xxx کُفار کے ممالک میں رہائش
اختیار کرنا xxx
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ
الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ
اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ
الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ
الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ
بعیدٍ۔
میں شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے
ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار
پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی
پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے
نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے
ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ
اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی
میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
کسی مُسلمان کے کافروں کے ملک
میں جا آباد ہونے کے بارے میں پہلے بھی یہاں پاک نیٹ پر ہی جزوی طور پر گفتگو ہو
چکی ہے ، آج پھراِس ایک سوال سامنے آیا جس
میں ایک بھائی نے کسی کے ایک مراسلے یا مضمون کی تصویر لگائی ہے جس کے آخر میں کسی
حوالے کے بغیر ایک حدیث کا ذکر کیا گیا ہے ،
اور سوال اِسی حدیث کے بارے
میں ہے ، اُس مراسلے میں حدیث کے طور پر لکھا ہے کہ """جس نے معاش
کی خاطر کسی مسلمان ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں سکونت اختیار کی اس کا مجھ پر
کوئی حق نہیں """،
اس حدیث کا کوئی حوالہ نہیں
دیا گیا ، مجھے ایسی کوئی حدیث نہیں مل سکی جو اِن مذکورہ بالا اِلفاظ کی حامل ہو ،
لہذا میں اِس کی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ،
لیکن یہ بات یقینی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مُسلمانوں کو کفار اور مُشرکین کے ساتھ رہنے
سے منع فرمایا ہے اور بہت سختی سے منع فرمایا ہے ، ملاحظہ فرمایے :::
:::::::(1)::::::: جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿ أنا بَرِيءٌ مِن كُلِّ
مُسْلِمٍ يُقِيمُ بين أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ::: میں
ہر اُس مُسلمان سے بری (الذمہ) ہوں جو مُشرکوں کے درمیان مقیم ہوا ﴾،صحابہ
رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی "يا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟:::اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ؟ "،
تو اِرشاد فرمایا ﴿ لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا
:::یہ دونوں
(یعنی مُسلم اور مُشرک )ایک دُوسرے کی آگ بھی نہ دیکھیں﴾
سنن ابو داؤد / کتاب الصوم / باب 105، سنن الترمذی/حدیث 1604 /کتاب السیر /باب 42 ، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ، الارواء
الغلیل /حدیث1207 ،
:::::::(2)::::::: ایک اور روایت جو کہ سنن البھیقی
میں ہے ، اور اُنہی سے إِمام الطبرانی رحمہُ اللہ نے اپنی معجم الکبیر میں بھی نقل
کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ﴿مَن
أقامَ مع المُشرِكِينَ فَقد بَرِئتُ مِنهُ الذِّمة
::: جو
مُشرکوں کے ساتھ مُقیم ہوا یقینا میں اُس سے بری الذمہ ہوں﴾سنن
البیھقی الکبُریٰ /حدیث 17528/ کتاب السیر / باب 17، یہ حدیث بھی صحیح ہے ،دیکھیے، الارواء الغلیل /حدیث 1207 کے ضمن میں ، اور
السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 768 ،
یہ
