Saturday, October 18, 2014

۝ ۝ ۝ قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،، تیسراقاعدہ 3 ۝ ۝ ۝


۝ ۝ ۝ قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،، تیسراقاعدہ 3  ۝ ۝ ۝  
                        بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿ وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ::: اور یہودی ، اور عیسائی ہر گِز آپ سے  اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اُن کی مِلت کی پیروی نہ کرنے لگیں سُورت البقرہ (2)/آیت 120،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ مذکورہ بالا فرمان  ہمارے موضوع "قران میں بیان کردہ  قواعد(اصول ، قوانین)"میں   تیسرے  قانون کے طور پر بیان کیا جارہا ہے ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ یہ مذکورہ بالا فرمان چودہ صدیاں پہلے نازل فرمایا گیا ، لیکن اللہ تعالی کے دیگر فرامین کی طرح یہ بھی آج تک ہم مسلمانوں کے لیے بالکل ہمارے موجودہ حال اور آنے والے مستقبل کی سچی خبرہے ، بلکہ ایک قاعدہ، ایک قانون ہے ، جِس کی سچائی اللہ تبارک و تعالیٰ ، اُس کو نازل فرمانے کے وقت سے لے کر آج تک دِکھا رہا ہے اور ہمیں اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اِس میں کبھی کہیں کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں ، کیونکہ کہ ہمارے ، اور ساری ہی مخلوق کے اکیلے اور لا شریک خالق کی طرف سے مقرر ہے اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں سب ہی کچھ جانتا ہے ، حتیٰ کہ وہ کچھ بھی جو کچھ مخلوق اپنے بارے میں نہیں جانتی ،
یہ قاعدہ سُورت البقرہ میں نازل فرمایا گیا ، یہ سُورت  مدینہ المنور ہ میں نازل فرمائی گئی ، جب کہ وہاں اور اس کے اِرد گرد یہود اور کچھ دیگر اہل کتاب بستے تھے ، لہذا اِس سُورت میں عمومی طور پر اہل کتاب کی حقیقت اور اُن میں سے خاص طور پر یہود کی حقیقت بیان فرمائی گئی ، اور اُن بیان فرمودہ حقائق میں سے ایک حق یہ قاعدہ بھی ہے ،
اِس  آیت کریمہ ، جِس میں یہ قانون بیان فرمایا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے یہودیوں کے تالیف قلب کی بہت سی کوششوں کے بعد نازل فرمائی گئی ، کیونکہ یہودیوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُن نیک کوششوں میں سے کسی کا بھی کوئی اثر ظاہر نہیں ہو رہا تھا ، لہذا اللہ تبارک وتعالیٰ نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُن کوششوں کو روکتے ہوئے ، یہودیوں اور عیسائیوں کے باطن کی حقیقت ظاہر فرماتے ہوئے ، مسلمانوں کے لیے ایک قانون ، ایک قاعدہ بیان فرمایا  دِیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)آپ (اور مسلمان) اِن عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ کتنا بھی اچھا سلوک کرتے رہیں یہ لوگ اُس وقت تک آپ کے ساتھ راضی نہیں رہ سکتے جب تک کہ آپ اُن کےدِین میں داخل نہ ہوں ،  
