::: ہر کام میں اِسلام کیوں ہونا چاہیے ؟؟؟ :::
بِسمِ اللَّہِ الرّحمٰنِ الرَّحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
""" ہر کام کو اِسلامی زوایہء نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ، اور نہ ہی دیکھا جانا چاہیے ، ہماری زندگی کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنے علاقائی معاشرے ، اپنی خاندانی عادات ، اپنے ذاتی اَفکار ، اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنا پر کرتے ہیں ، اگر ہر ایک کام کو ہر ایک کلام کو اِسلامی طور پر جانچا جانا لگے تو ہم کریں گے کیا ، سوائے گنتی کے چند اعمال کے """
الحمد للہ ، یہ مذکورہ بالا الفاظ میری کسی سوچ کا شاخسانہ نہیں اور ثُمَ الحمد للہ کہ نہ ہی میں اِن کا ہمنوا ہوں ، اور نہ ہی ہو سکتا ہوں کیونکہ یہ ایک ایسا خوفناک فلسفہ ہے کہ جِس کے دام میں ہمارے کچھ مُسلمان بھائی بہن پھنسے نظرآتے ہیں ، بلکہ اِس ابلیسی دھوکہ دہی میں مسحُور نظر آتے ہیں ،
معاف کیجیے ایسے بھائیوں یا بہنوں کو شاید میرے یہ اِلفاظ کچھ سخت محسوس ہوں ، لیکن کسی ناراضگی یا غصے کے اِظہار سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کے مذکورہ ذیل فرامین شریفہ کا بغور مطالعہ فرمایے اور دیکھیے بلکہ سمجھیے کہ یہ فلسفہ آپ کو کہاں لے جانے والا نظر آتا ہے؟؟؟و لا حول و لا قوۃَ اِلّا باللہ ،
چند روز پہلے میرے دفتری کام کے دو ساتھی میرے سامنے بیٹھے کچھ بات چیت کر رہے تھے کہ اُن کی بات چیت بسنت کے تہوار کی طرف ہو گئی ، میں نے کہا """بھائی یہ تہوار غیر اِسلامی ہے """
ایک بھائی نے جواب دیا کہ """اب ہر کام تو اِسلام کے مُطابق نہیں دیکھا جا سکتا ، کچھ اپنی اپنی رسمیں بھی ہوتی ہیں ، وغیرہ وغیرہ """،
اور دُوسرے بھائی نے ایک اور فلسفہ پیش کیا کہ """ہر قوم کے اپنے اپنے تہوار اور عادات ہیں اِسلام اُن سے منع تو نہیں کرتا اور نہ ہی ہر ایک عادت و کام کو اِسلام کے مُطابق جانچا جانا چاہیے """،
قطع نظر اِس کے کہ کسی جغرافیائی تقسیم کی بنا پر مختلف علاقوں میں آباد مُسلمانوں کو الگ الگ قوم سمجھنا درست ہے یا غلط ، اِن شاء اللہ اِس کے بارے میں پھر کسی وقت بات کی جا سکتی ہے ، اِس وقت تو میں صرف اِس موضوع پر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کہ مُسلمان کو اپنا کوئی بھی کام اِسلامی حدود اور احکام سے خارج ہو کر کرنا چاہیےیا نہیں؟؟؟
آیے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اور ہمارے محبوب رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کی روشنی میں یہ معاملہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں حق پہچاننے اُسے سمجھنے اُسے ماننے اُسے اپنانے کی ہمت دے، اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ،
أعوذُ باللَّہِ مِن الشَّیطٰنِ الرَّجیمِ و مِن ھَمزہِ و نَفخِہِ ونَفثِہِ
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ::: اور (اے محمد )لوگوں میں ایسے بھی ہیں جِن کی بات آپ کو دُنیا کی زندگی(کے بارے )میں اچھی لگے گی اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ جھگڑے ڈالنے والا ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت204،
آغاز گفتگو میں جِس فلسفے کا ذکر کیا گیا ہے وہ اِس مذکورہ بالا آیت مُبارکہ میں بیان کردہ بظاہر اچھی اور خُوبصُورت لیکن در حقیقت فساد بپا کرنے والی ، اور ھلاک کردینے والی باتوں میں شامل ہوتا ہے ، اِس کے لیے کسی لمبی چوڑی بات کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنے اعمال کو اِسلامی حُدود سےخارج کرنے کے نتائج روزء روشن کی طرح عیاں ہیں ،
ایسی باتیں کرنے والوں سے اللہ تبارک و تعالٰی کے اِس مذکورہ بالا فرمان کی روشنی میں، میں یہ بھی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے اپنے دِلوں کا جائزہ لیں ، کہ جب وہ اپنے یا کسی اور کے کسی کام کو اِسلامی احکام کی کسوٹی پر نہیں پرکھنا چاہتے تو اُس وقت اُن کے دِلوں میں اللہ اور اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حُدود سے خارج ہو کر فساد بپا کرنے کی خواہش ہوتی ہے ، لیکن شیطان اُنہیں اُن کے اپنے ہی دِل کا حال جاننے نہیں دیتا ، اور اُن کا رب جو مہربان ہے وہ اُنہیں اِس کی خبر دے کر اِس کے انجام سے باخبر کرتا ہے تا کہ وہ اُس دردناک انجام سے بچ سکیں ،
