Wednesday, December 3, 2014

::::::قِسطوں پر خرید و فروخت کرنے، اور قِسطوں کی صُورت میں قیمت بڑھا کر خرید وفروخت کا شرعی حکم:::::



::::::قِسطوں پر خرید و فروخت کرنے، اور قِسطوں کی صُورت میں قیمت بڑھا کر خرید وفروخت  کا شرعی حکم:::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
قسط پر کوئی چیز فروخت کرنے کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز فوراً نقد قیمت لے کر بیچنے کی بجائے ، اپنی مقرر کردہ قیمت پر، مقرر شدہ مدت میں مقرر شدہ قسطوں کی صُورت میں وصول کرنے پر راضی ہو کر بیچ دے ،
اس قِسم کی فروخت اور خرید کے شرعی حکم کو سمجھنا اِس لیے ضروری ہے کہ  اب ہمارے زمانے میں افراد تو افراد ، قوموں اور مُلکوں کی سطح پر قسطوں میں فروخت اور خرید کا معاملہ شروع ہو چکا ہے ، اوراِس قِسم کی خرید و فروخت کو باقاعدہ ایک کاروبار کے طور پر ، اور بڑے وسیع طور پر پھیلادِیا گیا ہے اور مزید بڑھایا جا رہا ہے ،
جیسا کہ  بڑی بڑی کمپنیاں ، بنک ، اور مختلف اِدارے دُوسروں سے نقد  پر چیزیں خرید کر لوگوں میں اُدھاراور قِسطوں پر بیچتے ہیں ، اور بسا اوقات خود بھی قِسطوں پر خریدتے  ہیں ، اور پھر آگے دُوسروں پر  اُدھاراورقِسطوں میں بیچ دیتے ہیں ،  اور اِس میں شرعی طور پرکوئی غلطی نہیں ،
::::::: فوری ادائیگی کی بجائے اُدھار پر کچھ فروخت کرنا بالکل جائز ہے :::::::
:::::::دلیل  ::::::: إِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا سے روایت ہے کہ::: ﴿ أَنَّ النَّبِىَّ - صَلَّى اللهُ عَليهِ وَسلَّمَ - اشْتَرَى طَعَامًا مِنْ يَهُودِىٍّ إِلَى أَجَلٍ ، وَرَهَنَهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ:::نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک (دفعہ ایک)یہودی سے اُدھار پرکھانا خریدا ، اور اُس کے پاس لوہے کی ایک درع گروی رکھوائیصحیح  بخاری/حدیث /2068کتاب البیوع/باب14،صحیح مُسلم/حدیث/4899کتاب المساقاۃ/باب24،
::::::: اُدھار میں بیچی ہوئی چیز کو  ایک یا ایک سے زیادہ دفعہ،یعنی قِسطوں میں لینا ،  ادا کرنا بھی جائز  ہے :::::::
:::::::دلیل  ::::::: إِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا یہ بھی فرمانا ہے کہ﴿ جَاءَتْنِي بَرِيرَةُ فَقَالَتْ كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ وَقِيَّةٌ :::میرے پاس بُریرہ (امی جان عائشہ رضی اللہ عنھا کی ایک باندی  رضی اللہ عنھا) آئی، اور کہا کہ اُس نے اپنی آزادی کے لیے (مالک کو)نو 9اوقیہ ادا کرنے کا معاھدہ کیا ہے ، (اور ادائیگی) ہر سال ایک اوقیہ (کی صُورت میں  ہو گی)صحیح  بخاری/حدیث /2068کتاب البیوع/باب14،صحیح مُسلم/حدیث/4899 کتاب المساقاۃ/باب24،(ایک اوقیہ چالیس درھم کو کہا جاتا تھا)،
اِس سودے  کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کی گئی اور اُنہوں نے اِس کو برقرار رکھا ،
پس ، اُدھار پر ، اور اُس اُدھار کو ایک یا ایک سے زیادہ قسطوں پر خرید و فروخت کرنا بالکل جائز کام ہیں ،
::::::: قِسطوں میں ادائیگی کی صُورت میں قیمت بڑھا کر فروخت کرنے کا مسئلہ  :::::::
ہمارے دَور میں قِسطوں میں خرید و فروخت کے  معاملات ایسے ہیں کہ تقریبا ً ایسی ساری ہی خرید و فروخت میں یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ بیچا جا تا ہے ، اُسکی قیمت  قِسطوں میں ادا ہونے کی وجہ سے  نقد ادائیگی کی نسبت بڑھا دی جاتی ہے ،
قیمت کے اِس بڑھاوے کو کچھ عُلماء نے سُود خیال کرتے ہوئے اِس قِسم کی خرید و فروخت کو ناجائز قرار دِیا ،
لیکن اُن کا یہ خیال دُرست نہیں ، کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ کے اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کے خِلاف ہے ،