إِمام ابن جریر الطبری رحمہُ اللہ نے اپنی معروف تفیسر"""جامع البيان عن تأويل آي القرآن""" میں  اِس آیت کی تفیسر میں لکھا """ يَعْنِي بِقَوْلِهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ ﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ وَلَيْسَتِ الْيَهُودُ يَا مُحَمَّدُ وَلَا النَّصَارَى بِرَاضِيَةٍ عَنْكَ أَبَدًا، فَدَعْ طَلَبَ مَا يُرْضِيهِمْ وَيُوَافِقُهُمْ، وَأَقْبِلْ عَلَى طَلَبِ رِضًا اللَّهِ فِي دُعَائِهِمْ إِلَى مَا بَعَثَكَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ. فَإِنَّ الَّذِي تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ لَهُوَ السَّبِيلُ إِلَى الِاجْتِمَاعِ فِيهِ مَعَكَ عَلَى الْأُلْفَةِ وَالدِّينِ الْقَيِّمِ. وَلَا سَبِيلَ لَكَ إِلَى إِرْضَائِهِمْ بِاتِّبَاعِ مِلَّتِهِمْ؛ لِأَنَّ الْيَهُودِيَّةَ ضِدَّ النَّصْرَانِيَّةِ، وَالنَّصْرَانِيَّةُ ضِدُّ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا تَجْتَمِعُ النَّصْرَانِيَّةُ وَالْيَهُودِيَّةُ فِي شَخْصٍ وَاحِدٍ فِي حَالٍ وَاحِدَةٍ، وَالْيَهُودُ وَالنَّصَارَى لَا تَجْتَمِعُ عَلَى الرِّضَا بِكَ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ يَهُودِيًّا نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ مِمَّا لَا يَكُونُ مِنْكَ أَبَدًا، لِأَنَّكَ شَخْصٌ وَاحِدٌ، وَلَنْ يَجْتَمِعَ فِيكَ دِينَانِ مُتَضَادَّانِ فِي حَالٍ وَاحِدَةٍ. وَإِذَا لَمْ يَكُنْ إِلَى اجْتِمَاعِهِمَا فِيكَ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ سَبِيلٌ، لَمْ يَكُنْ لَكَ إِلَى إِرْضَاءِ الْفَرِيقَيْنِ سَبِيلٌ. وَإِذَا لَمْ يَكُنْ لَكَ إِلَى ذَلِكَ سَبِيلٌ، فَأَلْزَمْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي لِجَمْعِ الْخَلْقِ إِلَى الْأُلْفَةِ عَلَيْهِ سَبِيلٌ::: اللہ جلّ ثناوہُ کی اپنے  فرمان﴿اور یہودی ، اور عیسائی ہر گِز آپ سے  اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اُن کی مِلت کی پیروی نہ کرنے لگیں سے یہ مُراد ہے کہ ،،،اے محمد ، نہ تو یہودی اور نہ ہی عیسائی آپ پر کبھی  خوش اور راضی ہوسکتے ہیں ، لہذا آپ اُن کو راضی کرنے اور اُن کی موافقت پانے کی کوشش ترک فرما دیجیے ، اور جس حق کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے ، اُس کی طرف اُن لوگوں کو دعوت دے کر اللہ کی رضا طلب کیجیے ،کیونکہ آپ اُس حق میں سے جس کی طرف اُن لوگوں کو بلائیں گے وہی آپ کے اور اُن لوگوں کے محبت اور دِینء حق پر جمع ہونے کا سبب ہو گا ، اور آپ کے لیے اُن لوگوں کے دِین میں داخل ہو کر اُن لوگوں کی رضا حاصل کرنے  کی بھی کوئی راہ نہیں ، کیونکہ یہودیت ، نصرانیت کی ضد ہے ، اور نصرانیت ،یہودیت کی ضد ہے ،  اور کسی ایک شخص میں ، ایک ہی وقت میں یہودیت اور نصرانیت جمع نہیں ہو سکتیں ، اور یہودی اور نصرانی دونوں ہی بیک وقت اکٹھے  آپ سے راضی نہیں ہو سکتے،سوائے اِس کے کہ آپ خود یہودی یا نصرانی ہو جائیں ، اور یہ ایسا کام ہے جو آپ سے ہر گِز واقع نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی کبھی آپ کی ذات شریف میں دو متضاد دِین جمع ہو سکتے ہیں ، پس اگر آپ اپنی ذات شریف میں  اِن دونوں متضاد دِینوں کو جمع کرنے کی راہ نہیں پاتے توآپ کے پاس اِن دونوں فریقوں کی رضا حاصل کرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے ، اور اگر آپ کے پاس اِس کام کی تکمیل کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے تو پھر آپ اللہ کی عطاء کردہ ہدایت پر مضبوط رہیے جو کہ ساری ہی مخلوق کے لیے محبت کی راہ ہے """
