Friday, October 17, 2014

:::::::_women's Dower in Islam_عورت کا مہر شرعی قدر و قیمت بنیادی احکام :::::::


::::::: عورت کا مہر ، شرعی قدر و قیمت اور بنیادی احکام :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ نَحمَدہٗ  وَ نَستَعِینہٗ  وَ  نَستَغفِرہٗ  وَ  نَعَوذ  بَاللَّہِ  مِن  شرورِ  أنفسِنَا  وَ مِن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن  یَھدِ ہ  اللَّہُ   فَلا  مُضِلَّ  لَہ ُ وَ   مَن  یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ، وَ أشھَد  أن لا  إِلٰہَ  إِلَّا  اللَّہ  وَحدَہ  لا  شَرِیکَ   لَہ ، وَ  أشھَد  أن  مُحمَداً   عَبدہٗ  وَ  رَسو لہٗ :::بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے،ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں  اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے،جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسےکوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں:::،،،،، اِس کے بعد کہتا ہوں ، 
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  نے اپنی کامل اور بے عیب حِکمت اور اپنی مخلوق پر بے حد و حساب رحمت و شفقت کے ساتھ اپنے احکام نازل فرمائے ، اور اپنے رحیم و روؤف رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے مزید رحمتیں نازل فرمائیں ، جو براہ راست اللہ کے کلام میں نہیں ، بلکہ اللہ نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ اور  افعال شریفہ میں ظاہر کروائی ،  
انہی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے ،  کہ  ذِلت و پستی والے معاشرتی مُقام میں ، اپنی رضا اور رغبت کے خلاف قید اور لا چار و بے بس عورت کی عِزت و تکریم کے لیے اُسے بازاری جِنس کی بجائے ایک خُود مختار اور با عِزت مُقام دیتے ہوئے اُس کے نکاح کے معاملات اور احکام طے فرمانا ہے،
اِنہی معاملات میں سے ایک بنیادی معاملہ ‘‘‘عورت کا مہر ’’’ ہے ، ہم اس مضمون میں اس اہم معاملے کا اسلامی شرعی حکم جاننے سیکھنے کی کوشش کریں گے ، اِن شاء اللہ تعالیٰ ،
کسی عورت کے ساتھ نکاح کے لیے اُس عورت کا ‘‘‘ مہر  ’’’ مقرر کرنا سابقہ اُمتوں میں بھی مروج تھا ، جس کی دلیل ہمیں شعیب علیہ السلام کا اپنی ایک بیٹی کا نکاح موسیٰ علیہ السلام سے کرنے کے واقعہ میں ملتی ہے ، کہ شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کے نکاح کا مہر یہ مقرر کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کم از کم آٹھ سال شعیب علیہ السلام کی خدمت گذاری کریں ،
کچھ لوگ اِس واقعہ سے مہر کی زیادہ سے زیادہ قیمت مقرر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اپنے ہی حساب میں ایک عام شخص کی آٹھ سال کی کمائی یا تنخواہ کو مہر کی حد قرار دیتے ہیں ، اُن لوگوں کا ایسا سمجھنا کسی بھی طور دُرُست نہیں ہے ، نہ ہی اُنکی اِس سمجھ کو اللہ کی کتاب میں سے کوئی تائید میسر ہوتی ہے اور نہ ہی اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال سے ، اور نہ ہی اُمت کے أئمہ اور عُلماء کرام کے اقوال سے ،
شاید  وہ لوگ اس واقعے کو قران کریم میں مذکور دیکھ کر اِس سے شریعت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و التسلیم کے معاملات اور احکام کی دلیل سمجھتے ہیں ، جیسا کہ کئی لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ جو کچھ قران میں مذکور ہوا اُس سے ہم مُسلمانوں کے لیے  کسی بھی کام کے جائز یاناجائز ہونے کی دلیل بنا سکتے ہیں ،  
::::::: یہاں دو باتیں بڑی وضاحت سے جاننے کی ہیں،
(1) ایک تو یہ کہ سابقہ انبیاء اور رسولوں علیہم السلام جمعیاً اور سابقہ اُمتوں کے واقعات میں اُمت محمدیہ علی صاحبھا اکمل  الصلاۃ و السلام کی شریعت کا کوئی حُکم نہیں لیا جا سکتا ، (اس موضوع پر ایک مضمون پہلے نشر کر چکا ہوں،  جس کا عنوان ‘‘‘‘‘سابقہ نازل شدہ کتابیں ، اور اُن کی شرعی حیثیت’’’’’ ہے اور مختلف فورمز پر مطالعے کے میسر ہے  وللہ الحمد)،
 اور (2)دوسری بات یہ کہ اِس واقعہ میں ایک بات ایسی ہے جو ہماری اس شریعت میں رَوا نہیں رکھی گئی ، اور وہ یہ کہ کسی عورت کا مہر اُس کے عِلاوہ کوئی اور لے  لے،
 آئیے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی آخری شریعت میں مہر کی کیا حیثیت اور قدر و قیمت اور احکام ملکیت ہیں،
اللہ تعالی کا حکم ہے ﴿وَآتُوا النَّسَاء صَدُقَاتِہِنَّ نِحلَۃً:::اور عورتوں (بیویوں) کو اُن کا مہر ادا راضی خوشی ادا کروسُورت النساء(4)/آیت 4 ،
یعنی عورتوں کا مہر انہی کو دیے جانے کا حُکم ہے ، ایک اور مقام پر یہ ہی حکم اِن الفاظ میں دہرایا گیا ہے  کہ :::