اِسی لیے ، جمھور عُلماء نے ، جِن میں چاروں إِمام رحمہم اللہ جمعیاً بھی شامل ہیں ،اِس قِسم کی خرید و فروخت کو جائز قرار دِیا ہے ،اِن کے دلائل درج ذیل ہیں :
::::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان﴿ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا::: اور اللہ نے بیچنا حلال قرار فرمایا ہے، اور سُود کو حرام قرار فرمایا ہےسُورت  البقرہ(2)/آیت 275،
اِس آیت شریفہ میں بیچنے ، فروخت کرنے کا عام حکم ہے ، جِس میں نقد ، اُدھار ،ایک ہی دفعہ میں یا مختلف قِسطوں میں ادائیگی، نقد کی صُورت میں کچھ اور قیمت اور اُدھار کی صُورت میں قیمت بڑھا کر بیچنا  سب ہی شامل ہوتے ہیں ،
::::::: اللہ جلّ شانہُ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ::: اے اِیمان لے آنے  والو،آپس میں ایک دُوسرے کے مال نا حق طور پر مت کھاؤ،(ایک دُوسرے کے مال سے فائدہ اُٹھانےکا)سوائے اِس کے(کوئی طریقہ جائز نہیں)کہ کوئی ایسی تجارت ہو جِس پر تُم لوگ باہم رضا مند ہو سُورت  النِساء(4)/آیت29،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بیان کردہ عمومی حُکم میں ، بیچنے اور خریدنے والوں کا،اُدھار اور قِسطوں میں ادائیگی کی صُورت میں ، یا صِرف اُدھار کی صُورت میں کسی چیز کی  قیمت بڑھا  کر سودا کرنے پر راضی ہونا بھی شامل ہوجاتا ہے ،
::::::: اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنت مُبارکہ میں """سلم """ کے طریقے پر خرید و فروخت کو جائز قرار فرمایا گیا ، جو کہ قسطوں پر خرید و فروخت کے مشابہہ ہی ہے ،
"""سلم """ اُس خرید و فروخت کو کہا جاتا ہے ، جِس میں خریدنے والا ، خریدے جانے والے مال کی قیمت پیشگی ادا کر دیتا ہے ، یہ عموماً کھیتی باڑی کے پھل و اناج میں کی جاتی تھی ، اور کی جاتی ہے ، جیسا کہ کوئی زمیندار اور کوئی تاجر ایسا سودا کریں کہ تاجر اُس زمیندار کو فصل کاشت کرنے اور اس کٹنے تک کے اخراجات ادا کرے ، یا کوئی طے شدہ رقم ادا کرے اور اُس کے عوض  وہ فصل ، یعنی اُس کا پھل سارا یا جزوی طور پر خرید لے ، جو کہ زمیندار اُس تاجر کو طے شدہ مُدت میں دینے کا پابند ہو ،
اُدھار پر قسطوں میں خرید و فروخت تقریباً اِس تجارت کے جیسی ہی ہے ، اور اِس تجارت یعنی """سلم """ کےطریقے پر خرید و فروخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت شُدہ ہے ، دلیل درج ذیل ہے ،  
::::::: عبداللہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ """ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ پھل کی خرید و فروخت اُدھار پر کیا کرتے تھے ،  (کبھی )ایک (یا دو )سال، اور(کبھی) تین  کے اُدھار پر ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿ مَنْ أَسْلَفَ فِى شَىْءٍ فَفِى كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ ، إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ::: جو کوئی کسی چیز کی خرید و فروخت اُدھار پر کرے تو وضاحت سے طے شدہ پیمائش اور وزن کے مُطابق ، اور (ادائیگی کی )طے شدہ مُدت کے ساتھ کرے"""صحیح بخاری/حدیث/2239کتاب السلم /دُوسرا باب ،
اُدھار پر مال کی خرید و فروخت ، خواہ ادائیگی ایک قِسط میں ہو، یا زیادہ اقساط میں ، اور خواہ موجودہ قیمت سے بڑھا کر قیمت مقرر کر کے کی جائے ، جائز ہے ،
اِسی لیے شروع سے ہی مُسلمانوں کا اِس قِسم کی خرید و فروخت پر عمل چلا آرہا ہے ، اور کسی طرف سے کسی صحیح دلیل کے ساتھ کوئی اِنکار نہیں ہوا ، گویا کہ اِس پر مُسلمانوں کا اجماع ہے ،
علامہ ابن باز رحمہُ اللہ سے، اُدھار پر قیمت زیادہ کرکے بیچنے کے بارے میں  سوال کیا گیا، تو اُنہوں نے جواب دِیا کہ
