Friday, August 14, 2015

::::::: پاکِستانی کا پیغام ، پاکِستانی کے نام :::A message From a Pakistani to a Pakistani :::::::

::::: پاکِستانی کا پیغام ، پاکِستانی کے نام ::::::
أعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ و مِن ھَمزِہِ و نَفخہِ و نَفثِہِ ،  
 بِسِّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن ِ الرَّحِیم  ، الحمدُ لِلِّہِ رَبِّ العلٰمِین ، و الصَّلا ۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رسولِہِ الکریم ، وعَلیٰ أصحابِہِ و أزواجہِ أجمَعِن و مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ اِلیٰ یَومِ الد ِین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ عزّ و جلّ کا فرمان ہے﴿اللّہُ لا إِلَـہَ إِلاَّ ھُوَ لَیَجمَعَنَّکُم إِلَی یَومِ القِیَامۃ لاَ رَیبَ فِیہِ وَمَن أَصدَق ُ مِنَ اللّہِ حَدِیثاً :::اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ضرور تُم سب کو وہ قیامت والے دن جمع فرمائے گا اِس میں کوئی شک نہیں اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا بھلا کون ہےسورت النساء(4)/آیت 78،
﴿ وَعدَ اللّہِ حَقّاً وَمَن أَصدَقُ مِنَ اللّہِ قِیلا ::: اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ کی بات سے زیادہ بڑھ کر سچ کہنے والا بھلا کون ہےسورت النساء(4)/آیت 122 ،
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی اور نہیں ، اور اللہ نے فرمایا ہے :::
﴿ لَقَد أَنزَلنَا إِلَیکُم کِتَاباً فِیہِ ذِکرُکُم أَفَلَا تَعقِلُونَ ::: یقیناً ہم نے تُم لوگوں کی طرف کتاب اُتاری ہے جِس میں تُم لوگوں کا ذِکر ہےسورت الأنبیاء(21)/آیت 10 ،
آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کی کتاب میں ہمارا ، یعنی ہم پاکستانیوں کا کہیں ذِکر ہے ؟ ؟؟
﴿ وَضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً قَریَۃً کَانَت آمِنَۃً مُّطمَئِنَّۃً یَأتِیہَا رِزقُہَا رَغَداً مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَت بِأَنعُمِ اللّہِ فَأَذَاقَہَا اللّہُ لِبَاسَ الجُوعِ وَالخَوفِ بِمَا کَانُوا یَصنَعُون :::اور اللہ تعالیٰ اُس بستی (والوں)کی مثال دیتا ہے جو امن کی حالت میں تھی اور اطمینان میں تھی اُسکو اُس کا رزق ہر طرف سے بہت وافر ملتا تھا تو اُس بستی (والوں)نے اللہ کی نعمتوں کا کُفر کیا تو اللہ نے اُن کے کاموں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کے لباس کا ذائقہ چکھا دیا سورت النحل(16)/آیت 112 ،
جی ہاں ، یہ پہلے ہو گذری کسی قوم کا ذِکر بھی ہے ، اورہمارے موجودہ حالات کے عین مُطابق یہ ہمارا ذِکر بھی ہے ،ہم پاکستانیوں کا ، اللہ نے ہمیں اپنی ہر نعمت سے نوازا ، اور خوب نوازا ، اور ہم نے اُس کی نعمتوں کا کُفر کیا ، عملی طور پر بھی اور قولی طور پر بھی ، کون سا ایسا گُناہ ہے جو ہم نہیں کرتے ؟ ہمارے کرادر و گفتار، معاشرت و معیشیت ، کا کون سا پہلو ہے جس میں ہم اللہ کی نعمتوں کی شکر گذاری کرتے ہوں ؟ ؟؟
اللہ کی شکر گذاری کرنے کی بجائے سر عام محفلیں سجا سجا کر ، اور گا گا کر غیر اللہ کو رزق اور نعمتیں دینے والا مانتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ """ساری دنیا کا یہ دستور ہے کہ جس کا کھاتے ہیں اُس کے گُن گاتے ہیں ، ہم بھی جس کی نعمتیں کھا رہے ہیں اُس کے گُن گا رہے ہیں """اس کُھلے واضح  اقرار کے بعد پھر اللہ  کی نہیں  ، بلکہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کی شرک سے بھری تعریف گائی جاتی ہے ،
اللہ کے احکام کو """وحشیانہ سزائیں """ قرار دینے والی، بے حیائی کی زندگی بسر کرنے والی ، کے مزار بنا کر برسیاں منائی جاتی ہیں ، اسلام کے ایک عظیم رتبے """شہادت """ پر فائز قرار دیا جاتا ہے ، باالفاظ دیگر اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ،
کھلے عام بالکل واضح طور پر ملک و قوم کا مال کھانے والوں اور ملک و قوم کو ذلیل و رسوا کرنے والوں  ، بد کرداری کے مظاہرے کرنے والوں کو اپنا راہنما اور سردار بنایا جاتا ہے ، کھلے عام بے حیائی ، اور بے غیرتی کے مظاہرے کیے جاتے ہیں اور اُن کو بڑھانے کے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ، اور کیا بچا ہے اللہ کی نافرمانی کرنے کو اور کیا بچا ہے اللہ کی نعمتوں کا انکار کرنے کو ،
