Thursday, December 10, 2015

::::::: احسان جتانے سے بہتر ہے کہ احسان کیا ہی نہ جائے :::::::

:::::: احسان جتانے سے بہتر ہے کہ احسان کیا ہی نہ جائے ::::::

  بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین :::شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی  پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
ہم عموماً یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ نیکی والا کام کرتے ہیں ، دُوسروں کی مالی یا کسی اور انداز میں کوئی مدد کرتے ہیں ،ا ور پھر   جِن کی مدد کرتے ہیں ، اُن لوگوں کو کبھی تو واضح انداز میں ، اور کبھی ڈھکے چُھپے انداز میں ، باتوں میں باتیں لگا کر ، اُن لوگوں کو طعنے دیتے ہیں ، طنز کرتے ہیں ،اُن  کی وہ حالت ، پریشانی، غلطی ، وغیرہ  یاد کرواتے ہیں  جِس  کی وجہ سے اُن کی  مدد کی گئی ہو ، یا  کسی بھی اور انداز میں کوئی نیکی اور احسان والا کام کیا گیا ہو  ،  یا اُن بے چاروں کے بارے میں اِدھر اُدھر ایسی باتیں کرتے ہیں جو اُن لوگوں کی عِزت پر حرف ہوتی ہیں ،اُن کے لیے مزید شرمندگی ، ندامت اور غم کا سبب ہوتی ہے ، اور بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کاش اِس احسان جتانے والے اور طعنے دینے والے ، نے مجھ پر کوئی احسان نہ ہی کیا ہوتا ، کہ جس مُصیبت ، پریشانی ، دُکھ یا ذِلت وغیرہ میں اِس نے مجھ پر احسان کیا تھا وہ تو ایک وقت کی تھی ، لیکن اِس کا احسان جتانا، طعنے دینا ، اور میری اُس حالت کو بار بار یاد کروانا تو زندگی بھر کی شرمندگی ، دُکھ ، ذِلت اور اذیت ہے ،
پس ہوتا یہ ہے کہ  کسی کو ، کسی  وقتی پریشانی، غم ، دُکھ ، ذِلت ، اذیت وغیرہ میں  سے نکالنے کے بعد یہ احسان جتانے والے اُسے ساری زندگی کے لیے اُس سے کہیں زیادہ پریشانی، غم ، دُکھ ، ذِلت ، اذیت وغیرہ میں  ڈالے رکھتے ہیں ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اُن احسان جتانے والوں ، اور اپنے احسان کے طعنے دینے والوں ، کسی کی کمزوری ، غلطی اور دُکھ کی  تکلیف دہ یاد دہانی کروانے والوں کا ، احسان کرنا  برباد ہو جاتا ہے ،
ایسے کام کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر تو وہ نیک عمل ،  وہ احسان ، وہ مدد گاری اُنہوں نے اللہ کی رضا کے لیے بھی کی تھی تو بھی اِن کاموں ، یعنی طعنے دینے ، طنز کرنے ، بہانے بہانے اپنا احسان جتانے ، کمزور کو اُس کی کمزوری  یا  غلط کار کو اُس کی غلطی  کی یاد دلاتے  رہنے  وغیرہ سے اُن کی نیکی برباد ہو جاتی ہے ،
توجہ فرمایے ، محترم قارئین ،  ہمارے اکیلے لا شریک مالک اور خالق اللہ عزّ و جلّ نے حکم فرمایا ہے﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالأذَى ::: اے إِیمان لے آنے والو ، اپنے(خرچ کردہ )صدقات کو احسان جتا کر ، اور تکلیف دہ باتوں(طعنے، طنز  وغیرہ)کے ذریعے ضائع مت کروسُورت بقرہ (2)/آیت 264،
اور اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ فیصلے اعلان کروائے کہ ﴿ ثلاثة لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: (1)الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى، وَ(2)الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَ(3)الْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ::: تین قِسم کے لوگوں سے اللہ قیامت والے دِن نہ تو بات فرمائے گا اور نہ ہی اُن کی طرف دیکھے گا (ہی)اور نہ ہی اُن کی بخشش کرے گا ، اور اُن کے لیے شدید عذاب ہو گا ، (1)کچھ دے کر احسان جتانے والا، اور (2)اپنا (نچلے حصے کا)لباس (تہہ بند ، پاجامہ ، شلوار پتلون وغیرہ)ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا ، اور (3)جھوٹی قَسم اُٹھا کر اپنا سامان (کوئی بھی چیز)بیچنے والا سُنن النسائی /حدیث/2564کتاب الزکاۃ/باب 69،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،،