﴿فَمَا استَمتَعتُم بِہِ مِنہُنَّ فَآتُوھُنَّ أُجُورَھُنَّ فَرِیضَۃ:::اور جو تُم نے اُن سے(جنسی)لذت اور فائدہ حاصل کیا ہے اُس کے لیے اُن کی قیمت (مہر)ادا کرو ، یہ( تُم پر)فرض ہےسُورت النساء(4)/آیت 24،
اللہ جلّ و علا کے اِن فرامین مُبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مہر اُسی عورت کو ادا کیا جانا ضروری ہے جِس سے نکاح کر کے جسمانی لذت اور فائدہ حاصل کیا گیا ،نہ کہ اُس کے کسی ولی یا رشتہ دار کو ،
اور صِرف اتنا  ہی نہیں ، بلکہ عورتوں کا مہر اُن کی رضا اور رغبت کے مطابق طے کر کے اُنہیں ہی دیے جانے کا حکم فرمایا گیا ہے ::
﴿فَانکِحُوھُنَّ بِإِذنِ أَھلِھِنَّ وَآتُوھُنَّ أُجُورَھُنَّ بِالمَعرُوفِ:::اور عورتوں سے اُن کے گھر والوں کی اجازت سے نکاح کرو اور اُن عورتوں کو اُن کی قیمت معروف طریقے پر ادا کروسُورت النساء(4)/آیت 27،
یعنی ، کسی عورت سے نکاح اُس کے گھر والوں کی اجازت سے ہی کیا جائے گا ، (کورٹ میرج ، یا دوسری وغیرہ وغیرہ قِسم کی شادیاں اور نکاح نہیں کیے جا سکتے )اور معاشرے میں جانے پہچانے طریقے پر مہر اُس عورت کو ہی ادا کیا جائے گا ،
عورت اپنے نکاح کے لیے جو مہر مقرر کرے اور جِس پر اُس سے نکاح کرنے والا اتفاق کر لے وہ مہر اُس عورت کا خاوند پر حق ہو جاتا ہے ، ہم بستری (جنسی تعلق کی تکمیل )ہو چکنے کی صورت میں خاوند وہ مہر ادا کرنے کا ذمہ دار ہے ، فوراً یا بعد میں جیسے بھی نکاح سے پہلے اتفاق ہوا تھا ، اس کے بارے میں اِن شاء اللہ بات آگے ہو گی ،
میاں بیوی کے ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں اُس کے بارے میں تفصیلی مضامین الگ موضوع کے طور پر بیان کر چکا ہوں  ، و للہ الحمد ،
اللہ سبُحانہُ و تعالیٰ کے مذکورہ بالا فرامین شریفہ میں مرد کے ذمے عورت کا مہر ادا کرنے کی فرضیت واضح ہے ،
اور اِن فرامین مُبارکہ  میں یہ بھی واضح ہے کہ اِس میں اللہ کی طرف سے کم یا زیادہ کی کوئی حد یا پابندی نہیں لگائی گئی ، لہذا"""شرعی حُکم """کے طور پر اِس قِسم کی کوئی پابندی لگانا دُرُست نہیں، ایسا کرنے والا غلطی کا شکار ہوتا ہے  اور غلطیوں کا سبب ہو جاتا ہے ،
جی ، معاشرتی اصلاح اور مُسلمان گھرانوں کو آباد کرنے اور رکھنے وغیرہ جیسے نیک کاموں کی تکمیل کے لیے اگر کوئی  صاحب اختیارشخص عورتوں کے مہر پر کسی قِسم کی پابندی لگاتا ہے تو  وہ ایک الگ معاملہ ہے ،
اللہ تعالی کے دیگر کئی احکامات کی طرح اس حکم کی تشریح و تفسیر کے لیے بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات مبارک کے قول و فعل کے ذریعے ہی اللہ تعالی کا مطلوب سمجھنا ہے ، اور جاننا ہے کہ اِن احکام پر کس طرح عمل کیا جائے گا،
:::::: مہر کی مقدار یا قیمت ، سُنّت مبارکہ کے مطابق :::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے بھی بطور حکم اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں فرمائی گئی ،
اللہ سبحانہ و تعالی کے فرمان
﴿یُریدُ اللَّہُ بِکُم الیُسرَ وَ لا یُریدُ بِکُم العُسرَ:::اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے نرمی چاہتا ہے اور تم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا پر عمل فرماتے ہوئے اور اِس کی قولی تفسیر فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿بشِّرُوا وَ لا تُنفِّرُوا ، وَ یَسِّرُوا وَ لا تُعَسِّرُوا :::خوش خبری سناؤ اور نفرت نہ پھیلاو ، اور نرمی کرو سختی نہ کرو صحیح مُسلم /حدیث/1733کتاب جہاد و السِیر/باب3،
دوسری روایت میں فرمایا ﴿یَسِّرُوا وَ لا تُعَسِّرُوا وَ سَکِّنُوا وَ لا تُنفِّرُوا:::آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور سکون پہنچاؤ نفرت نہ پھیلاؤصحیح مُسلم /حدیث/1734کتاب جہاد و السِیر/باب3 ،
ایک اور دفعہ میں فرمایا ﴿اِنَّ الدِّینَ یُسرٌ:::بے شک دین آسانی ہےصحیح البُخاری /حدیث 39/کتاب الاِیمان /باب 28 ، صحیح الجامع الصغیر/حدیث3420 ،
اور روؤف رحیم رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ قانون بھی مقرر فرمادِیا کہ ،﴿لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَار و مَن ضَارَّ ضَارَّہ ُ اللَّہ ُ وَمَن شَاق َّ شَاقَّہ ُ اللَّہُ :::نہ نقصان دینا جائز ہے اور نہ نقصان اُٹھانا، اور جو(کسی کو )نقصان دے گا اللہ اُس کو نقصان دے گا اور جو(کسی کو )مُشقت میں ڈالے گا اللہ اُس کو مشقت میں ڈالے گاالمُستدرک الحاکم /حدیث 2345/کتاب البیوع کی حدیث 245، سنن ابن ماجہ /حدیث 2342/کتاب الأحکام /باب 17 ، سنن البیہقی الکبریٰ حدیث 11166، 11156/کتاب الصلح /باب 8 ، سنن الدار قُطنی /حدیث 288، السلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ /حدیث 250 ،حدیث کا صِرف پہلا حصہ احادیث کی کئی کتابوں میں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم سے صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً مؤطا مالک ،
