Thursday, October 16, 2014

::::::: آیے اپنے عقیدے کا جائزہ لیں ::: سوال رقم 7 اور اُس کا جواب ::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کا بیان :::::

::::::: آیے اپنے عقیدے کا جائزہ لیں :::::::
::::: سوال رقم 7 اور اُس کا جواب :::::
::::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کا بیان :::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ نَحمَدہٗ  وَ نَستَعِینہٗ  وَ  نَستَغفِرہٗ  وَ  نَعَوذ  بَاللَّہِ  مِن  شرورِ  أنفسِنَا  وَ مِن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن  یَھدِ ہ  اللَّہُ   فَلا  مُضِلَّ  لَہ ُ وَ   مَن  یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ، وَ أشھَد  أن لا  إِلٰہَ  إِلَّا  اللَّہ  وَحدَہ  لا  شَرِیکَ   لَہ ، وَ  أشھَد  أن  مُحمَداً   عَبدہٗ  وَ  رَسو لہٗ :::بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں  اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں:::
::::::: سوال :::::::اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے ہم پر یہ واضح کر دِیا کہ اُس نے اِنسانوں تک اپنے پیغامات اورأحکامات پہنچانے کے لیے رسول بھیجے اور ہماری طرف اُس کے آخری رسول محمد  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم آئے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے خُود بھی اِس بات کی گواہی دِی اور اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے اِس بات کی گواہی دلوائی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھا دی،
اور اللہ تعالیٰ کے تمام تر پیغامات اور أحکامات کِسی کمی کے بغیر سب کے سامنے رکھ دیے،اور اُن پر عمل کر کے سب کو دِکھا دِیا کہ کِس حکم پر کیسے عمل کرنا ہے؟؟؟
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اِس وحی میں وہ راستہ کون ساہے جو اللہ کی رضا اور خوشنودی تک پہنچاتا ہے اور وہ راستہ کون ساہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب تک لے جانے والا ہے ؟؟؟
::::::: جواب ::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے بڑے صاف اور واضح ألفاظ میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ اُس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے واحد راستہ اُس کی اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل أطاعت اور فرمان برداری ہے ، کِسی کمی یا بیشی کے بغیر اور کِسی حیل و حجت کے بغیر ،
کسی منطق اور فلسفے کے بغیر جیسا کہ کچھ لوگ اللہ کی  کتاب کی آڑ میں اللہ کے ہی مُقرر کردہ راستے سے ہٹانے کے لیے کہتے ہیں کہ چونکہ اب رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دُنیا میں نہیں ہیں ، لہذا اب اُن کے فرامین اور سُنّت مُبارکہ پر عمل نہیں کیا جا سکتا ہے ،
ایسے بد عقلوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین اور عملی سُنّت مُبارکہ قیامت تک کے لیے قائم ہے ، اورجِس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ساتھ موجود نہیں ، لیکن ہم اُس کی مخلوق کی ز ُبانوں اور آوازوں میں اُس کا کلام مُبارک سنتے ہیں ، اِسی طرح ہم اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ اور عمل مُبارکہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اُمتیوں کی ز ُبانوں اور آوازوں میں سنتے ہیں ،
لہذا یہ فلسفہ بالکل مردُود ہے کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کی وجہ سے اب اُن کا کوئی حکم یا عمل قابل عمل نہیں ، بس اپنی اپنی عقلوں کے مُطابق قران سمجھتے جاؤ اور جو کچھ سمجھو اُس پر عمل کرتے جاؤ،
یہ منھج ، یہ مذھب ، یہ فلسفہ اور اِس شجرۃ خبیثہ سے پھوٹنے والا ہر خیال ، ہر سوچ اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہے ،
جی ہاں ، ایسا ہی ہے ،
