Thursday, January 19, 2017

::: قناعت ، نفس کی راحت کی راہ :::


::::::: قناعت ، نفس کی راحت کی راہ  :::::::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
"""قناعت""" کا  اِسلامی مفہوم اللہ کی عطاء پر راضی رہنا ہے ، خواہ وہ مادی طور پر بہت ہی کم ہو ، اور دُوسروں کے مال و متاع پر نظر نہ کرنا ہے ، خواہ وہ مادی طور پر بہت ہی زیادہ ہو ،
""" قناعت """ اِیمان کی سچائی کی علامات میں سے ایک ہے ، اِس کی خبر ہمیں صادق المصدوق محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمائی ہے کہ ﴿قد أَفْلَحَ مَن أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ الله بِمَا آتَاهُ :::یقیناً وہ کامیاب ہو گیا جس نےخود کو اللہ کے حوالے کر دیا ،اور اُسے(صِرف) ضروریات پوری کرنے والا رزق دِیا گیا اور جو کچھ اللہ نے اُسے دیا اُس دِیے ہوئے پر اُسے راضی بھی کر دیاصحیح مُسلم /حدیث1055/کتاب الزکاۃ/باب44،
اللہ کے بعد سب سے بلند رُتبے والی ہستی اللہ کے رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قناعت دیکھیے کہ اُن کی زندگی مُبارک میں تونگری اور عیش و آرام نظر نہیں آتا ، لیکن ساری ہی سیرتء مُبارکہ میں  کہیں ایک ادنیٰ سا اِشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں اللہ کی عطاء پر رضامند نہ  ہونے کا شائبہ تک بھی ہو ،
اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ اُنہوں نے زندگی کی سہولت کے لیے ، آرام و راحت کے لیے کسی سے کسی چیز کا مُطالبہ کیا ہو،  
اور نہ ہی کبھی  کِسی کے مال کے بارے میں خبر حاصل کرنے کی کوشش فرمائی ،
أُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا  کے مال سے تجارت فرمائی تو اللہ نے بہت نفع عطاءفرمایا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس مال کی طرف بھی کبھی رغبت نہیں فرمائی ،
اُنہیں مال غنیمت کے خزانے ملتے تو وہ سب کا سب مال مُسلمانوں میں تقسیم فرما دیتے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے گھروں میں کھانے پینے کا مُعاملہ بالکل زندہ رہنے کی ضروریات کی حد تک ہی رہتا تھا ،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ  کا کہنا ہے کہ ﴿ وَالَّذِى نَفْسُ أَبِى هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ مَا شَبِعَ نَبِىُّ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَهْلُهُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ حِنْطَةٍ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا::اُس کی قسم جِس کے ہاتھ میں ابو ہُریرہ کی جان ہے ، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے دُنیا چھوڑنے تک  اُنہوں نے اور اُن(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کے گھر والوں نے کبھی مسلسل تین دِن تک گندُم کی روٹی نہیں کھائی  صحیح مُسلم/حدیث2970 /کتاب الزھد و الرقاق/باب 1، صحیح البخاری /حدیث5100 /کتاب الاطعمہ/باب22 ، و اللفظ للمُسلم ،
اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بتانا ہے کہ ﴿مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ المَدِينَةَ، مِنْ طَعَامِ البُرِّ ثَلاَثَ لَيَالٍ تِبَاعًا، حَتَّى قُبِضَ ::: جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی وسلم مدینہ تشریف لائے اُن کے گھر والوں نے کبھی تین رات مُسلسل گندم نہیں کھائی، یہاں تک کہ رسول اللہ کو قبض کر لیا گیا(یعنی اُن پر موت طاری کر دی گئی ) صحیح البخاری /حدیث5100 /کتاب الاطعمہ/باب22 ،صحیح مُسلم/حدیث2970 /کتاب الزھد و الرقاق/باب 1، ***1***
