Tuesday, August 26, 2014

::::::: قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،،قاعدہ رقم 1:::::::


::::::: قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،،قاعدہ  رقم  1::::::: 
                        بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ:::توسب لوگوں نے اُن کے پانی پینے کی جگہ جان لی سُورت البقرہ (2)/آیت 60، سورت الاعراف(7)/آیت 160،
 اللہ تبارک وتعالیٰ  کا یہ مذکورہ بالا فرمان شریف ہمارے آج کے درس کا موضوع ہے ، جسے ہم اِن شاء اللہ اللہ کی طرف سے بیان فرمودہ قواعد و قوانین کے ضمن میں اپنے دروس کے سلسلے "قران میں بیان کردہ  قواعد(اصول ، قوانین)"میں  پہلے درس کے طور پر پڑھیں گے ،
اللہ جلّ و عُلا نے اپنے اِس  مذکورہ بالا فرمان شریف میں اپنی تخلیق کی حکمتوں میں سے ایک حِکمت  کے آثار میں سے ایک اثر ، ایک نشانی بھی بیان فرمائی ہے ، جس کے بارے اللہ کے بیان کردہ اِس قاعدے ، قانون میں تدبر کرنے سے پتہ چلتا ہے ، کہ اللہ جلّ و عُلا نے اپنی ہر مخلوق کو کسی نہ کسی کام کے لیے تخلیق فرمایا ہے ، ہر مخلوق کے لیے کوئی نہ کوئی کام کرناآسان کر دیا گیا ہے ، اور وہ مخلوق وہی کام زیادہ آسانی اور کامیابی  سے کرتی ہے،  
اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ یہ قاعدہ ، قانون سُورت البقرہ اور سورت الاعراف کی آیات کا ایک جُزء ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نےموسیٰ علیہ السلام کی اپنی قوم کے لیے پانی مانگنے کی دُعاء کے واقعے میں اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے ﴿ وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ::: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے پینے کے لیے پانی  کی دُعاء کی تو ہم نے فرمایا ، اپنے عصاء(ہاتھ میں تھامے جانے والے ڈنڈے )سے پتھر پر مارو ، (موسیٰ نے ایسا کیا ) تو پتھر میں سےبارہ چشمے پُھوٹ پڑے ، توسب لوگوں نے اُن کے پانی پینے کی جگہ جان لی، (اور لوگوں سے کہا گیا کہ )اللہ کے عطاء کردہ رزق میں سے کھاؤ اور پیو، اور زمین میں فساد پھیلانے والے بن کر مت گھومو ،
اِس آیت کریمہ میں  ہمیں یہ خاص معنی ومفہوم ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اِسرائیل پر احسان اور آسانی فرماتے ہوئے ، اُن کے قبیلوں ، گروہوں کے مطابق اُس پتھر میں سے بارہ چشمے جاری فرما دیے ، تا کہ ہر ایک قبیلہ ، ہر ایک گروہ کسی مشکل اور بد تنظیمی کا شکار ہوئے بغیر، اور کسی مشکل اور پریشانی ، مشقت اور سختی کے بغیر  ، ایک دوسرے کو تنگ کیے بغیر ، ایک دوسرے کا حق مارے بغیر ، اپنی اپنی جگہ سے پانی لیتا رہے ، کہ اس پانی کو ان لوگوں کے سامنے اِس طرح جاری کرنے میں یہ حِکمتیں پوشیدہ ہیں ، اور لوگوں کے اتنے بڑے گروہ میں سے جِس کسی کو جِس چشمے سے پانی پینے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے ، اُس نے وہ چمشہ جان لیا ہے ، لہذا وہ اُسی چشمے سے پانی پیے،  
یہ معنی ، یہ مفہوم جو اِس قاعدے ، قانون میں سے سمجھ آتا ہے ، دیگر الفاظ میں بھی قران کریم میں ذِکر فرمایا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے سُورت الاِسراء (بنی اِسرائیل (17)/آیت 84)میں اِرشاد فرمایا ﴿ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ::: فرمایے (اے محمد)ہر کوئی اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے،
