Friday, August 5, 2016

::::::: جاھلوں سے کنارہ کشی کیجیے ، لوگوں سے درگذر والا معاملہ رکھیے :::::::

::::: قران و سُنّت کے باغ میں سے :::::
::::::: جاھلوں سے کنارہ کشی کیجیے ، لوگوں سے درگذر والا معاملہ رکھیے :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيم  ِ  مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
 اللہ تبارک و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ  ::: (اے محمد)در گذر فرمایے اور نیکی کے مُطابق حکم فرمایے اور جاھلوں سے کنارہ کشی اختیار  فرمایا کیجیے سُورت الاعراف (7)/آیت199،
ایک اور مُقام پر اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے اپنے خاص سچے پکے  اِیمان والے بندوں  کی نشانیاں بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا::: اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو جب زمین پر چلتے ہیں تو نرمی کے ساتھ چلتے ہیں ، اور جب اُن سے کوئی جاھل بات کرتا ہے تو کہتے ہیں سلامتی ہوسُورت الفُرقان(25)/آیت 63،
اور اِیمان والوں کی نشانیاں بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ:::اور جب وہ لوگ کوئی بے کار بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اس بات سے کنارہ کشی  کرتے ہیں اور(ایسی باتیں کرنے والے جاھلوں سے) کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں ، اورتُم لوگوں کے لیے تُمہارے اعمال ہیں تُم پر سلامتی ہے  ، ہم جاھلوں(سے بات کرنے ) کے خواہش مند نہیں سورت القصص(28)/آیت 55،
ÅÅÅیا درہے کہ ان دو آخر الذکر آیات مُبارکہ میں """سَلَامًا :::سلامتی ہو""" اور """ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ:::تُم پر سلامتی ہے"""سے مُراد اِسلام میں دی جانے والی  سلامتی کی دُعا نہیں ، بلکہ اِیمان والوں کی طرف سے یہ دلاسہ ہے کہ جس طرح کی باتیں تم لوگ ہمارے لیے  کرتے ہوئے ، ہماری طرف سے تمہارے لیے ایسی کوئی  گالی گلوچ ، برائی اور بے عزتی والی بات نہیں ہو گی ۔ 
::::: """ جاھل """ کون ہیں ؟؟؟
اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِن فرامین مُبارکہ میں """جاھل """سے مُراد اَن پڑھ لوگ نہیں ، نہ ہی کُند ذہن یا کم عقل لوگ ، بلکہ """جاھل """کے ز ُمرے میں درج ذیل اشخاص مُراد ہیں :::
وہ شخص جو اللہ تبارک و تعالیٰ ، اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ  کو نہ مانے ،
 اور وہ شخص  جو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُراد کے مُطابق سمجھنے کی بجائے اپنی عقل و فِکر کے مُطابق سمجھے ،
اور و ہ شخص ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ارشادت گرامی کے سامنے کسی اور کی بات کو فوقیت دے ،
اور وہ شخص ہے جو اللہ کےحبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ سے رُو گردانی کرے ، یا اُس کو مانے تو لیکن قابل عمل نہ سمجھے ،
اور وہ شخص جو دِین کے احکام کا اور دِین کی دعوت دِینے والوں کا  مذاق اڑائے ،
اور وہ شخص جو دِینی اور دنیاوی معاملات میں نصیحت قبول نہ کرے ،
اور وہ شخص جو دِینی نصیحت کرنے والے کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آئے ، یا اس کا مذاق اڑائے ،
اور وہ شخص جو لوگوں کو دِین کے نام پر، دِین میں  غیر ثابت شدہ عقائد و اعمال کی طرف بلائے ،