تحمل اور  تدبر کے ساتھ، اور اپنے دِل و دِماغ میں سے ہر قِسم کا تعصب نکال کر ، اللہ جلّ و عُلا کے درج ذیل فرامین شریفہ کا مطالعہ فرمایے، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے فرامین شریفہ میں سے دلائل کے بعد ، اِن فرامین مُبارکہ پرقلبی اور عملی  اِیمان رکھنے والے مُسلمانوں کے لیے ، اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھنے والوں  کے لیے ، اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت کرنے والوں کے لیے ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ بھی پیش کروں گا ، اِن شاء اللہ:::
::::::: قُران سے دلائل :::::::
﴿ یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا ادخُلُوا فی السِّلمِ کَآفَۃً وَ لا تَتَّبِعُوا الشَّیطٰنَ إِنَّہُ لَکُم عَدُوٌ مُبِینٌ فَاِن زَلَلتُم مِّن بَعدِ مَا جَآء َتکُمُ البَیِّنَاتُ  فَاعلَمُوا أنَّ اللّٰہ عَزِیزٌ حَکِیمٌ::: اے لوگوں جو أِیمان لائے ہو پورے کے پورے اِسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے مت چلو،بے شک وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے ؛؛؛ اور اگر تُم لوگوں تک واضح باتیں آنے کے بعد بھی تُم لوگ گمراہ ہوتے ہو تو جان رکھو کہ اللہ زبردست اور حکمت والا ہےسورت البقرۃ(2)/آیت208،
یعنی پوری طرح سے اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت اختیار کر لو ، اور اللہ اوراُس کے  رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ راہ کے علاوہ کوئی اور راہ مت اپناؤ، اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو اللہ کی حِکمت کے مُطابق وہ تم لوگوں کو تمہاری روش پر چھوڑے رکھے گا ، اور اپنی حِکمت کے مطابق جب چاہے گا تم لوگوں پر اپنی زبردست گرفت کرے گا۔  
﴿ یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا اَطِیعوا اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ وَ لاتَوَلَّوا عَنہُ وَ أنتُم تَسمَعُونَ O وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُواسَمِعنَا وَ ھُم لَا یَسمَعُونَ O  إِنَّ شَرَّ الدََّّوَآبِّ عِندَ اللّٰہِ الصّمُ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ::: اے لوگو جو اِیمان لائے ہو اللہ اور رسول کی أطاعت کرو اور سنتے جانتے ہوئے رسول سے منہ نہیں پھیرو O اور اُن لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم سن رہے ہیں لیکن وہ سنتے نہیں O بے شک اللہ کے سامنے سب سے بُرے وہ ہیں جو(عقل کے)بہرے اورگونگے ہیں اور سمجھتے نہیںسورت ا لأنفال / آیات 20تا22۔
﴿ یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا استَجِیبُوا للّٰہِ وَ لِلرَسُولِ إِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحِیکُم وَ اعلَمُوا أنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَینَ المَرءِ وَ قَلبِہِ وَ اَنَّہُ إِلِیہِ تحشَرونَ::: اے لوگو جو اِیمان لائے ہو جب تمہیں اللہ اور رسول پکاریں تو اُنکی بات اور جان لو کہ اللہ بندے اور اُس کے دِل کے درمیان آڑ بن جایا کرتاہے اور یقینا تم سب کو اللہ کی طرف پلٹایا جانا ہےسورت ا لأنفال/ آیت 24۔
کیا اِن مذکورہ بالا آیات شریفہ میں صِرف انہی لوگوں کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات سن کر اُس پر عمل کرنے کا حکم ہے جن لوگوں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم موجود تھے ،یا قیامت تک آنے والے سب ہی مُسلمانوں کے لیے یہ حکم ہے ؟؟؟
اگر  اِس سوال کا جواب گمراہ لوگوں کی اندھیری عقل کے مطابق """ہاں """ سمجھا جائے تو ، اِس معاذ اللہ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ قران میں مذکور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کے احکام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہوتے ہی منسوخ ہو گئے ، اور یہ ایسی بے ہودہ سوچ ہے جِس کی کوئی دلیل نہیں ، اور یہ بے ہودہ سوچ اللہ تبارک وتعالی پر الزام ہے کہ اُس نے  جِس دِین کو آخری دِین بنایا ، جِس کتاب کو آخری کتاب بنایا ، جِس رسول کو آخری رسول بنایا ، اُس کے احکام صِرف تھوڑے سے وقت کے لیے تھے ، اُس کے بعد سب کو آزادی ہے کہ بس اِس دِین ، کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب رہو ، لیکن عقائد ، عبادات ، معاملات اور دیگر اقوال و افعال اپنی سوچ و فِکر کے مطابق کرتے رہو ،
