Monday, August 11, 2014

::::::: غیب پر إِیمان اور اُس إِیمان کا دِل و نفس پر اثر :::::::



::::::: غیب پر إِیمان اور اُس إِیمان کا دِل و نفس پر اثر :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
یقیناً ، کسی شک کے بغیر یہ حق ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے غیب اور حاضر  اوقات اور زمانے اور مقامات تخلیق فرمائے ہیں ، اور اُس کی مخلوق میں سے بے پناہ مخلوق اور اُس کے عُلوم میں سے بے پناہ عُلوم ہم اِنسانوں سے چھپا کر ، اپنے غیب میں رکھے ہیں ،
اور ہمیں اِس امتحان میں ڈالا کہ ہم اُس کی بھیجی ہوئی خبروں کے مطابق ہم  سے غائب ، غیب پر إِیمان لائیں ، اور اُس کو برقرار رکھیں ،
اور اُس غیب پر إِیمان لانے والوں اور اُس پر برقرار رہنے والوں کو تقویٰ والا فرما کر اُن کی تعریف بھی فرمائی ﴿ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ o الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ:::یہ کتاب ہر شک سے پاک ہے ، اِس کتاب میں تقویٰ والوں کے لیے ہدایت ہے oجو غیب پر إِیمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم جو رزق اُنہیں دیتے ہیں اُس میں سے (ہماری راہ میں)خرچ کرتے ہیںسُورت بقرہ/آیات 2،3،
لہذا ہم اپنے رب کے حکم کے مطابق ایسے بہت سے کاموں اور چیزوں پر إِیمان رکھتے ہیں جو ہم سے غائب ہیں ، جنہیں ہم نے کبھی دیکھا تک نہیں ، ہم نے اپنے رب اللہ جلّ جلالہُ کو نہیں دیکھا ، لیکن اُس پر إِیمان رکھتے ہیں ، ہم نے اُس کے نبیوں کو، اُس کے فرشتوں کو ، اُس کی جنّت و جہنم کو اور  آخرت کے دِن کو نہیں دیکھا ، لیکن اِن سب پر إِیمان رکھتے ہیں ،  کہ اِن سب کا وجود حق ہے اور بالکل اُسی طرح ہے جِس طرح اللہ نے اپنی کتاب قران کریم اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف کے ذریعے بتایا ہے ،
یاد رکھیے کہ کسی چیز  کے وجود اور صِفات کو دیکھنا ، بلکہ دیکھنا تو کیا اُس کا احساس پانا بھی، اُس چیز کے وجود کے لیے ضروری نہیں ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اِرد گِرد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایسی  اَن گنت  مخلوقات ہیں جنہیں ہم نہ دیکھ پاتے ہیں ، نہ سن پاتے ہیں ، نہ چھو کر محسوس کر پاتے ہیں ، نہ اُن کی کوئی خُوشبُو یا بد بُو پاتے ہیں ، اور وہ سب مخلوقات اُن کے اکیلے اور لا شریک خالق اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے دیے ہوئے وجود میں ، اُن کی دِی ہوئی صِفات کے ساتھ موجود ہیں ،
اور کئی معاملات ایسے ہیں جنہیں ہم پاتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں ، لیکن اُن کے بارے میں ٹھیک سے کچھ جان نہیں پاتے ، بتا نہیں پاتے ، جیسا کہ خواب ،
اِنسانوں کی اکثریت خواب دیکھتی ہے ، اور بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ خواب  میں دیکھتے ہیں ، جاگتے ہوئے بھی ویسا ہی ، یا اُس جیسا دیکھ لیتے ہیں ،
ایسے خوابوں کا وجود ہمیشہ سے انسانی زندگی میں رہا ہے جو غیب کے عالم کی موجودگی کی ایک ناقابل تردید دلیل ہے ،  
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے طرف سے بتائے گئے غیبی أمور ،یعنی ، ایسے أمور جن کا ادراک ہم حسی طور پر نہیں کرپاتے ، اور ایسے أمور جن کا عِلم صِرف اللہ ہی کے پاس ہے ،صِرف اُن کے وجود کی خبر دی گئی ہے ، جیسا کہ کسی کی زندگی اور موت کا وقت ، قیامت واقع ہونے کا وقت ، بارش ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ، ماں کے پیٹ میں موجود بچے کے خوش بخت یا بد بخت ہونے کا عِلم وغیرہ ،  ایسے سب ہی غیبی أمور پر، اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خبروں کے مطابق إِیمان ہی کسی کی آخرت  کی خیر و بھلائی کا سبب ہے ،
جب کوئی  اِن غیبی أمور سے دُور ہوتا جاتا ہے ، اور مادی أمور میں کھوتا جاتا ہے ، یا اِن غیبی معاملات کو جاننے سمجھنے کے لیے مادی کسوٹیوں کو اِستعمال کرنے لگتا ہے تو وہ اپنی آخرت کی تباہی مول لیتا جاتا ہے ، بلکہ بسا اوقات تو آخرت سے پہلے اپنی دُنیا بھی ذلیل و رُسوا کر لیتا ہے ،