 رحیم و کریم و شفیق ، نبی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہی مذکورہ بالابنیادی قوانین کے مطابق اس مہر والے معاملے میں بھی تعلیم و تربیت عطاء فرمائی اور احکام عطاء فرمائے ، جن کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عورت کو نکاح پر مہر دینا واجب ہے لیکن اس میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی باقاعدہ حد مقرر نہیں فرمائی گئی ،
ہمارے معاشرے میں پائی جانی والی مصبیتیں جو اِسلام کے نام پر وارد کی جاتی ہیں ، اور جن کا عمومی نقصان خواتین کو ہوتا ہے ، جیسا کہ ، وارثت کے معاملات میں انہیں نیکی اور احسان کا نام لے کر اپنا حق اپنے بھائیوں کو دینے کا سبق سیکھایا جاتا ہے ، اور جیسا کہ مَردوں کے پاس مال ہونے کے باوجود خواتین کو کم سے کم مہر دینے کے لیے کسی کم قدر و قیمت کو‘‘‘ شرعی مہر ’’’ قرار دینا ،
:::::::  سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو کتنا مہر عطا ء فرمایا ؟؟؟ اور اپنی بیٹیوں کے نکاح کتنے مہر پر فرمائے ؟؟؟
:::::::  ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ‘‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیگمات کا مہر کتنا تھا ؟’’’
 تو انہوں نے فرمایا """کان صَدَاقُہُ لِأَزوَاجِہِ ثِنتَی عَشرَۃَ أُوقِیَّۃً وَنَشًّا:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کی بیگمات کا مہر بارہ أوقیہ اور ہوا کرتا تھا اور ایک نش"""،
پھر اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا"""أَتَدرِی ما النَّشُّ:::کیا تُم جانتے ہو نش کیا ہے ؟ """،
میں نے عرض کیا  """ لَا:::جی نہیں """،
تو اُم المؤمنین نے فرمایا """نِصف ُ أُوقِیَّۃٍ فَتِلکَ خمسمائۃ دِرھَمٍ فَہَذَا صَدَاق ُ رسولَ اللَّہِ صَلّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وسلَّمَ لِأَزوَاجِہِ:::آدھی أوقیہ ، تو اس طرح (سب مل کر یہ رقم ) پانچ سو درھم ہوتی ہے ، پس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے ان کی بیگمات کا مہر تھا """،صحیح مسلم /حدیث 1426 /کتاب النکاح /باب13 ،
إِمام الترمذی رحمہُ اللہ نے بھی یہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ کا یہ فرمان اپنی سنن میںروایت کیا اور فرمایا """الأوقیۃ عند أھل العِلم أربعون درھما وثنتا عشرۃ أوقیۃ أربعمائۃ وثمانون درھما ::: عُلماء کے نزدیک ایک أوقیہ چالیس درھم کے برابر ہے اور (اس طرح)بارہ اوقیہ چارسو اسی درھم بن گئے """،
اور ایمان والوں کی والدہ محترمہ کےاِس  فرمان کے مطابق ان چار سو اسی درھم میں ایک نش یعنی آدھی أوقیہ یعنی بیش درھم بھی شامل ہوئے تو پانچ سو درھم بن گئے ،
یہاں یہ بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے کہ اُس زمانے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے پانچ سو درھم کوئی چھوٹی رقم نہیں تھی ، جِس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر صاحب حیثیت ہو تو زیادہ مہر دینے میں کوئی حرج نہیں ،
اور اس کا جواز اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان میں ملتا ہے کہ﴿وَإِن أَرَدتُّمُ استِبدَالَ زَوجٍ مَّکَانَ زَوجٍ وَآتَیتُم إِحدَاھُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَاْخُذُوامِنہُ شَیأاً أَتأَ خُذُونَہُ بُہتَاناً وَإِثماً مُّبِیناً ::: اور اگر تُم لوگ بیوی بدلنا چاہو اور ان میں سے کسی کو بہت مال دے چکے ہو تو اس (دیے ہوئے مال )میں سے کچھ واپس نہ لو کیا تُم لوگ وہ مال الزام تراشی کر کے اور کھلے گناہ کے ساتھ لینا چاہتے ہوسورت النساء(4)/آیت 20 ،
یعنی ، صاحب حیثیت اگر زیادہ مہر ادا کرتا ہے تو اُسے منع نہیں کیا جانا چاہیے ، مہر کی قدر و قیمت کو جس طرح کسی کم مقدار میں سنّت یا واجب قرار نہیں دیا جا سکتا اِسی طرح زیادہ پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی ،
جی ہاں یہ ضرور ہے کہ مہر کو زیادہ کرنے کی عادت و رواج نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ اِسلامی معاشرے کی خصوصیات میں کمی اور امن و سلامتی میں رخنے کا باعث بنتا ہے ، اور مہر کی قدر و قیمت زیادہ مقرر کرنے کے ان منفی نتائج کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مندرجہ ذیل ہدایات و تعلیمات عطا فرمائِیں :::
::::::: ﴿خَیرالصَّداق أیسرَہُ :::سب سے خیر والا مہر آسانی والا مہر ہےالمستدرک الحاکم /حدیث 2742 ،حدیث صحیح ہے إرواء ُالغلیل/حدیث جلد6/صفحہ345 ،