پس ، اے محترم قاری ، آپ اُس پر غور فرمایے جو کچھ  اِس عظیم قاعدے میں بیان فرمایا گیا ہے ،اور اُس وعید پر غور فرمایے جو اِس عظیم قانون میں مذکور ہے ،،، کہ یہ وعید کس کے لیے ہے ؟؟؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ وعید براہ راست  کسے دی ہے ؟؟؟
جی ہاں ، اللہ جلّ و عُلا نے یہ وعید اپنے سب سے اعلی و أرفع رتبے والے بندے ، اپنے دوسرے اور آخری خلیل ، اپنے آخری رسول و نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ،،،، جب کہ اِس بات کا کوئی امکان تک بھی نہیں تھا کہ وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کے دِین حق کی بجائے کسی اور دِین کی طرف مائل بھی ہو جاتے ،  کیونکہ وہ اللہ کی عصمت میں تھے ، معصوم تھے ، اور وہی آخری معصوم تھے ،،،جب اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے یہ وعید ہے ، اور کافروں بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں کی رضا حاصل کرنے کی واحد صُورت اُن کافروں کی ملت میں شامل ہونا بتادِیا گیا ہے ،،،، تو پھر کسی اور کے لیے اس سے محفوظ رہنے کی کیا گنجائش ہے ؟؟؟
کسی اور کے لیے بھی یہ ہر گِز ہر گِز ممکن نہیں کہ وہ یہود یوں اور عیسائیوں کی ملت میں شامل ہوئے بغیر اُن کی رضا اور خوشی حاصل کر لے ، خواہ وہ اُن کے لیے اپنے مُسلمان بھائیوں بہنوں کی حتی کہ اپنی بھی جان مال عِزت و عِفت سب کچھ اُجاڑ کر رکھ دے ، وہ کافر پھر بھی اُس سے راضی نہیں ہوں گے ،
اور صِرف  اتنا ہی نہیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ جو کوئی بھی کافروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اُن کی باتیں مانے گا ، اُن کی خواہشات کے مطابق عمل کرے گا وہ درحقیقت  بے آسرا اور بے مددگار ہو گا ، جو کوئی بھی اُس کا ساتھ دینے والا دِکھائی دے گا وہ اصل میں اُس کا ساتھی اور مددگار نہیں ہو گا ، بلکہ اُس کو بھی راہ سے ہٹانے کی تاڑ میں ہو گا ،  اور اِن سب مصیبتوں سے بچنے کے لیے اللہ کی طرف سے اُس کا کوئی بھی حامی و مددگار نہ ہوگا ،
جی ہاں یہ ہی حق ہے ، کہ حق تعالیٰ نے اِسی آیت شریفہ کے اختتام میں اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو  یہ اعلان کرنے کا حکم  بھی فرما دِیا ہے کہ ﴿قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ::: کہیے ، یقیناً اللہ کی عطاء کردہ ہدایت ہی اصل حقیقی ہدایت ہے ، اورآپ کے پاس(حق کے بارے میں ) عِلم آ جانے کے بعد بھی اگر آپ نے اُن لوگوں کی خواھشات کی پیروی کی ، تو(یاد رکھیے کہ) اللہ سے(بچانے کے لیے) آپ کا کوئی بھی حامی نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی مددگار
اے میرے اِیمان والے بھائیو، اور بہنو ، کچھ تدبر فرمایے کہ  اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِنسانی زندگی کے معاملات  کو کِس طرح دو قِسموں میں تقسیم فرما کر انتہائی واضح فرما دِیا ہے کہ :
دو ہی راستے ، دوہی طریقے ہیں  ، (1) ہدایت ، اور (2) بے ہدایتی ، جس میں نفسانی ، ذہنی ، جسمانی ، ظاہری اور باطنی ہر قسم کی خواہشات اور افکار کی پیروی ہوتی ہے ،
اور یہ کہ ، اصل حقیقی ہدایت وہی ہے جو اللہ کی طرف سے عطاء ہوتی ہے ،
اور، یہ کہ ،  اس کے عِلاوہ جو کچھ بھی ہے وہ خواہشات اور افکار کی پیروی ہے ،  
