::::: حدیث قُدسی بھی، قُران کے علاوہ
وحی میں سے ہے :::::
بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن
لا نَبی بَعدَہ ُ والذی لَم
یَتکلم مِن تِلقاءِ نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہ ::: اللہ کے نام سے
آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے
لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جِس
نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جِس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے
اور کچھ نہ ہوتی تھی ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ
کو اِسلامی علوم کی اصطلاحات میں‘‘‘حدیث ’’’ کہا جاتا ہے ، الحمد للہ ، اس لفظ ‘‘‘حدیث ’’’کے لغوی معانی کے
بارے میں کچھ تفصیل ‘‘‘::::: قران حکیم میں لفظ
‘‘‘حدیث ’’’ ، اور حدیثء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ہی نہیں ہیں ::::: ’’’بیان کر چکا ہوں ،
ثم الحمد للہ اسی تفصیل میں اُن لوگوں کی مبنی بر جہالت
دھوکہ دہی بھی آشکار کر چکا ہوں جو لوگ اس لفظ ‘‘‘حدیث ’’’ کوقران کریم میں بھی
اسی اصطلاحی معنی میں مقید کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
حدیث شریف پر اعتراضات وارد کرتے ہیں اور بسا اوقات صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کا
اِنکار ہی کر دیتے ہیں ،جبکہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وہ تمام فرامین
جو اللہ کے دِین سے متعلق ہیں ،عقائد سے متعلق ہیں ، ظاہری ا ور باطنی معاملات جن میں معاشی ،
معاشرتی اور ہر قسم کے معاملات جومسلمانوں کے درمیان ، انسانوں کے درمیان ، اور انسانوں اور اللہ کی
ساری ہی مخلوق کے درمیان ہوتے ہیں ، سارے ہی معاملات سےکے بارے میں حلال و حرام ،
جائز و ناجائز ، مستحب و مکروہ کے متعلق تمام فرامین ، خواہ وہ احکام کی صُورت میں
ہوں ، یا تشریح و تفسیر کی صُورت میں ، وہ سب فرامین مُبارکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وحی کے
مطابق ہوتے ہیں ،
وہ سب فرامین جو اللہ کے دین سے متعلق ہیں ، اللہ تبارک و
تعالیٰ کی باتیں ہیں ، جنہیں اصطلاحاً ‘‘‘احادیث الالھیۃ’’’ بھی کہا جاتا ہے ،
‘‘‘احادیث الالھیۃ ’’’کی
پہلی اور اعلیٰ ترین قِسم ‘‘‘وحی متلو ’’’ہے ، یعنی،وہ وحی جِس کی تلاوت کی جاتی
ہے ، جِس کی تلاوت کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ، جِس کی تلاوت اِسلام کے بنیادی رکن نماز کی ادائیگی میں لازم
قرار دی گئی ، اِس‘‘‘وحی متلو ’’’ کو ‘‘‘ قران’’’ کہا جاتا ہے ، اور یہ قران اللہ کے خلیل مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی ز بان مُبارک سے ادا ہوتے ہوئے اللہ کے بندوں تک پہنچا ہے ، اور جن بندوں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے سنا ، ان میں کچھ نے اسے
لکھا اور اکثریت نے اسے زبانی یاد رکھا ، اور سب کی یادداشت کے مطابق ، اور کچھ
لکھے ہوئے کو جمع کر کے اس اس طرح یہ ‘‘‘وحی متلو’’’ بعد میں آنے والوں تک ایک مدون
کتاب کی صُورت میں پہنچی، اور سب معلومات ہمیں انہی راویوں کے ذریعے ملتی
ہیں جن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے ادا
فرمودہ ‘‘‘وحی غیر متلو ’’’کی روایات ملتی ہیں ،
‘‘‘احادیث الالھیۃ ’’’
کی دُوسری اور آخری قِسم ‘‘‘وحی غیر متلو
’’’ہے ، یعنی،وہ وحی جِس کی تلاوت نہیں کی
جاتی ہے ، جِسے اللہ کی ‘‘‘وحی متلو ’’’
کو اللہ کی مُراد کے مطابق سمجھنے کے لیے پڑھا جاتا ہے ، اور یہ وحی بھی ‘‘‘وحی
متلو ’’’ ہی کی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ
نے اپنے حبیب مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے ہی دا کروائی ،اِس‘‘‘وحی
غیر متلو ’’’ کو اِسلامی علوم کی اصطلاحات میں ‘‘‘حدیث ’’’ کہا جاتا ہے پس جب بھی
کہیں اِسلامی امور سے متعلق کوئی بات کہی ، سنی یا پڑھی جاتی ہے تو ایک عام معروف
