Sunday, December 7, 2014

::::::: اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے شکوہ کرنے کا بیان :::::::

 ::::::: اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے شکوہ کرنے کا بیان :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی  پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
چند دِن پہلےہمارے ایک مُسلمان بھائی جناب جنید  جمشید صاحب کے ایک """تبلیغی بیان """ میں اپنی جماعت کے  روایتی """تبلیغی """ انداز میں اِیمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا ایک واقعہ کچھ ایسے الفاظ میں بیان کیا ، جو  الفاظ امی جان عائشہ  رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے اِیمان اور رتبے کے منافی تھے ،
اس """تبلیغ"""کو ہمارے کچھ دیگر  مُسلمان بھائیوں نے ، شاید اپنے اپنے مذھب و مسلک کی  تائید میں اِستعمال کرنے کے لیے معاملے کو بہت شدید بنا لیا ، اورایک  فتنے اور فساد کی سی کیفیت اور فضا ہو گئی ،
اور کئی جانب سے تو حسب معمول ایسی شدت کا اظہار کیا جا رہا ہے جو کسی بھی طور اِسلامی تعلیمات کی موافقت نہیں رکھتی ،
غنیمت یہ ہے کہ بھائی جمشید جُنید صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور الحمد للہ کہ انہوں نے اِس کا اعتراف بھی کر لیا ، دِلوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ہے ، میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ میرے اِس مسلمان بھائی کی اِس غلطی کو بھی معاف فرمائے ، اور اُنہیں یہ توفیق اور ہمت عطاء فرمائے کہ وہ اپنے اختیار کردہ مذھب میں موجود دیگر غلطیوں کو بھی پہچانیں اور اگر جماعتی سطح پر اُن کی اصلاح کرنے کی استطاعت نہیں پاتے تو کم از کم ذاتی حد تک اُن کی اصلاح کر پائیں ، اِن شاء اللہ ، اُس سے کہیں زیادہ خیر ملے گی جتنی وہ اب ملی ہوئی سمجھتے ہیں ،
محترم قارئین ،
میں یہ مضمون بھائی جنید جمشید صاحب کی غطیوں کو آشکار کرنے کے لیے ، یا اُن کی جماعت کے """تبلیغی بیانات""" کی غلطیوں واضح کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف ، اور ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کی ذات شریف کی پاکیزگی کی وضاحت کے لیے لکھ رہا ہوں ،
لیکن  یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ،
بھائی جنید جمشید صاحب ، اوراُن کی جماعت میں شامل اور اُن کے متاثرین بھائیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ لوگ دِین کے نام پر جو کچھ جانتے ہیں ، اُس کا بڑا حصہ قصوں کہانیوں  جھوٹی روایات اور نا دُرُرست فلسفوں پر مبنی ہے،
اور دوسرا بڑا المیہ یہ کہ  کسی کو بھی """مبلغ""" بنا دِیا جاتا ہے اور اُسے """تبلیغی بیان"""کے زیر عنوان کچھ بھی کہنے کی آزادی ہوتی ہے ،
 پھر جب ایسے لوگوں کو خاموش سامعین میسر ہوتے ہیں تو ہمارے وہ کم علم ، یا لا علم """مبلغ """بھائی اپنی سنانے کے جھونک میں گم ہو جاتے ہیں، اورخاموش سامعین کے سامنے  بولتے جانے کا نشہ  سر چڑھ کر  شربولتا ہے ،
 لہذا اِن لوگوں کے"""تبلیغی بیانات""" میں جھوٹی کہانیوں ، من گھڑت خود ساختہ ، غیر ثابت شدہ روایات ، و حکایات اور قران و صحیح سُنت کے خلاف واقعات ، کی کثرت ملتی ہے ، اِن کے کسی عام سے کاریگر کو تو چھوڑیے جنہیں یہ لوگ """عالم """سمجھے ہوتے ہیں اُن کے """تبلیغی بیانات""" بھی اِسی طرح کے ہوتے ہیں ،
لہذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ بھائی جنید جمشید صاحب  نے (((صُمٌ بُکمٌ فہُم لا یَعقِلون))) قِسم کے خاموش سامعین کا ایک گروہ میسر پایا ، اور اپنی"""تبلیغ""" کے جوش میں ، اِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ،اُنکے اِیمان اور رُتبوں کی طرف توجہ رکھے بغیر ،اِلفاظ کو سمجھے اور جانچے بغیر ، اُن کے بارے میں ایسے الفاظ اِستعمال کیے ہیں جو اِس واقعے کی روایات میں کہیں نہیں ہیں ، بلکہ میرے اِس بھائی کے جوش خطابت بلکہ جوش"""تبلیغ""" کا شاخسانہ ہیں ،   