اور اِس قاعدے ، قانون میں بیان کردہ یہ معنی اور مفہوم  اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اِن الفاظ میں بھی ادا کروایا کہ ﴿ اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ:::عمل کروکہ ہر کوئی اُس کام لیے  میسر ہوتا ہے ، جِس کام کے لیے اُسے تخلیق کیا گیا،صحیح البخاری /حدیث/4949کتاب التفسیر/باب فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى،صحیح مُسلم/حدیث/6903کتاب القدر /باب1، 
تو پتہ یہ چلا کہ اِس قاعدے میں مذکورہ معنی اور مفہوم کو شریعت میں مختلف الفاظ میں ذِکر فرمایا گیا ہے ، اور مختلف انداز میں ذِکر فرمایا گیا ہے ،  جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قاعدہ بہت أہمیت کا حامل ہے ، پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس قاعدے کے عدم نفاذ کے بارے میں خوب اچھی طرح سے تدبر کریں، آج کی محفل میں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اِس قاعدے پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں کیا کمی اور خامیاں واقع ہوئی ہیں ؟اور ہم کن کن اچھی چیزوں کو حاصل کرنے سے محروم رہ رہے ہیں ؟
::::: اس بات پر ہر کوئی اتفاق رکھتا ہے کہ ہر انسان کی صلاحیات دوسرے سے مختلف اور کم و بیش ہوتی ہیں ، اوربحیثیت مسلمان ہم اس بات پر اِیمان رکھتے ہیں کہ انسانی صلاحیات اور قدرات میں کمال اللہ تبارک وتعالیٰ نے صِرف اپنے انبیاء اور رُسل علیہم السلام کو عطاء فرمایا ، اور کمال مطلق اللہ سبُحانہ ُ و تعالیٰ کے لیے ہے ،
انسان کو اللہ کی طرف سے ملنے والی صلاحیات کی معرفت ہونا ایک بہت ہی أہم معاملہ ہے ، تا کہ انسان اپنی ذات میں اللہ کی طرف سے دی جانے والی صلاحیات کے مطابق اپنی قوتوں کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ دینی ، دنیاوی اور اُخروی فوائد حاصل کر سکے ، خیال رکھیے گا کہ اپنی صلاحیات کے مطابق زندگی کا میدانء عمل اختیار کرنے کی بات نہیں ،  نہ ہی اپن کے مطابق صِرف کام کرنے کی بات ہے ، بلکہ دُرُست ترین طریقے پر بہترین کام کرنے کی بات ہے ، جن کے ذریعے اپنے لیے ، اپنے اہل خانہ و خاندان اور اپنی اُمت کے لیے دینی ، دُنیاوی اور اُخری فوائد حاصل کیے جائیں ، اور نقصانات سے بچ کر رہا جا سکے ۔
اگر ہم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں بڑی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بیان کردہ اِس قاعدے ، قانون کو اپنی زندگیوں میں خُوب نافذ کر رکھا تھا ،  پس کوئی تو اُن میں سے علم و فقہ میں بر تر تھا  ،تو  کوئی میدان جِہاد کا مَرد آہن ، کوئی خطابت میں اعلیٰ ، تو شاعری میں بُلند ، کوئی روزے رکھنے میں آگے ، تو کوئی قیام اللیل میں ، اور کوئی صدقہ و خیرات کرنے میں آگے ، غرضیکہ ہر کوئی اپنی اُس صلاحیت کو جان کر جو اُسے اللہ نے عطاء کی تھی اُسے اللہ کی رضا کے لیے خُوب استعمال کرنے والا تھا ،
آپ صاحبان کے سامنے ایک سبق آموز واقعہ پیش کرتا چلوں ، جس کے ذریعے ہمارے زیر تفہیم موضوع کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اِن شاء اللہ ،
اِمام ابن عبدالبر رحمہُ اللہ نے""" التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد /باب المیم/تابع لحرف المیم/تابع لمحمد بن شھاب/باب السابع العشرون """ میں لکھا کہ :::