لیکن ایک سچے   إِیمان والا  اِس حقیقت پر إِیمان رکھتا ہے کہ ، اُسے اِس دُنیا میں ایک محدود وقت گذار کر ، دُنیا اور جو کچھ اُس میں ہے سب ہی کچھ چھوڑ کر ، کسی بھی لمحے اپنے رب اللہ جلّ جلالہُ کی طرف واپس جانا ہے ، اورجو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی خیر ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے، پس وہ دُنیا کے فوائد اور مقاصد حاصل کرنے پر نظر نہیں رکھتا ، بلکہ اللہ کے پاس خیر اور ہمیشگی والے فوائد حاصل کرنے کے لیے کام کرتا ہے ،
لیکن جب کسی کے دِل و دِماغ پر کسی بھی انداز میں مادیت طاری ہو جاتی ہےتو وہ ہر کام میں مادی اسباب اور مادی نتائج ہی ڈھونڈتا ہے اور انہی کو پانے کے لیے وہ کام کرتا ہے، حتیٰ کہ ایسے کام جو کہ محض عِبادت ہوتے ہیں ، اُن کاموں کو بھی وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے ، آخرت کی خیر پانے کے لیے نہیں کرتا ، بلکہ مادی فوائد کی وجہ سے کرتا ہے ،
جیسا کہ ہم اکثر ایسے لوگوں کو دیکھتے ، سنتے اور پڑھتے ہیں کہ جب وہ لوگ نماز کا ذِکر کرتے ہیں تو اُن کی بات کا سارا نہیں تو زیادہ تر دار ومدار نماز کو جسمانی ورزش  بتانے پر ہوتا ہے ، نماز میں کی جانے والی حرکات کو وہ لوگ  مختلف مادی فوائد کا سبب بتانے کے لیے اپنی ز ُبانوں اور قلموں کو قلا بازیاں لگواتے رہتے ہیں ،
اور اِسی طرح جب روزے کا ذِکر کرتے ہیں تو اُس کے طبی فوائد کا ہی ذِکر رہتا ہے ،
اور یہ بالکل بھولے ہوتے ہیں، اور دوسروں کو بھولانے کی کوشش میں مگن ہوتے ہیں  کہ یہ عِبادات اور ان کی ادائیگی کے طریقے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں ، اور مادی فوائد کے حصول کے لیے نہیں ہیں ، بلکہ اللہ اور اُس کے بندوں کے درمیان ربط کی مضبوطی ، اپنے اکیلے خالق اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی رضا کے حصول  اور  بندوں کی آخرت کی خیر اور فلاح کے ذریعے ہیں ،
اگر اللہ تعالیٰ  اِن کو سبب بنا کر  اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو کوئی مادی فائدے عطاء فرما دے تو یہ اللہ کی عطاء ہے ، اِن عبادات ، یا کسی بھی عِبادت کا اصل مقصد نہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ خبر کروا رکھی ہے کہ ﴿إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ::: یقیناً سب کاموں کا انجام نیتوں کے مطابق ہے ، اور ہر ایک شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جِس کی اُس نے نیت کی ، لہذا جِس کی ہجرت دُنیا  کی کمائی کی طرف ہے ، یا کسی عورت کی طرف ہے کہ اُس عورت سے نکاح کر سکے ، تو اُس شخص کی ہجرت اُسی (کام اور چیز ) کی طرف ہے جِس کی طرف اُس نے ہجرت کیصحیح بخاری/ پہلی حدیث،
اِس حدیث شریف میں ہمیں یہ مسئلہ بڑی وضاحت سے سمجھا دِیا گیا ہے کہ کوئی بھی نیک کام اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی نیت کے علاوہ کسی اور نیت سے کیا جائے گا تو اُس نیک کام کا کوئی ثواب آخرت میں نہیں ملنے والا ،
جی ہاں ، دُنیاوی فوائد ، مادی فوائد ملنے کی اُمید کی جا سکتی  ہے ،
یاد رکھیے ، محترم قارئین کہ غیب کے معاملات کو خواہ وہ حسی اور ظاہری  کاموں اور چیزوں سے متعلق ہوں یا محسوس نہ ہوسکنے والے کاموں اور چیزوں سے متعلق ہوں ، غیب کے سب ہی معاملات کو مادی عُلوم و افکار کی کسوٹیوں پر پرکھنا، کسی إِیمان والے کے إِیمان کے کمزور ہوتے ہوتےختم ہوجانے تک کا سبب بن جاتا ہے ، اورکسی کافر کے کفر میں مزید غرق ہوتے ہی رہنے کا سبب بن جاتا ہے ،
إِیمانیات سے دُور رہ کر ، غیبی امور کو مادی کسوٹیوں کو پرکھ کر کیے جانے والے بہت سے کام ہم روزانہ اپنے  اِرد گِرد  واقع ہتے دیکھتے ہیں ، اور اُن کے برے نتائج بھی ،