::::::: اور ایک فرمان یہ بھی ہے کہ ﴿ اِنّ مِن یُمنِ المَرأَۃِ تَیسِیرَ خِطبَتِہَا وَتَیسِیرَ صَدَاقِہَا وَتَیسِیرَ رَحِمِہَا:::عورت پر احسان مندی میں سے ہے کہ اُس کا رشتہ کرنے میں اُس کے لیے آسانی کی جائے ، اور اُس کے مہر میں آسانی کی جائے اور اس کے لیے ولادت میں آسانی کی جائےمُسند احمد /حدیث 24522،(حدیث حسن)إرواء ُالغلیل/حدیث 1986/جلد6/صفحہ350،صحیح الجامع الصغیر/حدیث 2236 ،
اور اس کا عملی ثبوت بھی مہیا فرمایا کہ جب ایمان والوں کی والدہ محترمہ صفیہ بنت حُیی سے نکاح فرمایا تو اُن کو غلامی سے آزاد کرنا اُن کا مہر مقرر فرمایا ،
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا مہر کی قدر و قیمت کے بارے میں رویہ ::::::
:::::::  الجحفاء السُلمی کا کہنا ہے کہ عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما نے ایک دِن ہمیں خطبہ میں فرمایا :::
"""ألا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاء ِ فَإِنَّہَا لو کانت مَکرُمَۃً فی الدُّنیَا أو تَقوَی عِندَ اللَّہِ لَکَانَ أَولَاکُم بہا النَّبیُّ صَلّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وسَلّمِ مَا أَصدَقَ رَسولَ اللَّہِ صَلّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وسَلّمِ امرَأَۃً مِن نِسَائِہِ ولا أُصدِقَت امرَأَۃٌ مِن بَنَاتِہِ أَکثَرَ مِن ثِنتَی عَشرَۃَ أُوقِیَّۃً ، وَأُخرَی تَقُولُونَہَا فی مَغَازِیکُم قُتِلَ فُلاَنٌ شَہِیداً مَاتَ فُلاَنٌ شَہِیداً وَلَعَلَّہُ ان یَکُونَ قد أوقرَ عَجُزَ دَابَّتِہِ أو دَفَّ رَاحِلَتِہِ ذَھَباً وَفِضَّۃً یَبتَغِی التِّجَارَۃَ فَلاَ تَقُولُوا ذَاکُم وَلَکِن قُولُوا کما قال مُحَمَّدٌ صَلّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وسَلّمِ﴿مَن قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ أو مَاتَ فَہُوَ فی الجَنَّۃِ ))))):::خبردار عورتوں کے مہر کو مہنگا مت کرو ، کیونکہ اگر ایسا کرنا دُنیا میں عِزت کا سبب ہوتا یا اللہ کے ہاں تقویٰ کا باعث ہوتا تُم لوگوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ کام کرتے ، جبکہ اُنہوں نے اپنی بیگمات اور اپنی بیٹیوں میں سے کسی کا بھی مہر بارہ أوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا ،اور دوسری جو بات تُم لوگ اپنی جنگی مہموں میں کرتے ہو کہ فُلاں شہادت کی موت مارا گیا ، (ایسا مت کہا کرو ) ہو سکتا ہے اُس نے اپنی سواری کو سونے چاندی سے لاد رکھا ہو اور تجارت کی غرض سے نکلا ہو ، لہذا اپنی یہ بات مت کہا کرو بلکہ وہ کہا کرو جو محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کہا کرتے تھے کہ ﴿جو اللہ کی راہ میں مارا گیا ، یا مر گیا وہ شہید ہے"""سنن النسائی /حدیث /3349 کتاب النکاح/باب66 القسط في الأصدقة،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ، مُسند أحمد /حدیث 341 ،
اور شہادت والے معاملے کے ذکر کے بغیر سنن ابی داؤد /حدیث 2106 /کتاب النکاح /باب 29، سنن ابن ماجہ /حدیث 1877/کتاب النکاح/باب 17 ، اور سُنن الترمذی /حدیث 1114/ کتاب النکاح /باب 21،22  مَا جَاءَ فِى مُهُورِ النِّسَاءِ،میں ہے اور دونوں راویات کو اِاِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
::::::: ایک اور روایت میں ابو العجفاء السُلمی رحمہ اللہ نے عُمر رضی اللہ عنہ کے فرمان میں یہ قول بھی بیان کیا کہ """وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیُبتَلَی بِصَدَقَۃِ امرَأَتِہِ """،وقال مَرَّۃً """وَاِنَّ الرَّجُلَ لَیُغلِی بِصَدَقَۃِ امرَأَتِہِ حتی تَکُونَ لہا عَدَاوَۃٌ فی نَفسِہِ وَحَتَّی یَقُولَ کَلِفتُ إِلَیکِ عَلَقَ القِربَۃِ أوعَرَق َ القِربَۃِ """ قال وَکُنتُ غُلاَماً عَرَبِیًّا مُوَلَّداً لم أَدرِ ما عَلَقُ القِربَۃِ
:::ترجمہ::: """اور کبھی مَرد اپنی بیوی کے مہر کی وجہ سے امتحان میں بھی پڑ جاتا ہے """ اور ایک دفعہ فرمایا """اور کبھی مَرد اپنی بیوی کا مہر اتنا مہنگا کر لیتا ہے کہ وہ اُس کے دِل میں اپنی بیوی کے لیے دُشمنی کا سبب بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ کہہ ہی دیتا ہے کہ میں نے تُمہارا مہر ادا کرنے کے لیے مشیکزہ لٹکانے کی رسی تک بھی خرچ کر ڈالی یا کہے مشکیزے کی طرح بہہ گیا""" ابو العجفاء السُلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں """میں پیدائشی عرب لڑکا تھا لیکن پھر بھی یہ سمجھ نہ آیا کہ عَلَقَ القِربۃِ کیا ہے"""سنن ابن ماجہ /حدیث1887 /کتاب النکاح /باب 17 ، مُسند احمد /حدیث 285 ،