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعُمَرِيَّ الْعَابِدَ كَتَبَ إِلَى مَالِكٍ يَحُضُّهُ إِلَى الِانْفِرَادِ وَالْعَمَلِ وَيَرْغَبُ بِهِ عَنِ الِاجْتِمَاعِ إِلَيْهِ فِي الْعِلْمِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ مَالِكٌ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَسَّمَ الْأَعْمَالَ كَمَا قَسَّمَ الْأَرْزَاقَ فَرُبَّ رَجُلٍ فُتِحَ لَهُ فِي الصَّلَاةِ وَلَمْ يُفْتَحْ لَهُ فِي الصَّوْمِ وَآخَرَ فُتِحَ لَهُ فِي الصَّدَقَةِ وَلَمْ يُفْتَحْ لَهُ فِي الصِّيَامِ وَآخَرَ فُتِحَ لَهُ فِي الْجِهَادِ وَلَمْ يُفْتَحْ لَهُ فِي الصَّلَاةِ وَنَشْرُ الْعِلْمِ وَتَعْلِيمُهُ مِنْ أَفْضَلِ أَعْمَالِ الْبِرِّ وَقَدْ رَضِيتُ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ لِي فِيهِ مِنْ ذَلِكَ وَمَا أَظُنُّ مَا أَنَا فِيهِ بِدُونِ مَا أَنْتَ فِيهِ وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ كِلَانَا عَلَى خَيْرٍ وَيَجِبُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا أَنْ يَرْضَى بِمَا قُسِّمَ لَهُ وَالسَّلَامُ۔
ترجمہ ::: عبداللہ بن عبدالعزیز العُمری العابد نے اِمام مالک  رحمہ ُ اللہ کو خط لکھا جس میں امام مالک رحمہُ اللہ کو انفرادی طور پر رہنے اور انفرادی عمل کرنے کی کی ترغیب دی ، اور اُن کے پاس عِلم کے ہونے والے اجتماعات سے دُور ہونے کی بات کی ،
تو امام مالک رحمہُ اللہ نے جواب میں لکھا کہ """بے شک اللہ عزَّ و جلَّ نے (انسانوں میں) کام بھی اُسی طرح تقسیم فرمائے ہیں جِس طرح رزق تقسیم فرمائے ہیں ، پس کسی کے لیے تو نماز کی ادائیگی میں آسانی مہیا فرمائی گئی  اور اُس کے لیے روزے رکھنے میں آسانی نہیں دی گئی ، اور کسی دوسرےکے لیے صدقہ کرنے میں آسانی مہیا فرمائی گئی اور اُس کے لیے روزے رکھنے میں آسانی نہیں دی گئی ، اور کسی دوسرے کے لیے جہاد کرنے میں آسانی مہیا فرمائی گئی اور اُس کے لیے نماز کی ادائیگی میں آسانی نہیں دی گئی ، اور عِلم پھیلانا اور  سیکھنا  اعلی ترین نیکیوں میں سے ہے ، اور اِس (علم کو نشر کرنے اور سیکھنے کے کام ) میں اللہ نے جو  آسانی مجھے مہیا فرمائی ہے  میں اُس پر راضی ہوں ، اور میں نہیں سمجھتا کہ میں جس (کام )میں( لگا ہوا)ہوں وہ (کام )اُس سے کم تر ہے جِس میں آپ(لگے ہوئے )ہیں، اور میں اُمید کرتا ہوں کہ ہم دونوں ہی خیر پر ہیں،اور ہم دونوں میں سے ہر ایک ہر واجب ہے کہ اُس پر راضی ہو رہیں جو اللہ نے ہمارے لیے تقسیم فرمایا ہے ، والسلام"""،
غور فرمایے کہ امام مالک رحمہُ اللہ کا یہ جواب اُن کے علم کی وسعت کی ہی دلیل نہیں ،بلکہ اُن کے اعلی عقل اور خوبصورت ادب کی بھی دلیل ہے ، اور جس قاعدے ، قانون کو ہم سمجھ رہے ہیں اُس قاعدے قانون کے مطابق  اُن کے عقیدے اور عمل کی بھی دلیل ہے ، جس قاعدے ، قانون کولا تعداد مسلمان یا تو جانتے ہی نہیں ، یا بھلائے ہوئے ہیں،
اِمام املک رحمہُ اللہ نے جس معاملے کو سمجھ کر اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں سے اچھے  تعلقات بنائے رکھنے کی طرف توجہ دلوائی ہے وہ معاملہ ہمارے دور میں تو بہت زیادہ گڑ بڑ کا شِکار نظر آتا ہے ،