مفہوم کے مطابق لفظ ‘‘‘حدیث ’’’ سے مُراد
، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وہ فرمان مُبارک ہی لیے جاتے ہیں ، جو ‘‘‘ وحی غیر متلو ’’’ ہیں ،
اِسی ‘‘‘وحی غیر متلو ’’’میں سے کچھ فرامین ایسے ہیں جنہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بات کے طور
پر روایت فرمایا ہے ،
ان فرامین مُبارکہ کو‘احادیث قُدسیہ’کہا جاتا ہے ،کبھی کہیں
ان کا ذِکر ‘احادیث الالھیۃ ’کے طور پر بھی کیا جاتا ہے
، لیکن عام معمول کے مطابق آغازء امر سے ہی تمام مسلمانوں میں اِن فرامین مُبارکہ
کو ‘احادیث قُدسیہ ’کے نام سے جانا ، پہچانا اور مانا گیا ہے ،
::::::: وحی متلوقران حکیم اور اور وحی غیر
متلو حدیث قُدسی میں بنیادی فرق درج ذیل ہیں
:::::::
::::::: قران
کریم کا ہر ایک حرف اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنا کلام ہے ، اور اُس کا معنی اور مفہوم بھی اللہ ہی کی طرف سے
مقرر ہے ، جو اللہ ہی کے کلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
کلام کے ذریعے سمجھا جاتا ہے ۔
جبکہ حدیث قُدسی میں بیان فرمودہ باتوں کا مفہوم اللہ کی
طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، یعنی حدیث قُدسی
میں موجود الفاظ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے الفاظ نہیں کہا جاتا ،
::::::: قران
حکیم کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی عبادات محضہ میں سے ہے ، جبکہ حدیث قُدسی کو
پڑھنا عبادات محضہ میں سے نہیں ،
::::::: قران
حکیم کی آیات مُبارکہ کے ثابت ہونے میں ان کا تواتر سے نقل ہونا لازمی امر ہے ،
جبکہ حدیث قُدسی کی روایت کی نقل میں تواتر کا لزوم مطلوب نہیں ،
احادیث قُدسیہ کو جمع کر کے الگ مؤلفات تیار کرنے کے لیے
مختلف زمانوں میں مختلف عُلماء کرام نے حسب معمول بہت جان ریزی سے کام لیا ہے ،
اور مختلف کتابیں مرتب کی ہیں ، اُن میں سے کچھ تو ایسی ہیں جن میں صرف روایات
مذکور ہیں ، اور کچھ ایسی ہیں جن میں روایات اپنے اصل مصادر کے حوالہ جات کے ساتھ
مذکور ہیں ، اور ایک دو ایسی ہیں جن میں صِرف صحیح روایات کو جمع کیا گیا ہے ، اور
ایک کتاب ایسی ہے جِس میں سب سے زیادہ اور کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘‘احادیث قُدسیہ ’’’
کی تقریباً ساری ہی روایات کو کو جمع کیا
گیا ہے اور ان کی مکمل تخریج اور تحقیق
شامل کی گئی ہے ، اس لیے اس کتاب کی تعریف
میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب تمام تر صحیح احادیث قُدسیہ کا پہلا انسائیکلوپیڈیا ہے ، اور اس میں اُن احادیث کو فقہی
ابواب کے مطابق مرتب کیا گیا ہے ، اور ان کی شرح بھی کی گئی ہے ، و للہ الحمد ،
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اُس کے حبیب مُحمد صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی اُمت پر خصوصی انعامات میں سے ایک انعام ہے کہ وہ ہمیشہ اس اُمت
کو ایسے عُلماء عطاء کرتا رہتا ہے جو اُس کے دِین اِسلام کے دُوسرے مصدر ، یعنی
اُس کے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام کی سُنّت مُبارکہ کی حفاظت کا کام کرتے رہتے ہیں
، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے دُشمن جلتے بُھنتے ہی رہیں اور اسی حال میں ابدی جلن والے ٹھکانوں تک جا
پہنچیں ،
اس کتاب کا نام ‘‘‘جامع الأحادیث القُدسیہ ’’’ ہے ، اور اس
کے مؤلف جناب شیخ ابو عبدالرحمٰن عصام الصبابطی حفظہُ اللہ ہیں ،
اس کتاب میں صحیح
اور ضعیف سب ملا کر کل 1150
روایات جمع کی گئی ہیں ،
جن میں سے ایک
محتاط اندازے کے مطابق 531 روایات ضعیف
کی مختلف اقسام میں سے ہیں ، چونکہ ضعیف روایات کی یہ گنتی میں نےساری کتاب کو کھول
کھول کر صفحہ بہ صفحہ دیکھتے ہوئے کی ہے ، اس لیے کہا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ضعیف روایات کی تعداد 531ہے ،
