::::::: رشتہ طے ہونے (
یعنی منگنی)کے بعد منگیتروں کے درمیان بات چیت کا شرعی حکم :::::::
::::: سُسرالی رشتہ داریوں کی
حُدُود :::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ
و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ
، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء
نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے
والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ
ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن
اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی
کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
چند روز پہلے ایک نجی محفل میں یہ مسئلہ زیر کلام آیا کہ کسی لڑکے اور لڑکی کا شادی کے لیے رشتہ طے ہو
چکنے کے بعد ، جسے عام طور پر منگنی ہونا کہا جاتا ہے، اُس لڑکے اور لڑکی کے
درمیان بات چیت کا کیا حکم ہے(خواہ وہ آواز کے ذریعے ہو یا لکھائی کے ذریعے )؟
کیا ممنوع ہے ؟ اگر ممنوع
ہے تو ممانعت کی دلیل کیا ہے ؟
اور اگر ممنوع نہیں تو اُن کے درمیان ہو سکنے والی بات چیت
(خواہ وہ آواز کے ذریعے ہو یا لکھائی کے ذریعے ) کی حدود کیا ہیں ؟
میرا کہنا تھا کہ لڑکی اور لڑکا شریعت میں مقرر حُدود میں
رہتے ہوئے بات چیت کر سکتے ہیں ،
لیکن دوسری طرف سے اِس کا بالکل انکار کیا جا رہا تھا، کہ
کوئی بات چیت نہیں کی جا سکتی ،
جِن سے اِس معاملے
پر بات ہورہی تھی اُنہوں نے میری کچھ گذارشات سننے کے بعد کچھ ایسی باتیں کہیں جو
دینی شخصیات کے متعلق تو تھیں ، لیکن اِس مسئلے میں ، اُن کے خیال کی کوئی تائید
نہیں رکھتی تھیں ،
اُن سے بات چیت کرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ معاملہ،
یہ مسئلہ بھی ہم مسلمانوں میں پائے جانے
والے بہت سے ایسے معاملات، اور ایسے مسائل کی طرح ہی ہے جِس میں ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں ،
ایک طرف تو ہر قِسم کی چُھوٹ دِکھائی دیتی ہے ، اور دوسری
طرف بالکل دم پخت ، مثبت اور جائز احساسات
کو کچلنے والی سختی ،
اُس محفل سے واپسی پر ہی یہ خواہش ہوئی کہ اِس موضوع ، اِس مسئلے پر بھی اپنے دِین حق
اِسلام میں پائے جانے احکام ، شرائط ، قیود اور اجازت وغیرہ کو ایک مضمون کی شکل
میں مرتب کر سکوں ،
گھر پہنچتے ہی مضمون کا آغا ز کر دِیا (بتاریخ22/05/1435ہجری
، بمطابق24/03/2014)،
لیکن ، قدر اللہ ما شاء اللہ و فعل ، ولہ الحمد ،ہمیشہ کی
طرح وقت گذرتا رہا ، اور ہمیشہ کی طرح، اِس طرح کی بہت سی دیگر خواہشات کی طرح یہ خواہش بھی وقت کے دھاروں پر اِدھر اُدھر
ٹہلتی رہی ، آج تقریبا 64 دِن کے بعد(بتاریخ30/05/1435ہجری ، بمطابق29/05/2014)اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس مضمون پر کام کرنے کی کچھ
توفیق عطاء فرمائی ،و لہ الحمد والمنۃ ،
محترم قارئین ، شریعت کے مسائل سمجھنے کے لیے اللہ سُبحانہُ
و تعالیٰ کے اُن بندوں نے ، کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے خلیل محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے عُلوم سے نوازا ہے ، اُن
بندوں نے اللہ کے دِین کی اِن دو بنیادوں میں سے کچھ قوانین ، کچھ قواعد اخذ کیے ، شرعی احکام و ضوابط اخذ کرنے سے متعلق اُنہی قوانین ، اُنہی قواعد میں سے ایک متفق
علیہ قانون یہ بھی ہے کہ """الاصل فی العبادات ، المنع ، والاصل فی العادات الاباحۃ """،