اِس قِسم کے بیانات کے ظاہر ہونے کے ، صِرف وہ لوگ ہی ذمہ دار اور سبب نہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں ، ایسے بیانات داغتے ہیں ،  بلکہ وہ لوگ بھی ذمہ دار اور سبب ہیں ، جو خاموشی سے اِس قِسم کے لوگوں کو سنتے ہیں اور اُن کی باتوں کو  دُرُست سمجھتے ہیں ،  کوئی اِن مقررین ، اِن مبلغین کا مبلغ عِلم نہیں جانچتا ، بس بولنا جانتے ہیں پس بولنے دیا جاتا ہے، یہ معاملہ صِرف ایک اکیلے جُنید جمشید بھائی کا ہی نہیں ،  ایسے بے شمار لوگ ہمارے درمیان اپنی کاروائیوں میں مشغول ہیں ، کوئی کسی سٹیج پر جلو نما ہے ، تو کوئی کسی سٹیج پر ، کوئی کسی جگہ سے براڈ کاسٹ ہو رہا ہے ، تو کوئی کسی اور جگہ سے ،
بہرحال ، یہ الگ موضوع ہے کہ اِس قسم کے مقررین اور مبلغین کا کیا کیا جانا چاہیے ؟
لیکن اتنا ضرور کہوں  گاکہ ہم میں سے ہر ایک کو ، اور خاص طور پر اُن لوگوں کو جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ خاموش سامعین مہیا کرتا ہے ، یہ خوب اچی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ  کہنے کو کوئی بھی بات """بات ہی تو ہے""" لیکن کئی باتوں کا انجام آخرت کی مکمل اور یقینی تباہی ہے
[[[ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مضمون کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ مزید خیر ہو گی،
 """بات ہی تو ہے""" ::: http://bit.ly/1dBpp65]]]
جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا کہ """ میں یہ مضمون بھائی جنید جمشید صاحب کی غطیوں کو آشکار کرنے کے لیے ، یا اُن کی جماعت کے """تبلیغی، نصاب اور  بیانات""" کی غلطیوں واضح کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف ، اور ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کی ذات شریف کی پاکیزگی کی وضاحت کے لیے لکھ رہا ہوں """،
لہذا ، اِن شاء اللہ میں اِس مضمون میں آپ سب کے سامنے اِس واقعے کی صحیح ثابت شدہ روایات پیش کروں گا ، تا کہ آپ صاحبان کو یہ اِن شاء اللہ یہ پتہ چل سکے کہ اِس واقعہ میں ایسا کچھ نہیں ہے،  جو کچھ  بھائی جنید جمشید صاحب نے کہا ،
اور ، تا کہ اِن شاء اللہ ، آپ صاحبان پر یہ واضح ہو جائے کہ صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ میں ، کوئی روایت ایسی نہیں جو ، قران کریم کے خِلاف ہو ، یا نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، یا امہات المؤمنین میں سے کسی کی ، یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی شان میں کسی گستاخی کا کوئی پہلو لیے ہوئے ہو ،
بلکہ اِس قِسم کا کوئی وہم لوگوں کی غلط فہمیوں ، لا علمی ، جہالت اور اِس قِسم کے لوگوں کی غلط بیانیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،  
قارئین کرام ، اِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا یہ واقعہ حدیث شریف کی بہت سی کتابوں میں روایت کیا گیا ہے ، اور  یہ ایک ہی واقعہ ہے ، جس کی کئی روایات ہیں ،
ایسی کوئی بات نہیں   امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا اکثر ایسا کیا کرتی تھیں ، جیسا کہ بھائی جنیدجمشید صاحب نے اپنی جماعت کی  قصہ گوئی والی عادات کے مطابق کہا ، بلکہ یہ صرف ایک واقعہ ہے ،
آیے ،  ہم اِن میں سے سب سے صحیح ترین کتاب صحیح بخاری  کی روایت کا مطالعہ کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
إِیمان والوں کی والدہ ماجدہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے بھانجے ، القاسم بن محمد بن ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ '""""قَالَتْ عَائِشَةُ وَارَأْسَاهْ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم﴿ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَىٌّ ، فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَاثُكْلِيَاهْ ، وَاللَّهِ إِنِّى لأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِى ، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ . فَقَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم ﴿بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِى بَكْرٍ وَابْنِهِ ، وَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ، ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ"""""صحیح بخاری /حدیث 5666،کتاب المرضیٰ/باب16قَوْلِ الْمَرِيضِ إِنِّى وَجِعٌ ، أَوْ وَارَأْسَاهْ ، أَوِ اشْتَدَّ بِى الْوَجَعُ،اور حدیث 7217،کتاب الاحکام/باب51 الاِسْتِخْلاَفِ،