"""اِس طرح (کی خرید و فروخت کرنے کا )معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ،اِس پر گویا کہ مُسلمانوں کا عملی طور پر اجماع (یعنی اتفاق)ہے کیو نکہ آج تک مُسلمان اِس طرح کے معاملات کرتے چلے آرہے ،
اِس اتفاق میں سے کچھ اھل عِلم الگ ہوئے ، جنہوں نے یہ اُدھارخرید و فروخت کی صُورت میں قیمت بڑھانے کو ناجائز قرار دِیا ،(خواہ اُس سودے کی ادائیگی ایک ہی دفعہ میں کی جائے یا مختلف قِسطوں میں، اور اُنہوں نے اِس قِسم کی تجارت کو اِس لیے ناجائز قرار دِیا) کیونکہ اُنہوں نے اِس قِسم کی خرید و فروخت سُود خیا ل  کیا ، جبکہ اِس قِسم کی خرید و فروخت کو سُود سمجھنے کی کوئی دلیل نہیں ،اور اِس میں  کِسی طور کوئی سُودی معاملہ شامل نہیں ،
اور وہ اِس لیے کہ ، تاجر اپنا مال ، اُدھار پر فروخت  کرنے کے لیے اِس لیے ہی راضی ہوتا ہے کہ کچھ دیر بعد سہی ، لیکن اُسے زیادہ منافع مل جائے  گا ، اور دُوسری طرف خریدار وہ مال یا چیز زیادہ قیمت پر خریدنے کے لیے اِس لیے راضی ہوتا ہے کہ وہ فوراً اُسی وقت وہ چیز  نقد میں خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ( اور جب تک وہ خریدنے کے قابل ہو گا عین ممکن ہے کہ اُس وقت تک وہ مال میسر  نہ رہے ، یا اُس کی قیمت اِس اُدھار والی قیمت سے بھی زیادہ ہو جائے ، یا اُس وقت تک خریدار کی ضرورت کی تکمیل کا انتظار کرنا کسی اور نقصان کا سبب  ہو ، غرضیکہ ایسے کئی جائز اسباب ہوتے ہیں جِن کی وجہ سے خریدار بخوشی اُس مال کو اُدھار میں زیادہ قیمت خریدنے پر راضی ہوتا ہے، لہذا جب اِس قِسم کا کوئی سودا ، شریعت کے کسی حکم کی نافرمانی کے بغیر اورخریدنے اور بیچنے والے کی باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے ، تو)یہ سودا دونوں کے لیے فائدے والا ہوتا ہے ،
اِس قِسم کے سودے (خرید و فروخت ، تجارت وغیرہ)کا ثبوت نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک سے میسر ہے ، کہ جب انہوں نے عبداللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ُ کو اِسلامی لشکر کی تیاری کا حکم دِیا تو اُونٹ کم پڑنے کی وجہ سے عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ نے ایک اُونٹ کے بدلے دو اونٹ واپس کرنے کے سودے کر کے لوگوں سے اُدھار  اُونٹ خریدے ، (إمام الالبانی نے اِس روایت  کو حَسن قرار دِیا، إِرواء الغلیل/حدیث 1358
اور یُوں بھی اِس قِسم کی خرید و فروخت اللہ تبارک  تعالیٰ کے اِس فرمان کے عمومی حکم میں داخل ہے کہ  ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ إِذَا تَدَايَنتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ:::اے اِیمان لے آنے  والو،اگر تُم لوگ کسی مقرر وقت تک کے لیے قرض لو تو اُسے لکھ لیا کرو سُورت البقرہ(2)/آیت282،
کیونکہ اُدھار پر خرید وفروخت  اِسی جائز قرض کی صُورتوں میں سے ایک ہے ، اور """سلم"""کے طریقے پر کی گئی خرید و فروخت  کی قِسم میں سے ہے ،،،"""، فتاویٰ  اِسلامیہ /کتاب البیوع کا پہلا سوال جواب،
پس ، اللہ تبارک و تعالیٰ  کے کلام پاک سے ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح، قولی اور فعلی سُنّت مُبارکہ سے یہ ثابت  ہوا کہ """اُدھار پر مال کی خرید و فروخت ، خواہ ادائیگی ایک قِسط میں ہو، یا زیادہ اقساط میں ، اور خواہ موجودہ قیمت سے بڑھا کر قیمت مقرر کر کے کی جائے ، جائز ہے ،اور یہ جو اُدھار پر ، قِسطوں پر، اور خاص طور پر اُدھار کی صُورت میں قیمت بڑھا کر خرید و فروخت کیے جانے کو سُود کہا جاتا ہے ، ایسا کہنا دُرُست نہیں """۔
والسلام علیکم۔
شیخ محمد المُنجد حفظہُ  اللہ و رعاہُ کے ایک مقال سے ماخوذ۔
تاریخ کتابت :17/01/1436ہجری، بمُطابق10/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