[[[ اِس قاعدے ، قانون کے دلائل جاننے کے خواہش مند ، علم
الاصول ، اور فقہ کی کتب کا مطالعہ فرمائیں ، میں یہاں اُن کا ذِکر کر کے موضوع کو
طویل اور گھمبیر نہیں کرنا چاہتا ]]]
یعنی ، عبادات کا اصل بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ ممنوع ہیں
،سوائے اُس عبادت کے جِس کے کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ کے کسی قول مبارک سے میسر
ہو ، یا رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ قولی فعلی
یا تقریری سُنّت شریفہ سے میسر ہو ،
اور عادات کا اصل
بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ جائز ہیں، یعنی ، عادات کا اصل بنیادی حکم یہ ہے کہ وہ
جائز ہیں ، ممنوع نہیں ہیں ، سوائے اُس عادت کے جِس کے ناجائز ہونے کی دلیل ، یا جِسے ترک کا حکم ، یا جس کی مذمت وغیرہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے کسی قول مبارک سے
میسر ہو ، یا اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت
شدہ قولی فعلی یا تقریری سُنّت شریفہ سے میسر ہو ،
اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ ، کسی لڑکے اور لڑکی کی ، کسی
مرد اور عورت کی نکاح کے لیے نسبت طے ہونے کی صُورت میں بھی وہ دونوں ایک دوسرے کے
لیے نامحرم ہی رہتے ہیں ،
لہذا اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ نا
محرموں کے درمیان گفتگو کے بارے میں ہماری شریعت میں کیا احکام ہیں ؟ اور کیا حُدُود مقرر فرمائی گئی ہیں ؟
یاد رکھنے کی بات ہے کہ اِنسانی معاشرے میں مرد اور عورت کے درمیان بات چیت معاشرتی ضرورت بھی تھی
اور ہے ، اور معاشرتی عادت بھی تھی اور ہے ، ہماری شریعت مطہرہ میں اِس ضرورت کی تکمیل سے منع نہیں فرمایا گیا ، اِس
عادت پر عمل سے منع نہیں فرمایا ، لیکن اسے پورا کرنے کے کچھ حدود و ضوابط مقرر
فرما دیے گئے ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے ﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ
حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ :::اور اگر تُم لوگ اُن
(نبی کی بیویوں) سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردے کے پیچھے سے کرو، ایسا کرنا تُم
لوگوں کے ، اور اُن خواتین کے دِلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی والا(عمل)ہے﴾سُورت الاحزاب(33)/آیت53،
ابھی ابھی میں کہہ گذار ہوں کہ رشتہ طے ہو جانے کی صُورت
میں کوئی لڑکا اور لڑکی، کوئی مرد اور عورت شرعی طور پر محرم نہیں ہو جاتے ، لہذا اُن پر
شریعت میں مقرر کردہ اُن حدود و ضوابط کا
حکم برقرار رہتا ہے ، جو حدود و ضوابط نامحرم مرد اور عورت کے درمیان گفتگو کے لیے
مقرر کے گئے ،
جن میں سب سے بنیادی اور پہلا حکم اِس مذکورہ بالا آیت
شریفہ میں بیان فرمایا گیا ہے ،
کہ ، نا محرم مرد اور عورت اگر کسی ضرورت کے تحت بات کریں
تو خواتین پردے میں رہیں ، ایک دوسرے کو دیکھے بغیر اپنی ضرورت کی حد تک بات کریں
،
یہاں یہ بات یاد سمجھ کر یاد رکھنے کی ہے کہ اِس آیت شریفہ
میں """پردے"""سے مُراد کوئی خاص قِسم کا لباس نہیں
، بلکہ کوئی بھی ایسی آڑ ہے جو دونوں بات کرنے والوں کو ایک دوسرے کی نظر سے محفوظ
رکھے ، بحوالہ "جلباب المرأۃ المسلمۃ /ص87،للإِمام الالبانی رحمہُ اللہ"، مزید تفصیل حوالے میں دیکھی
جا سکتی ہے ،
اوپر بیان کردہ آیت شریفہ میں دیے گئے حکم کی مزید وضاحت