پس اللہ کے فرمان کے مطابق ہم پر بھوک اور خوف اس قدر طاری کر دی گئی گویا کہ وہ ہمارا لباس ہے ، وہ ہم ہی ہیں جو بھوک و افلاس کی وجہ سے اپنی اولاد فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں ، وہ ہم ہی جنہیں نہ اندر سے امن میسر رہا اور نہ باہر سے ،
اپنے ہی اندر سے ایسے لوگ ظاہر ہو رہے ہیں جو  اِسلام کے نام پر ، اِسلام کی آڑ میں اپنے ہی بھائیوں بہنوں کو قتل کرتے ہیں ، اور اپنی  طرف سے جہاد کرتے ہیں ، اِسلام کے ایک عظیم رکن کا عملی مذاق اُڑایا جاتا ہے تا کہ اِسلام اور اہل اِسلام اور اِسلام سے منسوب لوگوں کی کردار کُشی کی جا سکے ،
زیادہ  دُور کی بات نہیں کچھ ایسا ہی مصر میں اخوان المُسلمین کے نام سے کیا اور کروایا جاتا رہا اور پھر امن و امان قائم کرنے کے نام پر اِسلام اور اِسلام  سے منسوب لوگوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا اور آج جامعہ الازہر والے مصر کی معاشرتی حالت ، اور اہل مصر کی اخلاقیات میں اِسلام کا پہلو شاذ شاذ ہی دکھائی دیتا ہے اور جو دکھائی دیتا ہے اُس میں سے زیادہ تر اِسلام کی اصل بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے ،
باہر سے دیکھیے تو جِس کافر کا جیسے جی چاہتا ہے ہم پر الزام لگاتا ہے ، ہمیں دھمکاتا ہے اور ہم ، جواللہ کے سامنے نہیں جھکے اب غیر اللہ کے سامنے جھکے ہی چلے جاتے ہیں ، اپنی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی کہ جِس کی عِزت کا کوئی احساس ہو ، کٹھ پُتلی بھی شاید کبھی نچانے والے کے اشاروں کو درگزر کر جاتی ہو ، ہم دانستہ اور نا دانستہ ، حکام و محکوم ، زیادہ یا کم ، سب ہی اُن کے اشاروں پر ناچتے ہی چلے جارہے ہیں ، جو ہمارے کھلے دُشمن ہیں ،وہ اور ہم کسی بھی خطہء زمین سے تعلق رکھتے ہوں ، سب ہمارے خِلاف ایک ہیں ، بحیثیت مُسلمان ہم اُن کے عمومی دشمن ہیں اور بحیثیت پاکستانی ہم اُن کے خاص دُشمن ہیں، یہ سب کچھ دیکھ کر سُن کر ، جان کر بھی ہم اپنا سب کچھ لٹا کر اُن کے پاس عِزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، جبکہ ہمارا اور اُن کا اکیلا لا شریک خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہمیں بتا چکا ﴿ مَن کَان َ یُریِد ُ العِز َّۃَ فَلِلّٰہِ العِز َّۃُ جِمِعَیاً ط إِلِیہِ یَصعَد ُ الکَلِمُ الطَّیِّب ُ وَ العَمَلُ الصَّالِح ُ یَرفَعُہ ُ:::جو کوئی عِزت چاہتا ہے (وہ یہ جان لے کہ ) تمام تر عِزت اللہ کے لیے ہے ، اللہ کی ہی طرف اچھی باتیں چڑھتی ہیں اور اللہ نیک کاموں کو بُلند کر لیتا ہےسُورت الفاطِر(35)/آیت 10،
کسی ظاہری سبب کے بغیر بھی دیکھیے ﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ وَمَا هِيَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْبَشَرِ:::اور (اے مُحمد)آپ کے رب کی فوجوں کو سوائے اُس کے اور کوئی نہیں جانتا ، اور جہنم انسانوں کے لیے ایک یاد دہانی والی چیز ہےسورت المدثر(74) /آیت 31 ،   اللہ سبحانہُ و تعالیٰ اپنی فوجوں میں سے کسی کو حُکم دیتا ہے تو ہم پر گرفت ہو جاتی ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ بار بار تنبیہ کرتا ہے ،  کبھی زلزلوں کی صورت میں ، کبھی خشک سالی کی صورت میں ،
لیکن یہ ہم ہی ہیں ، بہادر قوم ، جو اللہ کی ناراضگی اور گرفت کو دیکھ کر مادی وسائل پر توکل کے گیت گاتے ہیں ، اور کہتے ہیں فُلان قسم کی عمارتیں بنالی جائیں گی تو زلزلے ہمارے کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے ، ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی سپاہی کو حُکم دیتا ہے تو پانی کی ایسی موجیں آ جاتی ہیں ، یا ہوا ایسی چال چلتی ہے کہ زلزلوں سے محفوظ عمارتوں کے زعم میں غرق ہزاروں لاکھوں انسانوں کی روحیں قبض کر لی جاتی ہیں اور وہ عمارتیں ان کو بچا نہیں سکتی ہیں ،
اور ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہ فرمان یاد ہی نہیں رہے کہ :::
﴿وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدُيرٌ ::: اور (اے مُحمد ) اگر اللہ تعالیٰ آپ کو تکلیف میں ڈال کر گرفت کرے تو سوائے اللہ کے کوئی اُس تکلیف کو دُور نہیں فرما سکتا اور اگر اللہ آپ کو خیر میں ڈال کر (اپنی رحمت والی)گرفت (میں محفوظ )کرے  تو اللہ ہی ہر ایک چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہےسورت الانعام(6)/آیت 17 ،