::::::: اس مذکورہ بالا روایت کو بھی اِمام الالبانی رحمۃُ اللہ علیہ نے صحیح قرار دِیا ہے """صحیح ابن ماجہ /حدیث 1532"""،
اور ساتھ یہ بہترین شرح بھی لکھی کہ """ علق القربۃ : تحملت لأجلک کل شیء حتی علق القربۃ وھو حبلہا الذی تعلق بہ . وعرق القربۃ : تحملت حتی عرقت کعرق القربۃ وھُو سیلان مائہا ::: عَلقَ القِربۃ : یعنی میں نے تمہارے لیے ہر چیز کا بوجھ اُٹھایا یہاں تک کہ عَلقَ القِربۃِ وہ رسی جس سے مشکیزہ لٹکایا جاتا ہے (وہ بھی تمہارا مہر ادا کرنے میں خرچ کر دی )، اور عَرق َ القِربۃ : سب کچھ برداشت کیا یہاں تک میں اس طرح نچڑ گیا (یعنی میرا مال اس طرح نکل گیا )جس طرح مشکیزے سے پانی نکلتا ہے"""،
::::::: خلیفہ ءِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ راشد امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کے اس فرمان میں ہمارے رواں موضوع کے بارے میں بات کے علاوہ اور بھی ہیں کئی سبق ملتے ہیں ، مثلاً ،
::: (1) :::صحابہ رضی اللہ عنہم کی عربی لغت کی مضبوطی اور گہرائی ،
::: (2) :::صحابہ رضی اللہ عنہم کا سنّت کی عین مطابق عمل کرنا ، حتیٰ کہ ایسی باتوں سے بھی گریز کرنا جن کی تاویل کر کے انہیں درستگی کی حدود میں داخل کیا جا سکتا ہو، اِسی کی ایک مثال یہ ہے کہ ،
::: (3) ::: کِسی کو شہید کہنا درست نہیں ، حتیٰ کہ جو میدان جہاد میں بھی مارا گیا ہو اُسے بھی شہید نہ کہا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق( جو اللہ کی راہ میں مارا گیا وہ شہید ہے ) کہنا چاہیے ،
اب اگر ہم اپنی حالت کا جائزہ لیں تو کیسا عجیب معاملہ نظر آتا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی سے بھرپور زندگی گذراتے ہوئے دُنیاوی مقاصد کے لیے قتل کیے جانے والوں کو بھی شہید کہا جاتا ہے ، اور جو اللہ کی راہ کافروں کے خِلاف لڑتے ہوئے مارا جائے وہ دہشت گرد ، بنیاد پرست ، دقیا نوس وغیرہ وغیرہ ، اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون ،
الحمد للہ ، شہادت کی تعریف اور اِقسام کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون نشر کیا جا چکا ہے،
یہ مندرجہ بالا آثار(احادیث اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم مصطلح الحدیث میں آثار کہا جاتا ہے )اس بات کے دلائل ہیں کہ عورتوں کے مہر کی قدر و قیمت آسانی سے ادا کیے جا سکنے والی ہونا چاہیے ، یعنی مہر کو کم ہی رکھا جانا چاہیے تا کہ نکاح میں آسانی رہے اور اس کے بنیادی ترین مقاصد کا حصول آسان رہے یعنی (1) شرمگاہوں کی حفاظت جس کا نتیجہ پاکیزہ معاشرہ ہے جس میں سب کی عزت و عفت محفوظ رہتی ہے ، اور(2)مُسلمانوں کی آبادی میں کثرت ،
یہاں تک یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مہر کی مقدار مقرر کیے جانے کی کوئی نص یعنی لفظی یا عملی بات اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے میسر نہیں ، مندرجہ بالا اور مندرجہ ذیل آثار کی روشنی میں کم سے کم مقدار کی بارے میں پانچ اقوال ملتے ہیں :::
:::::(1) ::::: پانچ درھم ::::: یہ قول امام الشافعی کا ہے ، اور اس کی دلیل یہ روایت ہے :::
عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ ُ کافی دِنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ،
 اُن کے چہرے پر پیلاہٹ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا ﴿مَہیَم :::کیا ہوا ؟،
 تو عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا"""یا رَسُولَ اللَّہِ تَزَوَّجتُ امرَأَۃً من الأَنصَارِ:::اے اللہ کے رسول میں نے ایک أنصاری عورت سے شادی کی ہے """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےدریافت فرمایا ﴿ما سُقتَ إِلَیہَا؟:::تُم نے اُسے کیا دِیا ہے؟عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا """نَوَاۃً من ذَھَبٍ أو وَزنَ نَوَاۃٍ من ذَھَبٍ :::سونے کا ایک نوات یا کہا ایک نوات وزن کے برابر سونا """،
تو اِرشاد فرمایا ﴿أَولِم وَلَو بِشَاۃٍ :::ولیمہ (ضرور)کرو خواہ ایک ہی بکری سے کروصحیح البُخاری /حدیث /کتاب البیوع/پہلے باب کی پہلی دو روایات ،
اور دوسری روایت یوں ہے کہ """رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دریافت فرمانے پر عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا """یا رَسُولَ اللَّہِ تَزَوَّجتُ امرَأَۃً من الأَنصَارِ عَلیٰ وَزنَ نَوَاۃٍ من ذَھَبٍ :::اے اللہ کے رسول میں نے ایک أنصاری عورت سے ایک نوات وزن کے برابر سونے (کے مہر)پر شادی کی ہے """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿بَارَکَ اللَّہ ُ لَکَ أَولِم وَلَو بِشَاۃٍ:::ولیمہ (ضرور)کرو خواہ ایک ہی بکری سے کروصحیح البُخاری /حدیث6023 /کتاب الدعوات/ باب53 ، صحیح مُسلم /حدیث 1427/کتاب النکاح/باب 13،
