Saturday, May 13, 2017

::: اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی خِلافت قائم ہونے کے أسباب :::

::: اللہ  تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ  کی خِلافت قائم ہونے کے اسباب  :::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب ہی  کچھ واضح فرما دِیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے اِرداہ فرمایا، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  ادا فرما دی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے کہ(((وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الأَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضَی لَہُم وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعدِ خَوفِہِم أَمناً یَعبُدُونَنِی لَا یُشرِکُونَ بِی شَیأاً وَمَن کَفَرَ بَعدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ھُمُ الفَاسِقُونَ ::: اللہ اِیمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ اُنہیں ضرور زمین میں خلافت عطاء فرمائے گا جِس طرح اُن سے پہلے (اِیمان لانے)والوں کو عطاء فرمائی اور یقینا اللہ نے اُنکے لیے جو دِین پسند فرمایا ہے وہ اُنکے لیے مضبوطی سے قائم فرما دے گا اور یقینا اُنکے خوف کو امن میں بدل دے گا (اور یہ سب حاصل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ سب)میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اس (واضح بیان اور یقینی وعدے )کے بعد (بھی)جو کوئی انکار کرے گا تو وہ ہی لوگ فاسق ہیں))) سورت النور(24)/آیت 55 ،

اِس آیت شریفہ میں اللہ عزّ و جلّ نے ہمیں یہ سِکھایا ہے ، سمجھایا ہے کہ اللہ عزّ و جلّ پر اُس کی رضا مطابق اِیمان لانا اور اُسی کےہاں صالح مانے جانے والے اعمال ادا کرنا ہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ ہمیں اِ س زمین پر اُس کی خِلافت عطاء فرمائے گا ، اِس راستے کے عِلاوہ کوئی اور راستہ سوائے وقت اور دیگر وسائل  کے ضیاع  کے اور کچھ نہیں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے ہاں مطلوب ، اور اُس کی رضا والا اِیمان رکھنے  کے لیے ، اور اُسی کے مُطابق عمل کرنے کے لیے یقیناً ، سب سے پہلے ہمیں اللہ کے دِین کو اُسی طرح سیکھنا ہو گا جِس طرح کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ دِین اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرمایا ،اور اُسی طرح اپنے دیگر مُسلمان بھائی بہنوں کو سِکھانا ہو گا ،  نہ کہ اپنی ذاتی آراء پر مبنی تفسیروں اور آراء کے مُطابق ، اور  پھر اللہ جلّ جلالہُ و تقدس أسماوہُ ، اور خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات کے مُطابق عمل کرنا ہو گا ، تو اللہ القادر القدیر ہمیں اِس زمین پر اُس کی خِلافت عطاء فرمائے گا ، اِس کے اسباب بھی وہی مہیا فرمائے گا ، اور مسخر فرمائے گا ، جیسے کہ ہم سے پہلے والوں کو عطاء فرمائے ، جنہوں نے کوئی جماعتیں ، کوئی تنظمیں ، کوئی تحریکیں ایجاد نہیں کِیں ، اللہ  تعالیٰ پر اُس کے ہاں مطلوب و مقصود کے مُطابق اِیمان لائے اور اُس کے مُطابق عمل کیے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے اسباب مہیا فرما دیے ، جماعت بازیوں ، گروہ بندیوں ، اور تحریکیوں کے بغیر ایسی حرکت با برکت عطاء فرمائی کہ اُنہیں اِس زمین پر خلافت عطاء فرما دی ،
اور جب   لوگ اِیمان و عمل کے مطلوبہ معیار کو چھوڑ گئے ، اپنی اپنی سوچوں اور آراء کو  پکڑ لیا ، جماعتوں  اور گروہوں بٹ گئے تو وہ سب کچھ اُن سے واپس لے لیا گیا ،  
 اگر ہم  اِس زمین پر اللہ کی خِلافت پانا چاہتے ہیں ، اور اُس کے اُس دِین کی تمکین چاہتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پسند فرمایا ہے ، نہ کہ اُس دِین کی  جِسے ہم نے اپنی سوچوں ، فِکروں ، فلسفوں اور منطقوں  وغیرہ سے اِیجاد کیا ہے ،  اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے خوف کو امن سے بدل دے ، تو اُس کے اسباب اللہ تعالیٰ نے یہی مقرر فرمائے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اُس کے ہاں مطلوب و مقبول معیار کا اِیمان  رکھیں ، اور اُس کے مُطابق عمل کریں ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کِسی کو شریک نہ بنائیں ،  اگر ہم یہ اسباب اختیار نہیں کریں گے ، اور اپنی اپنی  آراء ، سوچوں ، افکار ، فلسفوں وغیرہ کی بِناء پر  کوئی بھی اور سبب اور ذریعے  اختیار کر کے  اللہ کی زمین پر اُس کی خِلافت پانا چاہیں گے ، امن و سلامتی پانا چاہیں گے ، تو ایسا نہ آج تک ہوا ہے ، اور نہ ہونے والا ہے ،