﴿أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ :::کیا تُم لوگ اُس سے محفوظ ہو گئے ہو جو آسمان سے اُوپر ہے کہ (اُس کے حُکم سے) زمین تم لوگوں کو دھنسا دے اور وہ  چل(یعنی اس طرح لرز رہی ہو گویا کہ تیزی سے چل )رہی  ہو    سُورت المُلک(67)/آیت 16 ،
زلزلوں سے محفوظ عمارات بنا کر سمجھو گے کہ ہم محفوظ ہو گئے تو اس کے لیے اللہ کا یہ پیغام بھی سن رکھو ﴿أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِباً فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ:::کیا تُم لوگ اُس سے محفوظ ہو گئے ہو جو آسمان سے اُوپر ہے کہ وہ تُم لوگوں پر پتھروں کی بارش کر دےتو پھر تُم لوگوں کو پتہ چلے کہ (اللہ  کا تُم لوگوں کو) ڈرانا  کیا  حیثیت رکھتا ہے سُورت المُلک(67)/آیت 17،
[[[یہ مذکورہ بالا آیت شریفہ بھی اِس حق عقیدے کے بہت سے دلائل میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں ہے ، بلکہ اپنی تمام تر مخلوقات سے الگ، جُدا اور بُلند آسمانوں سے اوپر ہے، تفصیلات کے لیے میری کتاب """اللہ کہاں ہے : http://bit.ly/1IxNUWR""" کا مطالعہ فرمایے اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ]]]
﴿وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نكِيرِ ::: اور اِن سے پہلے والے لوگوں نے بھی (میری اور میرے رسولوں کی باتوں کو) جُٹھلایا تھا تو دیکھو کہ اُن کا جُٹھلانا (اُن پر میرے )کیسے(عذاب کا سبب )ہو سُورت المُلک(67)/آیت 18 ،
ہمیں اللہ کی طرف پلٹنے سے روکنے کے لیے مادی وسائل پر توکل کا سبق دینے والے ، اللہ کے عذاب کے سامنے اُس کی نافرمانیوں پر قائم رہنے کو بہادری قرار دے کر اُس بہادری کا سبق دینے والے منافق تو مُتاثرین کو ملنے والی امداد کھا پی کے نکل لیے اور ہمیں دُنیا اور آخرت کا نقصان دے گئے ،اور ہم ان کی پڑہائے ہوئے سبق رٹتے ہوئے اللہ کی نافرمانی میں بڑہتے جا رہے ہیں اور اللہ کی گرفت ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے ،
اللہ تعالیٰ کی تابع فرمانی میں ہی تما تر عِزت ہے ،اللہ کی طرف سے حفاظت ہے ، جس کے بعد کوئی حقیقی نقصان ہونے والا نہیں ، لہذا جو کوئی بھی دُنیا اور آخرت میں عِزت چاہتا ہے ، اللہ کی حفاظت میں رہنا چاہتا ہے  وہ اللہ تعالیٰ کی تابع فرمانی أختیار کرے ، اللہ ہی کی طرف أچھی باتیں چڑھتی ہیں اور اللہ نیک عمل کو بُلند کرتا ہے ،
﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعاً إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُوْلَئِكَ هُوَ يَبُورُ ::: جو کوئی عِزت چاہتا ہے تو (یقین رکھے کہ )تما تر عِزت اللہ کے اختیار میں ہے اُسی کی طرف نیک باتیں اور نیک کام چڑہتے ہیں ، اللہ اُن کو  (اپنی طرف آسمانوں کے اوپر ) اٹھاتا ہے ، اور جو لوگ برائیوں (کو اچھائی ظاہر کر کے اُن )کے ذریعے دھوکہ دیتے ہیں  ان کے لیے شدید عذاب ہے اور ان لوگوں کی دھوکہ بازی  تو ہے ہی(کرنے والوں اور اُس پر عمل کرنے والوں کے لیےیقینی ) تباہی والا سُورت الفاطر (35)/آیت 10،
صحیح اِسلامی عقائد میں سے ایک بُنیادی عقیدے ''' اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ ، جُدا اور بُلند ہے ''' کے بہت سے دلائل  میں سےیہ مذکورہ بالا آیات بھی اس کی  دلیل ہیں ، اِس موضوع کی مکمل تحقیق اور دلائل میری کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' میں مُیسر ہے ،
رہا معاملہ اُن منافقین کا ،جو اللہ کی راہ چھوڑ کر ، اللہ کی تابع فرمانی ترک کر کے دُنیا کی عِزت اور امن و امان حاصل کر سکنے کے گناہوں کو مختلف الفاظ کا جامہپ پہنا کر ان کے ذریعے مُسلمانوں ، اور انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں تو اُن کے بارے میں  اللہ تعالیٰ نے سُورت الفاطر  کی  مذکورہ بالا آیت میں بھی اُن کا نجام بتا دیا اور اس آیت میں بھی کہ ﴿ بَشِّرِ المُنٰفِقِینَ بانَّ لَھُم عَذَاباً أَلِیماً   O اَلَّذِینَ یَتَّخِذُونَ الکَافِرِینَ أولِیآءَ مِن دُونِ المُؤمِنِینَ ط أَیَبتَغُونَ عِندَ ھُم العِز َّۃَ فَإِنَّ العِز َّۃَ لِلَّہِ جِمِعَیاً :::( اے رسول )منافقوں کو یہ خوشخبری سُنا دیجیئے کہ یقینا اُن کے لیے دردناک عذاب ہےO یہ مُنافقین وہ ہیں جو إِیمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست اور سرپرست بناتے ہیں ،کیا (یہ مُنافقین)اُن کافروں (کی تابع فرمانی اور دوستی کے ذریعے اُنکے )پاس عِزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ( تو مُنافقین یہ جان رکھیں کہ )بے شک تما تر عِزت اللہ کے لیے ہے سُورت النِساء(4)/آیت38، 39