باقی کی روایات میں سے صِرف چند ایک ایسی ہیں جن کی صحت کے
بارے میں شیخ صاحب حفظہُ نے خاموشی اختیار کی ہے کیونکہ اُن کے بارے میں وہ کسی
یقینی تحقیق تک نہیں پہنچ پائے ، اور یہ بھی ہمارے عُلماء کرام کی دیانت داری اور
حدیثء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کے بارے میں انتہا درجہ کی احتیاط برتنے کی دلیل ہے ، وللہ الحمد ،
یہ کتاب دار الحدیث ، قاھرہ ، مصر کی مطبوعہ ہے ، اور وہی اِس
کے ناشر ہیں ، میرا پاس اِس کا پہلا اصدار ہے جو کہ سن 1425 ہجری ، بمطابق 2004
عیسوی میں چھاپا اور نشر کیا گیا، اور اُسی کے مطابق میں نے اِس میں موجود روایات کے اعداد و شمار پیش کیے
ہیں ،
احادیث قُدسیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے مختلف صیغوں میں روایت فرمایا ،
جیسا کہ ‘‘‘ قال اللہ ، یقول اللہ، قال
ربکم ’’’وغیرہ ، خیال رہے کہ صِرف یہی صیغے یا
الفاظ ایسے نہیں جو احادیث قُدسیہ کا تعین کرتے ہیں ، بلکہ اور بھی ہیں ،
موضوع کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے ، اِن مذکورہ بالا
صیغوں میں روایت کردہ صحیح ثابت شدہ احادیث
قُدسیہ میں سے تین روایات پیش کرتا ہوں ،
::::::: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ (((((قَالَ
اللَّهُ كَذَّبَنِى ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ ، وَشَتَمَنِى وَلَمْ
يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ ، فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّاىَ فَزَعَمَ أَنِّى لاَ أَقْدِرُ
أَنْ أُعِيدَهُ كَمَا كَانَ ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّاىَ فَقَوْلُهُ لِى وَلَدٌ ،
فَسُبْحَانِى أَنْ أَتَّخِذَ صَاحِبَةً أَوْ وَلَدًا :::
اللہ فرماتا ہے کہ آدم کی اولاد نے مجھے جُھٹلایا
، اور اُسے ایسا کرنے کا حق نہ تھا، اور اُس نے مجھ پر عیب لگایا اور اُسے ایسا
کرنے کا حق نہ تھا، تو اُس کا مجھے جُھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ یہ جھوٹا گُمان کرتا
ہے کہ میں اُسے ، اُسی طرح دوبارہ زندہ کرنے
کی قدرت نہیں رکھتا جیسا کہ (وہ
مرنے سے )پہلے تھا، اور اُس کا مجھ پر عیب لگانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے
بیٹا اپنایا ، جب کہ میں ایسے عیوب سے پاک ہوں کہ بیوی یا بیٹا اپناؤں )))))صحیح
بخاری / حدیث /4482کتاب التفسیر/باب8،
::::::: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ (((((إِذَا دَخَلَ
أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ - قَالَ - يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ
وَتَعَالَى تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ فَيَقُولُونَ أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا
أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ - قَالَ - فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ
مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ::: جب جنتی لوگ جنّت میں داخل ہو جائیں گے ، تو اللہ تبارک و
تعالیٰ فرمائے گا ، کیا تُم لوگ کچھ اور چاہتے ہو کہ میں تُم لوگوں کواور زیادہ
دُوں ؟ تو جنتی لوگ کہیں گے ، کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں فرمائے ؟ کیا آپ نے
ہمیں آگ سے نجات دے کر جنّت میں داخل نہیں فرمایا ؟(توبھلا اب جہنم سے نجات پانے کے بعداورجنت کی نعمتیں
پانے کے بعد اور کیا چاہیں گے)، تو اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک سے پردے اُٹھائے گا ،
پس جنتیوں کے لیے اپنے رب عزّ و جلّ کا
دیدار اُن سب نعمتوں سے بڑھ کو ہو گا جو کچھ بھی انہیں ملی ہو گئیں)))))صحیح
بخاری / حدیث /487کتاب الایمان/باب82،
::::::: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