إِمام ابن جریر رحمہُ اللہ نے اِس آیت کی تفسیر میں فرمایا :::
""" يَعْنِي جَلَّ ثَنَاؤُهُ بِقَوْلِهِ: ﴿وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ يَا مُحَمَّدُ هَوَى هَؤُلَاءِ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، فِيمَا يُرْضِيهِمْ عَنْكَ مِنْ تَهَوُّدٍ وَتَنَصُّرٍ، فَصِرْتَ مِنْ ذَلِكَ إِلَى إِرْضَائِهِمْ، وَوَافَقْتَ فِيهِ مَحَبَّتَهُمْ مِنْ بَعْدِ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ بِضَلَالَتِهِمْ وَكُفْرِهِمْ بِرَبِّهِمْ، وَمِنْ بَعْدِ الَّذِي اقْتَصَصْتُ عَلَيْكَ مِنْ نَبَئِهِمْ فِي هَذِهِ السُّورَةِ، ﴿مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ. يَعْنِي بِذَلِكَ: لَيْسَ لَكَ يَا مُحَمَّدُ مِنْ وَلِيٍّ يَلِي أَمْرَكَ، وَقَيِّمٍ يَقُومُ بِهِ، وَلَا نَصِيرٍ يَنْصُرُكَ مِنَ اللَّهِ، فَيُدْفَعُ عَنْكَ مَا يَنْزِلُ بِكَ مِنْ عُقُوبَتِهِ، وَيَمْنَعُكَ مِنْ ذَلِكَ أَنْ أَحَلَّ بِكَ ذَلِكَ رَبُّكَ::: اللہ جلّ ثناوہُ اپنے  فرمان ﴿اگر آپ نے اُن لوگوں کی خواھشات کی پیروی کی میں یہ بتا رہا ہے کہ  ، اے محمد ، اِن یہودیوں اور عیسائیوں کی وہ خواھش جس کے ذریعے آپ انہیں اپنے بارے میں راضی کر سکتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ آپ یہودی ہو جائیں یا نصرانی ، تو (صِرف )اِسی طرح ہی آپ اُن کی خوشنودی کی طرف جا سکتے ہیں ، اوراِس طریقے سے ہی  اُن کی پسند کی موافقت کر سکتے ہیں ،(اور اگر )آپ اس کے بعد جب کہ (اللہ کی طرف سے)اُن لوگوں کی گمراہیوں اوراُن کے رب کے ساتھ  کفر کے بارے میں عِلم آپ کے پاس آ چکا ہے، اور اس کے بعد کہ میں نے اِس سُورت میں  آپ کو اُن لوگوں کی خبریں دے  دی ہیں (لہذا) ﴿(یاد رکھیے کہ) اللہ سے(بچانے کے لیے) آپ کا کوئی بھی حامی نہ ہو گا اور نہ ہی کوئی مددگار، اس سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ ، اے محمد (اگر آپ نے اُن لوگوں کی رضا کے لیے اُن کی خواھش کی پیروی کی تو )آپ کے معاملے کی (اللہ کے سامنے ) دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو گا ، اور نہ ہی کوئی ایسا ہو گا جو آپ کے معاملے کو (اللہ کے سامنے)مضبوط کر سکے ، اور نہ ہی کوئی اللہ  سے بچانے کے لیے مددگار ہو گا ، کہ آپ سے وہ کچھ دُورر کرسکے جو اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر آپ کی طرف نازل کیا جا سکتا ہے ، اور آپ کوا س سے (یعنی  اللہ کی سزا  کی پہنچ سے)روک  سکے، اگر اللہ نے آپ کے لیے ایسا کرنا قرار دے لیا تو (یقیناً آپ کو اللہ سے بچانےوالا کوئی نہ ہو گا )"""
محترم قارئین ، اچھی طرح سے غور فرمایے ، کہ اگر  کافروں ، بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں  کی خوشی حاصل کرنے کی کوشش میں ان کی خواھشات کے مطابق عمل کرنے پر اللہ کا عذاب اللہ کے محبوب ترین بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اترنے  کی وعید ہے تو پھر کون ایسا ہو گا جو اِس سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟؟؟
یقیناً اور پھر یقیناً اور بے شمار بار یقیناً کوئی بھی ایسا نہ تھا ، نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے ،
