Friday, January 19, 2018

::::::: ابُو کہہ رہے ہیں میں گھر میں نہیں ہوں :::::::

::::::: ابُو کہہ رہے ہیں میں  گھر میں نہیں ہوں :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :  
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
اولاد کی تربیت کے مُعاملات میں ، والدین یعنی ماں باپ کو بہت ہی زیادہ ہوشمندی اور احساس کی ضرورت ہے اور شدید احتیاط کی ، اور اِس سوچ سے بچنے کی کہ بچے خاص طورپر چھوٹے بچے اپنے اِرد گِرد کی باتوں اور کاموں کو  سمجھتے نہیں یا مکمل طور پر اور ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے ،
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے اپنے اِرد گِرد ہونے والے کاموں اور باتوں  کو بہت اچھی طرح سے اپنے دِل میں محفوظ کرتے ہیں اور اُن کاموں کے ذریعے بہت کچھ سیکھتے ہیں ، حتیٰ کہ اگر والدین یہ خیال کرتے ہوں کہ بچہ تو اپنے کھیل میں مگن ہے تب بھی بچہ اپنے والدین کی طرف سے واقع ہونے والے امور کو جذب کر رہا ہوتا ہے ، بالخصوص اُن کی باتوں کو ،
مجھے ایک دوست نے اپنا واقعہ سنایا کہ اُس کا بیٹا جب کچھ ٹھیک طور سے بولنے لگا تو وہ اُس کی اور اُس کی بیوی کی گفتگو میں بعض اوقات اِس طرح شامل ہو جاتا گویا کہ وہ تمام مُعاملہ جانتا ہے اور اُس مُعاملے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے ،
یہ ایک واقعہ تو میرے سامنے آیا اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسے کتنے واقعات روزمرہ زندگی میں رونُما ہوتے ہوں گے جو ماہرین کے مذکورہ بالا مُشاہدے کو دُرُست ثابت کرتے ہیں ،
ہم سب کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ اولاد ، اور خاص طور پر چھوٹے بچوں کے  سامنے غلطیوں اور کوتاہیوں کا ظاہر ہونایقیناً انتہائی خطر ناک  کام ہے ،اور بچوں کی پاکیزہ شخصیات  کی حق تلفی اور اُن پر ظُلم ہے ،  جِس کا تدارک کرنا بہت ہی مُشکل اور اکثر أوقات نا ممکن ہوتا ہے ،
اور اِن غلطیوں  میں سے سب سے زیادہ خوفناک غلطی جو ایک گھناونا اور کبیرہ گناہ بھی ہے ، وہ ہے جُھوٹ ،  جی ہاں ،
کسی مُعاملہ شناس نے بچوں کے سامنے جُھوٹ بولنے کے جُرم کےنتیجے کی تصویر کَشی کرتے ہوئے کہا """بچے کے نفس میں یعنی اُس کے دِل ودماغ میں سچ کی قدر و قیمت اور اہمیت تباہ کرنے کے لیے صِرف ایک ہی دفعہ اور اتنا ہی کافی ہے کہ بچہ یہ دیکھ اورجان لے کہ اُس کے باپ نے اُس کی ماں سے جُھوٹ بولا ، یا اُس کی ماں نے اُس کے باپ سے جُھوٹ بولا یا اُن دونوں میں سے کِسی نے اپنے پڑوسی ، کِسی رشتہ دار ، کِسی ملنے والے سے جُھوٹ بولا ،
 جی ہاں ایک ہی دفعہ ایسا ہونا کافی ہے ، پھر اُس کے بعد خواہ وہ ماں باپ اُس بچے کو ہر گھڑی ہر پل جُھوٹ کے نُقصانات اور سچ کے فوائد ، جُھوٹ کا کبیرہ  گناہ ہونے اور سچ کاعظیم ثواب ہونے کے سبق پڑھاتے رہیں ، نصحیتیں کرتے رہیں ، عمومی طور پر کوئی مثبت فائدہ ہونے والا نہیں سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ کِسی پر اپنی رحمت کرے اور اُسے والدین کی دو  رَنگی  سے مُتاثر ہو کر سچ سے باغی ہونےسے بچنے کی ہمت دے دے """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((مَا مِن  مَوْلُودٍ إلا يُولَدُ على الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أو يُنَصِّرَانِهِ أو يُمَجِّسَانِهِ   ::: کوئی پیدا ہونے والا ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہ ہو یہ تو اس کے ماں باپ ہوتے ہیں جو اُسے یہودی بناتے ہیں ، یا عیسائی بناتے ہیں یا بت پرست بناتے ہیں ))))) متفقٌ علیہ، صحیح البُخاری/کتاب الجنائز  ، باب  78 اور 91، صحیح مُسلم /کتاب القدر ، باب 6 ،
پس یہ بات وحی سے ثابت ہوئی کہ بچے اللہ کی مُقرر کردہ فِطرت پر پیدا ہوتے ہیں اور جب تک اُنہیں گناہ  دِکھائے اور سِکھائے نہیں جاتے وہ اُسی فطرت پر رہتے ہیں اور سچے ہوتے ہیں ،
 اِس کی مثال ایک یہ واقعہ بھی ہے جسے لوگ اکثر لطیفے کے طور پر سُن کر یا سُنا کر محظوظ ہوتے  جبکہ یہ واقعہ انتہائی سبق آموز ہے اور والدین ، بڑوں ،اور معاشرے کے سارے ہی افراد کے لیے ہی دعوتءِ فِکر والا ہے ،
کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ کِسی نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ، تو گھر والے نے اپنے بچے سے کہا کہ دروازے پر جو کوئی بھی اسے کہو کہ میں گھر میں نہیں ہوں ،