اب میں اِس روایت کا  جملہ با جملہ ترجمہ پیش کرتا ہوں :
""""" قَالَتْ عَائِشَةُ وَارَأْسَاهْ::: عائشہ (رضی اللہ عنہا و أرضاھا)نے کہا ،آہ میرا سر،
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم ﴿ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَىٌّ ، فَأَسْتَغْفِرُ لَكِ وَأَدْعُو لَكِ ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر یہ سر درد موت کے مرض کی علامت ہے(اور تُم اِس کی وجہ سے مرجاتی ہو )اور میں اُس وقت زندہ ہوں تو میں تمہارے لیے بخشش طلب کروں گا اور تمُہارے لیے دُعا کروں گا،
فَقَالَتْ عَائِشَةُ وَاثُكْلِيَاهْ ، وَاللَّهِ إِنِّى لأَظُنُّكَ تُحِبُّ مَوْتِى ، وَلَوْ كَانَ ذَاكَ لَظَلِلْتَ آخِرَ يَوْمِكَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِكَ::: عائشہ(رضی اللہ عنہا و أرضاھا) نے کہا ،آہ ، میرا کتنا برا حال ہے ،میرا خیال ہے کہ آپ میرے موت کے خواہش مند ہیں ، اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ دوسرے ہی دِن اپنی کسی دوسری بیوی کے ساتھ ازداوجی تعلق بنا لیں گے،
تو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿ بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهْ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِى بَكْرٍ وَابْنِهِ ، وَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ، ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ، أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ:::اِس بات کو چھوڑو، اور میری طرف توجہ کرو کہ آہ، میرے سر میں درد ہے(جو موت کے مرض کی علامات میں سے ہے ، اِس لیے )میں نے تو  سوچا تھا ،(یا فرمایا  کہ)اِرادہ کیا تھا ، کہ میں ابو بکر کو ، اور اُس کے بیٹے کو بلاؤں اور (ابو بکر کے لیے  میری خِلافت کی )وصیت کر دوں، تا  کہ (اپنے لیے میری خِلافت حاصل کرنے کے لیے)باتیں کرنے والے(یہ)نہ کہہ سکیں (کہ وہ میری خِلافت کے  ابو بکر سے زیادہ حق دار ہیں)، یا تمنائیں کرنے والے ایسی تمنا کا اظہار ہی نہ کر پائیں ، پھر میں نے سوچا کہ اللہ نےتو اس بات سے اِنکار فرما رکھا ہے کہ (ابو بکر کے عِلاوہ کوئی اور میرا خلیفہ بنے)اور (اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ کی رضا کے مطابق )مومنین اُسے دُور کر دیں گے (لہذا مجھے یہ وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، یا یہ اِرشاد فرمایا کہ )اللہ اُسے دُور کر دے گا ، اور مؤمنین نے اِس بات کو نہیں ماننا کہ (ابو بکر کے عِلاوہ کوئی اور میرا خلیفہ بنے) """""،
قارئین کرام ، ترجمے میں جو کچھ قوسین یعنی بریکٹس میں  لکھا گیا ہے وہ میری ذاتی رائے نہیں ، بلکہ دیگر صحیح احادیث شریفہ میں بیان کردہ الفاظ کے مطابق ہے ،
اس واقعے کی کسی ایک روایت کو ، یا چند ایک روایات کو لے کر  امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے بارے میں  ایسی کوئی بات کہنا جو کسی بھی طور اُن کے إِیمان اور شان کے مطابق نہیں ، یا احادیث شریفہ اور محدثین کرام رحمہم اللہ جمعیاً کے خِلاف کچھ کہنا سوائے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ہم مُسلمانوں اور بالخصوص اہلسنت و الجماعت اِماموں رحمہم اللہ اجمعین سے بغض ، عناد اور نفرت کے اور کچھ نہیں ، جس کے بنیادی اور معروف اسباب میں سے قصوں ، کہانیوں ، خود ساختہ منطق و فلسفوں اور اپنی تاریک گمراہ عقل کی پیروی، اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ کے دِین سے دانستہ یا نا دانستہ دُشمنی ، اور دِین کے بنیادی عُلوم اور قران کریم اور صحیح  سُنّت شریفہ کو سمجھنے کے مذھب میں گمراہی ہیں،
