Saturday, August 22, 2015

:::::::تقویٰ، تعریف ، مفہوم ، نتائج اور ذرائع حُصول :::::::

:::::::تقویٰ، تعریف ، مفہوم ، نتائج اور  ذرائع حُصول :::::::

أعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ و مِن ھَمزِہِ و نَفخہِ و نَفثِہِ ،
بِسمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
 اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ نَحمَدْہٗ  وَ نَستَعِینْہٗ  وَ نَستَغفِرْہٗ  وَ نَعَوْذْ  بَاللَّہِ  مِن  شْرْورِ  أنفْسِنَا  وَ مَن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا،مَن یَھدِ ہ اللَّہْ  فَلا مْضِلَّ  لَہْ وَ مَن  یْضلِل ؛ فَلا  ھَاد یَ  لَہْ ، وَ أشھَدْ  أن لا  إِلٰہَ  إِلَّا  اللَّہْ  وَحدَہْ  لا شَرِیکَ  لَہْ ، وَ  أشھَدْ  أن  مْحمَداً  عَبدہٗ  وَ  رَسْولْہٗ ۔ 
وَ  أَما  بعدُ  فَاِنَّ  خیر  الکلامِ  کِتابُ  اللَّہ  ،  وَ  خیر  الھُدیٰ  ھُدیٰ  مُحَمدٍ  صَلّی اللَّہُ عَلِیہ و علی آلہ وسلم  وَ  شَّر  الأمورِ  مُحدَثاتُھا  وَ  کُلَّ  مُحدَثۃٌ  بِدَعَۃٌ  وَ  کُلَّ  بِدَعَۃٌ ضلالۃٌ  وَ  کُلَّ  ضلالۃٌ  فی  النَّار  ۔ 
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے،
بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی  مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے بُرے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے  کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا  معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں ،  
اِس کے بعد ::: بے شک سب سے زیادہ خیر والی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے خیر والی ہدایت محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم(کے ذریعے ملنے)والی ہدایت ہے ، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے  ۔ 
السلام علیکم وررحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تقویٰ ہر نیکی کی بُنیاد اور ہر خیر کی چابی ہے ، اور دُنیا اور آخرت میں خوشی اور خوش نصیبی ہے ، پس اِس میں جتنی کمی ہو گی دُنیا اورآخرت میں اُتنی ہی مصیبتیں اور پریشانیاں اور امتحانات پیش آئیں گے،

:::::تقویٰ کا لُغوی معنی   ٰ :::::

لُغت میں"""وِقیٰ"""کا مصدر ہے،اور اِس کا معنی ہے"""بچاؤ کرنا """،اِس لفظ"""تقویٰ"""کا لُغوی مفہوم ہے"""کِسی سے بھی ڈرتے ہوئے اُس سے بچنے کے لیے اپنے اور اُس کے درمیان کوئی چیز رکھنا"""،

::::: شریعت میں تقویٰ کا مفہوم  :::::  


إِمام ابن رجب حنبلی رحمہُ اللہ نے"""جامع العلوم و الحکم"""میں حدیث رقم 18 کی شرح میں لکھا ::: """ وَأَصْلُ التَّقْوَى أَنْ يَجْعَلَ الْعَبْدُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَا يَخَافُهُ وَيَحْذَرُهُ وِقَايَةً تَقِيهِ مِنْهُ، فَتَقْوَى الْعَبْدِ لِرَبِّهِ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مَا يَخْشَاهُ مِنْ رَبِّهِ مِنْ غَضَبِهِ وَسُخْطِهِ وَعِقَابِهِ وِقَايَةً تَقِيهِ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ فِعْلُ طَاعَتِهِ وَاجْتِنَابُ مَعَاصِيهِ:::تقویٰ کی اصل یہ ہے کہ بندہ اپنے اور اُن چیز کے درمیان کوئی ڈھال بنائے ، جو چیز اُسے ڈراتی ہو ، تنبیہ کرتی ہو، خوف دلاتی ہو ، 

پس بندے کا اپنے رب (اللہ)سے تقویٰ یہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان  کے وہ ڈھال لے آئے جو ڈھال اُسے اُس کے رب کے غصے ناراضگی اور عذاب سے بچا سکے ، اور وہ ڈھال ہے ،اللہ تعالیٰ کی أطاعت کرنا اور اُس  کی نافرمانی نہ کرنا،،،،،،"""،



إِمام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے ، اپنی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےبارے میں رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  دُوسرے بلا فصل خلیفہ، أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا یہ واقعہ ذِکر کیا کہ :::
""" ایک دفعہ اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ ُ نے ، أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ سے  پوچھا کہ "تقویٰ کیا ہے ؟"،
تو أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """ أَمَا سَلَكْتَ طَرِيقًا ذَا شَوْكٍ؟ :::کیا تم کبھی کسی کانٹے دار راستے پر چلے ہو؟"""،
اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """جی ہاں """،
أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ نے پھر   پوچھا کہ """تو کیا کِیا تھا؟"""،
اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """اپنے کپڑے سمیٹے، اور کانٹوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کی"""،
ر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ نے اِرشاد فرمایا """فَذَلِكَ التَّقْوَى:::بس یہی تقویٰ ہے"""۔
طلق بن حبیب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ""" أن تَعمل بِطَاعةِ الله عَلى نُورٌ مِن الله تَرجُو ثَوابُ الله، وأن تَترُك مَعصيةِ اللهِ عَلى نُورٌ مِن اللهِ تَخافُ عِقاب الله:::تقویٰ یہ ہے کہ تم  اللہ کی طرف (سے دی گئی روشنی، یعنی کتاب اللہ اور سُنّت ء محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام) میں اللہ کی اِطاعت کرو،اور اللہ کی طرف(سے دی گئی روشنی، یعنی کتاب اللہ اور سُنّت ء محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام)میں اللہ کی نافرمانی سے باز رہو"""۔
:::::تقویٰ کا پھل دُنیا اور آخرت میں :::::
﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجعَل لَّہُ مَخرَجاً Oوَیَرزُقہُ مِن حَیث ُ لَا یَحتَسِبُ وَمَن یَتَوَکَّل عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمرِہِ قَد جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیء ٍ قَدراً:::اور جو اللہ(کی ناراضگی اور عذاب)سے بچے گا اللہ اُس کے لیے راستہ بنائے گاO اور اُسے وہاں سے رِزق دے گا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتا اور جو اللہ پر توکل کرے گا اُس کے لیے اللہ کافی ہے بے شک اللہ اپنا کام پورا کر کے رہے گا یقینا اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہےسورت الطلاق(65)/آیت2،3،
اِس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے دُنیا اور آخرت دونوں کی خیر و عافیت تقویٰ کے مُطابق ملنے کی خبر دی ہے،اور تقویٰ کے مُطابق ہی دونوں جہانوں کی مصیبتوں اور پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ مہیا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے،اور تقویٰ کے مُطابق ہی دونوں جہانوں میں رزق عطاء فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے،اور وہ یوں کہ آیت مبارکہ میں یہ وعدے عام ہیں،کسی بھی طور انہیں صِرف دُنیا، یا صِرف آخرت کے لیے خاص نہیں کیا جا سکتا،
اور یہ بات بالکل عام فہم ہے کہ اِنسان پر مصیبتیں،پریشانیاں اور امتحانات دونوں جہانوں میں وارد ہوتے ہیں،اور دونوں ہی جہانوں میں اُن سے نکلنے کے راستے درکار ہیں،بلکہ اِن کی ضرورت آخرت میں دُنیا کی نسبت کہیں زیادہ ہو گی،
پس جو کوئی کِسی گُناہ،کِسی پریشانی،کِسی تنگی و مُصیبت کا شِکار ہو تو اُسے چاہیے کہ تقویٰ اختیار کرے ، یعنی اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچنے کا ذریعہ اختیار کرے ، جو کہ صِرف اور صِرف اللہ تبارک  وتعالٰی اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بلا مشروط ، اور اپنی طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو شامل کیے بغیر تابع فرمانی ہے،
جو کوئی یہ ذریعہ اختیار کرے گا،اُسے تقویٰ نصیب ہو گا اور اللہ اپنے وعدے کے مُطابق اُس کے لیے دُنیا اور آخرت میں پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ مہیا فرمائے گا،
تقویٰ کے حصول کے اِس مذکورہ بالا  ذریعہ، یعنی اللہ باری تعالیٰ کی اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بلا مشروط اور کسی کمی و بیشی کے بغیر اطاعت اور تابع فرمانی ، کے حصول کے لیے لازم ہے کہ مُسلمان اپنے اکیلے و حقیقی رب و خالق اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم  محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین اور احکام کو جانے، اور اُنہی کے مقرر کردہ طریقے اور کسوٹیوں کے مُطابق اُن احکام اور اِرشادت کو سمجھے،
کیونکہ جو کام بھی اللہ عزّ وجلّ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی والے ہیں، مکمل نافرمانی  والے ہوں یا جزوی طور پر نافرمانی والے ، وہ سب ہی کام بلا لحاظ و استثناء خِلاف تقویٰ ہیں،تقویٰ میں کمی کا سبب ہیں،
لہذا ایسے تمام کاموں سے بچتے رہنے کی بھر پور کوشش کرتا رہے،کیونکہ جب وہ اِن کاموں سے بچتا رہے گا تو اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچتا رہے گا،اور یہی تقویٰ ہے،