آپ دیکھیے کہ آپ کو اِرد گِرد اپنے مسلمان بھائیوں میں ایسے بہت سے بھائی دکھائی دیں گے جن کی کہی یا لکھی ہوئی باتوں میں دوسرے بھائیوں کے لیے طعنہ بازی ،نفرت اور اشتعال انگیزی ہو گی ، جیسا کہ ہمارے وہ بھائی جو دِین کی تعلیم حاصل کرنے اور اسے نشر کرنے میں مشغول ہیں وہ جہاد کرنے والے بھائیوں پر طرح طرح کے الزامات اور عیب لگاتے دکھائی دیں گے ، کہ وہ تو بس مار کٹائی کرتے ہیں ، وہ لوگ عالِم نہیں ، فقہ نہیں جانتے ، عقیدہ نہیں جانتے وغیرہ وغیرہ ،
 اور اسی طرح وہ بھائی جو جہاد میں مشغول ہیں وہ عِلمی مشغولیات والے بھائیوں کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے دکھائی اور سنائی دیں گے ، بلکہ بسا اوقات تو  جید عُلماء کرام کو بھی لتاڑ دیتے ہیں ، کہ اُنہیں صِرف درس دینے کا شوق ہے ، اُمت پر ٹوٹنے والی مصیبتوں کا کوئی احساس نہیں ، ظالم وجابر حکمرانوں کے خِلاف بات تک نہیں کرتے ، بے حیائی اور بے پردگی پر بھی خاموش رہتے ہیں ، لے دے کے دو چار مسئلوں پر ہی بولتے رہتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ،
جبکہ اگر دونوں طرف کے بھائی اللہ تبارک تعالیٰ کے بتائے ہوئے قاعدے ، قانون ﴿قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ::: تو سب لوگوں نے اُن کے پانی پینے کی جگہ جان لی اور ،
﴿ قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ::: فرمایے (اے محمد)ہر کوئی اپنے طریقے پر عمل کرتا ہےکو سمجھ لیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا کروائے گئے قاعدے قانون ﴿ اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ:::عمل کروکہ ہر کوئی اُس کام لیے  میسر ہوتا ہے ، جِس کام کے لیے اُسے تخلیق کیا گیاکو سمجھ لیں تو اِن کی آپس کی کش مکش ختم ہو جائے اور اُس کش مکش کی وجہ سے باقی مُسلمانوں پر پڑنے والے منفی اثرات بھی ختم ہو جائیں ،
اور اگر اِس کے ساتھ ساتھ ، ہمارے وہ بھائی اور ہم سب بھی ، اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان مُبارک کو بھی اچھی طرح سے سمجھ لیں تو سونے پر سہاگہ والا معاملے ہو سکتا ہے اِن شاء اللہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿ مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ نُودِىَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ ، هَذَا خَيْرٌ . فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاَةِ دُعِىَ مِنْ بَابِ الصَّلاَةِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِىَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِىَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِىَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ:::جِس کسی نے ایک قِسم کی چیز میں  سے دو چیزیں(یعنی دو درھم ، یا دو دینار، یا دو ایک ہی جیسے کپڑے ، یا دو ایک ہی جیسے جانور وغیرہ ) اللہ کی راہ میں خرچ کِیں تو اُسے جنّت کے دروازوں سے آواز دی جائے گی کہ ، اے اللہ کے بندے ، یہ خیر(والا کام)ہے ، تو جو کوئی نماز پڑھنے والوں میں سے ہے تو اُسے نماز والے دروازے سے آواز دی جائے گی ،اور جو کوئی جہاد کرنے والوں میں سے ہے تو اُسے جہاد والے دروازے سے آواز دی جائے گی ، اور جو کوئی روزے رکھنے والوں میں سے ہے تو اسے روزوں والے دروازے سے آواز دی جائے گی ، اور جو کوئی صدقہ کرنے والوں میں سے ہے تو اُسے صدقہ والے دروازے سے آواز دی جائے گیصحیح بخاری /حدیث/1897کتاب الصوم / باب 4، صحیح مُسلم/حدیث/2418کتاب الزکاۃ/ باب28،
اِمام ابن عبدالبر رحمہُ اللہ نے (سابقہ حوالے والے مُقام میں یہ بھی ) لکھا کہ :::