اور وہ شخص جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی سُنت کے خلاف کچھ کر گذرنے کی توقع رکھے ،
اور وہ شخص جو اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے معاملات کی خبر نہ رکھتے ہوئے اس سے کوئی سوال کرے،
اوروہ شخص جو کسی کی طرف سے گناہ ، برائی اور غلط عقائد و اعمال کی دعوت کے  جھانسے میں آ کر اس کی بات مان لے ،
اوروہ شخص جو دِینی اوردنیاوی معاملات میں  سے ایسے کاموں میں لگا رہے جس میں دِینی ، دنیاوی اور اُخروی طور پر کوئی  فائدہ نہ ہو ، یا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو ،    
اور وہ شخص ہے جو لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے اُن کے حقوق کا خیال نہ رکھے ،
اور وہ شخص ہے جو دُوسروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اخلاقیات کی حدود میں نہ رہ سکے ،   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام البغوی نے اپنی تفسیر """معالم التنزیل """ میں مذکورہ بالا آیات کریمات میں سے پہلی آیت کریمہ کی تفسیر میں جناب جعفر صادق رحمہُ اللہ کا ایک بہت بہترین قول نقل فرمایا جو اس آیت مُبارکہ کی جامعیت سمجھانے والا ہے کہ """""اللہ نے اپنے نبی کو بہترین اخلاق اپنانے کا حکم دِیا ، اور قران میں اس آیت کے علاوہ کوئی اور آیت  بہترین اخلاق کے بارے میں جامع بیان والی نہیں"""""،
علامہ عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی رحمہ ُ اللہ نے """ تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان""" میں مذکورہ بالا آیات مُبارکہ میں سے پہلی آیت شریفہ  کی تفسیر میں فرمایا """ یہ آیت شریفہ لوگوں کے ساتھ بہترین خوش نُما و دِلرُبا  سلوک کے بارے میں مکمل ترین اسلوب کا بیان رکھتی ہے ، اس میں پوری طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کس طرح کرنا چاہیں ، لہذا جس کسی نے بھی لوگوں کے ساتھ معاملات کرنا ہیں (اور معاشرتی زندگی میں ہر ایک شخص دُوسروں کے ساتھ معاملات کرتا ہی ہے)تو وہ  اس آیت مُبارکہ میں بیان کردہ اسلوب کے مُطابق """عفو """ والا رویہ اپنائے رکھے ،
لیکن ،،،،،اس بات کا خوب خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ کے دِین کے  بارے میں جہالت دکھانے والوں کے لیے """عفو """ ایک حد تک نرمی کلامی کی صورت میں  محدود ہے ،
جِس کے بعد مُسلمان اور کافر دونوں قسم کے جاھلوں کے ساتھ  اُن کی جہالت کے مُطابق ہی معاملہ کیا جانا مطلوب ہے ، کہ جہاں جس طرح مطلوب و ممکن ہو وہاں اُسی طرح ان لوگوں سے اللہ کے دِین کی سر بلندی کے لیے جدال و قتال کیا جائے گا ،
رہا معاملہ مُسلمانوں کے درمیان ایسے لوگوں کا کہ جنہیں جب کوئی نصیحت کی جائے یا دِینی احکام بتائے جائیں یا دِین پر عمل کی دعوت دی جائے یا برائی اور گناہ سے باز رہنے کو کہا جائے تو وہ لوگ نہ صِرف بات سننے اور ماننے سے بیزاری کا اظہار  کریں بلکہ نصیحت کرنے والے کا مذاق اڑائیں ، تو ایسے جاھلوں کو اُن کے مُسلمان ہونے کی وجہ سے اُن کے حقوق کی ادائیگی جاری رکھتے ہوئے نصیحت کرنا جاری رکھنا چاہیے ،
موقع محل اور شخصیت کو دیکھتے سمجھتے ہوئے شرعی حدود کی پابندی میں رہتے ہوئے نصیحت کے انداز اور وسائل میں تبدیلی کرتے رہنا چاہیے ،