اور اگر ایسا نہیں کرتا، اور  کسی بھی باطل تأویل،تفیسر ، شرح ، فلسفے،یا ذاتی سوچ و فِکر،نام نہادعقل و فراست، بلا دلیل اور بلا ثبوت، اور ،من گھڑت قصے کہانیوں، باطنی شریعتوں ،خوابوں ، الہاموں، نام نہاد  کشف،قلبی توجہ ،کرامات ، باطنی شریعت،اور  طریقت  وغیرہ،کے دھوکے میں آ کر اللہ جلّ جلالہُ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کا شکار ہوتا رہتا ہے، اور اِن مذکورہ بالا ، اور ایسے ہی کئی دیگر اسباب کا شِکار ہو کر ، اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سےکسی برھان ، کسی دلیل کے بغیر لوگوں کے ، یا اپنے ہی بنائے اور سوچے ہوئے عقائد ،عبادات اور اعمال اپنائے رکھتا ہے ،تو یقینا وہ شخص اپنے تقویٰ کو کم کرتا  ہے ،
 اور اگر وہ اِن حرکات سے باز نہیں آتا ، سچی توبہ کر کے اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقیقی تابع فرمانی اختیار نہیں کرتا تو ، معاذ اللہ ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ جب وہ صِرف اُنہی چیزوں کا ہو رہ جاتا ہے اور اُس کے ہاں تقویٰ ختم ہو جاتا ہے ،
غلط فہمیوں ، کم علمی ، بلکہ لاعلمی ، کے شِکار ایسے لوگوں کا اور ایسے لوگوں کو عالِم فاضل، متقی ، صالح ،اور ولی اللہ وغیرہ  ماننے والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ﴿أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ::: پس کیا وہ شخص جِس کے کام کی برائی اُسے خوشنما کر کے دِکھائی جاتی ہو ، اور وہ اُس کام کو اچھا سمجھتا ہے ،(اُن کے جیسا ہو سکتا ہے جو اپنی خواھشا اور افکار کی بجائےاللہ اور اس کے رسول کے تابع فرمان ہوتے ہیں) تو بس اللہ جِسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہےسُورت فاطر(35)/آیت8،
ایسے لوگ جن کے عمل اُن کے لیےسجا دیے جاتے ہیں ، انہیں اچھے اور حق  دِکھائے  جاتے ہیں ، وہ درحقیقت اپنی بے بنیاد ، بلا دلیل و حجت ، خواھشات اورسوچوں کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں ، خواہ وہ خود کو ، اور لوگ اُن کو کتنا ہی اعلیٰ درجے والے ہی سمجھتے ہوں، وہ حق پر نہیں ہوتے﴿أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ كَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ  ::: پس کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہو وہ اُس شخص کے جیسا ہو سکتا ہے جسے اُس کے برے عمل اچھے کر کے دکھائے گئے ہوں اور اُنہوں نے اپنی ہی خواہشوں کی پیروی کی ہوسُورت محمد(47)/آیت14،
اور  اللہ تبارک و  تعالیٰ ، یا اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کسی دلیل کے بغیر عقائد اور عِبادات اور دیگر دِینی اعمال اپنا کر، اپنے اُن عقائد عِبادات اور اعمال کو اچھا سمجھنے والوں ، اور  خود کو ، اور ایسوں کو نیک ، متقی اور ولی اللہ وغیرہ سمجھنے والوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ خبر  کرنے کا حکم دِیا کہ ﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًاO الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا:::فرمایے (اے رسول)کہ کیا ہم تُم لوگوں کو اُن لوگوں کی خبر نہ دیں  جن کے عمل  بہت ہی زیادہ نقصان والے ہیں Oیہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش(محنت، اجتہاد،ریاضت،توجہءقلب،روانی قلب،تجلیات، وغیرہ)دُنیا کی زندگی میں ہی بھٹک جاتی ہیں (یعنی آخرت میں اُنہیں اُن کوششوں کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں)اور وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کرتے ہیںسُورت الکہف(18)/آیات103،104،
پس یہ بات حق ہے ، کسی شِک کی گنجائش نہیں کہ ہر وہ شخص اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی ناراضگی اور عذاب کا حق دار ہوتا جاتا ہے،جو اللہ جلّ و عُلا اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بلا مشروط ، کسی چُوں و چراں کے بغیر اطاعت کرنے کی بجائے ، نام تو اُن کی اطاعت  کالیتا ہو، اور قران اور حدیث پڑھتا سناتا بھی ہو ، لیکن سمجھ اپنی یا اُن کی چلاتا ہو جو اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات اور فرامین کو اُن ہی کی مقرر کردہ کسوٹیوں کے مطابق  سمجھنے کی بجائے اپنے افکار، آراء ، سوچ ، فلسفہ ، منطق ، مادی پیمانوں ،ذاتی خواہشات، خوابوں ، نام  نہاد الہاموں،خود ساختہ باطنی شریعت ، طریقت اورغیر ثابت شدہ  ، بلکہ اکثر اوقات قران و سُنّت کے خلاف بیان کردہ روایات ، حکایات اور کراماتی قصوں  کہانیوں کے مُطابق  سمجھتے ہیں ،  