سے دریافت فرمایا اِرشاد فرمایا کہ (((((هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا
قَالَ رَبُّكُمْ ؟::: کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ تُم لوگوں کے رب
نے کیا کہا ہے؟)))))
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم پر سچے پکے ایمان اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا تقاضا پورا
فرماتے ہوئے عرض کیا ‘‘‘‘‘اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ :::اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ’’’’’،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (((((أَصْبَحَ
مِنْ عِبَادِى مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ
وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ
بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِى وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ::: (تُم لوگوں کے رب نے کہا ہے کہ)میرے بندوں
میں سے کچھ میرا کفر کرنے والے ہو گئے اور کچھ مجھ پر ایمان لانے والے ہو گئے ، پس
جِس نے تو کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اُسی کی رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر
اِیمان لانے والا ہے اور ستاروں کا کفر کرنے والا ہے ، اور جِس نے کہا کہ(چاند کی ) فُلاں اور فُلاں(منزلوں
کی)وجہ سے (ہم پر بارش ہوئی)تو وہ میرا کفر کرنے والا ہے اور ستاروں پر
اِیمان رکھنے والا ہے)))))صحیح
بخاری / حدیث /846کتاب الآذان /باب156،
یہ مذکورہ بالا معلومات
یہ سمجھانے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ ‘‘‘حدیث قُدسی ’’’ کسے کہا جاتا ہے ،
اور یہ سمجھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کسی نے اپنی عادت کے مطابق ، لوگوں کی غلط بیانیوں سے
متاثر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک صحیح ثابت شدہ فرمان کو حسب عادت حدیث مُبارک کی حُجیت کے خلاف
حجت بنانے کی کوشش کی ،
جبکہ اُس کی ، یا جِس کی بھی کاروائی اُس نے نشر کی ، یہ
کاوائی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے کرم سے اُن ہی لوگوں کے بطلان کا ثبوت ہے ، اِن
شاء اللہ ابھی یہ بات واضح ہوا چاہتی ہے، جیسا کہ الحمد للہ
میرے سابقہ مضامین میں ان لوگوں کی غلط بیانیوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آشکار
کروا ہے ، و لہ الحمد و المنۃ ،
پہلے تو میں وہ حدیث شریف نقل کرتا ہوں جِس کو نقل کر کے
اعتراض کرنے والوں نے اُسے باقی احادیث شریفہ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے
،وہ حدیث درج ذیل ہے :::
موسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں
کہ( اُن کے والد نے کہا) میں (ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کے ساتھ کھجوروں (کے باغ )میں سے گذرا جہاں کچھ لوگ کھجوروں کے درختوں کو پیوند
لگا رہے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَا يَصْنَعُ
هَؤُلاَءِ ؟::: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟)))))،
اُن لوگوں نے جواباً عرض کیا ، مذکر میں سے لے کر مؤنث میں
داخل کر رہے ہیں ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
(((((مَا أَظُنُّ ذَاكَ يُغْنِى شَيْئًا::: میرا خیال ہے
کہ ایسا کرنا کچھ فائدہ مند نہ ہو گا)))))،
اُن لوگوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ
اِرشاد مُبارک پہنچا تو وہ لوگ کھجوروں کے
درختوں سے نیچے اتر آئے اور پیوند کاری ترک کر دی ،
[[[ دیکھیے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی اطاعت رسول صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، آج کے دانشوروں کی طرح یہ نہیں سوچا کہ بھلا ہم یہ بات