کسی بھی واقعے کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے اُس کے  بارے میں کسی ایک خبر کو لے کر فیصلے  کیے جانا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہوتا ، یا پھر وہی لوگ ایسا کرتے ہیں جو حق کو چھپانا چاہتے ہیں ،
لہذا ، میرے محترم بھائیو اور بہنو ، اور دیگر قارئین کرام، اس واقعے کو ، اور اس میں سے ملنے والے اسباق اور مسائل کو سمجھنے کے لیے ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و ارضاھا کے إِیمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت اور ادب کو سمجھنے کے لیے ، لوگوں کی خرافات اور جھوٹے الزامات کی حقیقت سمجھنے کے لیے کچھ محنت کرنا ہی پڑے گی ، کہ ہمیں اِس واقعے کی وہ ساری روایات پڑھنی پڑیں گی جو ہم مُسلمانوں کے ہاں، روایات کی درستگی کی جانچ کے لیے  مقرر شدہ کسوٹیوں  پر پورا اُترتی ہوں ،
اِس واقعہ کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک روایت میں نے نقل کی ہے ،
اب اِن شاء اللہ اِس واقعہ کی دیگر صحیح روایات نقل کرتا ہوں :
:::::::عبید اللہ بن عبداللہ رحمہُ اللہ ، امی جان عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے فرمایا کہ """""" رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مِنَ الْبَقِيعِ فَوَجَدَنِى وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِى رَأْسِى وَأَنَا أَقُولُ وَارَأْسَاهُ فَقَالَ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قبرستان)بقیع سے واپس تشریف لائے تو مجھے( اِس حال میں )دیکھا کہ میں میرے سر میں درد تھا اور میں کہہ رہی تھی  کہ ، آہ میرا سر ،
تو اِرشاد فرمایا کہ ﴿ بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَارَأْسَاهُ ::: اے عائشہ ، اِس بات کو چھوڑو، اور میری طرف توجہ کرو، کہ آہ، میرے سر میں درد ہے(جو موت کے مرض کی علامات میں سے ہے )،
ثُمَّ قَالَ :::پھر مزید اِرشاد فرمایا کہ ﴿مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِى فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ::: اگر تُم مجھ سے پہلے مر گئی تو تمہیں کوئی نُقصان نہ ہو گا (کیونکہ)میں تمہارے سارےکام خود کروں گا ، پس تمہیں غُسل دوں گا ، اور کفن پہناؤں گا اور تمہاری نماز ء جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کروں گا """""سُنن ابن ماجہ/حدیث/1532کتاب الجنائز/باب9،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے ، دیکھیے الاِرواء الغلیل/حدیث 700،
::::::: ایک اورروایت کے آخر میں یہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کی طرف سے یہ وضاحت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ""""" قُلْتُ لَكِنِّى أَوْ لَكَأَنِّى بِكَ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَقَدْ رَجَعْتَ إِلَى بَيْتِى فَأَعْرَسْتَ فِيهِ بِبَعْضِ نِسَائِكَ::: میں کہا کہ لیکن میں ،یا یہ کہا کہ، اللہ کی قسم  لیکن میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ جب آپ  ایسا کرچکیں گے (یعنی میں مر گئی اور آپ نے مجھے غسل دِیا ، کفنایا اور دفن کیا)اور پھر میرے (اِس)گھر میں واپس آئیں گے تو اپنی بیگمات میں سے کچھ ساتھ اسی گھر میں (میری جگہ)ازدواجی تعلق بنائیں گے،
(اور پھر)امی جان عائشہ(رضی اللہ عنہا و أرضاھا )نے بتایا  کہ ﴿فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليهِ وسلَّم:::تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا،
ثُمَّ بُدِئَ بِوَجَعِهِ الَّذِى مَاتَ فِيهِ:::اور پھر (اِس کے بعد ہی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وہ درد (مرض)ظاہر ہوا جس میں اُن(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم و فداہُ ما رزقنی اللہ) کی موت واقع ہوئی"""""،مُسند احمد /حدیث/26433حدیث(ام المؤمنین)السیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا میں سے حدیث رقم 1922،صحیح ابن حبان/کتاب التاریخ/باب8مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے حسن قرار دِیا ،