اور اگر اِس سوال کا جواب """نہیں""" دیا جائے، جو کہ حق ہے ، اور جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مُراد ہے ،  تو پھر یقیناً یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قیامت تک اللہ کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر  بات توجہ سے سننا اور اُس پر عمل کرنا ، اُس کے مُطابق عمل کرنا، یعنی رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کرنا مُسلمانوں پر فرض ہے ،
اور جو کوئی ایسا نہیں کرتا اُس کا ہر عمل تباہ ہے ،   
﴿ یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ لَا تُبطِلُوا أعمَالَکُم ::: اے(لوگو)جواِیمان لائے ہو اللہ کی فرمانبرادری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے أعمال ضائع نہ کرو سورت محمد/ آ یت 33۔ یعنی اگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی فرمانبرداری نہ کی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی اطاعت تو کی اور دوسرے کی نہیں تو تمہارے اعمال تباہ ہیں۔
﴿  یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا لَا تقدمُوا بَین َ یَدی اللَّہ و رسَولَہُ و اتَّقُوا اللَّہ  اِنَّ اللَّہ سَمِیعٌ عَلِیمٌ:::اے اِیمان لے آنے والو اللہ اور اُس کے رسول سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے بچو ( یعنی اُس کے عذاب سے )  بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہےسورت(33)الحجرات/آیت1،
﴿  یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا لَا تَرفَعُوا أصوَاتَکُم فَوقَ الصَّوتَ النَّبِی وَ تَجھَرُوا لَہُ بِالقَولِ کَجَھرِ بَعضُکُم لِبَعض أن تَحبَطَ أعمَالَکُم وَ أنتُم لَا تَشعُرُونَ ::: اے(لوگو)جو أیمان لائے ہو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند مت کرو اور نہ ہی اُس سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ( ایسا نہ ہو کہ ) تمہارے أعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ ہوسورت(33) /الحجرات آیت2،
اِن مذکورہ بالا آیات مُبارکہ میں بڑی ہی وضاحت سے یہ  بتا دِیا گیا کہ اللہ جلّ ثناوہ کے احکام و فرامین کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کے معاملے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مُقرر کردہ طور طریقے پر ہی رہنا ہے ، اپنی سوچ ، نام نہاد عقل ، فلسفے اور علوم وغیرہ کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے آگے نہیں کرنا ، اِن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مُطیع کرنا ہے نہ کہ معاذ اللہ ، اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ کو اِن چیزوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ،
اللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے آگے بڑھنے کا مطلب ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فیصلوں اور حکموں کو ماننے اور اُن پر عمل کرنے کی بجائے اپنی یا کِسی اور کی رائے ، فتوے ، خیال یا بہانے بازی کرنا ہے،
اور اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی موت کے بعد اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آواز سے مراد اُنکے صحیح ثابت شدہ فرامین مُبارکہ ہیں ،جو ہم تک بڑی جانچ و تحقیق کے ساتھ نقل ہو کر آ رہے ہیں، جِن کی صحت اور دُرستگی ایسی ہے کہ  گویا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آواز مُبارک ہی سن رہے ہیں اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آواز سے آواز بلند کرنا اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پکار یا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے بلائے جانے کو کِسی عام آدمی کی پکار سمجھ کر لاپرواہی کرنا،اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر کِسی بھی اور کی بات کو اپنانا حرام ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام سے بالکل منہ ُ پھیر لینا ، اُن احکام کا اِنکار کرنا  تو کفر  تک لے جانے والا عمل ہے ،