اللہ جلّ وعُلا نے اپنے اِس اِرشاد میں بیان فرمائی ﴿ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ
لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ
بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا ::: اے نبی کی بیویو، تُم دیگر
عورتوں کی طرح کوئی عام (درجے اور رُتبے والی) عورتیں نہیں ہو، اگر تُم اللہ سے
ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم کے ساتھ)نرم لہجے میں بات مت کرو ، کہ کہیں کوئی ایسا شخص
جِس کے دِل میں کوئی خرابی (برائی والا خیال وغیرہ )ہو ، کسی قِسم کا لالچ نہ کرنے
لگے ، اور تُم صاف کھری بات کیا کرو﴾سُورت الاحزاب(33)/آیت32،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ہمیں یہ بھی بتا دِیا گیا کہ
اگر کوئی مُسلمان عورت کسی غیر محرم سے بات کرے تو اُس عورت کی بات اور لب ولہجہ صاف ستھرےہونے چاہیں ، یعنی اُس کی
بات اور لب و لہجے میں کوئی ایسا لوچ یا
نرمی نہیں ہونی چاہیے جِس کی وجہ سے کسی
بد نیّت ، یا کسی برائی والے خیالات رکھنے والے کے دِل میں اُس عورت کے بارے
میں کسی برائی کا لالچ پیدا ہو سکے ،
اِن دو آیات مبارکہ میں
ہمارے رب اللہ جلّ و عزّ کی طرف سے نا محرم مرد و عورت کے درمیان بات چیت
کی حدود ، انداز اور کیفیت مقرر فرما دِیں ہیں،
اور یہ ہیں کہ نا محرم مرد و عورت کسی ضرورت کے مطابق ایک
دوسرے کو دیکھے بغیر ، ایک دوسرے سے آڑ
میں رہتے ہوئے بات کریں ، اور عورتوں کی
طرف سے اُن کی بات اور لب و لہجے میں کوئی نرمی ، لوچ ، اور مبہم پن ہو جس کی وجہ
سے مخاطب یا کسی اور سامع کے دِل میں کسی برائی کا کوئی خیال آ سکے ،
اِن حدود و قیود کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم اُن دو مرد و
عورت یا لڑکے اور لڑکی کے بارے میں سمجھتے ہیں جو ایک دوسرے سے منسوب کیے جا چکے
ہوں ، اور اُن کے بارے میں اُن کے خاندانوں میں یہ فیصلہ کیا جا چکا ہو، کہ اِن
شاء اللہ اِن دونوں کا آپس میں نکاح کیا جائے گا ، اور یہ دونوں میاں بیوی بنیں گے
،
بالکل فطری سی بات ہے کہ اِس قِسم کا رشتہ طے پانے کے بعد
اُن دونوں کےدرمیان ایک نیا، پاکیزہ اور
صاف ستھرا ذہنی اور قلبی تعلق ضرور بن
جاتا ہے ، اور ایک دوسرے کا حال احوال جاننا ، ایک دوسرے کی خیر خبر رکھنا ، اپنے
مستقبل کے بارے میں کچھ تبادلہ رائے کرنا اُن کی فطری ضروریات میں سے ہو جاتا ہے ،
لہذا وہ دونوں یعنی وہ لڑکا اور لڑکی ، یا مرد اور عورت جن کا رشتہ طے ہو چکا ہو ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے مذکورہ بالا احکام میں مقرر فرمودہ حدود میں رہتے ہوئے ایک
دوسرے بات چیت کر سکتے ہیں ،
جی ہاں ، لمبی چوڑی باتیں ، چیٹنگز ، مسیجنگز ، پیار و محبت
یا اسی قِسم کے دیگر جذبات کے اظہار و اقرار پر مبنی باتیں نہیں کی جانی چاہیے ،
کیونکہ یہ کام اور اِس قِسم کی باتیں، اُن
دونوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حُدُود سے خارج قرار پاتی ہیں ،
اور یہ بھی بہت بہتر بلکہ کسی حد تک ضروری ہے کہ اُن دونوں
کی بات چیت کسی اپنے تیسرے نیک ، صالح ،
اچھائی اور برائی کو سمجھنے والے کے علم میں رہے۔
::::: سُسرالی رشتہ داریوں کی
حُدُود :::::
::::::: اِس
قِسم کی رشتہ داری کے نتیجے میں خاوند کے بھائیوں ، اور بیوی کی بہنوں کے بارے
میں کافی حد تک اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی نا فرمانی کی جاتی ہے ،