لیکن ، ہم تو وہ ہیں جنہوں نے اب جدت پسندی، کشادہ دلی ، اور  کا ایسا عِلم حاصل کر لیا ہے جو کسی کی بھی کوئی  سی بھی  بات ماننے پر راضی کر سکتاہے لیکن  اللہ کی نہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نہیں ،
یہ ہم ہی ہیں جو  زبان ءِحال سے یہ کہتے  ہوئے نظر آتے ہیں کہ ، اللہ کی تابع فرمانی کریں گے تو """دقیانوسی """، بُنیاد پرست"""اور دہشت گرد """وغیرہ کہلائیں گے ، کیا خاک عِزت ملے گی ، اِس کے خِلاف کریں گے تو ہر طرف سے"""جدت پسند """، وسیع النظر """اور امن پسند """ہونے کی اسناد (سرٹیفیکیٹس)ملیں گی ، اور خوب عِزت ہو گی ،  اور بسا اوقات تو ز ُبانءِ مقال سے بھی ایسی خرافات صادر کرتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے آزادی عطا فرمائی تھی ،جو یقینا بہت بڑی نعمت تھی ، عِزت تھی ، جی ، تھی ، اب ہم جغرافیائی طور پر ایک الگ خطہء زمین کے باسی تو ہیں ، لیکن نہ ہماری اپنی معاشرت ہے ، نہ معیشیت ، نہ کردار نہ گفتار ،نہ حکومت اپنے اختیار والی اور نہ ہی محکوم ،
ایک خطہء زمین پر آباد رہتے ہوئے  چند علاقائی عادات کو برقرار رکھنا آزادی نہیں ہوتی، آزادی وہ تھی جو کستان کا مطلب کیا """ لا اِلہَ اِلَّا اللَّہ """کے عملی نفاذ کے لیے لاکھوں جانوں ، مالوں ، عِزتوں کی قُربانی کے بعد ملی تھی ،لیکن آغاز میں ہی اس نیت پر عمل کرواسکنے والوں کو راہ سے ہٹا دیا گیا ، اور آغاز میں ہی ہم نے اللہ کی اس نعمت کا بھی کفر کیا اور اللہ کے ہاں عِزت حاصل کرنے کی بجائے ''' مندرجہ بالاعِزت '''کے فلسفے پر عمل کرنے لگے اور کرتے ہی جارہے ہیں ، اور جتنا کرتے جا رہے ہیں اُتناہی مزید ذلیل ہوتے جا رہے ہیں ، کیونکہ رب العِزت کی بندگی ترک کر دی اور اُس کے ذلیل و خوار بندوں کی بندگی قبول کر لی ،
اب تو معاذ اللہ  یہ نظر آتا ہے کہ """پاکستان کا مطلب کیا ::: کُلُّ واحد اِلہ اِلَّا اللَّہ """،
پس ، بھوک اور خوف کا لباس ہم پر ڈالا جا چکا ، اور چونکہ ہماری نافرمانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، اور ہمارا گناہ و شرک سے آلودہ معاشرہ اور معیشیت پھولتے جا رہے ہیں لہذا روز بروز یہ ہمارے اوپر تنگ ہوتا جا رہا ہے ،
ابھی ، تازہ ترین حالات کا ہی کچھ جائزہ لیا جائے ، کہ کس طرح وہ """امریکہ """جس کی بندگی میں ہم نے اپنے حقیقی رب اللہ تعالیٰ کی بندگی کو """باعث عار """سمجھ لیا ، اور اپنا دِین ، دُنیا ، غیرت ، حمیت ، شرم و حیاء ، حلال و حرام ، سب کچھ اُس ڈھب پر لاتے جا رہے ہیں جس طرح وہ چاہتا ہے ، اُس کی رضا کے حصول کے لیے اپنے  ہی خون کی بھینٹ بھی چڑھاتے ہیں کہ جب اُس کا جی چاہتا ہے ، وزیرستان کے"""دہشت گرد"""بچوں اور """دہشت گرد"""خواتین کو اُن کے گھروں پر میزائیل برسا کر وہ اپنی سفاکی کی آگ کو کچھ ایندھن مہیا کر لیتا ہے ،
عراق اور افغانستان میں جس پر جی چاہے """دہشت گرد """کا ٹھپہ لگا کر اُس کی جان مال عِزت پامال کر تا ہے ، اور پھر بھی وہ خون آشام چمگادڑہم سے خوش نہیں ہوتا !!! کیوں ؟؟؟
امریکہ کے ہی پروردہ اسرائیلی یہودیوں کا جب جیسے جی چاہتا ہے ، فلسطینی مُسلمانوں کی جان مال و عزت پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اللہ کی واحدانیت اور مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بندگی اور رسالت کی گواہی دینے والوں کو بلا لحاظِ عُمر اور جنس قتل کرتے ہیں، کسی طرف سے اُن کی وحشت و شیطانیت کو """دہشت گردی """میں شُمار نہیں کیا جاتا ، کڑوڑوں مُسلمانوں میں سے چند ہزار بھی اُن درندے یہودیوں کے خِلاف بات نہیں کرتے ، خاموشی ، جو اقرار و رضا مندی کی بڑی علامت ہے دکھا کر اُن کی رضا مندی حاصل کرنے کی کوشش جاری و ساری ہے ، پھر بھی وہ خونی بھیڑیے ہم مُسلمانوں سے خوش نہیں ، کیوں ؟؟؟
یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ہندوؤں کا کردار ،اور ہندوستانی میڈیااور فلمستان کے نام نہاد مُسلمان ادکاروں کا کردار ہم میں سے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں  کہ وہ پاکستانیوں کے خصوصی اور مُسلمانوں کے عمومی دُشمن ہیں ،
 لیکن یہ ہم ہی کہ اُن کی فلموں اور میڈیا کا اِس قدر شکار ہیں کہ وہ ہمیں محبوب ہیں ، اور اتنے محبوب ہیں کہ ہمارے وہ معاملات جو خالصتاً دینی ہیں ، وہ بھی اُن کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں ، پیدائش سے لے کرمرنے کے بعد تک کی رسومات پر ایک نظر کر لیجیے میری بات کی حقیقت سمجھ آجائے گی اِن شاء اللہ ،
اپنی بے حیاء عورتیں دکھلا دکھلا کر اُنہوں نے ہماری غیرت غرق کر دی ، یہاں تک کہ وہ ہماری مُسلمان بہنوں کی اجتماعی اور کھلے عام آبرو ریزی کرتے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، ہماری زُبانیں ہمارے قلم کسی بھی ایک خبر کی طرح یہ خبر بھی غیرت و حمیت ، شرم و حیاء سے عاری دِلوں کے ساتھ نشر کرتے ہیں اور بس ،
یہ ہم ہی ہیں جن کے گھروں میں ،کاروبار کی جگہوں  میں ، ذاتی بٹوے اور جیبوں میں اِن غلیظ اور پلید مشروب  پینے والے کو """ عظیم روح """ قرار دینے والوں  کی تصویریں ہیں ، ہمیں اُن سے محبت ہے ، ہم اپنے آپ کو اُن کی نقالی میں مشغول پا کر خوش ہوتے ہیں ،  ہمیں اپنی اولاد کو اُن کی طرح انداز و اطوار والا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے ،
یہ ہم ہی ہیں جنہیں گائے کے پجاریوں سے ، بندر کے عبادت گذاروں سے ، ہاتھی کی بندگی کرنے والوں سے،  اُن کے معاشرے سے ، اُن کی سکھائی ہوئی معاشرتی عادات اور رسموں سے ، اتنی مُحبت ہو چکی ہے کہ اُن کے الزامات کے جواب میں واقعتا مجرم بنےرہتے ہیں ، کسی ز ُبان میں یہ ہمت نہیں کہ اُن سے پوچھے کہ ہماری مسجدیں کیوں جلائی جاتی ہیں ؟؟؟
ہمارے قُران کیوں جلائے جاتے ہیں ؟؟؟
 ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں کیوں لوٹی جاتی ہیں ؟؟؟
 اگر ہم اپنے دِین اور اپنے بھائی بہنوں کی عِزت کی حفاظت کے لیے کچھ کہتے ہیں ، کچھ کرتے ہیں تو ہم"" دہشت گرد ""کیوں ؟؟؟
 اور شیو سینا کے جانور پوجنے والے یہ  حلف اُٹھاتے ہیں کہ وہ پاکستان کے چالیس ٹُکڑے کریں گے، ہندوستان میں سے مسجدوں اور مُسلمان کو ختم کریں گے ، سر عام اسلحہ برادار جلوس نکال نکال کر اپنے شیطانی عزائم پر عمل پیرا ہونے کا اظہار کرتے ہیں ، ہندوستانی مُسلمانوں کو دہشت زدہ کرتے ہیں ، تو وہ دہشت گرد کیوں نہیں ؟؟؟
ہمارے """لا اِلہَ اِلَّا اللَّہ و محمدٌ رسُولُ اللَّہ""" کہنے کی اصلیت یہ ہے کہ خود کو اللہ کے بیٹے ، اللہ کے رشتہ دارکہنے واے یہودیوں ، اللہ کو تین میں سے ایک ماننے والے عیسائیوں ، گائے ، بندر ، آگ اور ہاتھی نُما کرداروں کے پُجاری ہندوؤں کے سامنے ہم ہاتھ باندھے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، پھر بھی کفر و شرک کے وہ پتلے ہم سے خوش نہیں ہو تے ، کیوں ؟؟؟
جواب اللہ تعالیٰ بتا چکا﴿ وَلَن تَرضَی عَنکَ الیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُم قُل إِنَّ ھُدَی اللّہِ ھُوَ الہُدَی وَلَئِنِ اتَّبَعتَ أَھوَاء ھُم بَعدَ الَّذِی جَاء کَ مِنَ العِلمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ نَصِیرٍ :::اور (اے میرے رسول)جب تک آپ اُنکے دِین کی اتباع نہیں کریں گے یہودی اور عیسائی ہر گز آپ سے خوش نہیں ہو سکتے ، آپ فرما دیجیے بے شک اللہ کی (دی ہوئی) ہدایت ہی (حقیقی اور سچی) ہدایت ہے اور اگر(اللہ کی طرف سے حق کا) عِلم آ جانے کے بعد آپ نے اُنکی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لیے اللہ کے سامنے کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگاسورت البقرۃ (2)/آیت 120 ،
یہ معاملہ اگر اللہ کی محبوب ترین ہستی مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے ہے تو پھر کِسی اور کے لیے کیا گنجائش ہے کہ جب اللہ کی طرف سے حق کا علم آ جانے کے بعد بھی وہ کافروں کی خواہشات کی پیروی کرے تو اللہ اُس کو ذلیل و رسوا ہی کرے گا اور اللہ کے سامنے اُس کا کوئی ولی و مددگار نہ ہوگا،
سوچیے ، غور کیجیے ، اللہ کی نعمتوں کا کُفر اور کیا ہو گا ؟؟؟ اس ذِلت و رسوائی سے بڑھ کر اور کیا عِزت درکار ہے ؟؟؟