اوریہ کہ ﴿لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنَّانٌ وَلاَ عَاقٌّ وَلاَ مُدْمِنُ خَمْرٍ:::احسان جتانے والا ، اوررشتہ داریوں کو کاٹنے والا ، اور عادی شراب خور (کبھی )جنّت میں داخل نہیں ہوں گےسُنن النسائی /حدیث/5690کتاب الأشربہ/باب 46،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
مُسند احمد کی روایت میں [[[وَلاَ عَاقُّ وَالِدَيْهِ::: اپنے ماں باپ کے حق ادا نہ کرنے والا]]]ہے ، اور دونوں ہی روایات عبداللہ ابن عَمرو رضی اللہ عنہ ُ کی ہیں ، مُسند احمد /حدیث/7061مُسند عبداللہ ابن عَمرو میں سے حدیث رقم 430،
اپنے کسی مُسلمان بھائی کی مدد کے لیے ،کسی نیکی کے کام میں اپنا  مال، جان ،صحت ، وقت اور دیگر اسباب اور وسائل میں سے کچھ   خرچ کرنے کے أجر و ثواب کو احسان جتانے اور تکلیف دہ باتیں کر کے برباد کرنے کی بجائے اچھی بات کرنا چاہیے ، تا کہ آپ کا أجر و ثواب ضائع نہ ہو﴿قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ:::جانی پہچانی نیکی والی بات کرنا ، اور (جو کچھ دیا ہو)اُسے بخش دینا  اُس صدقہ (و خیرات)اچھا ہے جِس (صدقہ وخیرات)کے بعد تکلیف دی جائے ، اور اللہ (تو تمہارے اِن اعمال سے)بے نیاز ہے ، اور بُردبار ہےسُورت بقرہ (2)/آیت 263،  
پس اگر آپ کسی کی کوئی مدد کر کے ،  کسی نیکی میں، اپنے مال، جان ،صحت ، وقت اور دیگر اسباب اور وسائل میں سے کچھ خرچ کر  نے کے بعد  اپنے کیے ہوئے کو جتانے والے ، یا طعنے  دینے والے،یا  طنز  کرنے والے، یا کسی کی عِزت ،اِیمان  اور کِردار کے بارے میں تکلیف دہ باتیں کرنے والے ہیں تو آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے مال، جان ،صحت ، وقت اور دیگر اسباب اور وسائل وغیرہ میں سے کچھ خرچ کرنے کی بجائے  خیر ، اچھائی اور نرمی والی بات کرنا سیکھیے ، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ  اگر آپ کسی  سبب سے کسی مُسلمان کی مدد نہیں کرنا چاہتے تو بھی اُسے حقارت ، نفرت ، طعنے ، طنز ، اور بے عِزتی والی باتوں کے ذریعے رد مت کیجیے ، بلکہ اچھے نیکی والے نرم انداز و الفاظ میں معذرت کر لیجیے ، جِس میں جھوٹ بھی شامل نہ ہو ، کیونکہ اُس وقت اِس انداز میں اُس کی مدد  سے انکار کرنا ، اِس  معاملے سے بہر طور بہتر ہے کہ بعد میں آپ، قولی یا فعلی طور پر  اُس پر احسان جتاتے رہیں ، اُس کو طعنے دیتے رہیں ، طنز کرتے رہیں ،
یقین جانیے کہ، اُس شخص کے لیےآپ کے اِس رویے کا برا نتیجہ  تو اُس شخص  موت کے ساتھ ختم ہوجائے گا ، یعنی وقتی معاملہ ہوگا ،  لیکن آپ کے لیے وہ برا نتیجہ آپ کی موت کے ساتھ شروع ہو گا ، جو کبھی بھی ختم ہونے والا نہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم اگر کسی کے ساتھ کوئی اچھائی ، نیکی ، مددگاری یا احسان والا کام کریں تو  وہ صِرف اور صِرف اللہ کی رضا کے لیے ہی ہو ، اور ہم اُس کام کو کرنے  کے بعد اِس طرح بھول جائیں  گویا کہ وہ کام کبھی کہیں تھا ہی نہیں ۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،طلب گار ء دُعاء ،آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر
تاریخ کتابت :28/02/1437ہجری ، بمُطابق ،10/12/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