::::: فقہ الحدیث ::::: اس حدیث مُبارک میں ہمیں یہ احکام اور باتیں سمجھ میں آتی ہیں کہ :::
::::: (1) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ذاتی طور پر غیب کا عِلم نہیں جانتے تھے ، جتنا اور جب اور جیسا اللہ نے چاہا غیب کی خبر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو عطا فرمائی ،
:::::(2) :::::  عورت کو مہر ادا کرنا واجب ہے ،
:::::(3) :::::  ولیمہ واجب ہے خواہ کم سے کم چیز کے ذریعے ہی کیا جائے ،
:::::(4) ::::: شادی کی دُعا برکت کے لیے دُعا کرنا ہے ، دیگر مروج الفاظ سے منع فرمایا گیا ہے ، اِن شاء اللہ اس کی تفصیل الگ بیان کروں گا ،
:::::(5) :::::  کم مقدار میں مہر ادا کرنا بھی جائز ہے ،
إِمام الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی بنا پر مہر کی (کم سے کم )مِقدار پانچ درھم کہا ، کیونکہ مدینہ المنورہ کے رہنے والوں کے حساب کے مطابق ایک أوقیہ = چالیس 40 درہم ، اور ، ایک نش = آدھی أوقیہ=20=درہم ، اور ایک نوات=چوتھائی نش = 5درہم ،
اِس مندرجہ بالا حساب کی دلیل ہمیں انس رضی اللہ عنہ کے اِس فرمان میں بھی ملتی ہے کہ:::
"""أنَّ عَبد الرحمٰن بن عوف تَزوجَ إِمرأۃً مِن الأنصارِ عَلَی وَزنٍ نَواۃٍ مِن ذَھبٍ قَومَت خَمس دَراہِم:::عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہُ) نے ایک أنصاری عورت سے ایک نوات وازن کے برابر سونے (کے مہر)پر شادی کی جس کی قیمت پانچ درہم ہوتی ہے """سنن البیہقی الصغریٰ /حدیث 2543 /کتاب النکاح /باب 35 ،
اور کئی تابعین کے اقوال میں بھی میسر ہیں ، جن میں سے کچھ اِسی مندرجہ بالا حوالے پر موجود ہیں ،
::: (2) ::: دینار کا چوتھا حصہ ::: یہ اِسی مندرجہ بالا، أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ  والی حدیث کی بنا پر ہی کچھ مالکی مذھب کے عُلماء کا کہنا ہے، کیونکہ """النواۃ"""اہل مدینہ کے مطابق دینار کے چوتھے حصے کو کہا جاتا تھا ،اِس لیے مہر کی (کم سے کم )مِقدار دینار کا چوتھا حصہ ہے۔
::: (3) ::: دس درھم ::: یہ قول إِمام ابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ  سے منسوب کیا جاتا ہے ، اوراِس کی دلیل امام الدار قُطنی کی سنن الدار قُطنی میں مروی جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ﴿لا مَھرَ أقل مِن عَشرۃِ دَراھِملیکن یہ قابل حُجت نہیں،
کیونکہ اس کی سند میں مبشر بن عبید ، اور حجاج بن أرطاۃ النخعی الکوفی ، نامی دو راوی ضعیف یعنی کمزورہیں ، (تفصیلات کے لیے ، اِمام عبدالرحمان ابن ابی حاتم الرازی کی الجرح و التعدیل ، ترجمہ 1572 ، اور ، اِمام ابن الجوزی کی الضعفاء و المتروکین ، ترجمہ 765 ، 2839 ، اور امام عبداللہ ابن عدی کی الکامل فی الضعفاء الرجال ترجمہ 406 ، 1900 ملاحظہ فرمایے ) ،
::::: (4) ::::: کم سے کم اتنی مقدار جو کسی چیز کی قیمت یا کرایہ تصور کیا جا سکے ، یہ بات مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ کہی گئی ،
::::: (5) ::::: مرد کا سارا مال ، یا اس کا آدھا ، یا کوئی بھی مقدار ، ایک دانہ یا تنکا اناج ، یا کوئی حلال کام بھی مہر کے طور پر مقرر کیا جا سکتا ہے ،
::::: چوتھے اور پانچویں قول کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں ::::
:::::::(1) ::::::: أٔمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ:::
""""" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے میرا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح فرمایا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عرض کیا """یا رسولَ اللَّہ أِبتنی:::اے اللہ کے رسول مجھے میری بیوی کے پاس جانے کی اجازت دیجیے """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿عِندَکَ شیء تُعطِیہا؟:::تمہارے پاس اسے (مہر میں )دینے کے لیے کچھ ہے ؟ ،
 میں نے عرض کیا"""لا ::: جی نہیں"""،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿أین دِرعکَ الحطمیۃ ::: تمہاری حطمیہ درع کہاں ہے ؟،
میں نے عرض کیا """عندی ::: میری پاس ہے """،
تو فرمایا ﴿أَعطِہَا دِرعَکَ::: فاطمہ کو اپنی درع (بطور مہر )دے دو"""""،