ایسا شخص اُس عذاب کا حق دار ہو جاتا ہے  جو عذاب  کبھی تو دُنیا میں بھی آن پکڑتا ہےاور آخرت میں تو یقینی طور پر بھگتنا ہی پڑے گا،
وہ عذاب جِس کا آغاز آخرت کی پہلی منزل قبر میں ہی ہو جاتا ہے،اور پھر قیامت تک قبر میں سے اُٹھائے جانے تک جاری رہے گا،اور اُٹھائے جانے کے بعد قیامت کے دِن میں اور اُس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے ٹھکانے میں ساتھ ہی ساتھ رہے گا،
اُس عذاب کی کیفیت و مقدار تقویٰ کے مطابق ہی ہو گی، کہ جِس قدر خِلاف تقویٰ عقائد اور اعمال ہوں گے اتنا ہی زیادہ عذاب بھی ہو گا ، اور جس قدر اعمال تقویٰ کے مُطابق ہوں گے اُسی قدر عذاب میں کمی رہے گی ،  اور اگر کثرت اُن اعمال کی ہو گئی جو تقویٰ کے مُطابق ہوئے تو اِن شاء اللہ یہ اُمید بھی کی جا سکتی ہے کہ اللہ جلّ شانہ ُ عذاب سے مکمل طور پر ہی نجات عطاء فرما دے ،
جی ہاں اللہ جسے چاہے جو چاہے معاف فرما سکتا ہے ،
سِوائے شرک، اور حقوق المخلوق کے،
کہ اِن دو معاملات سے متعلق کاموں میں کی گئی کوتاہیوں ، تقصیر ، ظلم و زیاتی کی معافی نہ ہو گی،جب تک صاحب حق اپنا حق معاف نہ کرے،
اور مُشرک کو معاف کرنا صرف اللہ کا حق ہے جس کے بارے میں اللہ نے اعلان فرما رکھا ہے کہ وہ کبھی بھی مُشرک کو معاف نہیں فرمائے گا ﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یَغفِرُ أَن یُشرَکَ بِہِ وَیَغفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشرِک بِاللّہِ فَقَدِ افتَرَی إِثماً عَظِیماً :::بے شک اللہ یہ معاف نہیں فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اِس کے عِلاوہ جِسے جو چاہے معاف فرما دے اور جِس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا اُس نے یقینا بہت بڑے گُناہ والا جھوٹ باندھاسورت النساء(4)/آیت48 ،
اللہ ہم سب کو شرک جاننے سمجھنے اور اُس سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے،
کوئی خود کو ، یا لوگ اُس کو کتنا ہی """پہنچا ہوا، عارف، ولی،اور سید وغیرہ """کیوں نہ سمجھتے ہوں ، اگر وہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے شرک کرنے والوں میں سے ہوا ، اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ اُس شرک میں مبتلا کرنے والوں میں سے ہوا، تو نہ تو  وہ خود اللہ کے عذاب سے بچے گا اور نہ  ہی اپنے پیروکاروں میں سے کسی کو بچا سکے گا، جنہیں دُنیا میں یہ پیغام دیتا تھا ، یا دوسرے ذرائع سے پہنچاتا تھا  کہ میرے جھنڈے تلے آجانا میں جنّت میں لے کر جاؤں گا ،
یا فُلاں حضرت کی بیعت میں آجاؤ ، جنّت کی ضمانت ہے ، وغیرہ وغیرہ ،
اور حضرت صاحب ، ساری زندگی ،تقویٰ کے خِلاف  خود ساختہ اور دوسروں کی بنائے عقائد اور عِبادات میں برباد کرتے کرتے سدھار گئے ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ،
:::::تقویٰ اختیار کرنے کی اللہ نے وصیت  فرمائی ہے :::::
﴿ و لَقد وصَّینَا  الَّذِین َ اُوتُوا  الکِتَابَ مِن قَبلِکُم و إِیّاکُم أَنِ اتَّقُوا  اللَّہَ ::: اور یقینا ہم نے تم لوگوں سے پہلے جِنہیں کِتاب دی اُنہیں یہ وصیت کی کہ اللہ(کی ناراضگی اور عذاب)سے بچیں اور تُم لوگوں کو بھیسورت النساء(4)/آیت 131 ،
:::::تقویٰ اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حُکم دِیا:::::
﴿ یَا أیّھا الذَّینَ آمَنُوا  اتَّقُوا  اللَّہ َ وَ  لتَنظُر نَفسٌ مَا  قَدمَت لَغَدٍ و اتَّقُوا  اللَّہ َ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا  تَعمَلون َ ::: اے إِیمان والو اللہ سے بچو ، اور ہر جان یہ دیکھے کہ اُس نے آنے والے کل کے لیے کیا کِیا ہے ، اور اللہ سے بچو جو کچھ تُم کرتے ہو اللہ جانتا ہےسورت الحشر(59)/آیت18 ،
:::::تقویٰ ہدایت اور دِینی بصارت و فہم کا سبب ہے :::::
﴿ یَا أیّھا الذَّینَ آمَنُوا  إِن تَتَّقُوا اللَّہ َ یَجعَل لَکُم فُرقَانًا ::: اے إِیمان والو اگر تُم لوگ اللہ(کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو گے تو اللہ(تُمہاری زندگیوںمیں)تُم لوگوں کے لیے فُرقان بنا دے گاسُورت الأنفال(8)/ آیت 29 ،
عُلماء کا کہنا ہے کہ"""فُرقان(بصیرت و عِلم کی)وہ روشنی ہے جو حق اورباطل اور ہدایت اور گمراہی میں فرق دکھائے"""،
:::::تقویٰ گناھوں کے مِٹائے جانے اور ثواب کے بڑھائے جانے کا سبب ہے :::::
﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یُکَفِّر عَنہ ُ سَیِّئَاتِہِ وَیُعظِم لَہُ أَجراً :::اور جو اللہ(کی ناراضگی اور عذاب)سے بچے گا اللہ اُس کے گناہ مِٹا دے گا اور اُسکے لیے اُس(کی نیکیوں)کا ثواب بڑھا دے گاسورت الطلاق(65)/ آیت5،
:::::تقویٰ کاموں میں آسانی کا سبب ہے :::::
﴿وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجعَل لَّہُ مِن أَمرِہِ یُسراً:::اور جو اللہ (کی ناراضگی اور عذاب )سے بچا اللہ اُس کے کام میں آسانی پیدا فرما دیتا ہےسورت الطلاق(65)/آیت4،
:::::تقویٰ والوں کے ساتھ اللہ  ہے :::::
﴿ وَاعلَمُوا أَنَّ اللَّہَ مَعَ المُتَّقِینَ:::اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہےسورت البقرۃ()/ آیت194،سورت التوبہ(9)/ آیت 26 ،
:::::تقویٰ والوں کے ساتھ اللہ محبت کرتاہے :::::
﴿ بَلَی مَن أَوفَی بِعَہدِہِ وَاتَّقَی فَإِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ المُتَّقِینَ:::بے شک کیوں نہیں (بلکہ ایسا ہی ہے کہ) جو اپنے عہد کو پورا کرتا ہے اور تقویٰ اختیار کرتا ہے تو یقینا اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہےسورت آل عمران(3)/ آیت 76 ،
:::::اللہ تقویٰ  والوں کی ہی نیکیاں قُبُول فرماتا ہے :::::
﴿إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ المُتَّقِینَ:::بے شک اللہ تو صِرف تقویٰ والوں کے عمل قُبُول فرماتا ہےسورت المائدۃ(5)/ آیت 27 ،
:::::تقویٰ والوں کا ولی اللہ  ہے :::::
﴿ وَاللَّہُ وَلِیُّ المُتَّقِینَ:::اور اللہ تقویٰ والوں کا والی و مددگار ہےسورت الجاثیہ(45)/ آیت19 ،
تقویٰ والوں کا آخرت میں مُقام ہے﴿إِنَّ المُتَّقِینَ فِی مَقَامٍ أَمِینٍ ::: بے شک تقویٰ والے پُر امن جگہ میں ہوں گےسورت الدُخان(44)/ آیت 51 ،
:::::تقویٰ والوں کی آخرت میں عِزت أفرائی  :::::
﴿یَومَ نَحشُرُ المُتَّقِینَ إِلَی الرَّحمَـنِ وَفداً::: اُس (قیامت والے)دِن ہم تقویٰ والوں کو الرحمان کی طرف گروہ بنا کر لے جائیں گےسورت مریم(19)/ آیت 85،
:::::تقویٰ والوں کے لیے اللہ کے پاس کونسی جگہ ہے ؟ :::::
﴿إِنَّ لِّلمُتَّقِینَ عِندَ رَبِّہِم جَنَّاتِ النَّعِیمِ ::: بے شک تقویٰ والوں کے لیے اُن کے رب (اللہ ) کے پاس ہمیشگی والے باغات ہیںسورت القلم(68)/ آیت 34 ،
:::::تقویٰ کا اللہ کی طرف سے بدلہ:::::
﴿إِنَّ لِلمُتَّقِینَ مَفَازاً O حَدَائِقَ وَأَعنَاباًO وَکَأساً دِھَاقاًO وَکَوَاعِبَ أَترَاباًلَّا یَسمَعُونَ فِیہَا لَغواً وَلَا کِذَّاباً Oجَز َاءَ  مِّن رَّبِّکَ عَطَاءً  حِسَاباً  :::بے شک تقویٰ والوں کے لیے بہت بڑی جیت ہے Oباغات اور انگورOاور ہم عُمر جوان بیویاںO اور بھرے ہوئے جام O نہیں سنیں گے وہ اُس(جنّت)میں کوئی فضول بات نہ کوئی جھوٹ Oیہ اُن(تقویٰ والوں کے لیے)اُنکے رب کی طرف سے بدلہ ہے پورے پورے حساب (اور عدل) کے ساتھسورت النباء(78)/ آیت31،تا،36 ،
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے فرامین کے بعد اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین کا مطالعہ کرتے ہیں :::
::::: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت فرمائی  :::::
﴿أوصِیکُم بِتَقوَی اللَّہِ وَالسَّمعِ وَالطَّاعَۃِ واِن کان عَبداً حَبَشِیًّا فإنّہ ُ مَن یَعِش مِنکُم بَعدِی  ، یَرَی اختِلاَفاً کَثِیراً فَعَلَیکُم بسنتی وَسُنَّۃِ الخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِینَ المَہدِیِّینَ وَعَضُّوا علیہا بِالنَّوَاجِذِ وَإِیَّاکُم وَمُحدَثَاتِ الأُمُورِ فاِنّ کُلَّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ واِنّ کُلَّ بِدعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ ::: میں تُم لوگوں کو اللہ سے بچنے اور (امیر،قاضی حُکمران وغیرہ کی)بات سُن کر اُس کی اِطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں،خواہ(وہ)کوئی حبشی غُلام ہی ہو، بے شک تُم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت ہی اختلافات دیکھے گا ، پس (ایسی صورت میں)تُم لوگوں پر میری اور میرے ہدایت یافتہ ،ہدایت دینے والے خُلفاء کی سُنّت (پر عمل کرتے رہنا) فرض ہے اور تُم لوگ اُس(سُنّت)کو اپنے نوک والے دانتوں میں مضبوطی سے تھامے رکھنا،اور خبردار(ہوشیار رہنا اور)تُم لوگ(دِین میں)نئے نئے کاموں سے بچنا،بے شک (دِین میں)ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہےسنن أبو داؤد /حدیث 4602/کتاب السُّنۃ/باب6، سُنن الترمذی/حدیث/2891کتاب العِلم/باب،سُنن ابن ماجہ /حدیث ۴۳ ، ۴۴ / مقدمہ /با ب 6 ، سُنن الدارمی /حدیث 95/کتاب المقدمہ/باب16، المُستدرک الحاکم/حدیث 369،مُسند احمد/حدیث 17184،17243،حدیث کی تقریبا ہر کتاب میں یہ مذکورہ بالا حدیث شریف الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ موجود ہے(عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت)،   
