:::::: کتنی مُسافت اور
مُدت کے مُطابق مُسافر کا حکم لاگو ہو گا ؟ اورنماز قصر کی جائے گی ؟::::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی
مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ
إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں
اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ اللہ کی طرف سے نہ تواُن کے ساتھ کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی
معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی
رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ کی
بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح
سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برُکاتہُ
،
مُسافر کی نماز سے متعلقہ مسائل کے بارے میں بھی حسب معمول ہم
مسلمانوں کے فقہاء کرام رحمہم اللہ و حفظہم کی آراء اور فتاویٰ مختلف ہیں ،کہیں مُسافت میں اِختلاف نظر آتا ہے ، اور کہیں سفر کی مُدت میں ،
کہ کتنی مُسافت کے بعد سفر کےاحکام
نافذ ہوتے ہیں ، اور کتنی مدت کے مُطابق کسی کو مُسافر سمجھا جا سکتا ہے ، کہ وہ کب نماز قصر کرسکتا ہے اور کب نہیں ؟ اور
کب روزہ چھوڑ سکتا ہے اور کب نہیں ؟
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اِن دونوں ہی
معاملات میں قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ میں کوئی ایسی نص میسر نہیں
جو اِن معاملات کا حتمی فیصلہ رُکھتی ہو ،
اللہ تبارُک وتعالیٰ نے اِس بارے میں
یہ اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي
الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ :::اور اگر تُم لوگ سفر پر جاؤ اور نماز میں کمی کر لو تو تُم لوگوں پر کوئی گناہ نہیں)))))سُورت النِساء(4)/ آیت 101،
[[[ممکن ہے کہ
صِرف تراجم پڑھنے والوں کے لیے آیت شریفہ
کے اگلے حصے کی وجہ سے بات کو سمجھنے میں کچھ غلطی یا اشکال محسوس ہو ، لہذا اگر
کسی کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہو تو اسے چاہیے کہ کم از کم تفسیر ابن کثیر کا
مطالعہ تو ضرور کر ہی لے ]]]
اِس آیت شریفہ
میں مطلق سفر کا ذِکر فرمایا گیا ہے اور
کسی مُسافت یا مُدت کا تعین نہیں فرمایا گیا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و
افعال میں سے بھی ہمیں ایسا کوئی تعین نہیں ملتا جس کی بنیاد پر ہم سفر کی کسی مدت
یا مُسافت کو معیار مقرر کر لیں ،
لہذا
مجھ جیسے ایک عام اُمتی کے لیے سفر
سے متعلق اِن دونوں بنیادی معاملات کو سمجھنے کے لیے تو اتنا ہی جان لینا ، اور
مان لینا کافی ہے کہ""" چونکہ
حقیقت یہ ہی ہے کہ اِن دونوں ہی معاملات
میں قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ میں کوئی ایسی نص میسر نہیں جو اِن
معاملات کا حتمی فیصلہ رُکھتی ہو ، لہذا ،
جب
کوئی مُسلمان، سفر کی نیت سے ، اُس علاقے سے خارج ہو جاتا ہے جس علاقے پر اُس کی اپنی بنیادی ، اصلی رہائشی بستی یا شہر کے نام
کا اطلاق ہوتا ہے ، تو اُس پر مُسافر کے احکام لاگو ہوتے ہیں ، خواہ اُس سفر کی مُسافت
اور مُدت کچھ بھی ہو""" ،
ایک عام اُمتی کے لیے ، اِن معاملات
میں فقہاء کرام رحمہ ُم اللہ و حفظہم ، کی طرف سے ملنے والی مختلف آراء اور فتاویٰ
جات اور اِن کے نقلی یا عقلی دلائل کا مطالعہ عموماً ذہن پر بوجھ اور مزید پریشانی
کا سبب ہو جاتا ہے ،
جی ہاں ، جو کوئی فقہی طور پر اِن کو
سمجھنا یا جاننا چاہے اور حق بات تک پہنچنا چاہے اُس کے لازم ہے کہ پہلے اپنے دِل
و دِماغ کو خوب صبر کے لیے تیار کرے ، اور کسی بھی تعصب یا ضِد کے بغیر حقیقت کو تسلیم کرنے کی جرأت کے ساتھ مطالعہ
کرے ، ،،،،اِن دونوں
معاملات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل موضوعات کا مطالعہ ضروری ہے ،
مُسافر کی نماز
کا شرعی حکم کیا ہے ؟؟؟
نماز قصر کرنے
کی دلیل کیا ہے ؟؟؟
نماز قصر کرنے