اُن کی طرف سے دی گئی اذیت پر صبر کرتے رہنا چاہیے، اور اس کو اس کے رویے کے مُطابق جواب نہیں دِینا چاہیے ، اور ان کے لیے ہدایت کی دُعا بھی کرتے رہنا چاہیے ، اللہ نہ کرے کہ کبھی کسی شخص کے بارے میں یہ یقینی ہو جائے کہ وہ آپ کی بات ماننے والا نہیں ، تو اس سے کنارہ کشی کر لی جانی چاہیے ، لیکن اس کے لیے دُعا کرنے سے نہیں ،
اور اگر کہیں کسی ایسے کلمہ گو جاھل سے سامنا رہے جو نہ تو  خود ہدایت کی دعوت قبول کرتا ہو بلکہ دُوسروں کو بھی اس سے روکتا ہو ، کسی بھی طور گمراہی پھیلانے والاہو ، یا پھیلانے کا سبب بن رہا ہو ایسے شخص سے ذاتی طور پر کنارہ کش رہتے ہوئے اس کی گمراہی کا اظہار ضرور کرتے رہنا چاہیے  کہ شاید اللہ تعالیٰ ہماری اُس کوشش کو بھی اُس شخص کی گمراہی سے دُوسرے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے اسباب میں شامل فرما لے ،
ایسے  جاھل شخص سے کنارہ کش رہتے ہوئے اس کی گمراہی کا اظہار اُس  کے ساتھ درگذر اور عفو والا معاملہ ہے ،    
::::: """ عفو (درگذر) """ کیا ہے   ؟؟؟
"""عفو """ کا مفہوم ہے کہ لوگوں کی غلطیوں اور کو تاہیوں سے درگذر کرنا ، اور ان کے کاموں، ان کی اخلاقیات میں بہتری والے راستے مہیا کرے ، انہیں ایسے کاموں پر مت لگائے جن کاموں کو ان لوگوں کی طبعیتیں برداشت نہ کر پائیں (سوائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت پر مبنی کاموں کے ، کیونکہ یہ اطاعت فرض ہے اور کسی کی طبعیت یا مزاج یا سوچ و فلسفے کی بنیاد پر اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کی پیروی سےمبراء نہیں سمجھا  جا سکتا ، چہ جائیکہ مبراء مان لیا جائے ، اور عملی طور پر کر بھی دیا جائے)،
اور لوگوں کی مثبت کوششوں کو سراہتا رہے ، اورخوش خُلقی کے ساتھ اُن کی منفی کوششوں کی اصلاح  کی کوشش  کرتا رہے ( یہ تمام کام """ عفو """کے مفہوم میں شامل ہیں ، """عفو """ کی صِفات میں جانے جاتے ہیں)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے قران کریم کی قولی اور عملی تفسیر کی ذمہ داری عطاء فرمائی تھی ، جو انہوں نے بہترین طور پر مکمل فرمائی ، اور چونکہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے ان کی ز ُبان مُبارک کی حفاظت فرمائی تھی ، کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک اللہ کی وحی کے مُطابق ہی کلام فرماتی تھی ، اور اس پر سوائے حق کے کچھ اور جاری نہ ہوتا تھا ، پس اُس حق نوا ءپاکیزہ اور معصوم ز ُ بان مُبارک سے بھی اللہ نے  ہمیں درگذر اور سہولت مہیا کرنے کے آداب سکھائے ،
 جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿رَحِمَ اللَّهُ رَجُلاً سَمْحًا إِذَا بَاعَ ، وَإِذَا اشْتَرَى ، وَإِذَا اقْتَضَى::: اللہ اس شخص پر رحم کرے جو اپنی خرید و فروخت میں اور دُوسروں کے حق ادا کرنے میں درگذر کرتا ہے  اور سہولت مہیا کرتا ہے صحیح البخاری/ حدیث 2076/ کتاب البیوع/باب16،   
امام ابن بطال رحمہ ُ اللہ نے اپنی """ شرح صحیح البخاری"""میں اس حدیث شریف کی شرح میں فرمایا :::