::::: رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی تقویٰ اختیار کرنے کا حُکم فرمایا:::::
﴿اتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُم وَصَلُّوا خَمسَکُم وَصُومُوا شَہرَکُم وَأَدُّوا زَکَاۃَ أَموَالِکُم وَأَطِیعُوا ذَا أَمرِکُم تَدخُلُوا جَنَّۃَ رَبِّکُم:::اپنے رب اللہ سے بچو ، اور اپنی پانچ نمازیں پڑہتے رہو،اور اپنے (رمضان کے ) مہینے کے روزے رکھتے رہو ، اور اپنے مال کی زکاۃ أدا کرتے رہو،اور اپنے حاکموں کی أطاعت کرتے رہو ، تو ) اپنے رب کی جنّت میں داخل ہو جاؤ گےسنن الترمذی /حدیث 616 / ۱ٔبواب الصلاۃ /باب80،مُسند احمد/حدیث22215،22308،السلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ/حدیث867 (أبی اُمامہ سے رضی اللہ عنہ ُ روایت ہے)
::::: تقویٰ کی أہمیت  :::::
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اِسکا سوال کیا:::::
﴿ اللّھُمَّ  إنّی أسأ لُکَ الھُدیٰ  و  التُّقَیٰ و العَفافَ و الغِنیٰ :::اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہدایت کا، اور تقوے کا اور عِفت کا ، اور تونگری کاصحیح مسلم/حدیث2721 /کتاب الذِکر و التوبۃ و الدُعاء/باب18۔ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے) 
::::: جنت میں داخلے کا بڑا سبب تقویٰ :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ""" کیا چیز سب سے زیادہ  لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا سبب ہو گی؟"""،
تو اِرشاد فرمایا ﴿ تَقوَی اللَّہِ وَحُسنُ الخُلُقِ :::تقویٰ اور خوش اِخلاقی
پھر پوچھا گیا کہ"""کیا چیز سب سے زیادہ لوگوں کو جہنم میں داخل کرنے کا سبب ہو گی ؟؟؟"""،
تو اِرشادفرمایا ﴿ الفَمُ وَالفَرجُ ::: مُنہ اور شرم گاہسُنن الترمذی /حدیث2004 / کتاب البر و الصلۃ ، باب 62ما جاء  فی حسن  الخُلق،صحیح  سُنن  الترمذی،( ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے)
::::: تقویٰ کہاں پایا جاتا ہے؟ :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے سینہ مُبارک کی طرف اِشارہ فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿التَّقوَیٰ ھَا ھُنا:::تقویٰ یہاں ہےصحیح مُسلم/حدیث 2564/کتاب البر و الصلۃ/کتاب 10،  تقویٰ انسان کے دِل میں پایا جاتا ہے اور اُس کا اظہار اُس کے کاموں سے ہوتا ہے،       
یہ جاننے کے بعد دکہ ، تقوی کیا ہے اور اس کا مُقام اور أہمیت اور نتائج کیا ہیں؟؟؟ آیے تقویٰ حاصل کرنے کے چند بنیادی ذرائع کے بارے میں جانتے ہیں،
::::: تقویٰ حاصل کرنے کے چند أہم ذرائع  :::::
::::: (1) اللہ تعالی کی اتنی محبت جوہر دوسری محبت پر غالب ہو جائے،
:::::        (2) اس بات پر اِیمان کامل کہ اللہ تعالی ہر وقت ہر کام اور بات سے آگاہ ہے،
:::::       (3) ہر ایک لمحے ، ہر ایک معاملے میں اللہ سے شرم و حیاء کرنا،
:::::        (4) یہ عِلم حاصل کرنا کہ گناہوں اور نافرمانیوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے،
:::::       (5) ابلیس اور اُس کے پیروکاروں کے طور اطوار،جال،پھندوں اور وسوسوں کی پہچان کرنا،
:::::  (6) یہ عِلم حاصل کرنا کہ کسی طرح اپنے نفس کی خواہشات کو کچلا جائے اور اپنے رب اللہ تعالی کی تابع فرمانی کی جائے،
::::: (7) یہ عِلم حاصل کرنا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا کیا انجام ہو گا،
:::::تقویٰ  والوں  کی  صِفات :::::
:::::(1) اِیمان بالغیب،
:::::(2) نماز قائم کرنا،
:::::(3) اللہ کی راہ میں خرچ کرنا،
:::::(4) قُران اور سابقہ کتابوں پر إِیمان،
:::::(5) یقین یعنی بغیر کِسی شک کے آخرت پر إِیمان،بحوالہ سورت البقرہ(2)/آیات 1 تا 4 ، 
:::::(6) اللہ تعالیٰ پر إِیمان،
:::::(7) یوم آخرت پر إِیمان،
:::::(8) فرشتوں پر إِیمان،
:::::(9) اللہ تعالیٰ کی  طرف سے نازل شدہ کتابوں پر إِیمان،
:::::(10) تمام نبیوں پر إِیمان،