کی شرائط کیا ہیں ؟؟؟
اور اس کے ذیل
میں کئی دیگر مسائل بھی آ تے ہیں ،
مُسافر کے احکام
لاگو ہونے کے لیے کتنی مدت اور مُسافت کا سفر ضروری ہے ؟؟؟
سفر کی حالت
لاگو سمجھے جانے کے لیے شرعی طور پر سفر
کی ابتداء کا مقام کیا ہوتا ہے ؟ مُسافر کا وطن ، رہائشی علاقہ کس طرح جانچا جا نا
چاہیے ؟؟؟ وغیرہ ،
اب اگر میں اِن
سب مسائل کو چاروں مذاھب کے مُطابق یہاں بیان کرنے لگوں ، بلکہ اگر صرف ان کا
تعارف ہی لکھنے لگوں تو یہ مضمون خاصا
طویل اور عام قاری کے لیے کافی خشک اور دل بیزار ہو جائے گا ، لہذا ، سب کی آراء
کے حاصل کلام کے بارے میں مختصر سی
معلومات پیش کرتا ہوں ، اِن شاء اللہ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے کی ترتیب کے مُطابق سب سے پہلے ، إِمام
ابو حنیفہ نعمان رحمہ ُ اللہ کے ، اور اُن سے منسوب مذھب """ فقہ حنفیہ""" کی بات کرتے ہیں ،
اِس میں یہ کہا
جاتا ہے کہ :::
"""مُسافر
وہ ہوتا ہے جو کم از کم چالیس میل کی مُسافت طے کرے ، اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دِن کے لیے اُسے مُسافر مانا جا سکتا ہے ، یعنی کسی ایک جگہ میں پہنچ کر اگر وہ قیام کرنے کی نیت سے پندرہ دن گذار لیتا ہے تو
اس کے بعد اسی جگہ میں وہ مُسافر کے حکم میں نہیں ہوتا ، بلکہ مُقیم کے حکم میں
ہوتا ہے، لہذا اُسے ا پنی نمازیں پوری کرنا ہوں گی"""،
آغاز میں کی
گئی گذارش کے مُطابق یہ مذکورہ بالا باتیں
بھی آراء ہی ہیں ، اِن کی قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارُکہ میں کوئی
دلیل نہیں ، بلکہ اِس کے برعکس کے دلائل ہیں، جن میں چند ایک کا ذِکر اِن شاء اللہ
آگے کروں گا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
إِمام
مالک ، إِمام شافعی اور إِمام احمد رحمہم اللہ کا یہ کہنا ہے کہ :::
"""اگر
کوئی مُسافر کسی مقام میں چار دِن سے
زیادہ رُکنے کی نیت کر لیتا ہے تو وہ مُسافر کے احکام سے خارج ہو جاتا ہے ، لہذا
اُسے اپنی نمازیں پوری کرنا ہوں گی"""،
اور اِس کی دلیل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ """ أن النبي صلى الله عليه وسلم: " قدم مكة في حجة الوداع يوم الأحد، الرابع من ذي الحجة وأقام فيها الأحد والاثنين والثلاثاء والأربعاء وخرج يوم الخميس إلى منى، فأقام -صلى الله عليه وسلم- في مكة أربعة أيام يقصر الصلاة :::کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حج الوداع کے موقع پر چار ذی الحج کو اتوار کے دِن مکہ میں تشریف لائے ، اوراتوار ، سوموار، منگل اور بدھ وہیں مکہ میں قیام فرمایا ، اور جمعرات کے دِن منی کے لیے روانگی فرمائی ، تو مکہ میں انہوں نے چار دِن قیام فرمایا اور نماز قصر کی """،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فعل مُبارُک تینوں إِماموں کی بات کی دلیل ہے ،
لیکن اِس میں بھی سفر کی مدت کا تعین مُسافر کی نیت پر ہی منحصر نظر آتا ہے ،
کیونکہ ،چار دِن کے قیام کی صُورت میں سفر کو ختم سمجھ کر مُقیم کا حکم تو اس وقت سمجھا جا سکتا تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم چار دِن سے زیادہ قیام فرماتے اور نمازیں قصر کرنے کی بجائے مکمل ادا کرتے ہیں ، یا پانچواں دِن سے نماز قصر کرنا ختم فرما دیتے ،
لہذا اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چار دِن کے قیام کی صُورت میں نماز قصر کرنے کی وجہ سے ہم چار دِن کو مُدت قرار نہیں دے سکتے ،
اِسی حجۃ الوداع کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منیٰ کے دِنوں میں بھی نماز قصر فرمائی، اور پھر عرفات اور مزدلفہ میں جمع اور قصر فرمائی، وہاں تو چار دِن کا قیام نہ تھا،
اِس کے عِلاوہ یہ بھی ہے کہ سفر کی مُدت کے تعین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا صِرف یہ ایک ہی فعل مُبارُک ہی نہیں ، بلکہ ، ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں انیس دِن رہے، لیکن نماز قصر فرماتے رہے،
جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ نے بتایا ہے کہ (((أَقَامَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - بِمَكَّةَ تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا يُصَلِّى رَكْعَتَيْنِ ::: نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اُنیس دِن(ٹھہرے ،رُکے، رہائش رُکھی) قیام کیا، اور دو رُکعت(قصر) نماز ادا فرماتے رہے)))صحیح بخاری/حدیث/4298کتاب المغازی/باب52،
اور غزوہ ء تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بیس دِن وہاں قیام فرمایا ، اور نماز قصر فرمائی ،
جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ (((أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِتَبُوكَ عِشْرِينَ يَوْماً يَقْصُرُ الصَّلاَةَ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دِن (ٹھہرے ،رُکے، رہائش رُکھی) قیام کیا،(اور)نماز قصر فرماتے رہے)))مُسند احمد/حدیث/14504مُسند جابر بن عبداللہ میں سے حدیث رقم28،، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قراردِیا ، (إِرواءُ الغلیل/حدیث574)،
اِن دونوں، اور کہیں دونوں میں سے کسی ایک سفر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے وہاں قیام کی نیت نہیں فرمائی تھی ،اِس لیے چار دِن یا پندرہ دِن سے زیادہ کے باوجود نماز قصر فرمائی،
تو لے دے کر، گھوم پِھر کر بات پھر نیت پر ہی آجاتی ہے ،
لہذا دُرُست بات یہ ہی ہے کہ یہ معاملہ مُسافر کی نیت پر منحصر ہے ، اگر وہ کسی جگہ پہنچ کر رہائش پذیر ہوتا ہے لیکن قیام کی نیت نہیں رُکھتا ، اپنے مطلوبہ کام کی تکمیل تک وہاں رُکنے کی نیت رُکھتا ہے ، تو وہ مُسافر کے حکم میں ہی ہوتا ہے خواہ کتنی ہی مُدت وہاں رُکے ، پس اُس مدت تک وہ اپنی فرض نماز قصر کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد دیکھتے ہیں مُسافت کا مسئلہ :::
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ نے یہ خبر دی ہے کہ (((((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلاَثَةِ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلاَثَةِ فَرَاسِخَ -۔۔شُعْبَةُ الشَّاكُّ ۔۔ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ::: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یا تین فرسخ (میل یا فرسخ کے بارے میں شک شعبہ نامی راوی کی طرف سے ہے )کی مُسافت تک بھی تشریف لے جاتے تو (چار رُکعت والی نماز کو قصر کر کے )دو رُکعت نماز ادا فرماتے)))))صحیح مُسلم /حدیث /1615کتاب صلاۃ المُسافرین/ پہلاباب،،،
[[[میل کی مقدار کے تعین کے بارے میں اِن شاء اللہ آگےبات کروں گا ]]]
اور اِس کے عِلاوہ أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ نے ہی یہ بھی بتایا ہے کہ((((( صَلَّيْتُ الظُّهْرَ مَعَ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا ،،وَبِذِى الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ:::میں نے (حج کے سفر میں )مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ چار رُکعت ظہر پڑھی ، اور ذی الحلیفہ میں(عصر)دو رُکعت (قصر کر کے )پڑھی))))) صحیح بخاری/حدیث/1089کتاب تقصیر الصلاۃ /باب 5،
اُس وقت کے راستوں کے مُطابق کہا گیا کہ مدینہ المنورہ اور ذی الحلیفہ کے درمیان چھ اور کہا گیا کہ سات میل کی مُسافت ہے ،
اِس حدیث شریف سے یہ پتہ چلا کہ چھ یا سات میل سفر کے بعد بھی نماز قصر کی جاسکتی ہے ،
کچھ عُلماء کرام کے بارے میں یہ منقول ہے کہ اُنہوں نے اِس مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں یہ کہا کہ """ اِس میں ایسی کوئی بات نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا سفر تو مکہ تک کا تھا ، نہ کہ ذی الحلیفہ تک ، لہذا ُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہاں قصر کرنا مُسافت کا تعین نہیں کر سکتا""" ،