::::::: عروہ بن ھشام رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے فرمایا """"" دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي بُدِئَ بِهِ فَقُلْتُ: وَارَأْسَاهُ:::جِس دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر مرض الموت ظاہر ہوا اُس دِن جب وہ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے (اپنے سر درد کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے )کہا ، آہ میرا سر ،
تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا ﴿ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأُصَلِّيَ عَلَيْكَ وَأَدْفِنَكَ:::اگر (یہ سر درد موت کی علامات میں سے ہے تو)میری خواہش ہے کہ اُس وقت میں زندہ ہوں تو میں تمہاری نماز جنازہ پڑھوں اور تمہیں دفن کروں،
تو میں نے غیرت میں آ کر کہا کہ  كَأَنِّي بِكَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ نِسَائِكَ ::: میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ آپ اُس دِن (یعنی جِس دِن میں مر جاوں گی) اپنی بیگمات میں سے کچھ ساتھ ازدواجی تعلق بنائیں گے،
تو ارسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا ﴿ وَأَنَا وَارَأْسَاهُ ادْعِي لِي أَبَاكِ وَأَخَاكِ حَتَّى أَكْتُبَ لِأَبِي بَكْرٍ كِتَابًا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولَ قَائِلٌ وَيأَبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ:::اور میں (اِس حال میں )ہوں کہ آہ میرا سر، اپنے والد اور بھائی کو بلاو، تا کہ میں ابو بکر کے لیے (میرا خلیفہ ہونے کی وصیت)لکھ  دوں ، کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی (ایسا جو میری خِلافت کی )تمنا رکھنے والا(ہو)اِس کو حاصل کرنے( کی خواہش )کا اظہار کر دے ، اور کوئی ایسا ہی کچھ ایسی بات کر دے (کہ وہ خِلافت کا زیادہ حق دار ہے)اور (جبکہ حق تو یہ ہے کہ )اللہ اور مؤمنین ابو بکر کے علاوہ (کسی کو بھی میرا خلیفہ ماننے سے) اِنکار کرتے ہیں""""" إِمام احمد بن الحسین ابو بکر البیہقی رحمہُ اللہ   نے اپنی کتاب """الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد على مذهب السلف وأصحاب الحديث """کے"""باب تَنْبِيهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ بَعْدَهُ، وَبَيَانُ مَا فِي الْكِتَابِ مِنَ الدَّلَالَةِ عَلَى صِحَّةِ إِمَامَتِهِ وَإِمَامَةِ مِنْ بَعْدَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ"""میں با اعتماد راویوں کے ذریعے  روایت کیا ،
::::::: مسند احمد میں یہ واقعہ  الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ روایت ہے ، لیکن ،،، آخری جملے میں ایک بہت أہم وضاحت موجود ہے ، جسے میں نے سابقہ روایات کے ترجمے میں قوسین یعنی بریکٹس میں لکھا ہے ،
مُسند احمد کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :::
"""""" عَنْ عَائِشَةَ،قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي بُدِئَ فِيهِ فَقُلْتُ وَا رَأْسَاهْ ،
فَقَالَ﴿ وَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَهَيَّأْتُكِ وَدَفَنْتُكِ
 قَالَتْ فَقُلْتُ غَيْرَى كَأَنِّي بِكَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ عَرُوسًا بِبَعْضِ نِسَائِكَ:::
 قَالَ ﴿وَأَنَا وَا رَأْسَاهْ ادْعُوا إِلَيَّ أَبَاكِ وَأَخَاكِ حَتَّى أَكْتُبَ لِأَبِي بَكْرٍ كِتَابًا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ وَيَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ أَنَا أَوْلَى وَيَأْبَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ::: اور میں (اِس حال میں )ہوں کہ آہ میرا سر، اپنے والد اور بھائی کو بلاو، تا کہ میں ابو بکر کے لیے (میرا خلیفہ ہونے کی وصیت)لکھ  دوں ، کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی (ایسا جو میری خِلافت کی )تمنا رکھنے والا(ہو)،اور کوئی بات کرنے والایہ کہہ دے کہ وہ خِلافت کا زیادہ حق دار ہےاور (جبکہ حق تو یہ ہے کہ )اللہ عزّ و جلّ، اور مؤمنین ابو بکر کے علاوہ (کسی کو بھی میرا خلیفہ ماننے سے) اِنکار کرتے ہیں """""