بچہ دروازے پر گیا اور دستک دینے والے سے کہا کہ """ میرے ابو کہہ رہے  ہیں کہ  میں گھر میں نہیں """ ،  
چکنے چمکدار پُھسلا دینے والے اور عقل کو حیراں کر کے گمراہ کرنے والے  راستوں میں سے ایک ، بچوں کے سامنے ذو معنی بات کرنا بھی ہے ،  ایسی ذو معنی بات جس بچہ یہ سمجھے کہ جُھوٹ بولا گیا ہے ، اور جب بچہ اُس کے بارے میں کچھ پوچھے تو اُسے طرح طرح کے فلسفوں اور تاویلات کے ذریعے مطمئن کیے جانے کی کوشش کی جائے  ،
 بسا اوقات تو لوگ اپنی  ایسی غلطیوں کو ، غلط بیانیوں  کو دِینی طور پر کِسی جائز مُعاملے کی آڑ میں دُرُست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی  دِکھائی دیتے ہیں ،
میری مُراد کوئی سچی بات کچھ ایسے اِلفاظ میں کہنا ہے جِس سے سُننے والا حقیقت نہ سمجھ سکے بلکہ کچھ اور سمجھے ،
 اِسے شرعی ناموں میں  """ توریہ""" کہا جاتا ہے ،  (اس کی  تفصیل """ صِدق """ میں بیان کر چکا ہوں )، ہمارے کچھ مُسلمان بھائی بہن اِس توریہ  ، دِکھاوے والی بات  کے جواز کواپنے جُھوٹ بولنے کے لیے دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں،
اور یہ سمجھتے ہیں اُن کا ہر جُھوٹ اِس طرح جائز جُھوٹ کی حد میں داخل ہو جاتا ہے ، اور اپنے عمل اور اپنی تاویلات سے اپنے بچوں کو بھی تقریبا ً یہی کچھ سمجھاتے ہیں ،
حق تو یہ ہے کہ حقیقی مُسلمان ،سچا ہوتا ہے ، جُھوٹ کو اپنانے یا اِستعمال کرنے کے لیےبہانوں کی تلاش میں نہیں رہتا اور نہ ہی جُھوٹ بولنے کے بعد  حیل و حجت کے ذریعے اُس کو جائز کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اور نہ ہی  توریہ ، یعنی دِکھاوے کی ذومعنی بات کر سکنے کے  جواز کی حُدود کو  وسیع کرنے کی سعی کرتا ہے ،
صِرف یاد رکھنے کی ہی نہیں ، بلکہ بہت اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنےکی بات ہے کہ بچے یہ نہیں جانتے کہ کِس حد تک اور کِس صُورت میں جُھوٹ بولنا جائز ہے ؟یا کس صُورت میں جُھوٹ نُما بات کرنا جائز ہے ؟ ایسی باتیں تو وہ اُس وقت جا کر سمجھتے ہیں جب اِن مسائل کا عِلم حاصل کر لیتے ہیں ، بچوں کو تو صِرف یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ جُھوٹ ہے اور یہ سچ ، لہذا جب اُن کے سامنے کسی بھی طور کوئی ایسی بات کی جاتی ہے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ یہ جُھوٹ ہے تو وہ اُسے صِرف جُھوٹ ہی جانتے ہیں اور اُن کے نُفوس میں سچ کی اہمیت ختم ہونے لگتی ہے ،
کِسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :::    
ومُعظم النَّار مِن مُستصغرِ الشَّرر::: اور آگ کے بڑے بڑے ألاؤ چھوٹی سی چنگاری کے سبب ہوتے ہیں
پس جو بچوں کے سامنے اِس قِسم کے کاموں کو معمولی سمجھ کر کرتے ہیں وہ در حقیقت اُن بچوں کی شخصیات میں چنگاریاں ڈال رہے ہوتے ہیں ، جو کِسی نہ کِسی وقت کِسی ألاؤ کے بھڑک اُٹھنے کا سبب بن جاتی ہیں اور پھر وہ ألاؤ بُجھائے بُجھتا نہیں ، اور وہ بچے جُھوٹ ، دھوکہ بازی ، اور مُنافقت کی آگ میں خود بھی جلتے ہیں اور اپنے اِرد گِرد والوں کو بھی جلاتے ہیں ،
افسوس اُن لمحات پر جن لمحات میں ہم اپنے بچوں کی شخصیات میں یہ چنگاریاں چُھپاتے ہیں ، اور افسوس اُن لمحات پر جن لمحات میں ہم اپنے بچوں کی رگوں میں جُھوٹ اور منافقت کا زہر گھولتے ہیں ، اور اُس سے کہیں زیادہ افسوس خود ہم پر جو اپنے ہی دِینی ، دُنیاوی ، اور اُخروی مُستقبل میں ممکنہ نیکیوں کے خزانوں کو گناہوں کے انبار میں بدل لیتے ہیں ،  کیا ہی بھلا ہو کہ ہم اپنی اولاد ، اپنے مُسلمان بھائیوں بہنوں کی اولاد کو  اپنے لیے دِین دُنیا اور آخرت میں عِزت ، کامیابی ، اور نیکیوں کا ذریعہ بنائیں ،
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم دُنیا کے چند فائدے اور لذتیں حاصل کرنے کے لیے ، لوگوں میں خود کو پسندیدہ بنانے کے لیے ، پریشانیاں دور کرنے اور نام نہاد خوشی حاصل کرنے کے لیے بھی جُھوٹ کا سہارا نہ لیں اور اپنی اولاد کو بھی اُس سے دُور ہی  رکھیں ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
طلبگار دُعا ، عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 08/05/1431 ہجری، بمُطابق، 22/04/2010عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