ایسی کاروائیوں اور حرکتوں کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آفت یا عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایاہے﴿ لَاتَجعَلُوا  دُعآءَ الرَّسُولِ بَینَکُم  کَدُعَآءِ  بَعضُکُم  بَعضَاً قَد یَعلمَ  اللَّہُ  الَّذِینَ  یَتَسَلَّلُونَ مِنکُم لَوَاذًا فَلیَحذَر الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَن أمرِہِ أن تُصِیبَھُم فَتنَۃٌ أو یُصِیبَھُم عَذَابٌ ألِیم ::: تُم رسول کے بلانے کو ایسا بلانا مت بناؤ جیسا کہ تُم لوگوں کا ایک دوسرے کو بلانا ہوتا ہے ، تُم میں سے اللہ اُنہیں خوب جانتا ہے جو (رسول کی طرف سے بلاوے پر ) نظر بچا کر چُپکے سے کِھسک جاتے ہیں لہذا جو لوگ اُس (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ خبردار رہیں کہ ( کہیں ) اُن پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا ( کہیں ) اُنہیں کوئی عذاب نہ آ پکڑے (سورت النور(24)/آ یت 63،
قارئین کرام ، دیکھ لیجیے ، سمجھ لیجیے کہ اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ میں  بالکل صاف سیدھے اور آسان انداز میں ، اللہ جلّ جلالہُ نے یہ بتا دِیا ہے کہ جو کوئی اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کسی حکم کی مخالفت کرنے گا وہ کِسی نہ کِسی آفت کا ، یا شدید عذاب کا شِکار ہو گا،
ذرا سوچیے کہ اُن لوگوں کا کیا حا ل ہو گا جو کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ کا بالکل ہی انکار کرتے ہیں ، اور اُن فرامین مُبارکہ کو قابل عمل نہیں سمجھتے ،        
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مزید یہ حکم بھی فرمایا ہے کہ ﴿ وَ مَا اتاکُم الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَھا کُم عَنہُ فَانتَھُوا ::: اور رسول جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جِس سے منع کرے اُس سے باز آ جاؤ سورت الحشر(59)/آ یت7،
محترم قارئین ، اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ میں کیا یہ ہے بیان نہیں ہوا کہ،،،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جو کچھ بھی دیں ، خواہ وہ کوئی چیز ہو ، یا کوئی حُکم ، اُسے لینا ہی لینا ہے ، اُسے ماننا ہی ماننا ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہر حُکم پر عمل کرنے کا اللہ کی طرف سےحُکم ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے جِس چیز ، یا جِس کام سے باز رہنے کا حُکم ہے اُس سے باز رہنا ہی اللہ کا حُکم ہے،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کِسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے حُکم پر عمل نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے،کِسی حیل و حجت یا تاویل کی گنجائش نہیں ۔
﴿ قُلَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلِیہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلِیکُم مَا حُمِّلتُم وَ إِن تُطِیعُوُہُ تَھتَدُوا وَ مَا عَلَی الرَّسُولِ إِلَّا البَلٰغُ المُبِین::: (اے رَسُول آپ)فرمایے (کہ)رَسُول کی اِطاعت(تابع فرمانی)کرو اور ا گر تم نے منہ پھیرا (یعنی رَسُول کی اِطاعت سے منہ پھیرا)تو اُس(یعنی رسول)پر اپنا(یعنی اپنے عملوں کا)بوجھ ہے اور تُم پر تمہارا بوجھ ہے(یعنی اپنے اپنے عمل کا انجام پاؤ گے)اور اگر اسکی تابع فرمانی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے،اور رَسُول پر اِسکے عِلاوہ اور کچھ(ذمہ داری)نہیں کہ وہ وضاحت کے ساتھ تبلیغ کر دے (یعنی صاف کھلے اور آسانی سے سمجھ آنے والے طریقے پر اللہ کی بات تُم تک پہنچا دے) سورت النور(24)/ آیت54،
