اور میں اس  کے (لمبی عمر کی وجہ سے )مصیبتوں میں پڑ جانے کو پسند نہیں کرتاصحیح البخاری /کتاب الرقاق/باب35 التواضح،
::::: صحابہ رضی اللہ عنہم  اجمعین کی سُنّت مُبارکہ سے مُحبت اور صاحبء سُنّت  علیہ افضل الصلاۃ  و التسلیم سے وفاء کی ایک مثال پیش کرتا چلوں ،
::::: ابی رافع (نفیع الصائغ البصری )رحمہ ُ اللہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کے ساتھ تھا تو انہوں نے عِشاء کی نماز پڑھی اور اس نماز میں(((       إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ)))(سورت الانشقاق )کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا ، میں نے پوچھا "یہاں یہ سجدہ کیوں کیا ہے ؟ "
ابو ہُریرہ  رضی اللہ عنہ ُ نے جواب  میں فرمایا (((سَجَدْتُ خَلْفَ أَبِى الْقَاسِمِ ( صلّى اللهُ عَليهِ و علیَ آلہِ  وسَلّم ) فَلاَ أَزَالُ أَسْجُدُ بِهَا حَتَّى أَلْقَاهُ ::: میں نے ابی القاسم ( محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )کے پیچھے(نماز پڑھتے ہوئے اس مُقامء قرأت  میں)سجدہ کیا تھا ، اور اُس وقت تک اس(مُقامء قرأت)میں سجدہ کرتا رہوں گا جب تک اُن(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)سے جا نہیں ملتا)))صحیح البخاری/حدیث766/کتاب الاذان/باب100 ،
اِس واقعے میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سُنّت اور صاحبءسُنّت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت اور وفاء کی جو کیفیت  سجھائی دیتی ہے وہ سچے  اِیمان والے دِل جو کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قدر ومنزلت جاننے والے دِل ہیں ، ان کی سُنّت مبارکہ کامُقام جاننے والے دِل ہیں ، وہ دِل ہی اِس کیفیت کا ادارک کر سکتے ہیں ، شاید الفاظ میں اسے بیان کرنا ممکن نہیں ، یا  یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ شاید مجھ جیسا شخص اسے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔
::: (6) ::: مُستقل مزاجی کا فقدان  :::
عموماً یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی عمل کا اجر و ثواب جاننے کے بعد اس پر خُوب زور و شور سے عمل شروع کر دیتے ہیں ، اور چند دِنوں بعد ہمارا جوش و خروش رخصت ہونے لگتا ہے اور کچھ عرصہ بعد وہ عمل ہماری زندگی سے ناپید ہو جاتا ہے ، جب کہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کا اجر و ثواب دینے سے نہیں تھکتا  بلکہ ہم خود ہی اُن نیک اعمال کو کرنے سے تھک جاتے ہیں ، لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نیک اعمال ہمیشہ ادا کرتے رہیں خواہ ان کی تعداد کم ہی رہے لیکن ہمیشگی برقرار رکھنا چاہیے ،
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا مِنَ الأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ ، فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا ، وَإِنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دَامَ وَإِنْ قَلَّ ::: اے لوگوں(نیک )اعمال میں سے اتنے عمل کرو جنہیں(ہمیشہ) کرنے کی طاقت رکھتے  ہو ، کہ اللہ تم لوگوں کو اجر و ثواب دینے سے تنگ نہیں پڑتا یہاں تک کہ تُم لوگ (وہ نیک عمل کرنےسے)تنگ پڑ جاتے ہو ، اور بے شک اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ نیکیاں وہ ہیں جو ہمیشہ کی جائیں خواہ تعداد میں کم ہو ہی ہوںصحیح البخاری/حدیث 5861 /کتاب اللباس/باب43، صحیح مُسلم/حدیث 1863/کتاب  صلاۃ المسافرین/باب30 ،
وقتی جوش و جذبے کی بنا پر نیک عمل شروع کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن مُستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے اِس نیکی پر عمل پیرا  رہنا ممکن نہیں رہتا ، لہذا ہمیں اُس نیک عمل کے أجر و ثواب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ، اپنے نفس کے خِلاف جِہاد کرتے ہوئے اپنے اندر مستقل مزاجی بیدار کرنا چاہیے اور اس کو بیدار ہی رکھنا چاہیے ،   
::: (7) ::: کتاب اللہ اور سُنّت ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے تعلق کی کمزوری  :::