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم دُنیا اور آخرت کی عِزت اور کامیابی کا حقیقی اور واحد راستہ اختیار کریں اور اپنے رب العالمین کی بندگی اختیار کر لیں ، نام نہاد ،  پیدائشی اور خاندانی  مُسلمان رہنے کی بجائے ، سچے با عمل اِیمان والے ہوں جائیں اور اللہ کےاس وعدے کے حق دار ہو جائیں ﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الأَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضَی لَہُم وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعدِ خَوفِہِم أَمناً یَعبُدُونَنِی لَا یُشرِکُونَ بِی شَیأاً وَمَن کَفَرَ بَعدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ہُمُ الفَاسِقُونَ ::: اللہ اِیمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ اُنہیں ضرور زمین میں خلافت عطاء فرمائے گا جِس طرح اُن سے پہلے (اِیمان لانے)والوں کو عطاء فرمائی اور یقینا اللہ نے اُنکے لیے جو دِین پسند فرمایا ہے وہ اُنکے لیے مضبوطی سے قائم فرما دے گا اور یقینا اُنکے خوف کو امن میں بدل دے گا (اور یہ سب حاصل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ سب)میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اس (واضح بیان اور یقینی وعدے )کے بعد (بھی)جو کوئی انکار کرے گا تو وہ ہی لوگ فاسق ہیں سورت النور(24)/آیت 55 ،

ہر طرح کی اور ہر طرف سے ذلت اُٹھانے کے بعد کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اللہ کی طرف پلٹ جائیں اور اُس کے نازل کردہ دِین کی مکمل پیروی اختیار کر لیں﴿أَلَم یَأنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَن تَخشَعَ قُلُوبُہُم لِذِکرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الحَقِّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الکِتَابَ مِن قَبلُ فَطَالَ عَلَیہِمُ الأَمَدُ فَقَسَت قُلُوبُہُم وَکَثِیرٌ مِّنہُم فَاسِقُونَ ::: کیا اب بھی اِیمان لانے والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے ذِکر اور جو کچھ (اللہ کی طرف سے)حق کے ساتھ اُترا اُس کے لیے ڈر جائیں اور تُم لوگ پہلے والے اہل کتاب کی طرح مت ہوجاناکہ جن کی اُمیدیں لمبی ہو گئیں تو اُن کے دِل سخت ہو گئے اور(دُنیا میں نتیجہ یہ ہوا کہ ) اُن کی اکثریت فاسق ہےسورت الحدید(57)/آیت 16 ،
معاذ اللہ ، کیا ہم لوگ اس حالت تک تو نہیں آن پہنچے کہ دُنیا کے متعلق لمبی لمبی اُمیدوں نے ہمارے دِل اسقدر سخت کر دیے ہوں کہ ہم حق قبول کرنے میں شرم محسوس کر رہے ہوں؟؟؟
آئیے اپنے رب کی طرف پلٹ چلیں ، اُس کی نافرمانی ترک کریں ، توبہ کریں اور استغفار کریں اور اپنی اپنی جگہ ، اپنی اپنی زندگی کے ہر ہر معاملے میں ، اللہ کی تابع فرمانی اختیار کرنے کا آغاز کریں ، تا کہ وہ اکیلا سچا اور حقیقی معبود ہم پر راضی ہو جائے ، اور اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں دُنیا اور آخرت کی عِزت اور امن و سلامتی اور برکت عطا فرما دے ، یقین مانیے ، ایمان رکھیے کہ اپنے اللہ کی طرف پلٹنے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعیلمات کے مطابق اللہ کے دِین پر مکمل طور پر قائم ہونے کے عِلاوہ ہمارے لیے دُنیا اور آخرت کی عِزت اور کامیابی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ،
﴿ وَیَا قَومِ استَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوا إِلَیہِ یُرسِلِ السَّمَاء عَلَیکُم مِّدرَاراً وَیَزِدکُم قُوَّۃً إِلَی قُوَّتِکُم وَلاَ تَتَوَلَّوا مُجرِمِین َ ::: اور اے میری قوم اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور پھر اُسکی طرف توبہ کرو (تو)وہ تُم لوگوں کو خوب بارش عطاء فرمائے گا اور تُم لوگوں کی طاقت میں (اضافے کے لیے اپنی طرف سے )مزید طاقت عطاء فرمائے گا اور تُم لوگ مُجرم بن کر (اللہ کی راہ سے) پِھر نہ جاؤسورت ھُود(11)/آیت 52 ،