پس اصل اصول ، اور حقیقی سبب یہ ہی ہے کہ اللہ  تعالیٰ کی رضا کے مُطابق ، اللہ پاک  کے دِین کو  کسی سمجھوتے کے بغیر اِیمان بنایا جائے اور سارے ہی اعمال توحید ءخالص  پر مبنی اُسی دِین  کے تقاضے پورے کرنے کے لیے رَوا رکھے جائیں ،
اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ اِس راہ پر چلنے سے ہی ہمارے ملکی اور بین الاقوامی تمام تر معاملات کا با عزت اور دیرپا حل میسر ہو سکتا ہے ،
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی ملک  یا قوم پر حاوی بد دیانت ، چور لٹیرے قِسم کے حکمرانوں اور راہنماؤں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کسی قِسم کی کوئی تحریک محض ایک وقتی حل ہوتا ہے ، جب تک کسی خاص عقیدے کے مُطابق ذہن سازی کر کے اپنے راہنماؤں اور حکمرانوں کو تبدیل نہیں کیا جاتا ، کوئی مثبت دیرپا حل نہیں ملتا ،
اور  کائنات کے اکیلے لا شریک خالق و مالک  اللہ عزّ و جلّ  کا دِین ہی وہ واحد سبب ہے جو دُنیاو آخرت کی کامیابی کی ضمانت رکھتا ہے ،
اگر ہم  اُس دِین کے عِلاوہ ،یا اُس دِین میں اپنی سوچوں ، فِکروں ، فلسفوں اور منطقوں وغیرہ کا بِھگار لگا کر ،  کسی وقتی تحریک کے ذریعے گندے لوگوں کو دُور کر بھی دیتے  ہیں تو بھی اِس کا اِمکان بہت قوی رہتا ہے کہ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ لوگ یا اُن جیسے یا اُن سے بھی برُے لوگ پھر سے ہم پر قابض ہو جائیں گے ، کیونکہ دِلوں میں حقیقی اِیمان کے راسخ ہوئے بغیر ، اُس اِیمان کے مُطابق اعمال کو خود پر نافذ کیے بغیر ،  وقتی جذبات کی بِناء حاصل کی گئی کوئی چیز بھی وقتی ہی  ہوتی ہے ، اِس کی گواہی ماضی قریب کے واقعات میں  سے بھی ملتی ہے ،
لیکن اگر ہم اپنے اور اپنے اِرد گِرد والوں کے ذہن اللہ تعالیٰ  کی توحید پر اِیمان کے ساتھ تیار کریں گے اور ُدنیاوی اَسباب  کے حصول کو محض آخرت کی فلاح کا ذریعہ سمجھیں گے ، اور گندے راہنماؤں کو دُور کرنے کا مقصد مادی اور مُعاشی سہولیات ، مُعاشرتی نام و  نمود اور جاہ  وجلال پانے کا حصول بنانے کی بجائے، واقعتا  اللہ کے دِین کا نفاذ بنائیں گے تو ِان شاء اللہ بہت مثبت اور دیرپا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں،
ایک دَم سے ، یا تھوڑے ہی عرصے میں کسی مُعاشرے کی اِصلاح نا ممکن ہے ، کسی ایک، یا کچھ  دُنیاوی مقاصد  کے حصول کے لیے لوگ اکٹھے ہو کر کچھ قُربانیاں دے کر اُن مقاصد کو حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر  اُس کا اثر ایک نسل تک بھی بر قرار نہیں رہتا ،
 اِس کے بر عکس جو مقصد کسی اُخروی عقیدے کے تحت پورا کیا جا تا ہے  اُس کا اثر دیر تک برقرار رہتا ہے ، اور اُس سے کہیں زیادہ بڑھ کر یہ کہ جومقصد یا مقاصد اللہ عزّ و جلّ  کی توحید کے عقیدے کے مُطابق ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے  ، اُس کی اور اُس کے رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کی حدود میں رہتے ہوئے پورے کیے جاتے ہیں اُن کے اثرات تا قیامت برقرار رہتے ہیں ، اور آخرت میں بھی موجود ہوں گے ،
پس ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اپنے اِیمان اور عمل کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاں مطلوب اور مقبول معیار کا بنائیں ، اور اُسی کے مُطابق اپنے  اھداف کو دُرُست کریں اور صِرف  اور صِرف اللہ کی رضا کے لیے ، اُس کے کلمہء توحید کی سر بلندی کے لیے ،  اُس کے اُس  دِین کے نفاذ کے لیے  جو کہ اُس نے ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرما ، اُس دِین کے نفاذ کے لیے ، اپنے اور اپنے ارد گرد ولواں کے دِل و دِماغ کو تیار کریں ، نہ کہ اپنی اپنی جماعت ، گروہ ، تحریک ، حضرت ، مولانااور شیخ  وغیرہ کے معیار کے مُطابق ،