کسی بھی کام کواللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کے خلاف کرنے والا خواہ کچھ بھی سمجھتا رہے اور اپنے کام اور اپنے افکار کو خواہ کتنے ہی دلپذیر اِلفاظ میں بیان کرتا رہے،وہ غلطی پر ہی ہوتا ہے، اور فساد کا سبب ہی بنتا ہے،
بظاہر اچھی اور خُوبصُورت نظر آنے والی ایسی باتیں کرنے والوں کے بارے میں اللہ عزّ و جلّ کا فرمان یہ ہے کہ :::
﴿ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ :::اور جب وہ (حق بات سے) منہ ُ پھیر کر چلا جاتا ہے توزمین فساد ڈالنے کی ہی کوشش کرتا ہے اور کھیت اور نسل تباہ کرتا ہے اور اللہ فساد پسند نہیں کرتا﴾سُورت البقرہ(2)/آیت205،
اور حق بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں وہ کچھ بھی جانتا ہے جو مخلوق اپنے ہی بارے میں نہیں جانتی ،
لہذا ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ اپنے اعمال یا عقائد میں سے کسی کو اِسلام کی کسوٹی پر پرکھنے سے مستثنیٰ قرار دینے والے بھائی بہنیں اپنی سوچوں،خیالات و افکار، اور اپنے لیے اختیار کردہ فلسفوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان کے سامنے پیش کریں اور یقین کر لیں کہ اُنہیں اللہ کا ، اللہ کے دِین کا، اللہ کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ، اور اللہ کے دِین کو ماننے والوں کا کھلا دُشمن شیطان ملعُون دھوکہ دے رہا ہے اور خود اُن کے اپنے ہی اندر کا حال جاننے سے روکے ہوئے ہے ،
اب اِس کے بعد دیکھیے کہ وہ لوگ جو نہ صِرف ایسے غیر اِسلامی فلسفوں کو مانتے ہیں ، اور واضح احکام آنے کے باوجود اپنی اِصلاح کی طرف نہیں آتے ، بلکہ اُنہی غیر اِسلامی فلسفوں پر اصرار کرتے ہیں اُن کی حالت بالکل اُسی شخص کی طرح ہے ، جس کی مثال اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان کی کہ صرف اپنی معاشرتی عِزت اور اپنے نام و نمود کی خاطر وہ دُرُست بات کو نہیں مانتا کہ اگر مان لیا تو لوگ کیا کہیں گے ، دیکھیے مذکورہ بالا آیات کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ و َلَبِئْسَ الْمِهَادُ ::: اور جب اُسے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو تو اُس کی (معاشرتی )عِزت اُسے گُناہ کے ساتھ(حق قبول کرنے سے )روک لیتی ہے ، پس اِس (شخص )کے لیے تو جہنم کافی ہے اور جہنم کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ﴾ سُورت البقرہ(2)/آیت206،
اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں میں سے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی جن کا مطمع ء نظر ہمیشہ اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے خواہ اُنہیں اِس کے لیے اپنا آپ ہی قُربان کرنا پڑے ،
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ ::: اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنا آپ ہی اللہ کی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے بیچ دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بہت ہی نرمی کرنے والا ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت207،
بظاہر اچھی اور دل آویز باتیں کرنے والوں کی دِلی حالت اور پھر اِیمان والوں کی اللہ کے لیے تابع فرمانی کا ذِکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اِیمان والوں کو حُکم دیتا ہے ، جی ہاں حُکم دیتا ہے ، اللہ جو اکیلا خالق ہے اور باقی ہر کوئی اُس کی مخلوق ہے ، وہ علیم ، وہ خبیر ، اپنے اِیمان لانے والے بندوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ :::
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ :::اے اِیمان لانے والوپووووووووووووووووورے کے پوووووووووووووووورے اِسلام میں داخل ہو جاؤ ، اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تُم سب کا واضح طور پر کھلا دُشمن ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت208،