مذکورہ بالا دو احادیث شریفہ تو کسی مُسلمان
کو کسی کافر کے ساتھ ، اُس کے قریب سکونت اختیار کرنے سے منع کرنے کے ایک عام حکم
لیے ہوئے ہیں ، اِن کے علاوہ ایک اور حدیث شریف یہ بھی واضح کرتی ہے کہ مُشرکین کے
ساتھ اُن کے شہروں میں جا رہنا بھی ناجائز ہی ہے :::
:::::::(3)::::::: ﴿بَرئِتُ
الذَّمةِ مَمَن أقام مَع المُشركينَ في بِلادهِم:::میں اُس سے بری الذمہ ہوں جو مُشرکوں کے ساتھ اُن کے ملکوں
میں مقیم ہوا﴾السلسلۃ
الاحادیث الصحیحہ /حدیث 768، درجہ حدیث حَسن،
اِن مذکورہ
بالااحادیث مُبارکہ پرمعمولی سا غور کرنے والا بھی سمجھ پاتا ہے کہ مُسلمان کا مُشرکوں
کے ساتھ اُن کے درمیان میں مُقیم ہونا کس قدر خطرناک معاملہ ہے خواہ وہ مُسلمانوں کے ملکوں میں ہو
یا کافروں کے ملکوں میں ، کہ اُن کے ساتھ رہنے والے مُسلمان کی آخرت میں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کوئی مدد نہ فرمائیں گے کیونکہ وہ اُس کے اِس عمل کی
وجہ سے پہلے ہی خود کو اُس مُسلمان سے بری الذمہ قرار دے چکے ہیں ،
اِس معاملے کی خوفناکی کو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم نے ایک بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان
فرمایا ، کہ ﴿ لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا :::یہ
دونوں (یعنی مُسلم اور مُشرک )ایک دُوسرے کی آگ بھی نہ دیکھیں﴾،
ذرا غور
کیجیے ، اِس فرمان پر ، اور غور کیجیے ، مگر ، اُس وقت کے عرب معاشرے اور اُس
معاشرے کی عادات کے مُطابق غور کیجیے،
اُس وقت
عربوں میں یہ عادت تھی کہ صحرا نشین لوگ رات کے وقت اپنے خیموں یا اپنی بستیوں سے
کچھ دُور آگ جلا دیا کرتے تھے ، اِس کے دو سبب تھے (1)جانوروں سے محفوظ
رہنا (2)صحرا میں بھولے بھٹکے مسافر کو رات میں کسی
بستی کا پتہ دینا کہ وہ وہاں آکر رات گزار لے ،
اب غور
فرمایے کہ رات میں اگر صحرا میں آگ جل رہی ہو تو کتنی دُور سے دِکھائی دے گی؟؟؟
یقینا کئی میل دُور سے ، اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم یہ مثال دے کر واضح فرما رہے کہ مُسلمان کو مُشرکوں اور کافروں
وغیرہ سے اِس قدر دُور رہنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی آگ بھی نہ دیکھ سکیں ،
اور یہ
معاملہ صِرف ترھیب تک ہی محدود نہیں ، یعنی صِرف ڈرانے کی صُورت میں ہی ممنوع نہیں ، بلکہ اِس سے
کہیں زیادہ ہے،
اِنہی جریر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ :::
"""
ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ
بیعت لے رہے تھے ، میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول اپنا ہاتھ میری طرف کیجیے تا
کہ میں آپ کی بیعت کروں اور جو شرط آپ چاہیں رکھیے کیونکہ آپ( حق کے ساتھ) زیادہ
جانتے ہیں ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
مجھ سے اِرشاد فرمایا ﴿ أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ
وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتُنَاصِحَ الْمُسْلِمِينَ وَتُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ:::میں تمہاری بیعت اِس پر لیتا ہوں کہ
تُم اللہ کی ہی عِبادت کرو گے اور نماز قائم کرو گے اور زکوۃ ادا کرو گے اور مُسلمانوں
کو نصیحت کرو گے اور مُشرکوں سے الگ رہو گے﴾سُنن
النسائی /کتاب البیعۃ /باب17
الْبَيْعَةِ
عَلَى فِرَاقِ الْمُشْرِكِ ، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
