Friday, October 24, 2014

::::::: عورت کا حقیقی حُسن ، حیاء :::::::



::::::: عورت کا حقیقی حُسن ، حیاء :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہُ:::بےشک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اورحقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں:::
اِس کے بعد ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اکیلے ، لا شریک خالق اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی سب سے زیادہ بزرگی اور عِزت والی مخلوق اِنسان کی فطرت میں ایک ایسی صِفت عطاء فرمائی ہے جو یقینی طور پر خیر کا سبب بنتی ہے، جسے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِیمان کاحصہ قراردیا ہے ﴿الإِیمَانُ بِضعٌ وَسِتُّونَ شُعبَۃً وَالحَیَاء ُ شُعبَۃٌ مِن الإِیمَانِ:::اِیمان کے ساٹھ اور بضع(63 سے 69)حصے ہیں، اور حیاء اِیمان( کے حصوں)میں سے ایک حصہ ہے صحیح البُخاری /حدیث 9/ کتاب الاِیمان/باب 2،صحیح مُسلم حدیث 35/کتاب الاِیمان/باب 12 سنن ابن ماجہ/حدیث 58/ (9)باب فی الاِیمان،سنن النسائی/کتاب الاِیمان و شرائعہ/(باب)16ذکرُ شُعب الاِیمان، میں صرف آخری جز مروی ہے ،
جی ہاں ، یہ صِفت حیاء ہے جو اِیمان کی کمزوری کے ساتھ کم ہوتی ہے اور اِیمان کے بڑہنے سے بڑہتی ہے ،(اِیمان کا گھٹنا اور بڑھنا بالکل حق سچ ہے ، اِس لیے کسی پڑھنے والے کو یہ پڑھ کر پریشانی لاحق نہ ہو کہ ایسا کس طرح ہوسکتا ہے )پس کسی میں پائی جانے والی حیاء سے اُس کے اِیمان کی قوت و منزلت کا اندازہ ہو سکتا ہے ،
جیسا کہ سب سے اعلیٰ ترین اور مکمل ترین اِیمان والے ، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیاء کے بارے میں ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ ﴿کانِ رَسُول اللَّہِ عَلیہِ و عَلی آلہِ وَسلَّم أشدَّ حَیاءً مِن العَذراءِ فی خِدرِھَا:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی چادر میں لپٹی ہوئی کسی کنواری سے زیادہ حیاء والے تھے صحیح البُخاری /کتاب الادب / باب 77 ، صحیح مُسلم /کتاب الفضائل / باب 16 ،
اور جیسا کہ ہمارے محبوب رسول اللہ مُحمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پاکیزہ بیوی اِیمان والوں کی امی جان محترمہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ""" ایک دفعہ اُن کی بہن أٔسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم جمعیاً اُن کے حجرہ میں داخل ہوئیں اور انہوں نے باریک لباس پہن رکھا تھا تو﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کی طرف سے چہرہ مُبارک پھیر لیااور اِرشاد فرمایا﴿یا أَسمَاءُ إِنَّ المَرأَۃَ إذا بَلَغَت المَحِیضَ لم تَصلُح أَن یری مِنھا إلا ھَذا وَھَذَا وَأَشَارَ إلی وَجھہِ وَکَفَّیہِ ::: اے أٔسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لیے حلال نہیں کہ ُاس میں سے کچھ نظر آئے ، سوائے اس کے اور اس کے ، اور(یہ فرما کر) اپنے چہرہ مُبارک اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی طرف اِشارہ فرمایاسُنن ابو داؤد /حدیث 4104/ کتاب اللباس/ باب33، اِمام الالبانی رحمۃُ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا،
اللہ کی عطاء کردہ اس صفت میں اور بہت سی صفات ہیں ، یعنی یہ ایک صفت اپنی جگہ اکیلی نہیں بلکہ صِفات کا مجموعہ ہے ، اور اِس میں پائی جانے والی صِفات میں سے سب سے أہم یہ ہے کہ حیاء کسی بھی اِیمان والے کو اُس کی نظر کی حفاظت کرنے پر خوشی اور فخر کے ساتھ آمادہ رکھتی ہے ،
اور اُس سے کہیں زیادہ کسی بھی اِیمان والی کوبا رضا و رغبت اُس کی نظر اور ساتھ ہی ساتھ ستر وحجاب یعنی پردہ داری اور پردے پر قائم رکھتی ہے ، وہ پردہ داری اور وہ پردہ جو اللہ نے اُس اِیمان والی پر فرض کر رکھا ہے ،