کیوں مانیں ؟جو کہ ہماری عقل اور ہمارے تجربے کے مطابق نہیں ، بلکہ فرمان نبی صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سنا اور فورا ً اُس پر عمل کیا ، یہی شان تھی اُن کی ،
اور یہی شان مطلوب ہے سچے ایمان والوں سے کہ سمعنا و اطاعنا ، ہم نے سنا اور ہم نے
اطاعت کی ، تُف ہے اُن عقل زدوں پر جو اپنی عقلوں کے زعم میں سمعنا و عصینا کی عملی تصویر بنتے ہیں]]]
جب اُن صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے پیوند کاری ترک کرنے
کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تک پہنچی تو انہوں نے اِرشاد فرمایا
(((((إِنَّمَا هُوَ ظَنٌّ إِنْ كَانَ يُغْنِى شَيْئًا فَاصْنَعُوهُ فَإِنَّمَا
أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَإِنَّ الظَّنَّ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ وَلَكِنْ مَا قُلْتُ
لَكُمْ قَالَ اللَّهُ فَلَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ::: (میرا )وہ (قول )تو (میرا) خیال تھا ، اگر تُم لوگوں کی
پیوند کاری کچھ فائدہ دیتی ہے تو کرو، بے شک میں بھی تُم لوگوں کی طرح انسان ہوں،
اور یقیناً خیال کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی ٹھیک ہوتا ہے ، لیکن جو کچھ میں تم
لوگوں سے اس طرح کہوں کہ ، اللہ نے کہا ہے ، تو ، (یقیناً )میں ہر گِز بھی اللہ کے
بارے میں غلط نہیں کہوں گا)))))، سُنن ابن ماجہ /حدیث /2564کتاب الرھون/باب15 ، امام البانی
رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
سب سے پہلا تو ایک منطقی سا سوال سامنے آتا
ہے کہ ، آخر یہ حدیث شریف تم لوگوں کو کون سی کسوٹی پر پرکھ کر قبول ہو رہی ہے ؟؟؟ وہی راوی ہیں، اورانہی محدثین میں سے ایک محدث کی پیش کردہ
ویسی ہی روایت ہے ، اور انہی
کتابوں میں سے ایک کتاب میں منقول ہے ، کہ جن راویوں اور جن محدثین پر جھوٹے خود ساختہ الزامات لگا لگا کر تم لوگوں نے
اپنی آخرت بھاری کر رکھی ہے ، اور جن
کتابوں اور اُن میں منقول جن روایات پر تبراء کرتے کرتے تم لوگوں نے اپنے اعمال
ناموں کےصفحات سیاہ کر رکھے ہیں ، آخر بتاؤ تو سہی
کہ اس حدیث شریف کو قران کریم کی کون سی موافقت میسر ہو رہی ہے جو تُم نے اس کو
مان لیا ، اور صرف مان ہی نہیں لیا بلکہ اپنے لیے دلیل بنانے کی بھونڈی کوشش بھی
کر ڈالی ؟؟؟
اور یہ بھی بتاؤ کہ اِس اِمکان کو کس طرح رد کر
سکتے ہو کہ یہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ سارا ہی ظن پر مبنی
نہیں ؟؟؟
اور یہ بھی بتاؤ کہ اِس اِمکان کو کس طرح رد کر
سکتے ہو کہ یہ مذکورہ بالا حدیث شریف بھی
لوگوں کی خود ساختہ نہیں ؟؟؟
اِن شاء اللہ ،یہ لوگ میرے سابقہ بہت سے
سوالات کی طرح اِن سوالات کا بھی کوئی
علمی مدلل جواب نہیں دے سکیں گے ، باذن اللہ القادر القدیر ،
اس مذکورہ بالا حدیث شریف کے آخر میں رسول اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان مُبارک سے یہ لوگ
یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ معاذ اللہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم قران کے علاوہ فرماتے تھے وہ سب ہی اُن کے ظن پر مبنی ہوتا تھا ، اللہ تبارک
وتعالٰی ہمیں اس گمراہی اور ہر گمراہی سے محفوظ رکھے ،
اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر یہی حدیث شریف
دیگر احادیث مُبارکہ کی کسوٹی بناتے ہو تو
اِس حدیث شریف میں تو یہ کہا گیا
ہے کہ (((((مَا قُلْتُ لَكُمْ قَالَ اللَّهُ فَلَنْ أَكْذِبَ
عَلَى اللَّهِ::: لیکن جو کچھ میں تم
لوگوں سے اس طرح کہوں کہ ، اللہ نے کہا ہے ، تو ، (یقیناً )میں ہر گِز بھی اللہ کے
بارے میں غلط نہیں کہوں گا ))))) تو اس
کا مفہوم تُم لوگوں کی سمجھ کے مطابق یہ
ہوا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سےمنسوب کیے
بغیر کہا معاذ اللہ وہ سب کچھ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا خیال تھا ،