تو میں اِس کے جواب میں ، یہ کہوں گا کہ ،
اِن صاحبان کا احترام اور اُن کی فقہ اپنی جگہ ، لیکن اِن میں سے کوئی بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ، اور اُن میں سے بھی چوتھے بلا فصل خلیفہ، أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے بڑھ کر فقیہ نہ تھا ، اور امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نے تو اِس سے بھی کم مُسافت پر نماز قصر کی ،
صحیح بخاری میں ہی ، مذکورہ بالا مقام پر ہی یہ مذکور ہے کہ """وَخَرَجَ عَلِىٌّ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - فَقَصَرَ وَهْوَ يَرَى الْبُيُوتَ فَلَمَّا رَجَعَ قِيلَ لَهُ هَذِهِ الْكُوفَةُ . قَالَ لاَ حَتَّى نَدْخُلَهَا ::: اور علی ، علیہ السلام ***،(کوفہ سے کسی سفر پر )نکلے ، اورنماز قصر فرمائی ، اوروہ (کوفہ سے اتنی سی مُسافت پر تھے کہ )گھروں کو دیکھ رہے تھے، اور جب واپس تشریف لائے تو(بھی اتنی سی مُسافت پر نماز قصر فرمائی ، تو ) اُن سے کہا گیا کہ ، یہ (سامنے تو )کوفہ ہے ، تو انہوں نے فرمایا ، نہیں (ہم اُس وقت تک نماز قصر ہی کریں گے )جب تک ہم کوفہ میں داخل نہیں ہو جاتے """
***[[[میں نے یہ اِلفاظ یعنی """علیہ السلام """عربی نص کے مُطابق لکھے ہیں،
اِن اِلفاظ کے بارے میں بہت ہی أہم وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اور یہ دعائیہ کلمات ہیں ، نہ کہ خبریہ ، کیونکہ ہم اہل سُنّت والجماعت (یعنی وہ لوگ جو واقعتا قولی اور عملی طور پر سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں ، ہمارے) عقیدے کے مُطابق""" علیہ السلام""" بطور خبر صرف انبیاء اور رسولوں علیہم السلام کے لیے اِستعمال ہوتا ہے ، اور دعاء کے طور پر کسی بھی مُسلمان کے لیے اِستعمال کیا جا سکتا ہے ،
لیکن چونکہ أمیر المؤمنین علی، اُن کی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور اُن کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور پھر اُن کی اولاد کے بارے میں غلط اور باطل عقائد رُکھنے والے کچھ لوگ اِن اِلفاظ یعنی """علیہ السلام ، یا ، علیھا السلام"""کو اپنے غلط عقائد کی وجہ سے اِن محترم و مکرم ہستیوں کے ذِکر کے ساتھ خاص کیے ہوئے ہیں ، اِس لیے ہم اھل سُنّت والجماعت اِن اِلفاظ کو نبیوں اور رسولوں کے علاوہ کے لیے اِستعمال نہیں کرتے،
اِن بزرگ و مکرم ہستیوں کے ذِکر کے ساتھ ، جب کہیں ، ہمارے أئمہ اور عُلماء کرام رحمہم اللہ کی طرف سے یہ الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں تو دُعاء کے طور پر ہیں ، نہ کہ کسی غلط عقیدے کی بِناء پر خبر کے طور پر۔]]]
امیر المؤمنین فی الحدیث ، امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے یہ روایت تعلیقاً ذکر کی ہے ، یعنی کوئی سند ذِکر نہیں کی ، لیکن دیگر کئی محدثین نے اس کو صحیح اسناد کے ساتھ، اور مزید وضاحت والے اِلفاظ میں روایت کیا ہے ،
جیسا کہ ، عمدۃ القاری میں کچھ دیگر روایات بھی مذکور ہیں ، جِن میں یہ واضح اِلفاظ بھی ہیں کہ (((لَا نتم حَتَّى ندْخلهَا:::ہم (نماز ) مکمل ( کر کے) نہیں (پڑھیں )گے جب تک کہ ہم کوفہ(شہر)میں داخل نہیں ہو جاتے)))،
چوتھے بلا فصل أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں ،اُس بات کی بھی دلیل ہے جو میں نے آغاز میں کی تھی کہ""" مُسافر کے احکام کا نفاذ اُسی وقت سے شروع ہو گا جب کوئی شخص سفر کی نیت سے اپنی اصل بنیادی رہائشی بستی یا شہر کی حدود سے خارج ہو جائے"""،