""""" وَفِيهِ أَنَّ أَعْمَالَ الْبِرِّ لَا يُفْتَحُ فِي الْأَغْلَبِ لِلْإِنْسَانِ الواحد في جميعها وَأَنَّ مَنْ فُتِحَ لَهُ فِي شَيْءٍ مِنْهَا حُرِّمَ غِيرَهَا فِي الْأَغْلَبِ، وَأَنَّهُ قد تُفتَح في جَمِيعها لِلْقَلِيلِ مِنَ النَّاسِ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ ذَلِكَ الْقَلِيلِ ::: اس حدیث شریف میں یہ (مسئلہ )بھی ہے کہ عام طور  پر ایک ہی انسان کے لیے سارے ہی نیکی کے کام کرنے میں آسانی مہیا نہیں کی جاتی ، اور یہ (مسئلہ)بھی ہے کہ عام طور  پر یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے لیے کسی ایک نیک کام کرنے میں آسانی مہیا کی جاتی ہے تو کسی دوسری  قِسم کی نیکی کرنے سے روک دیا جاتا ہے ، اور یہ (مسئلہ)بھی ہے کہ کبھی کچھ لوگوں کے لیےنیکی کے  سب ہی کام کرنے میں آسانی مہیا کر دی جاتی ہے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے  ہیں ، اور ابو بکر الصدیقی رضی اللہ عنہ ُ اُن ہی کم لوگوں میں سے ہیں """""،

محترم قارئین ، ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان فرمودہ  اِس قاعدے ، قانون پر عمل  نہ کرنے والوں کی بہت سی مثالیں اپنے اِرد گِرد مل جاتی ہیں ، مثلاً ، ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بات کو فوراً اور دُرُست طور پر سمجھنے ، اور اچھی طرح سے یاد رکھنے کی توفیق دی ہوتی ہے ، لیکن اُن لوگوں کو ایسے کاموں میں لگا دِیا جاتا ہے، یا وہ خود ایسے کاموں میں لگتے ہیں  جو اُن کی صلاحیات کے مطابق نہیں ہوتے ، پس وہ کامیاب نہیں ہو پاتے ، مثال کے طور پر ایسے کسی شخص کو جسمانی مشقت والے کاموں میں لگا دیا جائے تو وہ بے چارہ ایک ناکام انسان بن کر رہ جاتا ہے ،
اور  اسی طرح کسی کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی مشقت والے کام بہترین طور پر کرنے کی صلاحیات دی ہوتی ہیں تو انہیں ذہنی مشقت والے کاموں میں لگا دِیا جاتا ہے یا وہ خود ایسے کاموں میں لگتے ہیں  جو اُن کی صلاحیات کے مطابق نہیں ہوتے ، پس وہ کامیاب نہیں ہو پاتے ، مثال کے طور پر ایسے کسی شخص ایسے تعلیمی میدان میں دھکیل دیا جائے یا وہ خود اُس میں داخل ہو ، جہاں حافظے اور تیز اور دُرست فہم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ شخص ناکام رہتا ہے ، پریشان و پشیمان رہتا ہے ،
لیکن وہ شخص خود ، یا اُس کو چلانے والے اللہ کی عطاء کردہ صلاحیات کو پہچان کر اُن پر راضی ہو کر  اُس شخص کو اُن صلاحیات کے مطابق استعمال کرنے کی طرف نہیں آتے ، اور یُوں اجتماعی طور پر ہم پُوری اُمت میں صلاحیات ہونے کے باوجود اُن  کے فقدان کا شکار ہیں ،
ہمیں زندگی کے ہر میدان عمل میں کامیاب لوگوں کی جتنی ضرورت ہے اُس کے پُورے ہونے کا سبب یہ نہیں کہ  ہماری اُمت میں اُسے پُوری کرنے والے لوگ ہی نہیں ،
بلکہ اُس ضرورت کے پورے نہ ہونے کی وجہ اللہ جلّ جلالہُ کی بیان کردہ اِس قاعدے ، قانون سے انحراف ہے ، کہ ہم اُن صلاحیات کو پہچانتے ہی نہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں ، پس ہم اُن کے مطابق کام اختیار نہیں کرتے ، اور یُوں ہماری اُمت زندگی کے بہت سے میادنِ عمل میں دوسری قوموں سے پیچھے رہے جا رہی ہے ، جبکہ وہ لوگ بچپن سے ہی اپنے بچوں کی صلاحیات کو جانچ کر اُن کو اُن صلاحیات کے مطابق استعمال کرتے ہیں ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے جو قاعدہ ، قانون ہمیں بتایا تھا ، عملی طور پر دوسروں نے اُسے اپنا رکھا ہے اور زندگی کے بہت سے میادینِ عمل میں وہ ہم سے آگے ہو چکے ہیں ،