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ  ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ    ﴿ إذا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ سَلَّطَ الله عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حتى تَرْجِعُوا إلى دِينِكُمْ  :::جب تُم لوگ عینہ (1) کر کے خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے کی دُمیں تھام لو گے(2) اور زراعت کاری پر راضی رہنے لگو گے (3)اور جہاد ترک کر دو گے(4) تو اللہ تُم لوگوں پر (ایسی) ذِلت مسلط کر دے گا جسے وہ اُس وقت تک (تُم لوگوں پر سے) اُتارے گا نہیں جب تک کہ تُم لوگ اپنے دِین کی طرف واپس نہیں آؤ گےسنن ابو داؤد /حدیث 3462/کتاب الاجارۃ /باب 20 ، (اِمام البانی رحمہُ اللہ نے حدیث کو صحیح قرار فرمایا )۔
سوچیے قارئین کرام ،  آپ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کردنیا اور آخرت کی عِزت اور کامیابی حاصل کرنا چاہیں گے یا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور تعلیمات کے خلاف بنائے گئے فلسفوں کو اپنا کر !!!؟؟؟
اِن شاء اللہ ہر ایک اِیمان والے ، اور اِیمان والی کا جواب یہی ہو گا کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی ہی اختیار کرے گا ، اور اپنے گناہوں،غلطیوں اورکوتاہیوں پراستغفار کرتا ہوا اپنے اکیلے ، لا شریک رب اور  اس کے دِین کی طر ف واپس پلٹے گا ، تا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اسے دُنیا  اور آخرت کی عِزت اور کامیابی سے مالا مال فرمائے ،
   اپنے گناہوں ،غلطیوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہوئے ، انہیں ترک کرنے کا مضبوط ارداہ کیے ہوئے ، اپنے  اللہ سے مغفرت  یعنی بخشش طلب کرنے کو استغفار کہا جاتا ہے ، اور یہ ایسا ذریعہ ہے کہ اگر اس کی شرائط پوری کرتے ہوئے اس کو اختیار کیا جائے تو اللہ کی خوشی اور مغفرت اور اللہ کی طرف سے دِین ، دُنیا اور آخرت میں مدد اور کامیابی حاصل کرنے کا یقینی سبب ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے استغار کے ایسے پیارے الفاظ سکھائے ہیں جن سے بڑھ کر مکمل اور اللہ کے ہاں محبوب کوئی اور استغفار نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے الفاظ ہیں ، جو یقینا اللہ کی طرف سے ہی وحی کی بنا پر ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں """سیَّدُ الإِستَغفَار"""یعنی """مغفرت(بخشش)طلب کرنے والے الفاظ کا سردار(یعنی سب سے بہترین اِلفاظ پر مشتمل دُعاء)""" قرار دیا ہے ،
 آیے ہم سب اپنے گناہوں، غلطیوں اور کو تاہیوں کو پہچان کر اُن پر شرمندگی کا احسا س رکھتے ہوئے ، اُنہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑتے ہوئے ،  اللہ کی طرف پلٹیں ، توبہ کریں ، اور سید الانبیاء و رُسل صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سکھائے """سیَّدُ الإِستَغفَار"""کے ذریعے اللہ کی مغفرت طلب کریں ،
سیَّدُ الإِستَغفَار::: مغفرت (بخشش )طلب کرنے والے الفاظ کا سردار(یعنی سب سے بہترین اِلفاظ پر مشتمل دُعاء)
﴿ اللَّھمَ أنتَ رَبّي، لآ إِلہَ اِلَّا أنَتَ خَلَقتَنِی وَ أنَا عَبدکَ، وَ أنَا عَلَی عَھدِکَ وَ وَعدِکَ مَا أستَطَعت ، أعوذ بِکَ مِن شَرِّ مَا صَنَعت ، أبو ءُ لَکَ بَنِعمَتِکَ عَلَيَّ وَ أبو ءُ بِذَنبِی فَاغفِرلِی فَإِنَّہ لَا یَغفِر الذنوبَ إِلَّا أنَتَ:::اے اللہ تو میرا رب ہے، تیرے سِواء کوئی حقیقی مَعبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں، اور میں تجھ سے کیے ہوئے وعدے اور عہد پر اپنی اِستطاعت کے مطابق قائم ہوں، جو کچھ میں نے کیا ان کاموں کے شر سے میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں ، جو نعمتیں تو نے مجھ پر کی ہیں ان کا میں اعتراف کرتا ہوں،اور میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، پس تو میری بخشش فرما دے کیونکہ تیرے سِواء کوئی اور گناہوں کی بخشش کرنے والا نہیں ہے
یہ دُعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے شداد بن أوس رضی اللہ عنہ کو سکھائی اور اِرشاد فرمایا ﴿ جِس نے یہ د ُعا (قبولیت کے) یقین کے ساتھ صبح کے وقت پڑھی اور شام ہونے سے پہلے وہ مر گیا تو وہ جنتی ہے، اور جِس نے یہ دعا (قبولیت کے)یقین کے ساتھ شام کے وقت پڑھی اور صبح ہونے سے پہلے وہ مر گیا تو وہ جنتی ہے صحیح البخاری /حدیث 6306۔