تو یہاں تک بیان کی گئی احادیث مُبارُکہ اور آثار شریفہ کی روشنی میں بڑی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ""" جو کوئی اپنی اصلی بنیادی رہائشی بستی یا شہر کی حُدود سے، سفر کی نیت سے، نکل جاتا ہے، تو شرعی طور پر اُس پر مُسافر ہونے کا حکم لاگو ہوتا ہے ، اور وہ سفر کے احکام کے مُطابق اپنی نماز قصر کرے گا اور جب تک سفر میں ہے اُس دوران اگر اپنے فرض روزے بعد میں رُکھنے کی نیت سے چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکتا ہے""" ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: میل کی مقدا رُکیا ہے ؟ :::::
فقہاء رحمہم اللہ
کے کلام میں سفر کی مُسافت کے تعین کے لیے جو چالیس میل کا ذِکر ملتا ہے تو
اِس کے بارے میں یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ میل کا تعین کیسے کیا جاتا تھا ، اور اب فی زمانہ کیسے کیا جائے ؟؟؟
اب اگر ہم کسی
میل کو کیلو میٹرز وغیرہ میں بھی تبدیل کریں تو بھی پہلے بنیادی طور پر یہ جاننا
ضروری ہے کہ وہ """ مِیل """ کیا ہے جسے مُسافت کا
پیمانہ سمجھا جاتا تھا ؟؟؟ یا جاتا ہے ؟؟؟
لغت میں تو میل
کی تعریف یہ ملتی ہے کہ """والمِيْلُ
مِنَ الأَرْضِ قَدْرُ مَدِّ البَصَرِ ، لأن البَصرَ يَميلُ عَنهُ علىَ وجهِ الأرضِ
حتىٰ يفنى إدراكهُ، والجَمْعُ أَمْيَالٌ
وَمُيُولٌ::: زمین
میں ایک میل کی لمبائی (مِقدار)نظر کی حد
تک ہوتی ہے، کیونکہ وہاں سے بصارت زمین کی
سطح سے مائل ہو جاتی ہے،یہاں تک کہ زمین
(کی سطح کو)پہچاننے کی استطاعت کھو دیتی
ہے، اور میل کی جمع امیال اور میول ہے """،
لغوی اعتبار سے
یہ تعریف زیادہ دُرُست لگتی ہے، کیونکہ اِس لفظ """مِیل""" کا اصل مادہ
"""مَالَ""" ہے،
اِس بات سے کوئی
اِنکار نہیں کر سکتا ہے کہ ہر شخص کی قوتء بصارت الگ الگ ہوتی ہے، تو پھر کس کی
بصارت کو میل کا پیمانہ بنایا جائے ؟؟؟
اور یہ بھی کیا
گیا کہ """حَدهُ أن يُنظرَ إلىَ الشَّخص في أرضٍ
مُسطَّحة فلا يدري أهُو رَجَل أو إِمرأة ، وهو ذاهبٌ أو آت ::: میل کی حد (یعنی مِقدار،
لمبائی)وہاں تک ہے کہ جہاں کسی سیدھی زمین پر جانے والے کسی شخص کو دیکھ کر یہ
اندازہ نہ ہو سکے کہ وہ عورت یا مَرد، آ رہا ہے یاجا رہا ہے """،
یا تعریف بھی
پہلے والی تعریف کی طرح ہی ہے،
دونوں ہی
تعریفات کوئی ایسا پیمانہ مہیا نہیں کر پاتیں جو سب ہی کے لیے مشترُکہ طور پر ایک ہی نتیجہ دے سکے،
اور یہ بھی کہا گیا کہ """المیلُ : مائةُ أَلْفِ إصْبَعٍ إلاّ أَرْبعَةَ آلافِ إصْبَعٍ أَو ثلاثةُ أَو أَرْبَعَةُ آلافِ ذِراعٍ بذِراعِ محمَّدِ بنِ فرَجٍ الشّاشيِّ::: ایک میل ، ایک لاکھ میں چار ہزرا کم انگلی(یعنی چھیانوے ہزار انگلی) کے برابر ہے، یا محمد بن فرج الشاسی کی تین ہزار، یا، چار ہزار کلائی کی لمبائی کے برابر"""،
اور یہ بھی کہا گیا کہ """المیلُ : مائةُ أَلْفِ إصْبَعٍ إلاّ أَرْبعَةَ آلافِ إصْبَعٍ أَو ثلاثةُ أَو أَرْبَعَةُ آلافِ ذِراعٍ بذِراعِ محمَّدِ بنِ فرَجٍ الشّاشيِّ::: ایک میل ، ایک لاکھ میں چار ہزرا کم انگلی(یعنی چھیانوے ہزار انگلی) کے برابر ہے، یا محمد بن فرج الشاسی کی تین ہزار، یا، چار ہزار کلائی کی لمبائی کے برابر"""،
اور یہ بھی کہا
گیا کہ """ أَربعةُ
آلاف ذراعٍ طولُها أَربعَةٌ وعِشرونَ إصبَعاً::: (ایک میل)چار ہزار کلائی کے
برابر،اور ایک کلائی چوبیس اُنگلی کے برابر"""،
اور یہ بھی کہا
گیا کہ """ أَربعةُ آلافِ خُطوَةٍ كلُّ خطوَةٍ ثلاثَةُ أَقدامٍ بوَضْعِ قدَمٍ
أَمامَ قدَمٍ ويُلْصَقُ به::: چار ہزار مسافتیں، جن میں سے ہر ایک مسافت تین قدم کے
برابر ہو، اور اِس طرح کہ تین قدموں کو ایک دوسرے ساتھ جوڑ جوڑ کر پیمائش کی جائے"""،
یہ تینوں تعریفات """تاج العروس/میل"""میں مذکور ہیں،
اِن کے عِلاوہ
اور بھی ہیں ،
سب کا حال ایک
ہی جیسا ہے کہ سب کی سب تعریفات"""کوئی ایسا پیمانہ مہیا نہیں کر
پاتیں جو سب ہی کے لیے مشترُکہ طور پر ایک
ہی نتیجہ دے سکے"""،
لہذا فقہا کرام
رحمہم اللہ کی طرف سے مختلف مسافتوں کا
تقرر محض اُن کے اپنے اپنے اجتہادات ہیں، جس کے لیے سُنّت شریفہ میں کوئی
صحیح دلیل میسر نہیں،