﴿ قُل إِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُونِی یُحبِبکُم اللّٰہ ُ وَ یَغفَرلَکُم ذُنُوبَکُم وَ اللّٰہ ُ غُفُورٌ رَّحِیمٌ O قُل اَطِیعُوا اللّٰہَ و الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِن اللّٰہَ لَا یُحِبّ الکَفِرِینَ::: (اے رسول) آپ فرما دیجیے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری أطاعت کرو اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کرے گا،اور اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے (1) O (اے رسول) آپ فرما دیجیے کہ اللہ اور رسول کی تابع فرمانی کرو اور اگر اُن لوگوں نے منہ پھیرا (یعنی اللہ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کرنے سے منہ پھیرا) تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا (2)سورت آل عمران(3)/آیت31،32،
(1) اِس آیتِ مبارکہ پر غور کرنے سے اِیمان والے دِل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے،اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کتنی بڑی خوشخبری دے رہا ہے کہ اگر اللہ کے رسول کی اطاعت کی جائے گی تو اللہ اطاعت کرنے والوں کے گناہ ہی معاف نہیں کرے گا بلکہ اُن سے محبت کرے گا،اللہ اکبر،اللہ اکبر،اللہ اکبر،
 کتنی بڑی خوشخبری ، کتنا بڑا رتبہ کہ بندہ اللہ کا محبوب ہو جائے،اور اِس رتبے تک پہنچنے کا راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی ہے،محبت ألہی کے حصول اور محبوبِ سبحانی ہونے کا ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حُکم برداری میں ہے نہ کہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حُکموں کی نافرمانی کر تے ہوئے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّتِ کے خلاف ، اپنی منطق اپنے فلسفے کی بنیاد پر من گھڑت عباد توں ، چلہ کشیوں ، ذِکر اذکار وغیرہ اور ایسے ہی صحیح دلیل کے بغیر اپنائے ہوئے عقائدمیں ، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی یا فعلی سُنّت شریفہ میں سے کسی کا اِنکار کرنے میں ،
(2) دوسری آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی أطاعت و تابع فرمانی سے منہ پھیرنے والوں کو کافر قرار دیا ہے،ذرا غور کیا جائے تو دِل  دھل جاتا ہے،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت سے منہ پھیرنے والے اللہ کے ہاں کافروں میں شمار ہوتے ہیں،
جو لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حُکم کو جاننے کے بعد طرح طرح کی بہانے بازیاں کر کے اُس پر عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کی مخالفت کر کے اپنے یا اپنے نام نہاد بزرگوں کے خود سے بنائے ہوئے طور طریقے اور منطقیں اور فلسفے  أپناتے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں بھولنا چاہیے،اور اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکموں سے منہ پھیر کر اُن  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کی مخالفت کر کے وہ یا کوئی بھی اور نہ تو اللہ کے ولی بن سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی درجہ پا سکتے ہیں بلکہ اللہ کے ہاں اُن کی گنتی کافروں میں ہوتی ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مکمل اطاعت والی زندگی اور اِسی پر موت عطا فرمائے ۔  
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی رضا اور خوشی کے راستے کی وضاحت فرماتے ہوئے مزید فرمایا ﴿  وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا لِمُؤمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسوُلَہُ أمراً أن یَکُونَ لَھُم الخِیرَۃُ مَن أمرِھِم وَ مَن یَعصِ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیناً ::: اور جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو کِسی ایمان والے مرد اور نہ ہی کِسی ایمان والی عورت کے لیے اُن(اللہ اور اسکے رسول  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے فیصلے میں کوئی اختیار باقی رہتا ہے،اور جِس نے اللہ اور اُسکے رسول کی نا فرمانی کی تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں جا پڑاسورت الأحزاب(33)/آیت36،
یہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا صاف اور واضح حُکم ہے کہ اِیمان والوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کِسی حُکم کے بعدکِسی کی بھی کوئی بات،خیال،سوچ و فِکر،بہانہ، منطق و فلسفہ،تاویل،اورفتویٰ وغیرہ اپنا کر اُس حُکم سے فراراِختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔
﴿یٰٓاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم ، فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیئٍ فَرُدُوہُ اِلَی اللّٰہِ و الرَّسُولِ اِن کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الاٰخِرِ،  ذَلِکَ خَیرٌ وَ اَحسَنُ تَاوِیلاً ::: اے لوگو جو أِیمان لائے ہو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو لوگ تم میں حُکمران ہیں اُنکی فرمانبرداری کرو ، اور اگر تم لوگوں میں کِسی چیز میںاختلاف ہو جائے تو اگر تم لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر اِیمان رکھتے ہو تو اُسے (یعنی اختلاف کو حل کرنے کے لیے وہ اِختلاف) اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ اور یہ (یعنی أختلاف کا حل اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے أحکامات سے تلاش کرنا)بہت خیر والااور اچھے انجام والا ہےسورت النساء(4)/ آیت59،
اللہ جلّ و عُلا نے اپنی اطاعت کے حُکم کے ساتھ ساتھ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت کا حُکم دِیا اور پھر صاحبِ اختیار لوگوں یعنی حُکام کی اطاعت کا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُنیا میں موجود ہوتے ہوئے  یہ حکم نازل فرمایا گیا ، اور یہ حُکم تا قیامت باقی و قائم ہے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دُنیا سے تشریف لے گئے تو بھی اُن کے احکام ، فرامین ، ارشادات اور اعمال پر عمل کے ذریعے اُن کی اطاعت کرنا ہی فرض ہے ،
یہاں ایک بات أچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت تو بغیر کِسی شرط کے فرض ہے کیونکہ وہاں حق ہی حق ہے،لیکن کِسی بھی دوسرے کی اطاعت بلا شرط نہیں بلکہ مشروط کے ساتھ ہے،اور یہ شرط اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے عائد کی گئی ہے ، علی رضی اللہ عنہُ سے ایک واقعہ روایت ہے جِسکے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ﴿ لَا طَاعۃَ فی مَعصِیۃِ  اللَّہِ ،إنَّمَا الطَّاعۃُ  فی المَعرُوفِ :::اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کِسی کی اطاعت نہیں ہے،بلکہ کہ اطاعت تو نیکی میں ہے صحیح بُخاری /حدیث 7257،، صحیح مسلم/ حدیث 1840 ،
::::::: اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿علَی المَرءِ المُسلمِ السِّمعُ والطاعَّۃُ ،  فِیمَا  أَحبَ  و  کُرِہَ  ،  إِلَّا  أَن  یُؤمَرَ  بَمَعصِیَۃٍ  ،  فَإِن أُمِرَ  بَمَعصِیَۃٍ  فَلا سَمعَ  وَ لَا  طَاعۃَ  :::مُسلمان پر سُننا اور ماننا فرض ہے خواہ اُسے پسند ہو یا نہ ہو، سوائے اِسکے کہ اُسے نافرمانی کرنے کا حُکم دِیا جائے،اور اگر اُسے نافرمانی کرنے کا حُکم دِیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ مانناصحیح مسلم/ حدیث ۱۸۳۹ ،
::::::: اور نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿ لَا طَاعۃَ لِمَخلوُقِ  فی مَعصِیۃِ الخَالقِ ::: خالق(یعنی ہر ایک چیز کی عدم سے تخلیق کرنے والے اکیلے لا شریک خالق اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ)کی نافرمانی کرتے ہوئے کِسی مخلوق(یعنی خالق کی بنائی ہوئی کسی بھی چیز)کی أطاعت(جائز)نہیں ہےیہ حدیث مشکوۃ المصابیح جسے عام طور پر مشکوۃ شریف کہا جاتا ہے،میں کتاب  الأمارۃ و القضاء میں ہے، مشکوۃ میں اِس کا نمبر 3696 ہے اور إمام الا لبانی رحمہُ اللہ نے اسے صحیح قرار دِیا ہے ۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن مندرجہ بالا أرشادات کی روشنی میں یہ صاف ہو جاتا ہے کہ صاحبِ أختیار لوگوں، یا حُکمرانوں، یا عُلماء  کی أطاعت کہاں تک اور کِس طرح کی جانا فرض ہے اور کہاں سے یہ فرضیت ساقط ہو جاتی ہے ۔