لیکن اب بھی وقت ہے  کہ ہم اپنے رب اللہ عزَّ و جلّ کے بتائے ہوئے اس قاعدے پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہمار رب ہمیں اُن دوسری قوموں سے زیادہ کامیابیاں عطاء فرمائے گا ، اور جب ہم اُس قاعدے پر عمل اللہ کے فرمان پر ، اللہ کی رضا کے حصول کی نیت سے کریں گے تو  دُنیاوی کامیابیوں کے ساتھ اِن شاء اللہ، آخرت کی کامیابیاں میں ملیں گی۔
::: أہم وضاحت ::: خیال رہے کہ یہ مضامین محترم شیخ ،ڈاکٹر  عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے دُروس سے ماخوذ ہیں ، نہ کہ اُن کے دروس کے تراجم ، بلکہ ان مضامین میں کم و بیش ساٹھ ستر فیصد مواد میری طرف سے اضافہ ہے، اس لیے اِن مضامین کو حرف بحرف محترم شیخ صاحب حفظہ ُ اللہ سے منسوب نہ سمجھا جائے  ۔
اور مضامین کا تسلسل بھی میں نے محترم شیخ صاحب کے دُروس کے تسلسل کے مطابق نہیں رکھا ، بلکہ مصحف شریف میں آیات کے تسلسل کے مطابق رکھا ہے ۔
جیسا کہ یہ مضمون ہمارے موضوع """ قران میں بیان کردہ  قواعد(اصول ، قوانین) """میں   پہلے   قانون کے طور پر بیان کیا گیا ہے ،اور شیخ صاحب کے دُروس کے سلسلے میں   48  ویں نمبر  پر ہے ،
اِن شاء اللہ اسی طرح دیگر سب قواعد و قوانین پر مشتمل مضامین کا تسلسل  بھی مصحف شریف کی ترتیب کے مطابق ہی ہو گا ،  والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 comments:

Farrukh نے لکھا ہے کہ

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ
عادل صاحب، آپ کی اس بات کہ " اُس نے وہ چمشہ جان لیا ہے ، لہذا وہ اُسی چشمے سے پانی پیے، " سے میں تھوڑا سا اختلاف کروں گا۔
جس آئیت سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اس میں پانی پینے کی جگہ کا بیان ہے، چشمے کا نہیں۔ بارہ چشمے نکل کر بہتے ہیں، اور دور تک سفر کرتے ہیں، تو ان میں کئی جگہیں پیدا ہو جاتی نہیں جہاں سے پانی پیا جا سکتا ہے۔۔
اس آئیت سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ لوگوں کو ان کے مخصوص چشموں تک محدود کر دیا گیا ہو۔ جگہ سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک ہی چشمے پر کئی جگہیں ہو سکتی ہیں جہاں سے پانی پیا جا سکے۔۔
گویا آپ کے مطابق ایک شخص ایک چشمے کی ایک جگہ سے پانی پئے اور دوسرے چشمے سے پانی پینے پر پابندی؟ قرآن کی آیات ایسی کسی پابندی کو
نافذ کرتی نظر نہیں آتیں۔
میرے نزدیک یہ بارہ چشمے جب نکلے تو ظاہر ہے دور تک بہنے لگے اور ان میں اللہ نے وسیع جگہیں پیدا فرما دیں جہاں سے لوگ بغیر کسی جھگڑے اور جگہ کی تنگی پیدا کئے بغیر پانی استعمال کر سکتے تھے۔۔۔ مگر قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے کہ لوگوں کو ان کے مخصوص چشموں تک محدود کر دیا گیا ہو۔۔۔
والسلام و علیکم ورحمۃا للہ۔۔۔۔

Adil Suhail Zaffar عادل سھیل ظفر نے لکھا ہے کہ

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ایک دفعہ پھر جزاک اللہ خیرا ، ماشاء اللہ آپ کافی توجہ سے مطالعہ فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ مزید خیر کی توفیق عطاء فرمائے ،
فرُخ بھائی ، آپ کی بات منطقی طور پر تو بھلی لگتی ہے،،،لیکن،،،