جب شرم و حیاء مَردوں میں ایک اچھی تعریف کی گئی صِفت سمجھی جاتی ہے تو عورتوں میں اس صِفت کا ہونا کہیں زیادہ ستائش و تعریف والا ہے ، کیونکہ عورت کا دائمی اور ہمیشہ اور ہر کسی کو اُس کی جگہ اور مُقام کے مطابق مرعوب اور جذب کرنے والا حُسن وہ ہے جو اُس عورت کے باطن میں موجود اِیمان سے منعکس ہو کر ظاہر ہوتا ہے ، شاید اِسی لیے کہا جاتا ہے، اور دُرُست ہی کہا جاتا ہے کہ ''''''' عورت کا حقیقی حُسن اُس کی حیاء میں ہے '''''''،
اور واقعتا یہ ہے بھی حقیقت ، ایسی حقیقت جس کا انکار کوئی عقل کا مارا ، شہوت رانی کا شکار ، غیرت و حیاء سے عاری ہی کر سکتا ہے ، جس کے معیار اللہ کی عطاء کردہ صِفات کے مطابق نہ رہے ہوں ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ اور پسندیدہ صفات کے مطابق نہ رہے ہوں ، پس وہ عورت کی بے پردگی اور بے حیائی کو حُسن سمجھتا ہے اور اُس غیر حقیقی ، باطل حُسن میں عورتوں کو ملوث کر کے اُن عورتوں کی عِزت و عِفت کو شِکار کرنے کی کوشش میں اپنی آخرت کی یقینی ذلت اور تباہی کما لیتا ہے ، اور بسا اوقات دُنیا کی بھی،اللہ ہر مُسلمان کو ہر گمراہی سےمحفوظ رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
اِیمان والیوں کو اُن کے مالک اور خالق اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف سے عطاءکردہ اس بہترین اور پسندیدہ صفت """ حیاء """ کے عین مطابق اور اس کے عملی مفہوم و مطلوب کو اپنے کلام میں اِیمان والیوں کے انداز و اطوار اور اُن کے لباس کی حدود مقرر کرتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرمانے کا حُکم دیتے ہوئے یوں بیان فرمایا کہ ﴿ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ::: اے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )آپ اِیمان والی عورتوں کو فرما دیجیےکہ وہ اپنی نگاہیں جُھکائے رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریںاور وہ (اِیمان والیاں) اپنی زینت(خود سے )ظاہر مت کریں ہاں جو(بلا اِرادہ)ظاہر ہو جائے (تو اس پر گناہ نہیں)اور ضروراپنی چادروں کو(صرف سروں پر ہی نہ رکھیں بلکہ)اپنے سینوں پر لیپٹ لیا کریں سورت النور(24)/آیت31،
محترم قارئین کرام ،،،،،غور فرمایے ، اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ''''' وَلَیَتَخذِنَّ خِماراً ::: اور وہ (اِیمان والیاں) ضرور چادریں لیا کریں '''''، کیونکہ صرف چادر لینا حیاء کا وہ فطری تقاضا پورا نہیں کرتا جس کے مطابق اُسے بنایا گیا ، بلکہ وہ تقاضا چادر کو اس طرح ڈھیلے پن کے ساتھ لپیٹنے سے پورا ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کے نشیب و فراز ظاہر نہ ہوں ، اور تقاضا ہے پردہ کرنا ، یعنی خود کو چُھپائے سِمٹائے رکھنا ہی عورت کی '''حیاء ''' کا اصل عملی مفہوم اور تقاضا ہے ، اب اگر اس کو پورا کرتے ہوئے کِسی اِیمان والی سے اپنی مرضی اور اختیار کے بغیر کچھ ظاہر ہو جائے تو وہ بے حیائی نہیں ،
عورت کی '''حیاء ''' کا یہ مذکورہ بالا تقاضا ، یہ اساسی عملی مفہوم اور مطلوب ، اور اُس میں سے یہ استثناء کسی مخلوق کی پرواز ء عقل کا شاخسانہ نہیں بلکہ خالق واحد و حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ کی مکمل اور بے عیب حِکمت میں سے ہے ،
 جیسا کہ اُس نے اپنے( مذکورہ بالا )فرمان کے آغاز میں اِرشاد فرمایا ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا:::اور نہ ہی وہ (اِیمان والیاں )اپنی زینت (خود سے )ظاہر کریں ہاں جو (بلا اِرادہ )ظاہر ہو جائے،
پھر اسی ''' حیاء ''' کا وہ مُقام بھی بیان فرمایا جہاں اگر اسے اُسی طور برقرار رکھا جائے تو وہ فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث ہوتا ہے ، پس وہاں بھی اس ''' حیاء '''سے رخصت عطاء فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ،،،،،،، ::: اور (اِیمان والیاں) اپنی زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے، یا اپنے باپوں کے، یا اپنے سُسروں کے،یا اپنے بیٹوں کے ،یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے،یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے،یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے،،،،سابقہ حوالہ،