شیخ الاِسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ نے
بہت ہی خُوب فرمایا کہ """كُلُّ اسْمٍ
لَيْسَ لَهُ حَدٌّ فِي اللُّغَةِ وَلَا فِي الشَّرْعِ فَالْمَرْجِعُ فِيهِ إلَى
الْعُرْفِ فَمَا كَانَ سَفَرًا فِي عُرْفِ النَّاسِ فَهُوَ السَّفَرُ الَّذِي
عَلَّقَ بِهِ الشَّارِعُ الْحُكْمَ وَذَلِكَ مِثْلُ سَفَرِ أَهْلِ مَكَّةَ إلَى
عَرَفَةَ؛ فَإِنَّ هَذِهِ الْمَسَافَةَ بَرِيدٌ وَهَذَا سَفَرٌ ثَبَتَ فِيهِ
جَوَازُ الْقَصْرِ وَالْجَمْعِ بِالسُّنَّةِ ::: ہر
وہ نام جس کے لیے لغت یا شرع میں کوئی حد مقرر نہ ہو (یعنی کوئی واضح یقینی
معنی و مفہومُقرر نہ ہو)تو اُس کو سمجھنے کے لیے لوگوں میں عام طور پر معروف معنی
اور مفہوم کی طرف رجوع کیا جائے گا،لہذا جس سفر کو لوگ سفر سمجھیں (یعنی کوئی بھی مسافت طے کرنے والا جب سفر کی نیت سے
وہ مسافت طے کرے تو)اُسی کو وہ سفر سمجھا جائے گا جِس پر سفر کا حکم دِیا گیا ہے، جیسا
کہ اھل مکہ کا عرفات تک کا سفر ، یہ(مکہ سے عرفات کے درمیان کا) فاصلہ ایک
برید(اونٹ یا پیدل آدھے دِن کا سفر)ہے، اور اِس سفر میں نماز قصر کرنے اور جمع
کرنے کا ثبوت سُنت میں موجود ہے""" مجموع الفتاویٰ /الجزء/24باب صلاۃ اھل الأعذار/حَدُّ السَّفَرِ الَّذِي عَلَّقَ الشَّارِعُ بِهِ الْفِطْرَ
وَالْقَصْرَ ،
:::::
سفر میں نماز قصر کرنے کا طریقہ :::::
بہت مختصر اور سیدھا سادہ ہے ،
اور یہ کہ چار رُکعت
والی نمازیں ، یعنی ظہر،عصر اور عِشاء کو دو رُکعت پڑھا جائے گا،
اس کے علاوہ
عموماً سفر میں نمازوں کو قصر کرنے کے
ساتھ جمع بھی کیا جاسکتا ہے، عام طور پر
یہ سمجھا جاتا ہے کہ نماز جمع کرنا صِرف سفر کے لیے مخصوص ہے، جبکہ یہ
دُرُست نہیں ،
نماز جمع کرنے کی
صحیح کیفیت ، اور دیگر معلومات کے بارے میں ایک الگ مضمون بعنوان""" سفر
میں یا بغیر سفر کے ، نمازیں جمع
کرنے کا حقیقی طریقہ """ نشر کیا جا چکا ہے، وللہ الحمد،
آخر میں حاصل
کلام کو ایک دفعہ پھر پیش کرتے ہوئے اِس مضمون کو ختم کرتا ہوں،
سفر کی مُدت اور مُسافت کے بارے میں مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں جو بات یقینی طور پر ہمارے سامنے آئی وہ یہی ہے جو پہلے ذِکر کی گئی تھی کہ""" جو کوئی اپنی اصلی بنیادی رہائشی بستی یا شہر کی حُدود سے، سفر کی نیت سے، نکل جاتا ہے، تو شرعی طور پر اُس پر مُسافر ہونے کا حکم لاگو ہوتا ہے ، اور وہ سفر کے احکام کے مُطابق اپنی نماز قصر کرے گا اور جب تک سفر میں ہے اُس دوران اگر اپنے فرض روزے بعد میں رُکھنے کی نیت سے چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکتا ہے""" ،
اللہ سُبحانہ ُو
تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے، ماننے اور اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق
عطاء فرمائے۔
والسلام علیکم
ورحمۃ اللہ و برُکاتہ،
طلب گارء دُعا،
آپ کا بھائی،
عادِل سُہیل
ظفر،
تاریخ کتابت : 25/02/1435
ہجری ، بمطابق ، 28/12/2013عیسوئی،
تاریخ تجدید : 10/11/1437
ہجری ، بمطابق ، 13/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برُکاتہ،
سفر کی مُدت اور مُسافت کے بارے میں اِس مضمون کے قارئین کی
طرف سے ایک دو سوالات کیے گئے ہیں ،
اُن سوالات کے ظہور سے احساس ہوا کہ سفر اور قیام کی نیّت
کے بارے میں ایک دو باتوں کی وضاحت کر دینا اِن شاء اللہ مزید خیر کا سبب ہو گا،
لہذا وہ باتیں اِس مضمون میں سوال و جواب کی صُورت میں شامل
کی جا رہی ہیں،
::: سوال :::
اگر میں سفر کے لیے نکلوں اور مجھے پتہ ہو کہ میں نے کتنے
دِن رہنا ہے، تو پھر بھی میں قصر کروں گا؟
مطلب یہ کہ مُدت کے پتہ ہونے یا پتہ نہ
ہونے سے فرق تو نہیں پڑتا؟
میری ریائش سعودیہ میں ہے ، اب اگر میں ایک مہینے کے لیے
(یا کسی بھی مُدت کے لیے)پاکستان جاؤں تو کیا میں پوری نماز پڑھوں گا ؟ یا قصر کروں گا؟
::: جواب :::