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ، ایسی رشتہ داری میں دیور ، جیٹھ ،
بھابھیاں ، سالے ، اُن کی بیویاں اور
سالیاں بھائی بہن ہی سمجھے جاتے ہیں ، اور
ایک دوسرے سے بالکل صاف ستھرے اور پاکیزہ انداز میں سگے اور اصلی بھائی بہنوں کے
طرح ہی معاشرتی اور خاندانی معاملات نمٹائے جاتے ہیں ، لیکن اِس حقیقت سے بھی اِنکار کی گنجائش نہیں کہ اللہ اور اُس
کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کے نتیجے میں، اِن
رشتہ داریوں کے مابین ، کبیرہ گناہ اور
سنگین جرائم بھی ہوتے ہیں ،
چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری شریعت جو
اُس نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو عطاء فرمائی وہ
مکمل ترین ظابطہ حیات ہے ، اور ہر گناہ کی راہ روکنے والے احکام اور تعلیمات پر
مشتمل ہے لہذا دِلوں اور نگاہوں کی اچھائی اور پاکیزگی کے معاملات کے باوجود برائی
اور گناہ کے رخنے بند کرنے والے احکام عطاء فرمائے گے ، اور اِن رشتہ داریوں کو نا
محرم ہی رکھا گیا ،
پس ہر سچے اِیمان والے کو چاہیے کہ وہ اپنے
دِل ونگاہ کی صفائی ، اچھائی اور پاکیزگی کو اپنے یا لوگوں کے مختلف فلسفوں
،خیالات و افکار کے ذریعے ثابت کرنے کی بجائے ، اپنے رب اللہ جلّ جلالہُ کی ، اور
اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کے ذریعے ثابت کرے ،
کسی بیوی کے لیے ، اُسکے خاوند کے رشتہ دار مردوں میں سوائے
خاوند کے باپ کے ، اور خاوند کی اولاد کے کوئی مرد بھی محرم نہیں ہوتا ، خاوند کے
بھتیجے بھانجے ،کزنز وغیرہ سب ہی نا محرم ہوتے ہیں ،خواہ وہ عورت انہیں چھوٹا
بھائی سمجھتی ہو ، یا بڑا بھائی ،یا بیٹیوں جیسا ،
کسی مرد کے لیے، اُس کی سسرالی خواتین میں سے اُس کی بیوی
کی ماں،نانی اوردادی کے علاوہ کوئی عورت محرم نہیں ہوتی ، خواہ وہ اُنہیں ، بہن ،
بیٹی اور ماں کی طرح سمجھتا ہو،
ہماری سمجھ داریاں اپنی جگہ ، لیکن اللہ اور اس کے رسول
کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، اور اُن کی مقرر کردہ حُدود اپنی جگہ
،
جو کوئی بھی اپنی سمجھ داری اور اپنے جذبات وغیرہ کو اللہ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور اُن کی مقرر کردہ حدود
کے مقابلے میں رکھتا ہے ، یا معاذ اللہ اپنی سمجھ اور جذبات کو بہتر جانتا ہے وہ
اپنے لیے آخرت کی یقینی تباہی اختیار کرتا ہے ، اور دُنیا میں بھی ذِلت و رسوائی
کا کافی مضبوط اندیشہ مول لیتا ہے،اور اکثر اوقات اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لیے
چلتا ہے ،
اُمید ہے کہ إِیمان والوں کے لیے اِس موضوع کے بارے میں کسی
لمی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ، اُن کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کے یہ دو ارشادات مبارکہ ہی کافی ہوں کہ اِن شاء اللہ ،
::::::: (1) ::::::: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِيَّاكُمْ
وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ :::خبردار ، تُم لوگ (غیر محرم) عورتوں کے ہاں داخل مت ہوا کرو﴾،
تو ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کی
""" يَا
رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟::: اے اللہ کے رسول حمو کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ """،
تو اِرشاد فرمایا ﴿الْحَمْوُ الْمَوْتُ:::حمو تو موت ہیں﴾صحیح البخاری/حدیث/5232کتاب