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  خُشک پتوں سے بنی ہوئی سخت کُھردری چٹائی پر سوتے ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کےمُقدس اور پاک جسم شریف پر چٹائی کی بُنائی کے نِشان پڑ جاتے ،
ایک دفعہ  صحابہ رضی اللہ عنہم  نے یہ نِشان دیکھے  تو تڑپ اُٹھے اور اِرداہ کیا کہ رسول اللہ صلی علیہ  وعلی آلہ وسلم کے لیے کوئی نرم و ملائم بچھونا تیار کر دیں،  جس پر وہ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف فرما ہوں اور آرام فرما ہوں ،
لہذا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض کی کہ """ ہم آپ کے لیے کچھ آرام دہ بچھونا بنانا چاہتے ہیں """،
 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿مَا لِي وَلِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا:::میرا اور دُنیا کا کیا واسطہ ، میں تو دُنیا میں ایک مُسافر کی طرح ہوں جو کِسی درخت کے نیچے سایہ اختیار کرتا ہےا ور پھر اُسے چھوڑ کر چلا جاتا ہےصحیح ابن حبان /حدیث ، صحیح الترغیب و الترھیب ،
یہ ہے """ قناعت """ کہ سب کچھ مل سکنے کے باوجود جو کچھ اللہ نے دِیا ہو اس پر راضی رہنا اور  دُنیا کی راحتوں اور اس کے مال و متاع کی کثرت کی طرف راغب نہ ہونا ،
 ایک اچھے مُسلمان اور اِیمان والے کی شخصیت میں اپنے  محبوب رسول کریم  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ِاس تعلیم اور سُنّتءِ مبارکہ کے مُطابق یہ """قناعت """ہونا ہی چاہیے ،
یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اِس کا مُعاملہ صرف دُنیاوی راحتوں اور دُنیاوی مُعاملات کے لیے ہے ، دِینی مُعاملات اور دِین کی خدمت اور سر بلندی کے لیے ، خیر اور نیکی کے کاموں کے لیے دُنیاوی مال و اغراض کے حصول کی کوشش قناعت کے خلاف نہیں ، اور اللہ دِلوں کے احوال خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون، کِس لیے ،کیا کر رہا ہے ؟
پس نیک نیتی سے دِین کے کاموں میں ، اُن کاموں کی تکمیل کے لیے دُنیاوی اسباب کی کثرت کے لیے کام کرنا """ قناعت """ کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا ،
لیکن ، ،، اِس کا یہ مطلب بھی ہر گِز نہیں کہ لوگوں پر جبر کیا جائے، کوئی  خاص رقم  بطور  چندہ ، یا ، رکنیت وغیر ہ اُن پر عائد کر دی جائے ، اور وہ لوگ ایسی کوئی رقم دینے کے لیے دِل سے راضی نہ ہوں ، فقط معاشرے میں بے عزتی سے بچنے کے لیے ، یا دِکھاوے کے لیے ، یا نام نہاد اِسلامی جماعتوں کے نظم سے جڑے ہونے کی وجہ سے وہ مال دے رہے ہوں ،
ایسا مال ،عطیات ، چندے ، وغیرہ دینے والے کے لیے  آخرت میں  کِسی فائدے کا سبب نہ ہوں گے ،
اللہ عزّ و جلّ کا فرمان ہے ﴿  لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا  ::: لوگوں کی آپسی سرگوشیوں میں (عموماً) کوئی بھلائی نہیں ہوتی سوائے (اِس کے کہ ، کوئی )صدقہ کرنے ،یا، خیر کا کوئی کام کرنے ، یا ، لوگوں میں درمیان اصلاح کرنے کے لیے اِس طرح سرگوشی میں بات کرے ، اور جو کوئی اللہ کی رضا پانے کی نیت سے ایسا کرے تو جلد ہی ہم اُسے بہت بڑا اجر (ثواب) عطاء فرمائیں گے ہے سُورت النساء (4)/ آیت 114،
یعنی ، اگر نیت اللہ کی رضا نہیں ، تو کِسی نیک کام کا کوئی اجر ملنے والا نہیں ، اِسی معاملے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی بیان فرمایا ہے ،  ﴿ الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ،وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا،أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا،فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ::: عملوں (کے نتیجے )کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ )ہے جس کی اُس نے نیت کی ، لہذا جِس کی ہجرت اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہے ، تو اُس کی ہجرت اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہی ہے ،اور جس کی ہجرت دُنیا کمانے کے  لیے ہے ، یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہے ، تو اُس کی ہجرت اُسی طرف ہے جس کی طرف اُس نے ہجرت کیصحیح البخاری/حدیث54/کتاب الاِیمان/باب41،