""" اس حدیث شریف میں دُوسروں  کے ساتھ معاملات میں درگذر کرنے، ان کے لیے سہولت مہیا رکھنے ، اور خوش نُمائی کے ساتھ، اعلیٰ اخلاق  کے مُطابق معاملات مکمل کرنے کی ترغیب ہے ،  اور (خاص طور پر )خرید و فروخت میں  ایک دُوسرے پر سختی نہ کرنے  بلکہ نرمی کرنے کی ترغیب ہے ، کیونکہ ایسا کرنا برکت کا سبب ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کو(شفقت اور رحمت والا فرماتے ہوئے) صرف وہی کچھ بتایا اور سمجھایا ہے جو اُن کے لیے دُنیا اور آخرت کی خیر اور فائدے والا ہے ،
جہاں تک آخرت میں اس رویے کی فضیلت کا تعلق ہے تو اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان صِفات کے مُطابق معاملات کرنے والے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے رحمت کی دُعا فرمائی ہے ، پس جو کوئی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس دُعا کی برکت حاصل کرنا چاہتا ہے  وہ اِس حدیث شریف کے مُطابق عمل کرے ۔ """  
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ لَيِّنٍ سَهْلٍ::: کیا میں تُم لوگوں کو اس کی خبر نہ دوں جس کو(آخرت اورجہنم  کی)آگ پر حرام کر دیا گیا، یا (اِرشاد فرمایا)جس پر(آخرت اورجہنم  کی) آگ حرام کی دی گئی ، ہر ایسا شخص جو (دُوسروں کے لیے)میسر(دستیاب ) ، سکون اور وقار کے ساتھ رہنے والا ، نرم رویے والاآسان خُو  اور سہولیات مہیا کرنے والا ہوتا ہے حوالہ سنن الترمذی /حدیث2676 /کتاب صفۃ القیامۃ / باب45 ، امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ، الصحیحہ /حدیث 935،
امام ملا علی القاری رحمہُ اللہ نے """  مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح""" میں اس حدیث کی شرح میں  ان صِفات کی کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کا حاصل کلام یہ ہے کہ :::
"""  ہر ایک کے لیے  آسانی مہیا کرنے والے ، حلیم طبع ، نرم مزاج  مُسلمان کے لیے (یہ خوشخبری ہے کہ اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے)اُس پر جہنم کی آگ حرام کر دی جائے گی ،  (اس حدیث شریف میں)""" قریب """ کا مفہوم ہے  کہ وہ شخص لوگوں کی اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت  والی محفلوں اور مجلسوں میں مُوجُود رہتا ہو ،
""" ھین""" سے مُراد ایسا شخص ہے جو دُوسروں سے معاملات کرنے میں سکون اور وقار والا رویہ رکھتا ہو،   """سھل """سے مُراد  ایسا شخص ہے جو لوگوں کی جائز حاجات پوری کرنے میں ان کا مددگار ہو ، اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والا ہو ،  یا اس سے مُراد ایسا شخص ہے جو لوگوں سے معاملات پورے کرنے اور کروانے میں اور اپنی خرید و فروخت میں در گذر کرنے والا ہو """۔
اور """ لین """ سے مُراد ایسا شخص جو دُوسروں کے لیے  نرم رویے والا ہو ، آسان خُو ہو ،
نرمی اور درگذر والا رویہ اپنانے  والےشخص کی مثال زیر خیز ، مستوی  اور نرم زمین جیسی ہے ، کہ جو کوئی بھی اس کو استعمال کرتا ہے تو وہ خیر والا معاملہ ظاہر کرتی ہے ،  اگر کوئی اس میں کھیتی باڑی کرے تو خوب پھل پھول پاتا ہے ، اگر کوئی اس کو عبور کرنا چاہے تو آسانی سے گذرنے کی راہ پاتا ہے،اگر کوئی اس پر کوئی عمارت بنانا چاہے تو اسے مضبوط اور آسان پائے گا ، اور اگر کوئی اس پر بیٹھ یا لیٹ کر آرام کرنا چاہے تو پر سکون گود کی طرح پائے گا ، 