اللہ کے واضح احکام اور فرامین سننے کے بعد بھی جو مُسلمان اللہ کی مقرر کردہ راہوں پر ثابت قدمی سے چلنے کی بجائے اُس قِسم کی جہنم تک لے جانے والی سوچ کا شکار رہیں جس کا ذکر آغازء کلام میں کیا گیا ، اور ایسی باتوں اورمختلف فلسفوں کے نشے میں ڈگمگاتا پھرتے ہیں ، اور اپنی زندگی کے کسی بھی معاملے یا کام کو اِسلام کی کسوٹی پر پرکھنا نہ چاہتے ، اور اپنے کسی بھی کام یا کلام کو اِسلامی حدود سے خارج ہو کر کرے اور اپنے کیے ہوئے کو دُرُست بھی سمجھتے ہیں ، پس اپنی اِصلاح نہیں کرتے ،تو پھر اللہ کی طرف سے انہیں یہ دھمکی دی گئی ہے کہ:::
﴿ فَإِن زَلَلْتُمْ مِّن بَعْدِ مَا جَاءتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ::: اور اگر تُم لوگ تُمہارے پاس واضح احکام آنے کے بعد بھی ڈگمگا جاؤ تو پھر جان رکھو کہ اللہ زبردست حِکمت والا ہے﴾سُورت البقرہ(2)/آیت209،
قارئین کرام ، توجہ فرمایے ، کہ ،اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قوت و جبروت کے زبردست ہونے کی یا ددلا رہا ہے ، کیوں ؟؟؟
تا کہ ایسے لوگ سمجھ جائیں کہ اگر ہم پورے کے پورے اِسلام میں داخل نہ ہوئے اور اپنا ہر ہر عقیدہ اور ہر ہر کام اور ہر ہر کلام اِسلام کے مُطابق نہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اپنی زبردست قوت و سِطوت کے ساتھ ہم پر گرفت کرے گا ،
اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اللہ بڑی حِکمت والا ہے اور یہ اُس کی حِکمت میں سے ہے کہ تُم لوگوں کو سمجھاتا ہے اور تُم لوگوں پر گرفت کرنے میں ، تُم لوگوں کا فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، بلکہ مہلت دیتا ہے،اِسی لیے یہ سب کچھ بتانے سمجھانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ بھی سمجھاتا ہے ، یاد کرواتا ہے ،کہ فیصلوں کا وقت آ جانے سے پہلے باز آجاؤ :::
﴿ هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِكَةُ وَقُضِيَ الأَمْرُ وَإِلَى اللّهِ تُرْجَعُ الأمُورُ ::: تو کیا یہ لوگ اِس چیز کا انتطار کر رہے کہ اللہ اور فرشتے اِن لوگوں کے پاس بادلوں کے سائے میں آجائیں اور (اِن لوگوں )کا معاملہ نمٹ جائے اور (یاد رکھو)اللہ ہی کی طرف سارے معاملات پلٹنے ہیں﴾سُورت البقرۃ(2)/آیات204 تا 210،
اِس کے بعد اللہ جلّ جلالہُ کے اِن درج ذیل فرامین مُبارکہ پر بھی غور فرمایا جانا چاہیے :::
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً::: جب اللہ اور اللہ کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اُس فیصلے میں کسی اِیمان والے مرد اور کسی اِیمان والی عورت کے لیے کوئی اختیار نہیں رہتا (کہ وہ اپنی مرضی سے اسے مانیں یا نہ مانیں )اور (یاد رکھو کہ)جِس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا ﴾سُورت الاحزاب(33)/آیت 36،
اِمام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """یہ آیت تمام تر معاملات کے بارے میں عام ہے اور اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کسی چیز کے بارے میں حکم فرما دیں تو کسی کے لیے اُس حُکم کی مخالفت کی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی کسی کے لیے اُس فیصلے میں کوئی اختیار رہتا ہے (یعنی اس پروہ فیصلہ قبول کرنا ہی فرض ہے )اور نہ ہی اُس فیصلے کے بارے میں کوئی اور رائے پیش کرنے ، یا کوئی اور بات کرنے کی کوئی گنجائش رہتی ہے ، جیسا کہ اللہ نےاِرشاد فرمایا ہے ﴿ فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً :::ہر گِز نہیں اور آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اُس وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اُن کے اختلافات میں حاکم نہ مان لیں اور پھر جو فیصلہ آپ کریں اُس فیصلے کے بارے میں اپنی جانوں میں کوئی شک نہ پائیں اور مکمل اطاعت کے ساتھ اپنا آپ حوالے کردیں ﴾(سُورت النساء(4)/آیت 65)
اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ﴿لا یؤمِنُ اَحدُکُم حَتیٰ یِکُونُ ھَواہُ تَبعاً لِمَا جِئتُ بِہِ :::تُم میں سے کوئی اُس وقت تک اِیمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اُسکی خواہشات میری ساتھ آئی ہوئی چیز(یعنی کتاب اللہ اور سُنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کے مُطابق نہ ہو جائیں﴾(اِمام بغوی نے اپنی کتاب '''شرح السُنّۃ''' میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا)،