پس ہر وہ شخص جو  کافروں ، بالخصوص یہود یوں اور عیسائیوں کی خوشی پانے کے لیے ، انہیں راضی کرنے کے لیے اُن کی خواہشات پر عمل کرتا ہے وہ اللہ کی طرف سے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے ،
قارئین کرام ، یہ قاعدہ ، یہ قانون ، اللہ تبارک وتعالیٰ، اکیلے لا شریک خالق  کی طرف سے بیان فرمودہ ہے ، کسی انسان ، یا کسی اور مخلوق کی سوچو فِکر کا نتیجہ نہیں ، اور اللہ جلّ و عُلا اپنی تخلیق کے بارے میں خوب جانتا ہے ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ:::کیا وہ نہیں جانتا جِس نے تخلیق کیا ہے ، جبکہ وہ باریک بین اور بہت زیادہ خبر رکھنے والا ہے، سُورت المُلک (67)/آیت 14،
جی ہاں یقیناً اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی مخلوق کے ظاہر و باطن کے سارے ہی معاملات اور احوال مخلوق سے زیادہ جانتا ہے اور مخلوق کی تخلیق سے پہلے تقدیر مقرر فرما چکا ہے ،پس ہر مخلوق کے خاتمے کے بعد بھی اس کے احوال کا عِلم رکھتا ہے ،
اِس اکیلے لاشریک خالق  اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنی مخلوق  کے کچھ لوگوں کے بارے میں جو اُن کی یہ حقیقت ایک قاعدے ، ایک قانون کی صُورت میں بیان فرمائی گئی ہے اِس میں رتّی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ،
لیکن ،،، افسوس صد افسوس کے مُسلمانوں کی صفوں میں ہی کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے اکیلے اور لا شریک خالق کے بیان کردہ اِس قانون کے بارے میں مشکوک ہیں ، اور نہ صِرف  یہ کہ خود مشکوک ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اِس قاعدے کے بارے میں شکوک کا شِکار کرنے کی ملحدانہ کوششوں میں لگے رہتے ہیں ،
ان شکوک کی عام شکل یہ ہے کہ کچھ لوگ یہودیوں اور عسائیوں کو کافر نہیں  کہتے بلکہ انہیں اہل کتاب کہہ کر کفار کی گنتی سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کافر تو وہ ہے جو اہل کتاب نہیں ، جبکہ اُن لوگوں کا یہ فسفلہ اللہ اور اس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے بالکل خِلاف ہے ، لیکن شکوک کے شِکار اور شکوک پھیلانےو الے لوگ یا تو حق جانتے ہی نہیں اور یا پھر جان بُوجھ  کر اُس کی مخالفت کرتے ہیں ،
یہ شکوک کے شِکار یا شکوک پھیلانے والے خواہ حق کے بارے میں جاھل ہوں ، یا جانتے بُوجھتے ہوئے مخالفت کرنے والے ، دونوں کا ہدف مشترک ہوتا ہے کہ کسی طور مُسلمانوں  میں کفار کی چاہت، محبت ، لگاؤ ، میلان  پیدا کر دی جائے ، اور اُن کے سامنے اس طرح احساس کمتری کا شِکار کر دِیا جائے کہ مسلمان دِین اوردُنیا کے ہر معاملے میں اُن کافروں کی ہی پیروی کرنے لگیں ، یہاں تک کہ وہ نام نہاد مُسلمان رہ جائیں جیسا کہ اس وقت ہماری اکثریت کا حال ہے ، اور پھر بھی وہ کافر اور اُن کے لیےدانستہ یا نا دانستہ  کام کرنے والے ایسے مُسلمانوں پر راضی نہیں ،
کہیں اگر کسی اِکا دُکا کو کفار کی طرف سے دُنیاوی مال و متاع میں سے  کچھ یا بہت کچھ ملتا ہے تو اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اُس پر راضی ہو گئے ، بلکہ جب تک وہ اُسے استعمال کرنا چاہتے ہیں ، دُنیا کی لذتوں میں غرق کیے رکھتے ہیں ، اور جب اُن کا کام نکل جاتا ہے تو یا تو چھوڑ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں اور یا پھر اسے قتل کر دیا جاتا ہے ، یہ ایک ایسی  مسلسل تاریخی حقیقت ہے جِس سے کوئی بھی دُرُست اور صحت مند عقل والا انسان اِنکار نہیں کر سکتا ، جِسے جاننے کے لیے اور سمجھنے کے لیے  قران و حدیث یا شرعی عُلوم کا قاری یا ماہر ہونے کی بھی ضرورت نہیں ، اپنے اِرد گِرد ماضی بعید سے لے کر حال تک پر نظر کرنے سے ہی  یہ حقیقت آشکار ہوجا تی ہے ،
ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے ، ہو رہا ہے ، اور  ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہے گا ، کیونکہ مُسلماں و کافر کے اکیلے خالق نے یہ قانون ، یہ قاعدہ بیان فرمادِیا ہے کہ کافر اور بالخصوص یہودی اور عیسائی کسی بھی مُسلمان سے خاص طور پر ،اور کسی بھی انسان سے عام طور پر ، اُس وقت تک راضی نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ  اپنا دِین  چھوڑ کر اُن کے دِین پر نہ آجائے اور اُن کی مِلت میں شامل نہ ہو جائے ،
میرے محترم قارئین ، ہمارے اکیلے خالق و مالک اللہ جلّ جلالہُ نے اپنی کتاب کریم قران حکیم میں، کافروں کی طرف سے  اِس قاعدے ، اِس قانون  پر عمل پیرائی کے کئی اور انداز ، اور کیفیات بھی ہمیں بتا ئی ہیں ، تا کہ ہم لوگ اُن کی کافروں کی حقیقت کے بارے میں کسی شک کا شکار نہ ہوں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿ وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ:::اہل کتاب  پر حق واضح ہو چکنے کے بعد (بھی) اُن کے نفوس  میں پائے جانے والے حسد  کی وجہ سے ، اُن کی اکثریت کی یہ خواھش ہے کہ وہ تُم لوگوں کے اِیمان (لاچکنے )کے بعد (بھی )تُم لوگوں کو پھر سے کافر بنا دِیں ، سُورت البقرہ (2)/آیت 109،
اور اِرشاد فرمایا دِیا ہے کہ ﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ::: آپ سے حُرمت والے مہینے میں لڑائی کے بارے میں پوچھتے ہیں، فرما دیجیے کہ اِس مہینے میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے ، اور اللہ کے راستے سے روکنا ، اور اللہ سے کفر کرنا ، اور مسجد الحرام (کی حدود میں لڑنا ) اور مسجد الحرام کی حدود میں رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا ، اللہ کے ہاں (حرمت والے مہینے میں لڑائی کرنے سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور فتنہ پھیلانا قتل سے بھی بڑا( گناہ )ہے ، اور یہ لوگ اُس وقت تک تُم لوگوں سے لڑتے ہی رہیں گے جب تک کہ ، یہ ایسا کر سکیں کہ تُم لوگوں کو تمہارے دِین سے واپس پھیر دِیں ، اور تم لوگوں میں سے  جو کوئی بھی اپنے دِین سے واپس (کفر)میں پلٹا، اور  کافر ہونے کی حالت میں مر گیا تو دُنیا اور آخرت میں ایسے لوگوں کے سارے ہی عمل برباد ہیں اور وہ لوگ جہنم والے ہیں جہاں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، سُورت البقرہ (2)/آیت 217،
اور اِرشاد فرما دِیا کہ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ O بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ::: اے  اِیمان لانے والو، اگر تُم اُن لوگوں کی پیروی کرو گے جنہوں نے کفر کیا تو وہ لوگ تُم لوگوں کو تُمہاری ایڑیوں  پر واپس پلٹا دیں گے ، اور  تُم لوگ نقصان اٹھاتے ہوئے (کفر میں) واپس ہو جاؤ گے O بلکہ (اِسی پر اِیمان رکھو کہ)اللہ ہی تُمہارا مولا ہے اور وہ سب سے بہترین مددکرنے والا ہے ، سُورت آل عِمران(3)/آیات 149،150،