جیسا کہ پہلے گذارش کی گئی کہ کسی شخص پر سفر کے احکام لاگو
ہونے کے لیے اُس کی نیت ہی پر انحصار ہو
گا،
معاملہ اپنی نیت کو سمجھنے کا ہے، کسی بھی شخص کا کوئی بھی
کام بلا اِرداہ یعنی بغیر نیت کے نہیں ہوتا،
""" اِنسان کے لاشعور اور پھر شعورمیں کوئی بھی کام کرنے
سے پہلے کچھ مراحل طے ہوتے ہیں جِن کے نتیجے میں کام ہوتا ہے ، پہلا مرحلہ عربی
میں ''' خَطرٌ ''' یعنی''' گُمان ، شائبہ'''کہلاتا ہے ، اور اُس کا مقام لا شعور ہوتا ہے ،
جب یہ گُمان کچھ طاقت ور ہوتا ہے تو ''' ھَمٌّ ''' یعنی''' سوچ یا فِکر'''بن جاتا ہے اور اِس کا مُقام شعور ہوتا ہے ، اور
جب یہ''' سوچ یا فِکر '''کچھ طاقتور ہوتی ہے تو وہ
''' اِرادۃٌ، او ، نِیّۃٌ ''' یعنی ''' اِرادہ یا نیّت ''' بن جاتی ہے ، اور اِس کا مُقام دِل ہوتا ہے ،
پھر اِس کے بعد یا تو یا اِس
''' اِرادے یا نیّت'''
کے
مُطابق عمل واقع ہوتا ہے یا اِ
''' اِرادے یا نیّت ''
کا خاتمہ ہو جاتا ہے
،اور اِن دونوں میں سے کسی ایک انجام تک پہنچنے تک وہ''' اِرادہ یا نیّت'''
دِل میں ہی رہے رہتا ہے """
پس ، معاملہ اپنی نیت کو جاننے کا ہے، اور پھر اُسی کے
مُطابق اپنے لیے حکم جاننا ہے،
جب کوئی شخص اپنے قیام والے شہر، بستی ، علاقے سے سفر کی
نیت سے نکلتا ہے تو وہ مسافر ہوتا ہے، جہاں وہ جا رہا ہے، وہاں جا کر ، یا راستے
میں کسی جگہ رُکنا، خواہ وہ کچھ منٹوں کے لیے ہو، یا دِنوں کے لیے، اگر تو محض رُکنا
ہے، قیام کی نیت نہیں، کہ ، وہ شخص وہاں رُکنے
کے بعد پھر اپنے سفر کو جاری رُکھے گا، خواہ وہ سفر کسی اور طرف ہو ، یا واپسی کا
سفر ہو، تو اُس کا یہ رُکنا شرعی طور پر قیام نہیں ہو گا ، محض رُکنا ہوگا، خواہ
وہاں رُکتے ہوئے وہ قیام والے سارے ہی کام کرتا رہے،
جیسا کہ ، میں لاہور میں رہتا ہوں ، کسی کام کے لیے، تجارت
کے لیے، تعلیم کے لیے، علاج کے لیے، نوکری کے لیے، غرضیکہ کسی بھی کام کے لیے اِسلام آباد کا سفر اختیار کرتا ہوں ،
میرا اِرادہ ، یعنی نیت کچھ اس طرح سے ہے کہ میں نوکری کرنے اِسلام آباد تک سفر پر جا رہا ہوں ، اتنے اتنےدِن وہاں رُکوں گا اور پھر
واپس اپنے شہر ، اپنے گھر ، آ جاؤں
گا،
دُوسری صُورت کچھ یُوں ہو گی کہ ، میں نوکری کرنے اِسلام آباد تک سفر پر جا رہا ہوں ، جب تک اللہ نے چاہاوہاں رُکوں گا اور
پھر واپس اپنے شہر ، اپنے گھر ، آ جاؤں
گا،
پہلی صُورت میں مجھے اپنے رُکنے کی مُدت کا عِلم ہے، اور
دُوسری صُورت میں نہیں ، لیکن دونوں ہی صُورتوں میں، میں نے قیام کی نیت نہیں کی،
لہذا اپنے اصلی رہائش والے ، یا آبائی شہر میں واپس آنے تک
میں سفر پر ہوں گا ، مُسافر ہوں گا،
اور اِسی طرح اِس سفر کے دوران آنے والے ہر اُس مقام پر رُکنے
کا معاملہ ہو گا، جب تک کہ میں کہیں قیام کی نیت سے نہ رُکوں ،
پس کہیں رُکنے کی مُدت میرے اِرادے میں واضح اور معین ہو،
یا نہ ہو، جب تک قیام کی نیت سے نہیں رُکوں گا ، میں مُقیم کے حکم میں داخل نہیں ہوں گا ، بلکہ مُسافر کے حکم میں
رہوں گا،
خواہ میں وہاں کتنی ہی مُسافت طے کر کے پہنچا ہوں، اور خواہ
کتنی ہی مُدت تک رُکا رہوں، اگر میں نے قیام کی نیت نہیں کی تو میں شرعی طور پر مُقیم نہیں، خواہ مُقیم والی تمام
تر کیفیات کے ساتھ رُکا رہوں،
اور اگر میں کسی بھی مُقام پر پہنچ کر وہاں قیام کی نیت سے رُکتا
ہوں ، تو میں شرعی طور پر مُقیم ہوں گا، خواہ مُقیم والی کوئی بھی کیفیت مجھے میسر
نہ ہو، مثلاً ، نہ گھر ہو، نہ رہائش ہو، نہ گھر والے یا کوئی جان پہچان والا ہو،
وغیرہ وغیرہ،
یہاں میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک واقعہ ذِکر
کرتا ہوں ، جو میری اِن مذکورہ بالا گذارشات کی دلیل ہے، اور الحمد للہ بہت اعلیٰ
دلیل ہے کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم
کی فقہ پر مبنی ہے، جن سے بڑھ کر کسی اور
غیر صحابی کی فقہ ہو ہی نہیں سکتی،