اس حدیث شریف کا ذِکر آیا ہے تو ، اِس پر منکران حدیث کی طرف سے کیے گئے کچھ اعتراضات کا جواب جاننے کے لیے ، اور اِس حدیث شریف کی شرح جاننے کے لیے درج ذیل ربط کے مطالعے کا مشورہ بھی پیش کرتا چلوں :
::: صحیح بخاری کی پہلی حدیث پر، اور کتاب الحیل کی روایات پر اعتراضات کا جائزہ و جواب :::
اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے ، کہتا ہوں کہ ، جو  لوگ ، دُوسروں سے زبردستی چندے ، رکنیت ، ماہانے وغیرہ لیتے ہیں ، یا اُنہیں غیر مصدقہ باتیں سُنا کر، غلط افکار کا شِکار بنا کر اُن سے  دِین کے  کاموں کے لیے پیسے بٹورتے ہیں ،  اُنہیں بھی اچھی طرح سے سوچ لینا چاہیے کہ ایسے زبردستی کے، اور غلط  غیر مصدقہ ، یا بالفاظ دیگر ، جھوٹی  خبروں اور باتوں کے ذریعے لیے گئے  مال سے کیے ہوئے نیک کام  اللہ کے ہاں کِس قدر مقبول  ہو سکتے ہیں ؟؟؟
  ::::: قناعت کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿لَيسَ الْغِنَى عَن كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ::: مال و متاع کی کثرت غنی   ٰ  نہیں ہوتی لیکن غنی   ٰ تو  نفس کا غنی   ٰ ہوتا ہے متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث 6081/کتاب الرقاق/باب15،صحیح مُسلم/کتاب الزکاۃ/حدیث1051/باب40،
قربان جاؤں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر، کتنی بڑی حقیقت ہمیں سکھائی ہے ، کہ اصل حقیقی  امیری  اور تونگری ، مال و دولت کی کثرت نہیں ہوتی، جیسا کہ ہم اپنے اِرد گِرد ایسے کئی مال دار دیکھتے ہیں جن کے  پاس مال و متاع کے انبار ہی انبار ہیں ، لیکن دِل بھوکے اور لالچ سے بھرے ہیں  کہ ہمیشہ مالءِ مزید کے لیے تڑپتے رہتے ہیں اور کچھ خرچ کرتے ہوئے اُن پر گویا نزع کا عالم طاری ہوجاتا ہے،  
حقیقی امیر اور  تونگر تو وہ ہوتا ہے   جِس کا نفس ، غنی ہو جائے کہ اُس کے دِل میں مال و متاع کا کوئی لالچ نہیں ہوتا،  اُسے کِسی تنگی کا غم نہیں ہوتا، جو کچھ اُس کے رب نے اُسے عطاء کیا ہوتا ہے وہ اُس پر راضی ہوتا ہے ، جو کچھ بھی اُس کے پاس ہو اُسے نیکی اور بھلائی کے لیےخرچ کرنے میں اُسے کوئی تردد نہیں ہوتا ۔  
::::: قناعت عِزت اور آزادیء نفس ہے :::::
قناعت  اُن عظیم صِفات میں سے ہے کہ  اللہ تعالٰی جسے عطاء فرما دے ، اُس کے لیے دِین ، دُنیا اور آخرت میں  دِلی، ذہنی اور رُوحانی آزادی ، سُکون اور عِزت کا سبب ہو جاتی ہے ،
دُنیاوی زندگی میں ، کے کِسی بھی شعبے میں  دُوسرے لوگ اُسے ورغلا نہیں سکتے ،
کیونکہ اُس شخص کو دُنیا کے مُعاملات کا لالچ ہی نہیں ہوتا اور جو کچھ اُسے اللہ کی طرف سے ملتا ہے اس پر راضی رہتا ہے لہذا دُنیا والے اُسے ورغلانے پُھسلانے کا کوئی راستہ نہیں پاتے ، جبکہ قناعت سے عاری لوگوں کو دُنیا کا لالچ  گھیرے رکھتا ہے، کِسی کو مال کا ، کِسی کو نام و شہرت کا، کِسی کو جاہ و رُتبے کا، اور کِسی کو شہوانی خواہشات کی تکمیل کا، اور کِسی کو کئی ایک لالچ بیک وقت پھانسے ہوتے ہیں ،  اور دُنیا  ، مال و حوص کے بندگی کرنے والے لوگ اِنہی مختلف قِسم کے لالچوں کے ذریعے  اُن لوگوں کو اِستعمال کرتے رہتے ہیں ، جِن کے دِل قناعت والے نہیں ہوتے ، اپنے اللہ کی عطاء پر راضی نہیں ہوتے ،
أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ  کے بارے میں  روایت کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اِرشاد فرمایا کہ """ لالچ ہمیشہ مُسلط  رہنے والی غُلامی کا سبب ہے """،
اہل عِلم و فضل کے حکیمانہ اقوال میں سے ہے کہ """جو اپنی زندگی کے دِن آزادی سے گذارنا چاہے وہ اپنے دِل میں دُنیا کے کِسی لالچ کو داخل نہ ہونے دے """
اور کہا گیا ہے کہ """ غُلام تین طرح کے ہوتے ہیں ، زر خرید غُلام ، اپنی شھوت کا غُلام اور لالچ کا غُلام"""
تو قناعت نفس کی آزادی ، عِزت اور راحت و سُکون کی راہ ہے ، قانع یعنی قناعت اختیار کرنے والا مُسلمان نفسی طور پر أمن ، راحت اور اطمینان کی حالت میں رہتا ہے ، اور دُنیا کے لالچ میں رہنے والا ہمیشہ دُنیا کے حصول کی کوششوں میں ہی غرق رہتا ہے اُس کےنفس  کو سُکون و راحت سے کچھ مَیل نہیں ہوتا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے کہ ﴿  إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي، أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى، وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ، مَلَأْتُ یَدَیكَ شُغْلًا، وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ ::: اللہ کہتا ہے :اے آدم کی اولاد ، میری عِبادت کے لیے فراغت حاصل کیا کرو میں  تمہارے سینے کو غِنی   ٰ سے بھر دُوں گا اورتمہاری غربت دُور کر وں گا، اور اگر تُم ایسا نہیں کرو گے تو میں تمہارے دونوں ہاتھوں کو مشغول کردوں گا اور تمہاری غُربت دُور نہ کروں گا سنن الترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مُسند احمد ، وغیرھم ، السلسہ الصحیحہ /حدیث 1359 ،
حکماء کا کہنا ہے کہ """دُنیا کا سُرُور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں رِزق کیا گیا ُاس پر قناعت کرو ، اور دُنیا کا غم یہ ہے کہ جوکچھ تمہیں رِزق نہیں کیا گیا اُس کا غم کرو """،
اگر یہ  مذکورہ بالا صحیح حدیث شریف کسی کو خلافء واقع محسوس ہو، اور وہ اِس حدیث کی صحت یا اِس میں بیان کردہ خبر کے بارے میں کوئی اعتراض وارد کرنا چاہے تو اُسے چاہیے کہ پہلے وہ قناعت کے ساتھ ساتھ تونگری ، غِنیٰ ، اور غربت کے اِسلامی مفاہیم کا علم ضرور حاصل کرے،   اور اِس کے لیے اِن شاء اللہ درج ذیل مضمون کا مطالعہ اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا :
:::اللہ کی عطاء پر راضی ہونا ہی اصل تونگری(غِناءَ)، اورحقیقی سُکون ہے:::
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمت دے کہ ہم اُس کے  قناعت اختیار کرنے والے بندوں میں سے بن جائیں۔
والسلام علیکم ، طلب گارء دُعاء ، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت  : 16/11/1437 ہجری، بمُطابق،   19/08/2016عیسوئی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***1*** [[[ ::: مُلاحظہ   :::  یہ حدیث شریف  بھی لفظ  """آل """ کا دُرُست ترین مفہوم بتانے والی نصوص میں   سے ہے کہ  کِسی شخص کی"""آل """ میں سب سے پہلے اُس کی بیوی آتی ہے، کچھ ایسا ہی مُعاملہ """اھل  بیت """ کا بھی ہے ، کہ اُن میں بھی سب سے پہلے کِسی شخص کی  بیوی ہوتی ہے، پھر اُس کے گھر میں ، اُس کی ذمہ داری اور کفالت میں رہنے والے اُس کے بچے، رہا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اھل بیت میں علی، فاطمہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین کا شامل ہونا تو یہ ایک استثنائی معاملہ ہے ، جِس کی دلیل حدیث ء رداء (حدیث المباھلہ) ہے، لیکن یہ  خصوصیت صرف اُنہی چاروں  تک محدود ہے ، بعد میں آنے والوں کے لیے نہیں ، خواہ وہ نسلی طور  پر علی رضی اللہ عنہ ُ کی اولاد میں سے ہی ہوں  ]]]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