:::::(11) اللہ تعالیٰ کی محبت میں قریب والوں،یتیموں،غریبوں،مُسافروں،سوال کرنے والوں،اور غلاموں کو آزاد کرنے پر اپنا مال خرچ کرنا،
:::::(12) نماز قائم کرنا،
:::::(13) زکوۃ أدا کرنا،
:::::(14) اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا،
:::::(15) کِسی بھی قِسم کی پریشانی میں صبر کرنا،،،،،بحوالہ سُورت البقرہ(2)/ آیت177،
:::::(16) اللہ کی طرف اپنے إِیمان کے وسیلے سے دُعا کرنا،
:::::(17) اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اور اُس کی مغفرت طلب کرنا،
:::::(18) اللہ تعالیٰ سے عذابِ جہنم سے بچاؤ کا سوال کرنا،
:::::(19) اللہ تعالیٰ  کی اطاعت پر،اور اُس کی نافرمانی سے باز رہنے پر صبر کرنا،
:::::(20) اپنے أقوال و أعمال و أحوال میں سچائی پر رہنا،
:::::(21) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ہمیشہ خشوع کے ساتھ قائم رہنا،
:::::(22) اللہ کی راہ میں خرچ کرنا،
:::::(23) اللہ تعالیٰ سےمغفرت طلب کرتے رہنا،خاص طور پر سحر کے وقت،،،،،بحوالہ سُورت آل عمران(3)/ آیات 15 تا 17۔
:::::تقویٰ کے پھل ::::: جو کہ بہت زیادہ ہیں :::::
مثال کے طور پر چند مندرجہ ذیل ہیں :::
::::: دُنیا میں حاصل ہونے پھل :::::
:::::( 1 ) قران کی سمجھ اور اُس میں موجود ہدایت کا حاصل ہونا ۔ سورت البقرہ(2)/آیات 1 ، 2 ،
:::::( 2 ) اللہ تعالیٰ کی مدد ، حفاظت ، کامیابی اور نگرانی کے ذریعے اللہ کا ساتھ حاصل ہونا ۔
بحوالہ سورت البقرہ : آ یت 194  سورت النحل(16)/آ یت 128 ۔
:::::( 3 ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے عِلمِ نافع حاصل کرنے کی توفیق ۔سورت البقرہ(2)/آیت282 ۔
:::::( 4 ) اور مشکلوں ، مصیبتوں سے نکلنے کے راستے مہیا ہونا ۔
:::::( 5 ) اور ایسی جگہوں سے رزق ملنا جہاں سے سوچا بھی نہیں جاتا ۔
:::::( 6 )  اللہ تعالیٰ کی طرف کاموں میں آسانی پیدا ہونا ۔
:::::( 7 ) گناہوں کا معاف کر دِیا جانا۔
:::::( 8 ) اور أجر کا بڑہا دِیا جانا(4تا 8 بحوالہ/سورت الطلاق(65)/آ یت 2 تا 5)۔
:::::( 9 ) اللہ تعالیٰ کی دوستی اور سرپرستی حاصل ہونا،سُورت الأنفال(8)/آیت34،سورت الجاثیہ(45)/آ یت19 ۔
::::: قیامت کے دِن حاصل ہونے والے پھل :::::
:::::(1) تقویٰ والے اللہ کی طرف باعِزت وفود کی صورت میں لے جائے جائیں گے ،
﴿ یومَ  نَحشَرُ  المَتَّقِین َ إِلیٰ  الرَّحمِٰنِ  وَفداً  ::: اُس (قیامت والے ) دِن ہم تقویٰ والوں کو رحمان کی طرف وفد بنا کر لیے جائیں گےسورت مریم(19)/آیت 85 ۔
:::::(2) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر حساب رزق ملے گا ﴿ ز ُیِّن َ للذِین َ کَفَرُوا الحَیاۃُ الدُّنیا و یَسخَرُون َ مِن الذِین َ  أَمَنُوا و الذِین َ اتَّقَوا فَوقَھُم یَومَ  القِیامَۃِ  ، و اللَّہ ُ یَرز ُق ُ مَن یَّشآئُ  بِغَیرِ حِسابٍ ::: کُفر کرنے والوں کے لیے دُنیا کی زندگی سجاوٹ والی بنا دی گئی ہے اور یہ (کُفر کرنے والے ) إِیمان لانے والوں کا مذاق اُڑاتے ہیں ، اور (اِن إِیمان لانے والوں میں سے جو ) تقویٰ والے ہیں وہ قیامت والے دِن کُفر کرنے والوں کے اُوپر (جنتوں میں )ہوں گے ، اور اللہ جسے چاہے اُسے بغیر حساب رزق عطا فرماتا ہےسورت البقرہ(2)/آیت 212 ۔
:::::(3) جنت اُن کے بالکل قریب کر دی جائے گی،
﴿ وَ اُزلِفَتِ الجَنَّۃُ لِلمُتَّقِین َ غَیرَ بَعِیدٍ:::اور تقویٰ والوں کے لیے جنت بہت قریب کر دی جائے گیسورت ق(50)/آ یت31 ۔
:::::(4) تقویٰ والوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے عذاب اور دُکھ سے محفوظ رکھے گا،
﴿ وَ یُنَجِی اللَّہ ُ الذِین َ اتَّقَوا  بِمَفَازَتِھِم لا یَمسُّھُم السُّوٓ ءُ  و لا ھُم  یَحز َنُون َ ::: اور تقویٰ والوں کو اللہ تعالیٰ اُن کے مُفازات کے ساتھ یا ذریعے نجات دے گا نہ ہی اُنہیں کوئی برائی (تکلیف پریشانی وغیرہ) چھوئے گی اور نہ ہی وہ دُکھی ہوں گےسورت الزُمر(39)/آ یت61 ۔
::::: جنت میں حاصل ہونے والے پھل :::::
::::: (1) اللہ تعالیٰ کے پاس بیٹھنے کی جگہ،


﴿إِنَّ المُتَّقِین َ فی جنَّاتٍ و نَہَر O فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ::: بے شک تقویٰ والےباغات اور دریاؤں(والی جگہ)میں ہوں گےO عِزت (اور پاکیزگی )والے مُقام (اور رُتبوں)پر، سب سے بڑے اور اصل(حقیقتاً اور تمام تر)قُدرت والے بادشاہ(اللہ)کے پاسسورت القمر(54)/آ یت54،55 ۔
::::: (2) أمن والا مُقام،