جی تو سمجھا آپ محترم قارئین ، کہ ، مُشرکوں سے الگ رہنے کا
حکم دیا گیا ہے ، اور اِس شرط پر بیعت لی گئی ، اور یہ حکم صرف جریر بن عبداللہ
رضی اللہ عنہ ُکے لیے نہیں تھا ، بلکہ تمام مُسلمانوں کے لیے قیامت تک ہے ، جیسا
کہ اِس حدیث سے پہلے بیان کی گئی احادیث میں وضاحت ہو چکی ہے ،
اور اس کے علاوہ کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ ُسے بھی بالکل
ایسی ہی بیعت کا واقعہ اُن کے اپنے بارے میں مروی ہے ، المستدرک الحاکم /کتاب
معرفۃ الصحابہ /باب 199 كعب بن عمرو أبو اليسر الأنصاري رضي الله عنه ،
اب جو مُسلمان
بغیر کسی شرعی عذر کے کافروں کے ہاں جا کر رہتے ہیں ، اور صِرف آباد ہی نہیں ہوتے
وہاں مُستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں ، اُن کا ھدف کوئی وقتی ھدف نہیں ہوتا ،
بلکہ وہ نسل در نسل وہاں کے باسی بننے کے لیے وہاں آباد ہوتے ہیں ، وہ لوگ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن مذکورہ بالا احکام کی نافرمانی کا شکار
ہوتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن سے بری الذمہ ہیں ،
یہاں ایک
بات کا بیان ضروری ہے کہ ،
کفار کے ملکوں ، یا کفار کے علاقوں میں وقتی طور پر ، کوئی مخصوص ھدف لے کر ، اُس
کی تکمیل کے لیے جانے ، اور تکمیل تک وہاں رہنے کے جائز اسباب میں تجارت ، علاج ، اچھا
مثبت عِلم جو مُسلمانوں کے لیے فائدہ مند
ہو اُس کا حصول ، اور تبلیغ اِسلام کے لیے جانا ہے ،
اور پھر تبلیغ کے بارے میں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ
تبلیغ دو طرح سے ہے :::
(1) سفارتی ذرائع سے (2) جہادی ذرائع سے ،
اور اِن تمام
اسباب میں کسی مُسلمان کا ، کافروں مُشرکوں کے ہاں مقیم ہونا ، رہائش ، سکونت
وغیرہ اختیار کرنا نہیں ہوتا ، بلکہ وہ ایک طے شدہ ھدف کے حصول کے لیے ایک سوچے سمجھے
وقت کے لیے وہ وہاں جاتا ہے اور ھدف مکمل
کر لینے پر یا مدت پوری ہوجانے پر فورا واپس ہوتا ہے ،
چونکہ تجارت بھی حصول معاش کا ایک ذریعہ ہے ، لہذا
تجارت کے ضمن میں ، تجارت کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے ہم حصول معاش کے دوسرے ذرائع
کو بھی لے سکتے ہیں،
پس ایسے کسی ذریعے کو اِسی طرح اختیار کیا جانا
چاہے جس طرح تجارتی سفر ہوتا ہے ، اور کفار کے ملکوں یا علاقوں میں کسی طور مُستقل
سکونت اختیار نہیں کی جانی چاہیے ،
ہو سکتا
ہے کسی ذہن میں یہ سوال آئے کہ حصول رزق کی کوشش میں جا کر آباد ہونا تو پڑتا ہی
ہے ، تو گذارش یہ ہے کہ جانے والے کو اپنی نیت کا خوب اندازہ ہوتا ہے ، کہ وہ حصول
رزق میں ایک مخصوص حد مقرر کر کے ، ایک ھدف لے کر کافروں یا مُشرکوں کے کسی ملک
میں جا رہا ہے یا حصولء رزق کے نام پر وہاں مُستقل آباد ہونے جا رہا ہے،
بالکل
یہی معاملہ دِین کی تبلیغ کے بارے میں بھی ہے، اب اگر کوئی داعی کافروں یا مُشرکوں
کے کسی مُلک میں یہ ھدف لے کر جائے کہ وہ اُس ملک کے سب لوگوں کے مُسلمان ہونے تک
، یا سب تک دِین اِسلام کے سارے معاملات پہنچانے تک وہاں رہے گا تو گویا وہ اپنے
آپ کو خوش فہمی میں مُبتلا کر کے ایسی راہ اپنا رہا ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے مذکورہ بالا فرامین کی نافرمانی والی ہے،
کچھ لوگ
تبلیغ کے لیے کافروں یا مُشرکوں کے ملکوں میں تنخواہ پر جاتے ہیں ، اور پھر اُن کی
کوشش یہی رہتی ہے کہ وہاں سے اُن کی واپسی نہ ہی ہو ، جِس کا بنیادی سبب وہ آمدن