اور اللہ پاک نے بھی یہ اِرشاد فرما رکھا ہے کہ ﴿وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً:::اور (یاد رکھو کہ)جِس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی وہ یقیناً کھلی گمراہی میں جا پڑا﴾(سُورت الاحزاب(33)/آیت 36)،
اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے یہ بھی بتا دِیا ہے کہ ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ::: پس جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ہوشیار رہیں کہ (اس نافرمانی کی وجہ سے ) کہیں اُنہیں کوئی مصیبت یا دکھ دینے والا عذاب نہ آن پکڑیں﴾سُورت النور(24)/آیت63""""تفیسر القران العظیم المعروف تفیسر ابن کثیر ،
اور امام الطبری رحمہُ اللہ نے اپنی تفیسر """ الجامع البیان لاحکام القران """ میں لکھا :::
""" اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھنے والے مرد اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن لوگوں کے کسی معاملے کے بارے میں کوئی فیصلہ فرما دیں تو وہ لوگ اپنے کسی بھی معاملے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کیے ہوئے فیصلے کے علاوہ کوئی اور چیز اختیار کریں ، اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی، اور اُن کے کیے ہوئے فیصلے کی مخالفت کریں، اور جس کسی نے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کسی کام کرنے یا کسی کام سے باز رہنے کے کسی بھی فیصلے میں اُن کی نافرمانی کی تو ﴿فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً:::یقیناً وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا﴾یعنی اللہ کہتا ہے کہ یقیناً ایسا کرنے والا درست راستے سے ہٹ گیا اور ہدایت اور رُشد کی راہ کے علاوہ کسی اور راہ پر چلا """،
اللہ کرے کہ وہ اپنے اِن فرامین کو اُن مُسلمانوں کی سوچ و فکر کی دُرُستگی کا سبب بنا لے جو اپنے کسی بھی عقیدے ،قول یا عمل کو اِسلام کے مُطابق جانچے جانے سے مُستثنیٰ سمجھتے ہیں ، یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر کام میں اِسلام تو نہیں ہوتا ، یا ، یُوں کہ ، ہر کام اِسلامی نکتہ نظر سے دیکھا جانا تو فی زمانہ ممکن نہیں ، اور اِسی قِسم کی دیگر طرح طرح کی باتیں بنا کر اپنے عقائد ، سوچوں ،عادات ،افعال ، اعمال کو دُرُست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،
جب کہ اصولی بات یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد ، سوچیں ،عادات ،اور اعمال کی بنا پر اِسلامی احکام کو نہیں پرکھا جاتا بلکہ اِسلامی احکام کے مُطابق لوگوں کےعقائد،سوچوں، عادات ، اور اعمال کو پرکھا جاتا ہے ، کیونکہ اِسلام لوگوں کے عقائد ، سوچوں ،عادات ،اور اعمال پر حُجت ہے نہ کہ لوگوں کے عقائد ، سوچیں ،عادات ،اور اعمال اِسلام پر حُجت ۔
اللہ جلّ جلالہُ ہم سب کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم کِسی حیل و حجت ، منطق فلسفے اور تاویل وغیرہ میں گھسے بغیر اُس کی اور اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل تابع فرمانی والی زندگیاں بسر کرتے کرتے اُس کے دربار میں حاضر ہوں ،
و السلام علیکم۔طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 21/06/1431 ہجری ، بمطابق ، 04/06/2010عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث: 06/10/1437 ہجری ، بمطابق ، 10/07/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی کتابی نُسخہ (PDF) : http://bit.ly/29yMAUG
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوتی نُسخہ (آڈیو فائل ۔ MP3) : https://archive.org/details/20200824_20200824_1926
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو ٹیوب (MP4):
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 comments:
سبحان الله
جزاكم اللة خيرا
جزاكم اللة خيرا
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