تو بتاؤ کہ قران کریم کی کتنی آیات مُبارکہ ایسی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ
کہہ کر سنائی ، یا بتائی کہ ‘‘‘ اللہ نے
کہا ہے ’’’؟؟؟؟؟
میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث شریف اس بات کی دلیل
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے دینی معاملات کے
علاوہ جو کچھ ادا ہوا ، وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتا تھا ، بلکہ ایک
انسان ہونے کے ناطے ، اپنی معاشرتی زندگی کے معاملات میں کچھ اِرشادات ایسے بھی
فرماتے تھے جو اللہ کی طرف سے وحی نہ ہوتے تھے ، یعنی ،میرے اس منطوق کا مفہوم یہ
ہوا کہ دینی معاملات میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم زبان مُبارک
سے ادا ہوا وہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتا تھا ، جِس کی گواہی اللہ جلّ
و علا نے خود دی کہ(((((وَمَا يَنْطِقُ عَنِ
الْهَوَى o إِنْ هُوَ
إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى::: اور
ہمارا نبی اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتا o بلکہ وہ (یعنی اُس کی بات) تو وحی ہے جو اُس کی طرف
کی جاتی ہے)))))
اور مزید کہتا ہوں کہ ، اِس مذکورہ بالا حدیث
شریف میں وہ خلاف قران مفہوم تو ہر گز نہیں ملتا جو قران کریم ، اور رسول کریم صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مخالفین سمجھے ہوئے ہیں ، بلکہ بالکل واضح طور پر یہ
سمجھ میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو قران کریم کے علاوہ بھی
وحی ہوتی تھی ، جِس میں قران کریم کے علاوہ بھی اللہ جلّ و علا کے فرامین اُن صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تک پہنچتے تھے ، اور اُن فرامین کو جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم روایت فرماتے تو اُن کے فرمانے کی نسبت اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ
کی ذات پاک سے فرماتے ، جِس کی تین مثالیں میں نے ابھی پیش کی ہیں ، جِن سے واضح
طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بتا رہے ہیں وہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا ہی
فرمان ہے ، لیکن قران کریم والی وحی میں نازل نہیں ہوا ، لہذا اُسے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم قران کریم میں شامل فرما کر نہیں بتا رہے ،
پس یہ حدیث شریف ان لوگوں کے حق میں تو قطعاً
دلیل نہیں بنتی جو قران کریم کے علاوہ ‘‘‘ وحی غیر متلو’’’ کے منکر ہیں ، بلکہ یہ
حدیث شریف ہم مسلمانوں کے حق میں دلیل بنتی ہے جو اس حق کو مانتے ہیں کہ رسول اللہ
مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک پر اللہ کی طرف سے قران کریم کے
علاوہ بھی وحی نازل فرمائی جاتی تھی ،
(((((فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ
فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ::: تو
پھر حق کے بعد گمراہی کے علاوہ اور ہے کیا ، آخر تُم لوگ کس طرف پھیرے جا رہے ہو)))))سُورت
یُونس (10)/آیت 32،
(((((وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ
بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ:::اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا
ہے کہ رسول
اُن کے درمیان فیصلہ کرے تو اُن میں سے ایک گروہ منہ موڑ لیتا ہے)))))سُورت
النُور (24)/آیت 48،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اُس کے دِین کے ہر ایک معاملے
کی وہ سمجھ عطاء فرمائے ، اور اسی طرح عمل کی توفیق عطاء فرمائے جِس طرح وہ راضی
ہوتا ہے ، والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء،عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت :05/12/1433ہجری،بمُطابق،21/10/2012۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