یہ سب صِفات اِیمان والے میں بھی پائی جاتی ہیں ، اور مزید حسن و جمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں کیونکہ اس کے ہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان کے ساتھ اُن کی اطاعت ہوتی ہے اور اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر وہ اپنی جاں پر بہت کچھ برداشت کرتا ہے ،
مکحول رحمہُ اللہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  اِیمان والے کی آسان اور نرم معاملگی کی مثال دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا  ﴿المؤمنون هَيْنُون لَينُون كالجَمل الأَنِف إن قَيّدَ اَنقادَ وإن أُنيخَ عَلى صَخرةٍ استَنَاخ ::: اِیمان والوں کی مثال اُن اُونٹوں جیسی ہے جنہیں بندھنے کا اشارہ کیا جائے تو آرام سے بندھ جاتے ہیں ، اور اگر کسی چٹان پر بھی بٹھانے کی کوشش کی جائے تو بیٹھ جاتے ہیں امام ابن المُبارک رحمہُ اللہ نے اس روایت کو """ الزھد """ میں بیان  کیا ہے ، یہ روایت مکحول رحمہُ اللہ کی مرسل روایت ہے ، صحت کے اعتبار سے امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے اسے "حسن" قرار دیا ہے ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 6669،
اس حدیث شریف میں ہمیں  اپنے مُسلمان بھائیوں بہنوں کے ساتھ ، شرعی طور پر جائز معاملات کرنے میں ایک دُوسرے کے لیے اس قدر نرم رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اور نرمی کی کیفیت سمجھانے کے لیے ایسے اُونٹ کی مثال اِرشاد فرمائی گئی ہے جو  کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے ، کہ اسے جیسا کہا جاتا ہے اسی طرح کرتا ہے ، کوئی  ضد اور ہٹ دھرمی  نہیں  کرتا ،  پس مُسلمانوں کو بھی ایک دُوسرے کے لیے آپس کے شرعی طور پر جائز معاملات کرنے اور کروانے میں اسی طرح ہونا چاہیے،       
شیخ الاِسلام  حقاً ، الامام الجلیل احمد ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کا کہنا ہے :::   
""""" اور  ایک حدیث جو کہ عبید بن عمیر ، بواسطہ عَمرو بن عبسۃ (رضی اللہ عنہ ُ) بواسطہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہے ، اِس حدیث میں ہےکہ ،
""""" ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا ،"""اِسلام کیا ہے ؟ """
جواب اِرشاد فرمایا ﴿ إطْعَامُ الطَّعَامِ ، وَلِينُ الْكَلَامِ ::: کھانا کھلانا ، اور نرم بات کرنا
پھر سوال کیا """ تو اِیمان کیا ہے ؟ """
جواب اِرشاد فرمایا ﴿السَّمَاحَةُ وَالصَّبْرُ ::: درگذر کرنا ، اور صبر کرنا مُسند احمد/حدیث23385/حدیث عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ /حدیث 51،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 3334،
کھانا کھلانا تو ایسا ظاہری عمل ہے جو انسان کئی مقاصد کے لیے کر سکتا ہے اور اسی طرح نرمی کلامی بھی ، لیکن درگذر اور صبر  دو ایسی صِفات ہیں جو کسی نفس کے اندر ہوتی ہیں، اوران کا اظہار صرف انہی لوگوں سے ہوتا ہے جو اپنے نفس پر خوب قابو  رکھنے والے ہوتے ہیں ،  
اور(اِیمان لانے والوں کی صِفات  کے بارےمیں )اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ::: اور صبر کرنے کی نصیحت کی اور رحم کرنے کی نصیحت کی سُورت البلد(90)/آیت 17،