(((أَرْتَجَ عَلَيْنَا الثَّلْجُ وَنَحْنُ
بِأَذْرَبِيجَانَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فِى غَزَاةٍ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَكُنَّا
نُصَلِّى رَكْعَتَيْنِ ::: ہم جنگی مہموں کے سلسلے میں آذر بائیجان میں تھے،اور برف نے ہم پر چھ مہینے تک (راستہ) بند کیے رُکھا، تو ہم دو رُکعت
نماز(قصر)پڑھتے تھے)))سُنن البیھقی الکبریٰ /حدیث/5658کتاب الصلاۃ /باب755 مَنْ
قَالَ يَقْصُرُ أَبَدًا مَا لَمْ يُجْمِعْ مُكْثًا،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح
قراردِیا ، (إِرواءُ الغلیل/حدیث577)،
اب آیے سوال کے تیسرے حصے کی طرف،
میں سعودیہ میں مُقیم ہوں ، اور کچھ وقت کے لیے پاکستان جا
ؤں تو کیا نماز قصر کروں یا پوری پڑہوں ؟
کوئی بھی شخص اپنے
اصل رہائشی ، آبائی مُقام پیدائش والے شہر
یا بستی اور جہاں تک اُس شہر یا بستی کے نام کا اطلاق ہوتا ہے اُس علاقے
میں مسافر نہیں ہوتا، بلکہ وہاں کا اصل مُقیم ہوتا ہے، وہ اُس کا وطن ہوتا ہے، اور
کوئی شخص اُس کے وطن میں مُسافر نہیں ہوتا،
خیال رہے کہ بات صِرف اصل رہائشی ، آبائی
مُقام پیدائش والے شہر یا بستی اور جہاں
تک اُس شہر یا بستی کے نام کا اطلاق ہوتا ہے اُس علاقے کی حد تک ہے، پورے ملک کی
نہیں،
لہذا سعودیہ سے پاکستان واپس جانے والے ، یا کسی ایک شہر
میں قیام اختیار کیے ہوئے لوگوں میں سے کوئی جب اپنے وطن والے شہر یا بستی میں
جائے گا تو پوری نماز پڑھے گا،
اور جب اِس شہر یا بستی سے نکل کر کسی اور شہر یا بستی کی
طرف جائے گا تو اوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق اُس کے سفر پر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو گا،
یہاں ایک بات اور اچھی طرح سے سمجھ لینے کی ہے کہ کسی کا
اصل رہائشی ، آبائی مُقام پیدائش والا شہر
یا بستی اُس وقت تک ہی اُس کے وطن کے حکم میں رہے گا جب تک کہ وہ مُستقل
طور پر اُسے چھوڑ کر ، اُس میں سے ہجرت کر کے کہیں اور جا کر آباد و مُقیم نہ ہو
گا ہو،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ، اور
اُن کے کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور مدینہ المنورہ
میں مستقل قیام فرما لیا، سکونت اختیار فرما لی،
اور اُس کے بعد جب مکہ تشریف لائے تو وہاں قصر نماز پڑھی،
لہذا ، یہ واضح ہوا کہ اگر کوئی شخص ہجرت کی نیت سے اپنے اصل رہائشی ، آبائی مُقام
پیدائش والے شہر یا بستی سے نہیں نکلا ،
اور کسی اور جگہ جا کر مُقیم نہیں ہوا تو وہ جب کبھی بھی اپنے اصل رہائشی ، آبائی مُقام پیدائش والے شہر یا بستی میں آئے گا تو پوری نماز پڑھے گا ، قصر نہیں کرے گا،
جیسا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وفات کے بعد کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ،
مدینہ منورہ سے نکل کر دوسروں شہروں میں مقیم ہو گئے، اُن میں سے کئی مدینہ منورہ
بھی آتے رہے، لیکن کسی کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں کہ اُنہوں نے مدینہ منورہ آ
کر قصر نماز پڑھی ، کیونکہ انہوں نے مدینہ منورہ
کو مستقل طور پر ترُک کرنے کی نیت سے کسی دوسرے شہر میں قیام اختیار نہیں
کیا تھا، شرعی طور پرہجرت نہیں کی تھی،
امید ہے کہ اب اِن شاء اللہ ، قارئین کرام کے لیے مزید واضح
ہو گیا ہو گا کہ""" کسی شخص پر شرعی طور پر مُسافر یا مُقیم کا حکم
وقت یا مُسافت کے کسی مادی یا خیالی
پیمانہ کے بِناء پر، یا کسی خاص صُورت، ہیئت ، یا کیفیت وغیرہ کی بِناء پر نہیں
لگتا ، بلکہ ہر شخص کے اپنے قیام کیے ہوئے شہر ، بستی اور اُس شہر اور بستی کے نام
کا اطلاق ہونے والے علاقے سے سفر کی نیت سے نکلنے پر لگتا ہے، اور پھر اُس کے
عِلاوہ کسی بھی اور جگہ جا کر قیام اختیار کرنے کی نیت سے کی بِناء پر لگتا ہے"""۔
والسلام علیکم۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