یہ معاملہ تو مُسلمان حُکمرانوں کی اطاعت کا ہے،افسوس صد افسوس کہ اب مُسلمانوں کی صفوں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کافروں کی حُکمرانی،اورحُکمرانی میں کافروں کو اختیار کرنےکوجائز قرار دیتے ہیں،(خواہ یہ اختیار کرنا ووٹنگ کے ذریعے ہو یا کسی اور انداز میں )بلکہ یہاں تک بھی ہو رہا ہے کہ اُن کافروں کی اطاعت جائز قرار دی جاتی ہے،بلکہ بہتر قرار دی جاتی ہے، اِنا لِلّہِ و اِنا اِلیہِ رَاجعون،و اِلیہِ أشتکی،
مندرجہ بالا آیات سننے پڑہنے جاننے کے بعد بھی اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فیصلے پر مطمئن نہیں ہوتا اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات سُننے کے بعد پھر، اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات کے خِلاف یا اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے صحیح ثابت شدہ واضح دلیل کے بغیر کِسی اور کے منطقیانہ، فلسفیانہ اور خود ساختہ سوچ و فِکر پر مبنی تشریحات اورفتوے اور باتیں اُسے سکون و اِطمینان والے محسوس ہوتے ہیں تو یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دِیا ہے اور اپنی ذاتِ لاشریک کی قسم کھا کر فرما دِیا ہے﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یؤمِنونَ حَتَّیٰ یحَکِّموکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَھم ثمَّ لَا یَجِدونَ فِی أنفسِھِم حَرَجاً مَمَّا قَضَیتَ وَ یسَلِّموا تَسلِیماً ::: اور تُمہارے رب کی قسم ، یہ لوگ ہر گِز اُس وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اِختلافات میں تمہیں حاکم نہ بنائیں اور پھر ( تمہارے کیے ہوئے فیصلے کے بارے میں اپنے اندر کوئی پریشانی محسوس نہ کریں اور خود کو مکمل طور پر (تمہارے فیصلوں کے) سُپرد کر دیںسورت النِساء(4)/آیت 65،
اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلے صِرف اُن کے زمانہ مُبارک تک ہی کے لیے نہیں تھے، بلکہ اللہ جلّ جلالہُ کے اِن مذکورہ بالا احکامات کے مُطابق قیامت تک کے لیے قائم اور نافذ ہیں ،  
اگر اللہ نے قیامت تک رُکے رہنے کا معاملہ مقرر نہ فرمادِیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی اِس قسم کو سن کر زمین پھٹ جاتی،پہاڑ سجدہ ریز ہو جاتے،آسمان ٹوٹ کر گر پرٹے،سِتارے سِیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے،لیکن اِنسان کا دِل نہیں ہلتا سوائے اِیمان والوں کے کہ یقینا اپنے رب کی یہ قسم سن کر اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،اور وہ لرزہ براندام ہو جاتے ہیں،اور اُن کے دِل حلق میں دھڑکنے لگتے ہیں کہ یہ کیسا عظیم ترین معاملہ ہے جِس کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ذات واحد و لاشریک کی قسم اُٹھا لی،اللہ احکم الحاکمین،یعنی سب حکمرانوں کے حاکم نے اپنی قسم اُٹھا کر فیصلہ صادر فرما دِیا کہ﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یؤمِنونَ حَتَّیٰ یحَکِّموکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَھم ثمَّ لَا یَجِدونَ فِی أنفسِھِم حَرَجاً مَمَّا قَضَیتَ وَ یسَلِّموا تَسلِیماً ::: اور تُمہارے رب کی قسم ، یہ لوگ ہر گِز اُس وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اِختلافات میں تمہیں حاکم نہ بنائیں اور پھر ( تمہارے کیے ہوئے فیصلے کے بارے میں اپنے اندر کوئی پریشانی محسوس نہ کریں اور خود کو مکمل طور پر (تمہارے فیصلوں کے) سُپرد کر دیں، کیا اِس کے بعد بھی کِسی مُسلمان میں یہ جرات رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فیصلے کو سن کر، اُس فیصلے کو نہ مانے ، یہ کہے یا سوچے کہ چونکہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دُنیا میں نہیں ہیں ، ہمارے درمیان نہیں ہیں لہذا اُنکے فرامین مُبارکہ قابل عمل نہیں رہے ،