جِس آیت شریفہ کا اِس مضمون میں ذِکر ہوا،اور اُس کے علاوہ قران کریم میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِس واقعہ کے بارے میں جو کچھ بتایا ، اُس کے مطابق مضمون میں مذکور اُس آیت شریفہ کا وہی مفہوم ہے جو میں نے ترجمے میں لکھا ، و للہ الحمد ،
سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ میں نے کسی ایک شخص کے بارے میں نہیں لکھا کہ """ اُس نے وہ چشمہ جان لیا ، لہذا وہ اُسی چشمے سے پانی پیے """،
بلکہ میں نے لکھا ہے کہ(((((قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ::: تو سب لوگوں نے اُن کے پانی پینے کی جگہ جان لی ))))) سب لوگوں کے اپنے اپنے پانی پینے کی جگہ کو جان لینے کی بات ہے ، کسی ایک شخص کی نہیں ،
فرُخ بھائی کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی إِسرائیل کے لیے باری چشمے کیوں جاری فرمائے ؟؟؟
کچھ کم یا زیادہ کیوں نہیں ؟؟؟
پیارے بھائی ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کو سمجھنے کے لیے کچھ ضوابط ہیں جن میں میرے یا آپ کے یا کسی اور کے ذاتی خیالات یا فہم کی کوئی گنجائش نہیں ، سوائے اِس کے اُس فہم کے لیے اُن ضوابط میں سے کسی ضابطے کی تائید میسر ہو ،
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے آپ درج ذیل مضامین کا مطالعہ ضرور فرمایے ، اِن شاء اللہ خیر کا سبب ہو گا ،
::::::: تدبرء قران اور قران فہمی کی دو اِقسام ہیں :::::::
http://bit.ly/ZxGzkg
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: قران فہمی کا قرانی طریقہ :::::::
http://bit.ly/159wwRZ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت :::::::
http://bit.ly/14YGGpc
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: حِکمت اور رُشد :::::::
http://bit.ly/Z07IvV
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: شریعت کے احکام جاننے کی کسوٹیاں :::::::
http://bit.ly/18Rbf0T
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی بات اگلے حصے میں ملاحظہ فرمایے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Adil Suhail Zaffar عادل سھیل ظفر نے لکھا ہے کہ

اب آتے ہیں بنی إِسرائیل کو دیے گئے بارہ چشموں میں سے پانی پینے کے مقامات کی تحدید کی طرف ،
ابھی میں نے اپنی بات کے آغاز میں دو سوال کیے تھے ، اگر تو آپ اُن کے جوابات جانتے ہیں تو پھر آپ کے اختلاف کا حل اُن میں ہونا چاہیے ،
اور اگر نہیں جانتے تو میں کچھ معلومات پیش کرتا ہوں ، اِن شاء اللہ یہ آپ کے اختلاف کو دُور کرنے کا سبب ہوں گی،
فرُخ بھائی ، اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ، بنی إِسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے بارہ سردار مقرر فرمائے تھے ((((( وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا::: اور یقیناً اللہ نے بنی إِسرائیل سے عہد لیا اور اُن میں سے بارہ سردار مقر فرمائے)))))سُورت المائدہ(5)/آیت 12،
اور یہ بارہ سردار، اور کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلےاسباط بھی کہلاتے ہیں، یعنی یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے بارہ بڑوں کے اولاد(((((وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ::: اور ہم نے اُنہیں (یعنی بنی إِسرائیل کو)بارہ نسلوں (کے بارہ الگ الگ قبیلوں )میں تقسیم کر دِیا )))))سُورت الاعراف(7)/آیت160،