ہوتی ہے جو دِین کی تبلیغ کے نام پر اُنہیں ہو رہی ہوتی ہے، یہ تو اللہ ہی جانتا
ہے کہ اُن لوگوں کا تبلیغ کرنا اللہ کے دِین کی خدمت ہوتی ہے یا دُنیا کمانے کا
ذریعہ ، بہرحال جو بھی صُورت ہو، کافروں یا مُشرکوں کے کسی مُلک میں مُستقل جا
بسنے کا جواز نہیں بنتا ،
ہمارے کچھ بھائی ، جو دعوت و تبلیغ سے منسلک ہیں ، پیشہ وارانہ
طور پر ، یا رضا کارانہ طور پر ، وہ کافروں کے ملکوں میں جا بسنے کی گنجائش نکالنے
کی کوشش میں شیخ الاِسلام إِمام احمد ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کا ایک قول ذِکر کرتے
ہیں کہ"" فَقَدْ
يَكُونُ مُقَامُ الرَّجُلِ فِي أَرْضِ الْكُفْرِ وَالْفُسُوقِ مِنْ أَنْوَاعِ
الْبِدَعِ وَالْفُجُورِ أَفْضَلَ: إذَا كَانَ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
بِيَدِهِ أَوْ لِسَانِهِ آمِرًا بِالْمَعْرُوفِ نَاهِيًا عَنْ الْمُنْكَرِ
بِحَيْثُ لَوْ انْتَقَلَ عَنْهَا إلَى أَرْضِ الْإِيمَانِ وَالطَّاعَةِ لَقَلَّتْ
حَسَنَاتُهُ وَلَمْ يَكُنْ فِيهَا مُجَاهِدًا وَإِنْ كَانَ أَرْوَحَ قَلْبًا:::کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی شخص
کا کفر اور گناہوں والی جگہ پر رہنا جہا ں طرح طرح کی بدعات اور گناہ ہوتے ہوں، (وہاں
رہنا)افضل ہو، بشرطیکہ وہ شخص اپنے ہاتھ اور ز ُبان سے جہاد کرنے والا ہو، نیکی کا
حکم دینے والا ہو، اور گناہوں سے منع کرنے والا ہو، کیونکہ اگر وہ ایسی جگہ سے
منتقل ہو کر ، کسی اِیمان اور (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی)تابع فرمانی (کرنے والوں کی) جگہ پر آ جائےاور وہاں وہ مجاھد نہ رہے تو اُس شخص کی نیکیوں میں کمی ہو جائے گی،خواہ اِس
جگہ میں رہنا دِل کے لیے زیادہ باعث سُکون ہو"""
ہمارے وہ داعی بھائی یہاں تک بات کی تو
نقل کرتے ہیں ، لیکن اِس کے بعد شیخ الاِسلام رحمہُ اللہ نے کیا کہا وہ ذِکر نہیں
کرتے ہیں ، اِس مذکورہ بالا بات کے فوراً ہی بعد شیخ الاِسلام رحمہُ اللہ نے کہا
""" وَكَذَلِكَ
إذَا عَدِمَ الْخَيْرَ الَّذِي كَانَ يَفْعَلُهُ فِي أَمَاكِنِ الْفُجُورِ
وَالْبِدَعِ:::اور اِسی
طرح (وہ شخص )گناہوں اوربدعات والی جگہ میں جو(امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کر
کے )نیکیاںکیا کرتا تھا اُن بھی کمی ہو جائے گی ، اگر اُس جگہ میں خیر (یعنی اُس
کی دعوت کو قُبول کیا جانا)ختم ہو جائے """،
اور پھر اِسی موضوع کو جاری رکھتے ہوئے ،
جہاد کی کچھ فضیلت بیان کرنے کے بعد، اور کفر ، فسق و فجوراور بدعات والے مقام میں دِین پر قائم رہنے والی مُشقت،
اور اُس کے افضل ہونے کا ذِکر کرنے کے بعد
شیخ الاِسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ نے کہا
""" وَأَمَّا إذَا
كَانَ دِينُهُ هُنَاكَ أَنْقَصَ فَالِانْتِقَالُ أَفْضَلُ لَهُ وَهَذَا حَالُ
غَالِبِ الْخَلْقِ؛ فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يُدَافِعُونَ؛ بَلْ يَكُونُونَ عَلَى
دِينِ الْجُمْهُورِ:::اور
اگر اُس شخص کا دِین وہاں رہنے کی وجہ سے کمزور ہونے لگے تو اُس کے لیے( اُس جگہ
سے )منتقل ہونا افضل ہے، اور مخلوق کی اکثریت کا یہی حال ہے کہ( کفر ، فسق و فجور،
اور بدعات والی جگہ میں رہنے کی صُورت میں اُن کا دِین کمزور ہو جاتا ہے، اور)وہ
مزاحمت نہیں کر پاتے، بلکہ (اُس جگہ کی)اکثریت کے دِین پر ہو جاتے ہیں"""مجموع الفتاویٰ /جلد 27،صفحہ39تا41(المکتبۃ الشاملۃ )،
محترم قارئین ، یہ بات اُس وقت بھی معروف