یہ مندرجہ بالا حدیث الاحادیث المختارہ /حدیث 610 /جلد2 /صفحہ 231، مطبوعہ مکتبہ النھضہ الحدیثہ ، میں ہے ، اور مختلف الفاظ اور صحیح اسناد کے ساتھ مندرجہ ذیل کتب میں بھی ہے ، التعلیقات الحِسان علی صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان/حدیث 6906 /کتاب60 أخبارہ صلی اللہ علی وعلی آلہ وسلم عن مناقب الصحابہ/ذکر ما أعطی علی رضی اللہ عنہ فی صداق فاطمہ رضی اللہ عنھا ، مطبوعہ دار باوزیر/جدہ /السعودیہ ، سنن النسائی/حدیث 3375 /کتاب النکاح /باب 60 / جز 6 داخل جلد 3 ، مطبوعہ دار المعرفہ ، بیروت ، لبنان ، عون المعبود شرح سنن ابی داود /حدیث 2126 /کتاب النکاح /باب36 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان ، سنن البیہقی الکبریٰ /مسند أبی یعلی الموصلی/حدیث 2433 /مسند ابن عباس کی روایت 110 ، جلد 3 ، صفحہ 43 ، مطبوعہ دار القبلہ ، جدہ ، السعودیہ ، مسند احمد /حدیث 603 /مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث 41،جلد اول ، مطبوعہ عالم الکتب ، بیروت ، لبنان ، اور دیگر کتب احادیث میں صحیح اسناد کے ساتھ موجود ہے ،
::::::: (2) ::::::: سھل بن سعد رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ"""""" ایک دن ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور کہا"""اے اللہ کے رسول میں اپنا آپ اللہ اور اُس کے رسول کو ھبہ کرتی ہوں (یعنی ان کی ملکیت میں دیتی ہوں کہ جیسے چاہیں مجھے استعمال کریں ) """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک نظر مبارک اسکی طرف فرمائی اور پھر سر مُبارک جھکا لیا اوراِرشادفرمایا ﴿مَا لِی فِی النِّساءِ مِن حَاجۃٍ ::: مجھے عورتوں کی ضرورت نہیں،
 تو حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا """اے اللہ کے رسول اس عورت سے میری شادی کروا دیجیے """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا ﴿أَعِنْدَكَ مِنْ شَىْءٍ:::تمہارے پاس (مہر میں دینے کے لیے )کچھ ہے ؟،
اُس صحابہ ی رضی اللہ عنہ ُ نے  عرض کیا """جی نہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِذھَب إلَی أَھلِکَ فَانظُر ھَل تَجِدُ شیاءً:::جاؤ اپنے گھر والوں میں جا کے دیکھو کہ شاید کچھ مل جائے،
 اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ نےواپس آکر عرض کیا"""مجھے (مہر میں دینے کے قابل )کچھ نہیں ملا"""،
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿أُنظُر وَلَو خَاتَمًا مِن حَدِید:::(جاؤ پھر دیکھو)خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے ،
 وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ پھر گئے اور واپس آ کر عرض کیا """اے اللہ کے رسول لوہے کی انگوٹھی تک بھی نہیں ہے ، صرف میرا یہ اِزار (نچلے بدن کو ڈھاپنے والا کپڑا)ہے"""،
سھل بن سعد رضی اللہ عنہ ُ نے(بات کی وضاحت کے طور پر)عرض کیا """اس کی جو چادر ہے اس کا آدھا عورت کا ہو جائے گا"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿ما تَصنَعُ بِإِزَارِکَ إن لَبِستَہُ لم یَکُن علیہا منہ شَیء ٌ وَإِن لَبِسَتہُ لم یَکُن عَلَیکَ شَیء ٌ::: وہ عورت تمہاری چادر کا کیا کرے گی کہ اگر تُم چادر لو گے تو وہ اس کے اوپر کچھ نہ ہوگا اور اگو وہ چادر لے گی تو تمہارے اوپر کچھ نہ رہے گا،
 یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ خاموش ہو رہے ، اور کافی دیر بیھٹنے کےبعد اُٹھ کر واپس چل پڑے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُنہیں(اِس طرح غمزدہ  اورپریشان ہو کر )جاتے ہوئے دیکھا تو اُنہیں واپس  بلوایا اوراِرشاد فرمایا ﴿مَاذَا مَعَکَ مِن القُرآنِ:::تمہارےپاس قُرآن میں سے کیا ہے ؟(یعنی قُرآن میں سے کیا آتا ہے ؟)،
اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے (سورتوں کے نام )گِن گِن کر عرض کیا """میرے پاس فُلاں فُلاں سورت ہے """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ادریافت فرمایا ﴿أَتَقرَؤُھُنَّ عَن ظَہرِ قَلبِکَ:::کیا تُم یہ سورتیں ز ُبانی پڑھتے ہو ؟،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """جی ہاں"""،
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿اِذھَب فَقَد مَلَّکتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِن القُرآنِ:::جاؤ میں نے وہ عورت اُس قرآن کے عوض جو تمہارے پاس ہے تمہاری ملکیت میں دی،
 اور ایک روایت کے الفاظ ہیں ﴿اِذھَب فَقَد زَوَّجتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِن القُرآنِ:::جاؤ میں نے وہ عورت قرآن کے اُس حصے کے عوض جو تمہارے پاس ہے تمہارے نکاح میں دی"""""،
صحیح البخاری / کتاب فضائل القُرآن /باب 21 ، باب22 ، کتاب النکاح /باب 15 ، باب 33 ،35 ، 38 ،41 ، 45 ، 51 ، کتاب اللباس /باب 47 ، صحیح مُسلم /کتاب النکاح /باب13 ،
اپنے موضوع پر گفتگو کو آگے چلانے سے پہلے ایک اور اہم موضوع کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لیے یہ ایک سوال اور اُس کا جواب آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں ، اور وہ یہ کہ """ایک ہی حدیث مختلف ابواب میں ذکر کیوں کی گئی ؟؟؟ """