اِن آیات کریمات  کی روشنی میں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مُسلمان کواُس کے  دِین سے ہٹانا سب ہی کافروں کا ہدف ہوتا ہے ، اور اُن کافروں میں یہود ی او رعیسائی بھی شامل ہیں ، اور اِن دونوں معاملات کے بارے میں یہ مذکورہ بالا گواہیاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہیں ، جِس سے بڑھ کر حق جاننے والا کوئی نہیں ، اور جِس سے بڑھ کر سچ بولنے والا کوئی نہیں ﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا ::: اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا بھلا کون ہےسُورت النِساء (4)/آیت 122،
اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  ز ُبان مبارک سے بھی اداکروائی ﴿مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلاَ هَادِىَ لَهُ إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَحْسَنَ الْهَدْىِ هَدْىُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِى النَّارِ :::جسے اللہ ہدایت دے اُسےکوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گمراہ کر دے اُسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ،یقیناً سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے ، اور سب سے بہترین ہدایت محمد کی (لائی اور دی ہوئی)ہدایت ہے اور(دِین میں ) سب سے برے اور شر والے کام(خود ساختہ) نئے بنائے ہوئے کام ہیں، اور(دِین میں ) ہرایک  نیا (خود ساختہ) کام بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے،سُنن النسائی/حدیث/1589کتاب العیدین/باب22 ، إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،   
لہذا محترم قارئین ، خُوب اچھی طرح سے سمجھ لیجیے ، اور اِس پر اِیمان رکھیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ یہ قاعدہ ، یہ قانون کہ ہے ﴿ وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ::: اور یہودی ، اور عیسائی ہر گِز آپ سے  اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ اُن کی مِلت کی پیروی نہ کرنے لگیں، اور اس کے مطابق دیگر آیات کریمات جن میں سے کچھ کا ابھی ابھی ذِکر کیا گیا ہے ، سب اللہ کی طرف سے خبریں ہیں ، اور خبر کبھی منسوخ نہیں ہوتی ، کیونکہ کسی بھی  خبر کو غلط قرار دینا ، اسے منسوخ قرار دینے کا مطلب ہے کہ خبر کرنے والا جھوٹا ہے  ، اور اگر یہ معاملہ کسی بڑے رتبے والے انسان کے ساتھ ہو جائے تو اُس کی شخصیت داغدار ہو جاتی ہے تو بھلا معاذ اللہ ،  ایسے کسی معاملے کا  اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات شریف کے بارے میں ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے ؟؟؟
یقیناً نہیں ،
کسی سچے انسان کی طرف سے آنے والی کسی خبر کی غلطی ظاہر ہونے پر یہ تصور کیا  جا سکتا ہے کہ اسے غلطی لگی ، یا اُس تک بات درست طور پر نہ پہنچی ، یا اُس نے بات کو ٹھیک سے نہ سمجھا وغیرہ وغیرہ ،
لیکن اللہ العلیم الخبیر کے بارے میں تو کسی بھی قِسم کے نُقص کے بارے میں سوچنا بھی کفر ہے اور یقینا غلط ہے ،  
پس یہ خبریں سب کی سب سچی ہیں  ،کسی ادنیٰ سے شک اور شبہے کے بغیر بالکل حق اور سچ ہیں ، ان  کی سچائی کی مسلسل گواہیاں انسانی تاریخ میں بھری پڑی ہیں ،  کہ کافر مُسلمانوں کی طرف سے ڈھیروں نرمیاں ، آسانیاں ، اور سہولیات پانے کے باوجود اُن سے راضی نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں ،