تھی ، اور آج بھی ہم سب ہی کےمُشاہدے میں ہے کافروں اور مُشرکوں کے ملکوں میں جا
بسنے والے کس قِسم کے مُسلمان ہو جاتے ہیں ، کون ہوتا ہے جو گناہوں ، بدعات ، فسق
و فجور والے مقامات پر جا کر ہاتھ یا ز ُبان سے جہاد کرتا ہے؟؟؟ امر بالمعروف کرتا
ہے؟؟؟ نہی عن المنکر کرتا ہے ؟؟؟
اپنے اپنے مقرر کردہ مراکز، مجلسوں ، اور
نشستوں میں ، سامعین کے مزاج کے مطابق ، تنخواہ اور چندے دینے والوں کے مزاج کے
مطابق دِین اِسلام کی ایسی باتیں بیان کر نا جن پر کسی کافر کے ماتھے پر بل نہ
پڑیں کچھ اور ہے اور شیخ الاِسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کا بیان کردہ ہاتھ اور ز
ُبان سے جہاد کرنا ، گناہوں ، فسق و فجور اور بدعات والے مقامات پر جا کر امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا کچھ اور ،
قران کریم کی تعلیم دے کر پیسے کمانا کچھ
اور ہے ، اور شیخ الاِسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کا بیان کردہ ہاتھ اور ز ُبان سے
جہاد کرنا ، گناہوں ، فسق و فجور اور بدعات والے مقامات پر جا کر امر بالمعروف اور
نہی عن المنکر کرنا کچھ اور ،
کافروں کے ملکوں میں تو کیا ، اب یہ کام
تو مُسلمانوں کے ملکوں میں بھی ہوتے دِکھائی نہیں دیتے ، و اِنا للہ و اِنا إِلیہ
راجعون،
پس ، اگر
ہمارے داعی اور تبلیغی بھائیوں میں سے کوئی دعوت و تبلیغ کے لیے کافروں کے ملکوں میں
جاتا ہے تو بھی اُس کے لیے وہاں رہنے کا جواز اُسی وقت تک ہے جب تک وہ تبلیغ کا حق ادا کرتا ہے، اور اُس کے دِین میں
کوئی کمزوری یا نُقص واقع نہیں ہوتا ،
اب ہم ،
اِس معاملے کو ، یعنی کفار اور مشرکین سے مفارقت کرنے کے حکم کی نافرمانی کو ایک
اور زوایے سے دیکھتے ہیں،
کیا آپ
میرے ساتھ اِس بات پر اتفاق نہیں کریں گے کہ اب تو یہ نا فرمانی اِس طرح بھی ہو رہی ہے کہ تقریباً
ہر مُسلمان کے گھر میں کفار آباد ہیں ، کہ ، اُن کی عادات مُسلمانوں میں مروج ہو
کر محبوب ہوتی جا رہی ہیں ،اِسلامی احکام ،عادات اور شعار کی بجائے معاشرتی
معاملات کو کافروں کی عادات اور معاذ اللہ ، بسا اوقات اُن کے عقائد کے مُطابق
نمٹایا جاتا ہے،
اِس کا
سبب وہی ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا ،
کافروں اور مُشرکوں کےساتھ رہنا ، اُن کی صُحبت اختیار کرنا، موجود دَور کے ذرائع
روابط نے اِس صُحبت کے جغرافیائی حُدود کو ختم کر دِیا ہے ، پس کافر معاشرے کا وہ زہر جس سے بچنے کے لیے مُسلمانوں
کو اُس معاشرے سے دُور ہی دُور رہنے کا حکم دِیا گیا وہ زہر طرح طرح کے وسائل سے
ہماری رگوں میں داخل کیا جا رہا ہے ،
پس ہمارے
لیے ، اور ہماری آنے والے نسلوں کے لیے اپنے اِیمان ، معاش، اور معاشرت کو اُس زہر
سے بچانے کا یہ ہی طریقہ ہے کہ ہم ، اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے اِن مذکورہ بالا فرامین شریفہ پر ہر پہلو سے عمل کریں ، اور مختلف قِسم کی
تاویلوں ، فلسفوں ، منطقوں اور آراء افشائی سے باز رہیں ،
اللہ
تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر ضِد ، تعصب ، انائیت، منفی افکار، اور گمراہی سے
بچنے کی ہمت دے ۔
والسلام علیکم ،طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 27/08/1429 ہجری ، بمطابق ، 28/08/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید : 21/02/1436 ہجری ، بمطابق ، 13/12/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