اللہ تعالیٰ کے ان فرامین سے صاف طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ عورت کی ''' حیاء ''' کی اساس اور اصل حکمت اُسکا پردہ ہے اُسکا ڈھکا چُھپا رہنا ہے ،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان احکامات کے آغاز میں اس بات کا حکم دیا کہ عورت اپنے آپ اور اپنی زیب و زینت کو کس طور ڈھانپ اور چُھپا کر رکھے ، اور پھر اُس حُکم میں سے خاوند اور دیگر کچھ رشتہ دار مردوں کے سامنے ہونے اور ان سے ،ملنے جلنے کے بارے میں کچھ محدود رُخصت عطاء فرمانے کے بعد پھر اُسی اصل کی طرف واپس لاتے ہوئے مزید حُکم فرمایا ﴿وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ::: اور (اِیمان والیاں)اپنے پاؤں بھی زور سے مت ماریں تا کہ اُن کی چُھپی ہوئی زینت ظاہر ہوسابقہ حوالہ،
یعنی اس بات کی بھی اجازت نہیں دی گئی کہ اِیمان والی عورت اپنے پاؤں کو ہی اس لیے زور سے زمین پر رکھے یا مارے کہ اُس کی پازیب وغیرہ کی آواز ظاہر ہو اور کوئی غیر مرد اُس کی طرف متوجہ ہو ، سُبحان اللہ ، اِس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے پاؤں کے زیور ، بلکہ اُس سے نکلنے والی آواز کو بھی چُھپائے رکھنے کا حُکم دیا ، اِن احکامات کو وہی دِل و دِماغ بخوشی قبول کرتا ہے جس میں اِیمان کی روشنی ہو گی ، اور جتنی زیادہ یہ روشنی ہو گی اتنا ہی زیادہ اِن احکامات پر عمل ہو گا اور جتنا زیادہ اِن پر عمل ہو گا اتنا ہی حُسن ظاہر ہو گا ، کیونکہ عورت کا حُسن اس کی بے پردگی میں نہیں ، اُس کی بے لباسی میں نہیں ، وہاں تو صرف ظاہری اور وقتی جاذبیت ہوتی ہے جو عموماً نفسانی خواہشات و جذبات پر منحصر ہوتی ہے جو اُس خواہش یا جذبے کے ساتھ ساتھ رُخصت ہو جاتی ہے ، اور پھر وہی بے پردگی ، بے حیائی اور عُریانیت زدہ ''' حُسن '''جو اللہ کی نافرمانی کروا رہا ہوتا ہے بے کیف لگتا ہے اور ہوس کا مارے ہوئے کسی اور بے حیاء کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ،
عورت کا اصل حُسن وہ ہے جو مرد کو ہمیشہ اُس کا گرویدہ کیے رکھے اور وہ حُسن اُسکی ''' حیاء ''' میں ہے ، جس کی کشش ، جس کا احترام ، جس کی جاذبیت ہر رشتے اور تعلق کے مطابق الگ الگ ہوتی ہے اور ہمیشگی والی ہوتی ہے ،
پس اِیمان والیاں اپنے اِس فطری حُسن کو اللہ کی تابع فرمانی میں نکھارتی رہتی ہیں ، اور اِیمان والے اُنکے مددگار ہوتے ہیں  ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ:::اور اِیمان والے اور اِیمان والیاں ایک دوسرے کے ساتھی ا ور مددگار ہیں (کہ) نیکی کا حُکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ اداکرتے ہیں اور اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)کی اطاعت کرتے ہیں یہی ہیں جن پرجلد ہی اللہ رحم فرمائے گا بے شک اللہ بہت ہی زبردست اور حِکمت والا ہےسورت التوبہ(9)/ آیت71۔
لہذا ہر ایک اپنے اپنے اِیمان کی حالت اور اُس کی قوت اپنے اندر پائی جانے والی ''' حیاء ''' اور اُسکے بارے میں اپنے خیالات اور اپنے عمل کے ذریعے جان سکتا ہے ، کہ کون بے حیائی کو پسند کر کے خلافِ اِیمان کام کرنے والوں میں ہے اور کون با حیاء رہ کر نیکی اور خیر میں اپنے کلمہ گو بھائیوں بہنوں کا مدد گار ہے ، اللہ سب مسلمانوں کوسچا اِیمان والا بننے کی ہمت دے ، اور اس کی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اتباع کرنے میں ایک دوسرے کا مددگار بنائے۔
 و السلام علیکم ۔طلب گارء دُعاء،آپ کا بھائی،عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 29/07/1430 ہجری ، بمطابق ، 22/7/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید : 28/12/1435 ہجری ، بمطابق ، 22/10/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخے کے نزول کے لیے درج ذیل ربط ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