النکاح/باب111، صحیح مُسلم/حدیث/5803کتاب السلام/باب8،
[[[حمو ، سےمُراد خاوند کے قریبی رشتہ دار مرد ہیں ، جیسا
کہ جیٹھ ، دیور، یا خاوند کے چچا زاد، خالہ زاد ، ماموں زاد یا دیگر کزنز وغیرہ،جب
رشتہ داروں کا یہ معاملہ ہے تو ایسے لوگوں کا معاملہ کیا ہو گا جن سے کوئی رشتہ
داری نہیں ہوتی بس دوستیاں ہوتی ہیں، اور اُنہیں گھر کا ایک فرد سمجھا جاتا ہے]]]،
::::::: (2) :::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ
بِامْرَأَةٍ ، وَلاَ تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلاَّ وَمَعَهَا مَحْرَمٌ :::کوئی بھی مرد ہر گز
کسی(نامحرم)عورت کے ساتھ تنہا نہ ہو ، اور ہر گز کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر سفر
نہ کرے﴾،
تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کی""" يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اكْتُتِبْتُ
فِى غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا ، وَخَرَجَت امْرَأَتِى حَاجَّةً ؟::: اے اللہ کے رسول، میں نے فُلاں فُلاں جہادی مہم میں
جانے کے لیے اپنا نام درج کروا رکھا ہے ،اور میری بیوی حج کے لیے (بغیر محرم کے)جا
چکی ہے؟"""،
تو اِرشاد فرمایا﴿اذْهَبْ فَحُجَّ مَعَ
امْرَأَتِكَ:::جاؤ(جہادی مہم کی بجائے)اپنی
بیوی کے ساتھ حج کرو﴾صحیح البخاری/حدیث/3006کتاب الجھاد/باب140،صحیح مُسلم/حدیث/3336کتاب الحج/باب74،
[[[سفر کے معاملے میں ایسے چھوٹے سفر کی رخصت ہے جِس
میں کہیں عورت کو بالکل تنہا نہ ہونا پڑے
، اور اُس کے ساتھ دیگر خواتین موجود رہیں، تفصیل فقہ کی کتب میں دیکھی جا سکتی
ہے]]]،
پس محترم مسلمان بھائیو، بہنوں ، اپنے دِل و دِماغ کو اللہ
اور اس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کا تابع بنایے ،
اور اُن کی مقرر کردہ حدود میں رہنا سکھایے ، اور اِس حقیقت کو جرأت مندی کے
ساتھ قبول کیجیے کہ ہمارے جذبات اور ہماری
سوچیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور حدود کی
کسوٹی نہیں ہیں ،
اور خوب اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ اچھا ، سچا اور کامیاب مُسلمان
وہ ہے جو اپنے رب اللہ تبارک وتعالیٰ کی، اور اسی رب کے حکم سے اُس کے رسول محمد صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدُود میں رُکا رہے ، اور اپنے دیگر
مُسلمان بھائیوں بہنوں کی بھی مدد کرے کہ وہ بھی اُن حُدُود میں رہ کر اپنی زندگیاں بسر کریں
، نہ کہ اپنی ذاتی سوچوں کی بنا پر زندگی بسر کی جائے۔
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ
اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ:::اور نیکی اور تقوے(والے کاموں) ایک دوسرے کی مدد کرو ، اور گناہ اور نا فرمانی
(والے کاموں) میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو، اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب) سے بچو
، بے شک اللہ بہت شدید سزا دینے والا ہے﴾سُورت المائدہ(5)/آیت2،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہمت عطاء فرمائے کہ ہم اپنی
عقل دانیوں کی موشگافیاں ، اور اپنے جذبات کی تندہیوں سے بچ کر، اُس کی اور اُس کے
رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کرنے والے بنیں۔
تاریخ کتابت: 30/05/1435ہجری ، بمطابق29/05/2014۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