اللہ کی کتاب ، اور سُنّتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اللہ کے دِین کے یہی دو مصادر ہیں ، ان دو مصادر سے  تعلق اور ربط مضبوط نہ ہونا بھی ہماری کم عملی اور نا عملی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ،
یاد رہے کہ دِین اِسلام کے اِن دو  فقط مصادر  کا صِرف مطالعہ ہی اُن کے ساتھ مضبوط تعلق اور ربط کی دلیل نہیں بنتا جب تک کہ اِن کا درست فہم میسر نہ ہو اورپھر  جب تک اُس دُرُست فہم کے مُطابق اُن پر عمل نہ ہو ،
عظیم القدر صحابیہ اُم أیمن رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی موت کے بعد اِس بات پر روتی ہیں کہ اب اللہ کی وحی کا نزول نہیں ہوگا ، اور اُن رضی اللہ عنہا کی بات سن کر ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی روتے ہیں ،
کیا ہمارے اندر قران اور سُنّت کے ساتھ ایسا تعلق ہے کہ ہم اُن کی خیرء مزید کے مُنقطع ہو جانے پر روتے ہوں ؟؟؟
جی نہیں ، اور  قطعا نہیں ،
 بلکہ اُن کے ساتھ ہمارا تعلق و ربط تو  اتنا بھی نہیں کہ وحی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ مُنقطع ہو جانے تک جو کچھ ہمیں دے دِیا گیا ہے ہم اُس پر ہی ٹھیک سے عمل پیرا ہو سکیں ،  افسوس صد افسوس،
::: (8) ::: مُستقبل میں نیکی کرنے کی جھوٹی اُمید  :::
اکثر ہم لوگ کسی نیکی کی طرف مائل ہوتے ہیں ، اور اسے کرنے کا اِرداہ کرتے ہیں تو شیطان اِس قسم کے دھوکے اور جھوٹی امیدیں ظاہر کرتا ہے کہ ، ابھی بہت وقت ہے ، بعد میں کر لیں گے ، ابھی تو جوان ہیں ، کچھ اور کام کرنے ہیں ،یہی تو  وقت ہے کہ دوسرے کام کر لیے جائیں ، وغیرہ وغیرہ ،
جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرما رکھا ہے کہ اُس کے ذِکر اور اُس کی طرف سے نازل کردہ حق پر فی الفور عمل کرنا چاہیے :::
﴿أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ::: کیا اِیمان لانے والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے ذِکر اور جو کچھ اُن کی طرف حق اتارا گیا ہے اُس کے ڈر جائیں اور اُن کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں (اِن اِیمان والوں سے )پہلے (آسمانی )کتابیں دی گئی تھیں تو (جب کتاب نازل ہونے کے بعد )اُن پر لمبا وقت گذر گیا تو اُن کے دِل سخت ہوگئے اور(نتیجے میں اب )اُن لوگوں کی اکثرت بدکار ہے سُورت الحدید(57)/آیت 16،
اور اللہ کی وحی کے مُطابق اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بیان فرما رکھا ہے کہ ، نیک کام کرنے میں کوئی دیر نہیں کرنی چاہیے ،
﴿بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِى كَافِرًا أَوْ يُمْسِى مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا :::نیک کام کرنے میں جلدی کرو ، کالی رات کے اندھیرے ٹکڑوں کی طرح کے پے درپے  ایسے فتنےآنے سے پہلے کہ جِن میں کوئی شخص صُبحُ کے وقت اِیمان والا ہو گا تو شام کے وقت کافر ہو چکا ہو گا ، یا شام کے وقت اِیمان والا ہو گا تو صُبحُ کے وقت کافر ہو چکا ہوگا ، کہ دُنیا کے کسی مقصد کے حصول کے عوض اپنا دین بیچ دے گاصحیح مُسلم /حدیث328/کتاب الاِیمان /باب53 ،  
اور نہ ہی کسی فارغ وقت کو نیکی کے علاوہ کسی اور کام میں صرف کرنا چاہیے ، بلکہ اپنی ساری ہی زندگی کو اپنی موت کی تیاری کے لیے استعمال کرنا چاہیے ،
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کو نصیحت فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿كُنْ فِى الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ::: دُنیا میں اس طرح رہو کہ جیسے تُم  یہاں اجنبی ہو ، یا جیسے ایک راہ گذر مُسافر ہو اور یہی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما اس حدیث مبارک کو بیان کرتے تو  سننے والوں کے لیے یہ نصیحت بھی فرماتے کہ (((إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ::: جب تُم پر شام کا وقت آئے تو(نیک کام کرنے کے لیے )صُبحُ کا انتظار مت کرو ، اور جب تُم پر صُبحُ کا وقت آئے تو(نیک کام کرنے کے لیے ) شام کا انتظار مت کرو، اور اپنی صحت میں سے اپنی بیماری کے(وقت) کےلیے (نیکیاں )لے لو ، اور اپنی زندگی میں سے اپنی موت کے لیے لے لو )))صحیح البخاری /حدیث6416 /کتاب الرقاق/باب3 ،   
