Sunday, January 14, 2018

::: خَطاء اور غلطی میں فرق :::

::: خَطاء اور غلطی میں فرق :::
بِسم ِِ اللَّہِ ، والصَّلاۃُ و السّلامُ عَلی ٰرسولِ اللَّہ
السلام  علیکم و رحمۃ ُ اللہ و برکاتہُ ،
::: سوال :::
کِسی نے کہا کہ خطاء اور غلطی میں فرق کیا جانا چاہیے ، پوچھنے پر  کوئی وضاحت  نہ کی گئی، کیا آپ اِس کے بارے میں معلومات مہیا کر سکتے ہیں ؟
::: جواب :::
و علیکم السلام ورحمۃُ اللہ و برکاتہُ،
ماشاء اللہ محترم بھائی ،  بڑا اچھا سوال ہے ، اِس قسم کے سوالات اِن شاء اللہ فائدہ مند ہوتے ہیں ، جن میں کچھ علم کی طلب ہو ، محض بحث کے لیے ، اپنے اپنے مذاھب و مسالک ، جماعتوں اور شخصیات کی تائید کے لیے  ، اور فلسفوں کی بِناء پر کیے جانے والے سوالات عموماً تفرقہ اور جھگڑے کا سبب ہی رہتے ہیں ، اللہ ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے،
""" خَطاء  """ اور """ غلطی """ میں یقینی فرق ہے ، لیکن عموماً  ہماری  اُردُو میں تقریباً ایک ہی معنی میں اِستعمال کر دِیے جاتے ہیں ، اِن میں پائے جانے والے فرق کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ، جس سے بات کا مفہوم عموماً دُرُست نہیں رہتا ، خصوصاً شرعی معلومات اور مسائل کے ذِکر میں ِاس کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے ،
""" خَطاء """ کوئی ایسا قول یا فعل ہے جو دُرستگی کے معیار پر پورا نہ اُترتا ہو ، لیکن اِس کے فاعل اور قائل نے جان بوجھ کر اِنہیں ادا نہ کیا ہو ،  یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ جانتا ہو کہ وہ جو کچھ کرنے یا کہنے والا ہے وہ دُرسُت نہیں اور پھر بھی کر دے ، کہہ دے ،
اِس  مفہوم کی قران  کریم میں سے دلیل درج ذیل آیات مُبارکہ ہیں :::
(((((ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا  ::: (اے ایمان  لانےوالو) لے پالکوں کو اُن کے باپوں کے نام سے (منسوب کر  کے )پکارا کرو ، ایسا کرنا اللہ کے ہاں زیادہ اِنصاف(اور دُرُستگی) والا ہے ، اور اگر تُم لوگ اُن کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ دِین میں تمہارے بھائی ہیں(یا) اور خدمت گار ہیں اور(اِس معاملے میں ) جو بات تُم لوگ خطاء سے  دِلی اِرداے کے بغیر ہی کہتے ہو اُس میں تُم لوگوں پر کوئی گناہ نہیں ، اور بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ))))) سُورت الاحزاب(33) /آیت5 ،  
(((((وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً   ::: کِسی اِیمان والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ کِسی اِیمان والے کو  جان بوجھ کر اِرداۃً قتل کر دے)))))سُورت النساء(4) /آیت 92، 
خیال رہے کہ """ خَطاءٌ """ اور """ خِطاءٌ """ مختلف معنی والے اِلفاظ ہیں ،
اِن آیات مُبارکہ میں یہ بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ دِلی اِرداے کے بغیر کسی نا دُرُست کام کرنے والے کو  " غلط کار " نہیں مانا جاتا ، اور نہ اُس کے ایسے نا دُرسُت عمل کو """ غلطی """،
اور حدیث شریف میں بھی یہ بات مزید وضاحت کے ساتھ سمجھائی گئی ہے :::
::: ابی ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ :::بے شک اللہ نے میری اُمت کی خَطاؤں ، بھول اور جس پر اُنہیں جبراً عمل کروا جائے (ایسے کاموں) سے درگزر فرمایا ہے )))))[1]،
::: ابو ہُریرہ  رضی اللہ عنہ ُ ، اور عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ :::اگر کسی فیصلہ کرنے والے نے(دُرُستگی کے لیے)جدوجہد کر کے فیصلہ دِیا اور دُرُستگی پر پہنچا تو اُس کے  لیے دو ثواب ہیں ، اور اگر اُس نے(دُرُستگی کے لیے)جدوجہد کر کے فیصلہ دِیا پھر اُس سے خَطاء ہوئی (یعنی دُرُست فیصلے تک نہ پہنچ پایا ) تو(بھی)اُس کے لیے ایک ثواب ہے )))))[2]،
پس یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شرعی مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں """ خَطاء """ اور """ غلطی """ کا فرق رَوا رکھنا ہی  چاہیے ، ورنہ غلطی کو جانتے ہوئے  وہ غلطی کرنے والے """ غلط کار """ اور غلطی سے بچ کر  دُرُستگی کے لیے محنت کے ساتھ کام کرنے والے """ نیکو کار """ میں کوئی فرق نہیں رہتا ، اور بات بہت دُور جا نکلتی ہے ،  کیونکہ  خَطاء کے قران و حدیث میں مذکور بالا مفہوم کی روشنی میں غلطی وہ ہوتی ہے جِس کی نا دُرستگی کا عِلم ہونے باوجود ،  جانتے بوجھتے ہوئے اُس کا ارتکاب کیا جائے ،  خواہ وہ عقیدے میں ہو، قولاً ہو یا عملاً ،
اِن شاء اللہ  یہ معلومات """ خَطاء """ اور """ غلطی """ کا فرق جاننے کے لیے کافی ہوں گی ، مزید کوئی اشکال ہو تو خوش آمدید ،
و السلام علیکم،
طلب گارء دُعا ء ،
 عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :11/01/1432 ہجری، بمُطابق،  17/12/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1]   سُنن ابن ماجہ/ حدیث /2121کتاب الطلاق /باب 16 طَلاَقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِى ، المستدرک الحاکم /حدیث /2801 کتاب الطلاق ، حدیث صحیح ہے ، اور عبداللہ ابن عباس، ثوبان، اور عُقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے ۔
[2]   صحیح البخاری / حدیث /7352کتاب الاعتصام بالکتاب والسُنّۃ /باب 21 أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ ، صحیح مُسلم/ حدیث /4584کتاب الاقضیۃ /باب 6 أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ ، سُنن النسائی ، سُنن الترمذی ، سُنن ابن ماجہ، سُنن ابو داؤد، مُسند احمد اور دیگر کئی کتابوں میں مختلف اَسناد سے مروی  ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