بھائیو ، بہنوں اللہ کی مغفرت  ، دُنیا اور آخرت میں  اللہ کی طرف سے مدد اور کامیابی کے راستے کھلے ہیں ،مزید  دیر مت کیجیے گا ،  ﴿سَابِقُوا إِلَی مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُہَا کَعَرضِ السَّمَاء وَالأَرضِ أُعِدَّت لِلَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرُسُلِہِ ذَلِکَ فَضلُ اللَّہِ یُؤتِیہِ مَن یَشَاء ُ وَاللَّہُ ذُو الفَضلِ العَظِیمِ :::اللہ کی بخشش اور اللہ کی جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ ( وہ جنّت )جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی جیسی ہے ، اور وہ اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے ، یہ اللہ کا فضل ہے جِسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے عظیم فضل والا ہے سورت الحدید (57)/ آیت 21 ،
اللہ ہماری توبہ اور استغفار قبول فرمائے ، اور دِین دُنیا اور آخرت کی عِزت سے مالا مال فرمائے ، ﴿ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذنَا إِن نَّسِینَا أَو أَخطَأنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحمِل عَلَینَا إِصراً کَمَا حَمَلتَہُ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہِ وَاعفُ عَنَّا وَاغفِر لَنَا وَارحَمنَا أَنتَ مَولاَنَا فَانصُرنَا عَلَی القَومِ الکَافِرِینَ:::ہمارے رب اگر ہم لوگ بھول جائیں یا خطاء کر بیٹھیں تو ایسا کرنے کی وجہ سے ہم پرگرفت نہ فرمانا ، اے ہمارے رب ہم پر اُس طرح سختی نہ لادنا جس طرح ہم سے پہلے والوں پر لادی ، اور اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جسے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو ، اور ہمارے ساتھ عفو و درگذر فرما ، اور ہماری بخشش فرما ، تُو ہی ہمارا مولا ہے لہذا کافروں کے خِلاف ہماری مدد فرماسورت البقرۃ (2)/آخری آیت۔و السلام علیکم ۔
طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی  عادل سہیل ظفر۔
تاریخ کتابت :28/12/1429ہجری،بمُطابق،26/12/2008عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :26/10/1436ہجری، بمُطابق،11/08/2015عیسوئی۔
=========================================
 (1) عینہ ادھار خرید و فروخت کی ایسی قسم ہے جو سود کو یک بہانے ، حیلے ذریعے اُس کی ظاہری صورت تبدیل کر کے کی جاتی ہے کہ کسی شخص کو کچھ مال کی ضرورت ہو تو اپنی کوئی چیز کسی کے پاس فروخت کرتا ہے ، اور پھر اس سے دوبارہ خرید لیتا ہے ، مثلاً ایک شخص اپنی گاڑی دوسرے کو دس ہزار میں بیچتا ہے اور اس سے دس ہزار وصول کرتا ہے ، اور پھر وہ گاڑی اس سے پندرہ ہزار میں ادھار پر خرید لیتا ہے ، اس طرح گاڑی بھی واپس اُس کے پاس آ جاتی ہے اور اسے مال بھی مل جاتا ہے ، جس کی ادائیگی میں اسے پانچ ہزار سود بھی دینا ہوتا ہے ، بظاہر یہ ایک خرید و فروخت ہوتی ہے ، لیکن حقیقتا یہ سود کا سودا ہے ، اس کو """ بیع بالعینۃ ::: عینہ کے ذریعے خرد و فروخت """ کہا جاتا ہے ،
(2)  گائے کے جِسم سے کاٹی جا چکی اور خشک ہو چکی گائے کی دُم کو  لوگ کوڑے کی طرح استعمال کرتے تھے لہذا یہاں گائے کی دُم سے مراد اس کا اِسی استعمال کا ذکر ہے کہ لوگوں پر ظُلم کرنے کے لیے ایک ہتھیار کی طرح اس کا استعمال کرنے لگو گے ،
(3) شرعی طور پر زراعت کاری کوئی معیوب کام نہیں  یہاں اسکے ذکر  سے مراد یہ ہے کہ زراعت کاری کر کے اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کی حد تک ہو کر رہ جاؤ گے اور کسی اور کے لیے کچھ نہ سوچو گے ،
(4) جہاد ترک کرنا کسی شرح کا محتاج نہیں ، بس اتنا کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ """جہاد """سے مُراد وہ اعمال ہی ہیں جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے مطابق """جِہاد """کے زُمرے میں آتے ہوں ، بے گناہ ، اپنے اپنے گھروں ، اپنے کاموں میں مشغول عام لوگ جو کسی طور بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام نہ کر رہے ہوں ، خواہ مُسلمان ہوں یا کافر قتل کرنا کسی بھی طور """جِہاد """ نہیں ۔
[[[الحمد للہ ، اِسلام میں جِہاد کے صحیح معنی اور مفہوم کا بیان """جِہاد ، تعریف اور اِقسام : http://bit.ly/1Mo15Km  """ میں نشر کیا جا چکا ہے]]]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس کے ساتھ درج مضمون کا مطالعہ بھی فرمایے اور دُوسروں کو بھی پڑھایے :
::: جشن آزادی کے لیے آزادی بھی تو چاہیے ::: 
http://bit.ly/1p2om9A
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