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی یہ مذکورہ بالا  نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق  بھی ہے کہ ﴿اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ، شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمَك، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شغْلِكَ،وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَحَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ :::پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں سے فائدہ اُٹھاؤ (1)تمہاری جوانی کا تُمہارے بڑھاپے سے پہلے ، اور (2)تُماری صحت کا تُمہاری بیماری سے پہلے ، اور (3)تُمہاری فراغت کا تُماری مشغولیت سے پہلے ، اور (4)تُمہاری مالداری کا تُمہاری غربت سے پہلے ، اور (5)تُمہاری زندگی کا تُمہارہ موت سے پہلےالُمستدرک الحاکم /حدیث7846/کتاب الرقاق میں تیسری حدیث ، امام الذھبی رحمہ ُ اللہ نے کہا (یہ حدیث)امام بخاری اور امام مُسلم کی شرائط کے مطابق (صحیح) ہے ، اور امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 1077،
لہذا نیک کام پِھر ، کسی اور وقت کر لینے کی اُمیدوں کے دھوکے میں آ کر نیک کام کرنے اور کرتے رہنے سے رکنا نہیں چاہیے ، یہ جھوٹی اُمیدیں بھی ہماری کم عملی یا نا عملی کا ایک سبب ہیں ۔
ہماری کم عملی یا نا عملی کے کچھ بنیادی أسباب کے اِس مذکورہ بالا  ذکر میں اِن کے علاج کے بارے میں بھی کچھ بات موجود ہے ، پھر بھی اِن شاء اللہ اِن کے علاج کے بارے میں مختصراً  ایک جائزے کی صورت میں بیان کرنا خیر کا سبب ہو گا  ،
::::::: مذکورہ بالا اسباب کے    علاج   ::::::
::: (1) ::: کسی بھی اچھی معلومات اور مثبت عِلم  کی قدر و قیمت  کا احساس کرنا ، اور  کسی بھی نیک عمل کے اجر و ثواب کا یقینی عِلم ہونا ، اور کسی بھی منفی عِلم کے غلط نتائج  کے نُقصانات کی مقدار کا احساس ہونا ،ا ور کسی بھی برائی کے گناہ اور عذاب کا یقینی عِلم ہونا،
::: (2) ::: سلف الصالح ، یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے حالات زندگی کا غور و فِکر کے ساتھ مطالعہ کرتے رہنا تا کہ یہ یاد رہے کہ وہ لوگ اللہ  کے دِین کی دونوں بنیادوں یعنی قران کریم اور  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ پر  کسی طرح عمل کرتے تھے اور اُن کو کس طرح نافذ رکھتے تھے ،
::: (3) ::: اپنے حالات ء زندگی اور اپنے اِرد گرد کے حالات کے مطابق ، دِینی احکام اور معلومات کو زیادہ سے زیادہ درست طور پر نافذ کرتے رہنے کی تربیت ،
::: (4) ::: اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا کہ وہ  اُس کی رضا کے عین مطابق  ہمیں اُس کے دِین کے بارے میں حاصل کردہ تمام عِلم پر عمل کی ہمت دے ، اور ہمارے حاصل کردہ  تمام مثبت علوم پر عمل کرتے رہنے کی ہمت دے ، کہ دُعاوہ عمل ہے جس کو قبول فرما کر  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اُس کی مقرر کردہ قضاء کو بھی بدل دیتا ہے  ،
﴿لاَ يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلاَّ الدُّعَاءُ وَلاَ يَزِيدُ فِى الْعُمُرِ إِلاَّ الْبِرُّ :::قضاء کو دُعا کے عِلاوہ کوئی اور چیز پھیر نہیں سکتی ، اور عُمر میں نیکی کے علاوہ کوئی اور چیز اضافہ نہیں کر سکتیسُنن الترمذی /حدیث2289/کتاب القدر/با ب6، السلسلہ الصحیحہ /حدیث154، حدیث حسن ہے ۔
و آخر دعوانا اَن الحمد للہ و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ ، و السلام علیکم۔
شیخ محمد صالح المنجد حفظہُ اللہ ، کی ایک تقریر بعنوان """ لماذا لا نطبق ما تعلمناہ """ پر مبنی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت :06/10/1433ہجری ، بمُطابق،24/08/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :14/01/1436ہجری ، بمُطابق،07/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون  کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