یا اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور فیصلوں سے مُطابقت نہ رکھنے والے کِسی عقیدے،عِبادت، معاملے،وغیرہ کوصرف اِس لیے اپنائے کہ وہ اُس کے اختیار کردہ فلسفے،مذہب،مسلک،بزرگوں،وغیرہ کی طرف سے اُسے ملا ہے،
::::::: حدیث شریفہ  میں سے دلائل :::::::
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ کُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ إلا من أَبَی:::میرے سارے اُمتی جنّت میں داخل ہوں گے سوائے بات سے اِنکار کرنے والوں کے
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """اے اللہ کے رسول،کون بات ست اِنکار کرنے والا ہو گا"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿مَن أَطَاعَنِی دَخل الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی::: جو میری بات پر عمل کرے گا وہ جنّت میں داخل ہو گا اور جو میری بات نہیں مانے گا وہ اِنکار کرنے والا ہےصحیح البُخاری/کتاب الأعتصام بالکتاب و السُنۃ /باب 2 کی حدیث5،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ بھی اعلان کروا دِیا کہ ﴿لا یؤمِنُ أحدُکُم حَتیٰ  یِکُونُ  ھواہُ  تَبعاً  لِمَا  جِئتُ  بِہِ:::تُم سے کوئی اُس وقت تک اِیمان والا نہیں ہو سکتا جب تک اُسکی خواہشات میری ساتھ آئی ہوئی چیز (یعنی کتاب اللہ اور سُنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)کے مُطابق نہ ہوں جائیںشرح السُنّہ،اِمام بغوی رحمہُ اللہ ، امام النووی رحمہُ اللہ """الاربعین"""میں کہایہ حدیث صحیح ہے اور ہم نے اسے"""الحجۃ"""میں نقل کیا ہے،
(منقول مِن تخریج المشکاۃ،للالبانی رحمہُ اللہ)
اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے اللہ جلّ ثناوہُ نے یہ فیصلہ بھی بیان کروا دِیا کہ ﴿مَن عَمِلَ عَمِلاً لیس علیہِ أمرُنا  فھو  ردٌ:::جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ کام مردود ہےصحیح مسلم/حدیث1718،
اور وحی کے مُطابق کلام فرمانے والی ز ُبان شریف سے یہ حق بھی اعلان کروا دِیا کہ﴿ وَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدہِ ،  لَو بَدَا لَکُم مُوسَی فَاتَّبَعتُمُوہُ وَتَرَکتُمُونِی لَضَلَلتُم عَن سَوَاء ِ السَّبِیلِ ، وَلَو کَان حَیًّا وَأَدرَکَ نُبُوَّتِی لَاتَّبَعَنِی:::اُس ذات کی قِسم جِس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے،اگر موسیٰ تُم لوگوں کے سامنے آ جائیں اور تُم لوگ مجھے چھوڑ کر اُن کی اتباع(پیروی،تابع فرمانی)کرنے لگو تو یقینا تُم لوگ دُرست راستے سے بھٹکے ہوئے ہو جاؤ گے،اور اگر مُوسیٰ میری نبوت کے وقت میں زندہ ہوتے تو یقینا میری اتباع (پیروی،تابع فرمانی)کرتےسنن الدارمی /حدیث 345، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا، مشکاۃ 194،55،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی وحی میں سے اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تا قیامت غیر مشروط  تابع فرمانی کرنے کے اتنے احکام کے بعد کون بد بخت ہو گا جو کسی فلسفے کا شِکار ہو کر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات اور کاموں سے منہ ُ پھیرے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمارے سب کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کو اُس کا او ر اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا سچا ، حقیقی عملی محب اور تابع فرمان بنائے ، اور اِسی حال  میں اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
 طلب گارء دُعا ،
 آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 25/03/1427ہجری، بمُطابق 23/04/2006عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 22/12/1435ہجری،بمُطابق،16/10/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