اور یہودی تو وہ بد ترین قوم ہیں کہ جنہوں نے رحمت للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بے پناہ آسانیاں اور در گذر والے معاملات پانے کے باوجود اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کھانے میں زہر مِلا دِیا ،
آخر میں ایک شک کے بارے میں وضاحت کرتا چلوں کہ اگر کچھ لوگوں کو کسی ایک کافر یا کچھ کافروں کے ساتھ کچھ ذاتی قِسم کے معاملات یا تجارتی معاملات کرنے  میں اُن کافروں کی طرف سے اچھائی ملتی ہے  تو اِس  کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ معاذ اللہ ،  اللہ جلّ جلالہُ کی دی ہوئی خبر  دُرُست نہیں ، یا زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ اب اِس خبر کی افادیت بھی بدل گئی ہے ،
جی نہیں ، اور ہر گِز ہر گِز نہیں ، کسی ایک یا چند ایک کافروں کی طرف سے کوئی یا کچھ معاملات میں اچھائی ملنے کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں جن میں سے سب سے بڑا سبب اُن کی دُنیاوی تجارتی غرض ہوتی ہے ، یا کوئی ڈر ہوتا ہے ، یا کوئی اور ایسی ذاتی مصلحت ہوتی ہے جس کے لیے وہ اچھے معاملات ظاہر کرتے ہیں ، لیکن جب جب جہاں جہاں اُن کی یہ مصلحتیں ختم ہو جاتی ہیں ، اُن کافروں کی یہ حقیقت جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ کافر  لوگ ، مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کھانے میں زہر ملانے سے لے کر آج تک فلسطین ، افغانستان ، عراق، شام ،کشمیر اور برما میں کافروں کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم دیکھ لیجیے ،  جو کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے بیان کردہ اِس قاعدے ، اِس قانون کی سچائی کے منہ ُ بولتے ثبوت ہیں ، ایسے ثبوت جِن سے صِرف وہی انکار کر سکتا ہے، یا جِن کے بارے میں صِرف وہی شخص تاویلات پیش کر سکتا ہے جِس کی عقل و بصیرت کو اللہ نے مٹا دِیا ہو ،
اللہ جلّ و عُلا ہم سب کو اُس کے نازل کردہ حق کو جاننے ، پہنچانے ، ماننے اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق دے ،اللہ کے دِین اور اُس دِین کے ماننے والوں کے دُشمنوں کو پہچاننے اور اُن کی چالبازیوں کو ناکام کرنے کی ہمت دے ، والسلام علیکم۔
ڈاکٹر ، شیخ ، عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے ایک درس""" قواعد قرانیہ ،القاعدۃ الرابعۃ و ثلاثون""" سے ماخوذ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: أہم وضاحت ::: خیال رہے کہ یہ مضامین محترم شیخ ، عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے دروس سے ماخوذ ہیں ، نہ کہ اُن کے دروس کے تراجم ، بلکہ ان مضامین میں کم و بیش ساٹھ ستر فیصد مواد میری طرف سے اضافہ ہے، اس لیے اِن مضامین کو حرف بحرف محترم شیخ صاحب حفظہ ُ اللہ سے منسوب نہ سمجھا جائے  ۔
اور مضامین کا تسلسل بھی میں نے محترم شیخ صاحب کے دروس کے تسلسل کے مطابق نہیں رکھا ، بلکہ مصحف شریف میں آیات کے تسلسل کے مطابق رکھا ہے ۔ عادل سہیل ظفر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 05/01/1435 ہجری ،بمطابق، 09/11/2013 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ درج ذیل لنک سے اتارا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