اور اِس کام کو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات سے اِس کی اِبتداء  کرے ، اپنے رب کی ذات و صفات کی پہچان حاصل کرے ، اپنے رب کو پہچانے اور اس کی ربوبیت ، الوہیت اور ذات و ِصفات پر بالکل اُسی طرح قلبی ، قولی اور عملی اِیمان رکھے جس طرح اُسے حکم دیا گیا ہے ،  اور پھر اُسی عِلم و عمل کے ساتھ اپنے اہل خاندان اور اپنے  اِرد گِرد والوں کی اِصلاح کی اِبتداء کرے کہ اُنہیں تسلسل کے ساتھ اللہ کی واحدانیت کی دعوت دیتا ہی رہے ، 
یہ ہی اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی  کا مقرر کردہ راستہ ہے ، اِسی  کا حکم اللہ تعالٰی  نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیا ، اور ساری ہی اُمت کے لیے یہ راستہ مقرر فرمایا ہے ،
 (((فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ o وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ::: اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود مت پکاریے ورنہ آپ عذاب پانے والوں میں ہو جائیں گے o  اور اپنے قریب والوں کو (بھی) ڈرایے))) سورت الشعراء /آیات 213،314،
اور سب ہی اِیمان والوں کو الگ سے بھی یہ حکم  دِیا  ہے کہ ( ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ::: اے اِیمان لانے والو اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں آگ سے بچاؤ))) سورت التحریم/آیت6،
غور کیجیے قارئین کرام  کہ یہ مذکورہ بالا حکم عام اِنسانوں کے لیے نہیں ، اُن لوگوں کے لیے ہے جو اِیمان قبول کر چکے ہیں ، خود کو مُسلمان کہلواتے ہیں، اُنہیں یہ حکم دیا ہے ،

پس کِسی شک و شبہے کے بغیر ، یقینی طور پر  اِنسانی مُعاشرے کی حقیقی نفع مند، مُستقل و مُستمر اِصلاح اِسی طریقے  میں مُضمر ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کا عِلم حاصل کر کے اُس پر کِسی سمجھوتے کے بغیر کے اِیمان لایا جائے ، اور پھر اُس اِیمان کے تقاضوں کو پورے کرنے والے عمل کیے جائیں ، اُن اَعمال کے اِبتدائی اَعمال میں سے ایک مُستمر عمل اللہ تعالیٰ  کی توحید اور ُاس کے سارے ہی دِین کی اُسی کے مُقرر کردہ قواعد کے مُطابق دعوتء مسلسل  دِی جائے ، اور اُس پر عمل پیرا رہنے کے لیے اپنی ذات کو اپنے ساتھیوں کو مُستقل صبر کی قولی اور عملی تلقین کی جاتی رہے ،
پس اللہ کی مقرر کردہ راہ پر چلتے ہوئے ، اِن شاء اللہ ،   یوں  فرد با فرد ایک ہی عقیدے اور سوچ پر مشتمل ، ایک ہی ھدف حاصل کرنے کے لیے  ، ایک صالح معاشرہ تیار ہو جائے گا  ،اور ایک لشکر بن کے سامنے آ جائے گا ،  اور پھر اُسی صالح معاشرے میں سے خود بخود صالح قیادت بھی ظاہر ہو گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے اللہ کےکلمہ کی سر بُلندی اور اللہ کے دِین کا نفاذ ہو گا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا کب فرمائے گا ؟
جب ہم اُس کے ہاں مطلوب و مقصود معیار پر پورے اُتریں گے ، اللہ تعالیٰ کی سُنّت میں یہی طریقہ مقبول ہے ، اور جسے اللہ کی مقبولیت حاصل ہو اُس کے فوائد کا اندازہ بھی محال ہے ،  اور جو کچھ اللہ کے ہاں کے مطلوب و مقبول نہیں خواہ وہ ہمیں کتنا ہی اچھا ، دِلنشیں ، جاذب ء خِرد ہی کیوں نہ لگتا ہو، اُس میں کوئی خیر نہیں ،
اُمید ہے کہ آپ صاحبان ، میری اِن گذارشات پر ، اپنی اپنی اختیار کردہ ،  یا آپ پر مُسلط کر دہ سوچوں ، فِکروں ، فلسفوں اور منطقوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ، توجہ ، تحمل ، اور بُرد باری سے تدبر فرمائیں گے ، اور یہ بھی خیال رکھیں گے کہ مُسلمانوں میں یکتائی اور وحدت  کے لیے نطم و ضبط قائم کرنا ، اور  اپنی اپنی سوچ وفِکر منوانے ، اور اپنی اپنی بات لاگو کرنے کے لیے جماعت سازی دو مختلف معاملات ہیں ، و شتان بینھما  ،
اس مضمون کے ساتھ ساتھ درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے :
::: اُمت کی بیماریوں کا عِلاج :::
اللہ عزّ و جلّ ہمیں حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ والسلام علیکم۔
طلبگارء دُعا ، آپ کا بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 13/04/1432 ہجری، بمُطابق ، 18/03/2011 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