اب اِس آیت شریفہ کا اگلا حصہ پڑھتے ہیں ، اللہ جلّ و عُلا نے فرمایا ہے کہ (((((وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ::: اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کیا کہ اگر تمہاری قوم تُم سے پانی طلب کرے تو اپنی لاٹھی سے پتھر پر چوٹ لگانا ، (پس جب موسیٰ نے چوٹ لگائی )تو پتھر میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ، پس (ہر قبیلے کے) لوگوں نے(پانی اپنی پینے کے لیے) اپنا اپنا چشمہ جان لیا )))))،
اِس آیت شریفہ میں ، اور مضمون میں ذِکر کردہ آیت شریفہ میں بارہ قبیلوں کے لیے الگ الگ بارہ چشمے جاری فرمانے کی خبر ہے ، اور اِس کے عین مطابق ہر ایک قبیلے کو اُس کے چشمے کی پہچان ہو جانے کا ذِکر ہے ،
کہ ہر ایک قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے پیے گا ، خواہ وہ اُس کے منبع یا مخرج سے پیے، یا اُسی چشمے میں سے بہہ کر کہیں اور پہنچے ہوئے پانی سے پیے ، لیکن اُس کا""" مشرب وہی چشمہ ہے""" جو اُس کے لیے مخصوص ہے ،کوئی قبیلہ دوسرے کے مشرب میں دخل اندازی یا تصرف نہیں کرے گا ،
یہ معاملہ قران کریم کی اِن آیات شریفہ میں سے ہی بہت واضح ہے ، کسی اِشکال کی گنجائش نہیں ،
اب یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ جلّ و عُلا کی طرف سے ہر ایک قبیلے کے لیے ایک الگ چشمہ جاری فرمانے اور ہر قبیلے کے لیے اُس کا چشمہ (مشرب ، پانی پینے کا مُقام )مخصوص فرمانے کی کیا حِکمت تھی ؟؟؟
چونکہ اُن بارہ قبیلوں میں اَن بن چلتی رہتی تھی لہذا اِس پانی کو اُس میں کسی اضافےکا امکان بننے سے روکنے کے لیے اللہ تبارک و تعالی ٰ نے یہ حِکمت فرمائی کہ ہر قبیلے کو اُس کا الگ چشمہ دِیا جو صِرف اُسی قبیلے کا مشرب یعنی پانی پینے کا مقام تھا ،
لغوی اور تاریخی طور پر مزید تفصیلات کے لیے کتب التفسیر ملاحظہ فرمایے ، کہ اسباط سے کیا مراد ہے ؟؟؟ اسباط کون تھے؟؟؟ وہ چشمے ہمیشہ کے لیے جاری تھے ؟؟؟ یا وقتی طور پر جاری ہوتے تھے ؟؟؟ یا ایسا ایک ہی وقت ہوا تھا ؟؟؟
اور اُس پتھر کی کیفیت و ہئیت کیا تھی ؟؟؟ کیا وہ پتھر کسی ایک جگہ پر نصب تھا ؟؟؟ یا بنی اِسرائیل اسے اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے ؟؟؟غیرہ ،وغیرہ ،
ان سوالات کے جوابات جاننا اس بھی ضروری ہے کہ یہ جانا جا سکے کہ اُن چشموں کے پھوٹنے کے بعد ان سے پانی کا دُور دُور تک بہتے رہنے کاکس قدر امکان تھا ؟؟؟
میرا خیال ہے کہ درج ذیل تفاسیر اردو میں بھی میسر ہیں :
تفسیر ابن کثیر(تفسیر القران العظیم) ، تفسیر الطبری(جامع البیان فی تاویل القُران) ،اور تفسیر الشوکانی(فتح القدیر)،
امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن معلومات کو جو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں سے ہی میسر ہیں ، آپ کے اختلاف کو دُور کرنے کا سبب بنا دے گا ،
اگر ایسا نہ ہو ، اور آپ اُس بات کی تائید میں اللہ تعالیٰ کے فرامین شریفہ یا اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں سے کچھ عنایت فرما سکیں تو معاملے کو مزید وضاحت سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے ، اِن شاء اللہ ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے ، جاننے ، ماننے اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