اور یہ اس (پہلے ذکر کردہ حدیث میں مذکور صِفات )سے زیادہ بلندی والی صِفت ہے کہ ایک مُسلمان دُوسروں انسانوں کی طرف سے ملنے والی ایذیتوں اور نقصانات پر  صبر  کے ساتھ شکر کرنے والا بھی ہو ، اور صرف درگذر کرنے والا نہ ہو بلکہ رحم کرنے والا بھی ہو ، ایسا اِیمان والا اُس انسان  کی ضد ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ::: بے شک اِنسان کو کم ہمت بنایا گیا ہے  o  إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ::: جب اسے کوئی  تنگی ،تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اور چِلّا اُٹھتا ہے  o وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا :::اور جب اسے کوئی فراغت ، آرام ملتا ہے تو  کنجوس بن جاتا ہےسُورت المعارج(70)/آیات19تا21،
کہ ایسے شخص  میں کسی نعمت کے ملنے پر کوئی نرمی ظاہر  نہیں ہوتی ، اور نہ ہی شکر ادا کرتا ہے  ، بلکہ اس نعمت کو صرف اپنے تک روکے رکھنے والا بنتا ہے ، اور نہ ہی کوئی نقصان ہونے کی صورت میں صبر کرتا ہے """""
یعنی ، دُوسروں کے ساتھ شرعی طور پر جائز معاملات نمٹانے میں  صبر ، درگذر ، نرمی ، سہولت مہیا کرنا اِیمان والوں  میں ہونا مطلوب و مقصود ہے ،ان صِفات کا نہ ہونا اللہ کے ہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا ، پس ہر مُسلمان کو چاہیے کہ اپنے آپ میں ان صِفات کو مہیا کرے ،
مُسلمانوں کے لیے نرمی اور درگذر والا رویہ ایسی  صِفت میں سے ہے جواس صِفت سے موصوف کے لیے  دُوسروں کے دِلوں میں اس کی محبت اور احترام میں بے پناہ اضافے کا سبب ہوتی ہے ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ ::: پس  آپ اللہ کی رحمت سے ان لوگوں کے لیے نرم ہوئے اور اگر آپ تُند خُو اور سخت دِل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے اِرد گِرد سے بھاگ جاتے، لہذا ٓپ ان سے در گذر فرمایا کیجیےسُورت الانعام(6)/آیت 159،
ان صِفات کو خود میں مہیا  کرنے  کے لیے درج ذیل دو طریقوں کو اپنانا  اِن شاء اللہ ، درگذر اور دُوسروں کے ساتھ معاملات کرنے میں نرمی کی صِفات مہیا کر سکتا ہے ،
::: (1) ::: اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ان صِفات کی مُوجُودگی کے بارے میں  دی گئی ترغیبات کا مطالعہ کرنا اور ان  صِفات کی مُوجُودگی کے دِینی ، دُنیاوی اور اُخروی فوائد کے بارے  غور و فکر کرنا ،
::: (2) ::: اللہ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اِن صِفات کی عدم مُوجُودگی یا ان کی مخالف صِفات کے مُوجُود ہونے کے دِینی دنیاوی اور اُخروی نقصانات  کا مطالعہ کرنا اور ان میں غور و فِکر کرنا ،
پس ہم سب کو چاہیے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کریم کے ان فرامین کی روشنی میں اپنے اندر اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کے لیے ، در گذر  والا رویہ اپنائیں ،  اور شرعی طور پر جائز معاملات میں نرمی اور آسانی والا رویہ اپنائیں ۔
اور عفو و درگذر ، نرمی اور آسانی کی حدود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ اور اللہ کےمقرر کردہ مُفسر قران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کے مُطابق سمجھیں ، نہ کہ خود ساختہ فسلسفوں اور اپنی عقلوں کے مُطابق ، والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء، عادل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت:25/04/1433ہجری، بمُطابق،18/02/2012عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