مُسند احمد /حدیث 25626،مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا میں سے حدیث رقم1115 ، إِمام الالبانی  رحمہُ اللہ نے """احکام الجنائز /صفحہ /187مسئلہ رقم98"""میں کہا کہ اِس کی سند شیخین ( یعنی إِمام بخاری اور إِمام مُسلم رحمہما اللہ) کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ،
اور بالکل ایسا ہی ہے کیونکہ اِس واقعہ کا یہ آخری حصہ ، آخری جملہ إِمام مُسلم رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح مُسلم/حدیث ۔۔/کتاب فضائل الصحابہ/ پہلے باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِى بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِى اللهُ عنهُ کی حدیث رقم 13 میں روایت کیا ہے ،
میرے محترم بھائیو، بہنو ، اور دیگر قارئین کرام ،
اُمید ہے کہ یہ مذکورہ بالا صحیح روایات پڑھنے کے بعد آپ صاحبان پر یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے جب امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اپنے سر درد کی شکایت کی ، نہ کہ یہ اُن کی عادت تھی ، کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی توجہ حاصل کرنے کے لیے معاذ اللہ اُس طرح کے کام کرتیں جو عام طور پر عورتیں شر پر پٹیاں باندھ کر کرتی ہیں ، جیسا کہ ہمارے بھائی جُنید جمشید صاحب نے کہہ ڈالا تھا ،
اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ اِس واقعے میں امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کی طرف سے، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ  کسی قِسم کا کوئی بدتمیزی والا انداز یا رویہ نہیں اپنایا گیا ، اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں کسی منفی خیال یا سوچ  کا کوئی پہلو لیے ہوئے ہے  ،
اور نہ ہی اِس میں کوئی ایسی بات ہے جسے سبب بنا کر صحیح احادیث شریفہ پر اور محدثین کرام رحمہم اللہ پر طعن و تشنیع کی جائے ،
بلکہ  اِس واقعہ میں بڑ ے صاف اور واضح طور پر یہ سمجھ آتا ہے کہ جِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اِس محبوبہ ترین بیوی کی اُس درد اور تکلیف  کے احساس کو دُور کرنے کے لیے کچھ مزاح فرماتے ہوئے، آخری حد  یعنی موت تک واقع ہو جانے کی صُورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے بخشش اور درجات کی بلندی کی دُعا کی خوشخبری دی، اُسی طرح امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے ایک  محبت شعار ، با تمیز اور وفادار  بیوی کی طرح، اپنے اُس فطری غم کا اظہار کیا جو کسی بھی عورت کو اپنے محبوب خاوند  میں کسی دُوسری بیوی کی شرکت سے ہوتا ہے ، یہاں ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ایسا احساس بالکل فِطری ہے اور إِیمان کے منافی نہیں ، لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ عورتوں کے، یا کسی کے بھی فطری  جذبات و احساسات کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کو بدلا  نہیں جا سکتا ۔
اللہ جلّ و عُلا ہم سب کو  ہر شر اور برائی سے محفوظ رکھے اور یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم جماعتوں ، گروہوں ، مذھبوں مسلکوں ، پسندیدہ شخصیات ، خود ساختہ سوچوں ، فلسفوں اور نام نہاد عقل مندی سے بالا تر  ہو کر اُس کے دِین کو  اُس طرح سمجھ لیں ، مان لیں اور اپنا لیں جِس طرح اُس نے یہ دِین نازل فرمایا ، اور  اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے وہ مقام اور رتبے پہچان لیں  جو اللہ عزّ و جلّ نے اُنہیں عطاء فرمائے ۔
 والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 15/02/1436ہجری ، بمُطابق،07/12/2014عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