﴿ إِنَّ  المُتَّقِین َ فی مُقامٍ أمِینٍ :::بے شک تقویٰ والوں کے لیے أمن(اور سلامتی ) والا مُقام ہےسورت الدخان(44)/آ یت51  ،
اِن کے عِلاوہ مزید کتنے انعامات ہیں جِن کو اِس مختصر مضمون میں نقل نہیں کیا جا سکتا ۔ 
:::::  دُنیا اور آخرت میں حاصل ہونے والے پھل :::::
:::::(1) اللہ تعالیٰ کی محبت،
﴿بلَیٰ مَن أوفیٰ بِعَھدِہِ و اتَّقَیٰ  فَإِنَّ  اللَّہ َ  یُحِبُّ  المُتَّقِین َ ::: ہر گِز نہیں بلکہ جو اپنا عہد وفا کرے گا اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب سے)سے بچاواختیار کرے گا تو اللہ(ایسے)تقویٰ والوں سے محبت کرتا ہےسورت آل عِمران(3)/ آ یت 76 ،
:::::(2) عملِ صالحہ کی قبولیت،
﴿ إِنَّمَا  یَتَقَبَّلُ اللَّہ ُ مِن المُتَّقِین َ ::: بے شک اللہ تو تقویٰ والوں سے ہی (ان کے اعمال) قُبُول فرماتا ہےسورت المائدہ(5)/آ یت27 ،
:::::(3) نہ کوئی خوف ہوگا نہ کوئی دُکھ،
﴿ فَمَن اتَّقَیٰ و أَصلَحَ  فَلَا خَوفٌ عَلِیھِم و لا ھُم  یَحز َ نُون َ::: پس جِس نے تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی تو وہ نہ ہی خوف زدہ ہوں گے اور نہ ہی انہیں کوئی دُکھ ہو گاسورت الأعراف(7)/آیت 35 ۔
:::::(4) دُنیا اور آخرت میں بہت ہے بڑی کامیابی کی خوشخبری،
﴿ أَلا إِنَّ أولیاءَ اللَّہِ لا خَوفٌ عَلِیھِم و لا ھُم یَحز نُون َ O الذِینَ  أمَنُوا و  کانُوا  یَتَّقُونَOلَھُم البُشرَیٰ فی الحَیاۃِ الدُّنیا  و فی الآخِرۃِ لا تَبدِیلَ  لِکَلِمَاتِ اللَّہِ ذَلِکَ ھُوَ الفَوز ُ العَظِیمُ O کیوں نہیں بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی ڈر ہو گا اور نہ کوئی دُکھO(یہ)وہ (لوگ ہیں )جو اِیمان لائے اور جو اللہ (کی ناراضگی اور عذاب )سے بچا کرتے تھےOاُن کے لیے(ہی)ہے دُنیا اور آخرت کی زندگی میں خاص خوشخبری اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی(ہونے والی)نہیں ،یہ ہے وہ عظیم کامیابی(جو تقویٰ والوں کے لیے ہے)سورت یونس(10)/آیت 62،63،64،
:::::(5)تقویٰ والے اللہ کے پاس سب سے زیادہ بُزرگی پاتے ہیں،
﴿إِنَّ أکرَمَکُم عِندَ اللَّہِ أتقَاکُم ::: بے شک اللہ کے ہاں تُم میں سے سب سے زیادہ بزرگی والا تُم میں سے سب سے زیادہ تقویٰ والا ہےسورت الحُجرات(49)/آیت13،  
:::::تقویٰ کی ضد اور اُس کو کم کرنے والی چیز :::: معاصی ::: یعنی گُناہ ::::: 
::::: معاصی کا لغوی معنی ٰ ::::: أطاعت کے خلاف کام،حُکم عدولی کرنا(لسان العرب)،نفاذِ حُکم نہ کرنا(التعریفات،للجرجانی)، 
::::: معاصی کا شرعی مفہوم ::::: اللہ جلّ وعُلا اور اُس کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے أحکام پر عمل نہ کرنا اور جِن کاموں یا باتوں سے اللہ عزّ وجلّ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے منع کِیا اُن پر عمل کرنا ۔
::::: تقویٰ حاصل کرنے اور اُس کو بڑہانے کے ذرائع :::::
:::::(1) اللہ تعالیٰ کی توحید کا عِلم بطورِ خاص اُس کے ناموں اور صِفات کا عِلم ،
:::::(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّتِ مُبارکہ کا عِلم ،
:::::(3) اِن سب پر عمل کرنا ۔ 
:::::(4) اللہ تعالی کی اتنی محبت جوہر دوسری محبت پر غالب ہو جائے ،
:::::(5) اس بات پر اِیمان کامل کہ اللہ تعالی ہر وقت ہر کام اور بات سے آگاہ ہے ،
:::::(6) ہر ایک لمحے ، ہر ایک معاملے میں اللہ سے شرم و حیاء کرنا ،
:::::(7) یہ عِلم حاصل کرنا کہ گناہوں اور نافرمانیوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ،
:::::(8) ابلیس اور اُس کے پیروکاروں کے طور اطوار ، جال ، پھندوں اور وسوسوں کی پہچان کرنا ،
:::::(9) یہ عِلم حاصل کرنا کہ کسی طرح اپنے نفس کی خواہشات کو کچلا جائے اور اپنے رب اللہ تعالی کی تابع فرمانی کی جائے ،
::::: (10) یہ عِلم حاصل کرنا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا کیا انجام ہو گا۔
تقویٰ کے حُصول کے اسباب کو کچھ تفصیل کے ساتھ ایک الگ مضمون"""تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے؟""" میں بھی بیان کیا جا چکا ہے ، وللہ الحمد۔
اُس مضمون کا ربط درج ذیل ہے:
اللہ سُبحانہ ُ و تعالی ہم سب کو تقویٰ والوں میں سے بننے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
تاریخ کتابت :23/03/1430ہجری،بمُطابق،20/03/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :06/11/1346ہجری،بمُطابق،21/08/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