:::::جواب ::::: کیونکہ ایک ہی حدیث میں سے اتنے احکام ملتے ہیں جتنے ابواب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بنائے ، اور یہ امام بخاری کی عظیم اور باریک بیں فقہ کی دلیل ہے ، افسوس ان لوگوں پر جو محدثین کا حدیثیں جمع کرنا اور کسی پنساری کا جڑی بوٹیاں جمع کرنا ایک ہی کام سمجھتے ہیں ، اور فقہا کو حکیم سمجھتے ہیں جو جڑی بوٹیوں کو ان کے خواص کے مطابق استعمال کرتے ہیں ، اس فلسفے کے شکار یہ نہیں دیکھتے کہ محدثین نے جو ابواب باندھے ہیں وہ ہر ایک حدیث میں موجود احکام کی واضح نشاندہی کرتے ہیں ، پس محدثین کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو بیک وقت پنساری اور حاذق حکیم ہے کہ اس نے ہر جڑی بوٹی کو بیماری کے نام کے لیبل لگا لگا کر الگ الگ کر کے رکھ دیا ، ایسا نہیں کیا کہ جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے بس ایک جگہ لا ڈھیر کِیں ، اس موضوع پر بات پھر کبھی سہی اِن شاء اللہ ،
اپنے مضمون کے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتا ہوں کہ ،
ابھی ابھی ذِکر کردہ حدیث شریف کے ذریعے  اور کئی احکام کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ کسی مادی قدر و قیمت والی چیز کے علاوہ قُران سیکھانا بھی عورت کا مہر مقرر کیا جا سکتا ہے ،
لیکن یہاں یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھنے کی ہے کہ یہ معاملہ معمول نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ،
یہ صِرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کوئی عورت نکاح کی خواہاں ہو اور اس کو نکاح میں لینے والا مرد کوئی بھی چیز دے سکنے کے قابل نہ ہو ، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے منھج پر چلنے والا کوئی مُسلمان حاکم وقت اُس مرد کی مالی و مادی کمزوری کا بہت اچھی طرح اندازہ کرنے کے بعد ، دونوں کی باہمی رضا مندی سے اس عورت کا مہر کوئی ایسی چیز مقرر کر سکتا ہے جو مادی قدر و قیمت کی حامل نہ ہو ،
اِس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی عورت دُنیا میں کسی بھی چیز کے حصول کے بغیر صرف آخرت کی کسی خیر کو اپنا مہر قُبول کرسکتی ہے ،
::: اس مسئلے کی ایک اور دلیل  :::
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہُ اپنی والدہ اُم سلیم کے دوسرے نکاح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ :::
""""" ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ُنے اُم سلیم رضی اللہ عنہا کو نکاح کی پیشکش کی تو اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا """تُم جیسے کو انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن میرا اورتُمہارا نکاح ممکن نہیں کیونکہ میں مسلمان عورت ہوں اور تُم کافر مَردہواور میرے لیے حلال نہیں کہ میں تُم سے نکاح کروں لیکن اگر تُم اسلام قبول کر لو تو وہی میرا مہر ہو گا اور میں اُس کے علاوہ کچھ اور طلب نہیں کروں گی"""،سنن النسائی /حدیث 3340/کتاب النکاح / باب 63التزويج على الإسلام، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
احادیث کی دیگر کتب میں اس واقعہ کی دیگر تفصیلات بھی ملتی ہیں ، جن میں اور بہت سے سبق ہیں ، لیکن یہاں میں اپنے موضوع سے براہ راست متعلق روایت پر اکتفاء کر رہا ہوں ، اور اِس کے ساتھ ہی اپنی بات، پہلے سے کہی ہوئی بات دہراتے ہوئے ختم کرتا ہوں کہ """ ان سب دلائل و مباحث کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مہر کی مقدار مقرر کیے جانے کی کوئی نص یعنی لفظی یا عملی بات اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے میسر نہیں ، لہذا ہم کسی مقدار کو نہ سنّت قرار دے سکتے ہیں اور نہ خِلاف سُنّت ، جی ہاں مہر کو اتنا زیادہ کر دینا کہ نکاح کے بنیادی فوائد ، شرمگاہ کی حفاظت ، پاکیزہ معاشرہ ، کثرت أولاد، کا حصول گر ناممکن نہیں تو مشکل ہو جائے ، جائز نہیں """،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اُس کے احکام و فرامین کو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی قولی و عملی تفسیر و شرح کے مطابق سمجھیں ، اور اُس تفسیر و شرح کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کی روشنی میں سمجھیں ، اور کسی بھی قِسم کے تعصب یا ضد کا شکار نہ ہونے پائیں ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
تاریخ کتابت : 26/12/1433ہجری، بمُطابق،11/11/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :21/12/1435ہجری،بمُطابق،15/10/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