مثال کے طور پر ،  ایک ایسے  کام کا ذِکر کرتا ہوں جو اِنسانی معاشرے میں روزانہ ہزاروں دفعہ ہوتا ہے ، اور  اگر دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں ہی نظر کی جائے تو وہاں بھی ہر روز یہ کام ہزاروں کی تعداد میں ہوتا ہے ،
جی ، وہ کام ہے نکاح اور شادی کے لیے رشتے طے کرنا،آپ خود ہی اپنے دائیں بائیں ، آگے پیچھے نظر کیجیے ، اپنی ذاتی زندگی میں نظر کیجیے ، اور دیکھیے کہ رشتے طے کرتے ہوئے آپ، میں ، اور ہمارے دیگر مسلمان  بھائی بہنوں میں سے کتنے ایسے ہیں جو مادی کسوٹیوں کے مطابق ، رشتے طے کرتے ہیں ، بیٹیاں ، بہنیں ڈگریوں کے ساتھ بیاہنے کی کوشش رہتی ہے ، شکل و صورت رنگ و روپ  خواہ کافروں ،بدکاروں اور مخالف جنس جیسا ہو ، اِخلاق و کردار  میں خواہ تمیز اور ادب نام کی کسی چیز کا گذر تک نہ رہا ہوں ، بس مال و دولت ہونا چاہیے ،  
جبکہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ:::اور اپنے میں سے تنہا لوگوں کے ، اور اپنے غلاموں اور باندیوں میں سے نیک لوگوں کے نکاح کر دِیا کرو ،کہ اگر وہ لوگ غریب ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے اُنہیں خوشحال کر دے گا، اور اللہ بہت وسعت والا اور ، بہت زیادہ عِلم رکھنے والا ہےسُورت النُور(24)/آیت 32، 
لیکن ہم لوگ نیک کردار کی طرف توجہ کرنے کی بجائے مال و متاع دیکھتے ہیں ، جس کے نتائج معاشرے میں بے شمار دُکھ بھری داستانیں سناتی ہیں ،
رزق کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی مادیت ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے ، (خیال رہے کہ رزق سے مُراد صِرف کھانا پینا یا مال و جائیداد ہی نہیں ، بلکہ ہر وہ چیز جو کسی انسان کو ملتی ہے وہ اُس کا رزق ہوتا ہے ) ہماری اکثریت اپنے رزق کو گنتی ہے ، اور گنتی کے اضافے کی خواہش مند ہوتی ہے ، برکت کا طلبگار شاید ہی کوئی ہوتا ہے ، کیونکہ توجہ مادی کثرت پر ہوتی ہے ، غیب میں موجود حقیقت برکت پر نہیں ، جو کہ کسی بھی چیز میں اگر عطاء کر دی جائے تو وہ چیز گنتی اور وزن میں بہت ہی کم ہونے کے باوجود خود سے سینکڑوں گنا زیادہ چیز سے زیادہ فائدہ دیتی ہے ،
اِس کی مثالیں بھی ہمیں اپنے اِرد گِرد ملتی ہیں ، کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے کئی لوگ ہیں جن کا رزق بہت زیادہ ہوتا ہے ، مال و متاع سے بھرے ہی رہتے ہیں ، لیکن ہمیشہ پریشان اور پراگندہ حال ہوتے ہیں ، اور ان کا وہ مال حرام کاموں میں ہی خرچ ہوتا رہتا ہے ، اُن کے دِل و دِماغ کو انہی حرام کاموں میں سکون ملتا ہے ،
اور کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا رزق مادی ترازو میں بہت تھوڑا ہوتا ہے ، لیکن اُن کی زندگیوں میں گناہ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ، اوروہ اُس کم سے رزق میں بھی بہت خوش اور پر سکوں رہتے ہیں ،
ایسا کیوں ؟؟؟
اس لیے کہ پہلے والوں کے رزق میں مادیت  کی کثرت ہے ، جو کہ  در حقیقت کچھ اچھائی کرنے کا سبب نہیں ہوپاتا،
اور دوسرے والوں کے رزق میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے غیب میں سے ، ایک حقیقی قوت میسر کردی جاتی ہے ، جو کہ اچھائیوں اور خیر کا سبب ہوتی ہے ،
پس ہم دیکھتے ہیں ، جانتے ہیں کہ ظاہری اور مادی کسوٹیوں پر معاملات کو پرکھنے والوں کی بہت بڑی اکثریت ، مال و متاع ، اور وقت و صحت کی کثرت کے باوجود  گنتیوں میں ہی عمر گنوا جاتی ہے ،
 اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے غیب پر إِیمان رکھنے والے مال و متاع، اور وقت و قوت کی مادی تعداد  کی کمی کے باوجوددُنیا میں پر سکون  رہتے ہیں ،اعداد و شمار کے مطابق بہت تھوڑے سے وقت میں ایسے  اور اتنے کام کر جاتے ہیں جو دوسرے اُس وقت سے کئی سو گنا وقت میں نہیں کر سکتے ، اور یہ لوگ جنہیں اللہ کے غیب میں سے برکت عطاء ہوئی ہوتی ہے  آخرت کی کمائی بھی کر جاتے ہیں ،
ایک مثال کے طور پر دیکھیے کہ إِمام  محمد بن احمد ، شمس الدین الذھبی رحمہُ اللہ ، جو کہ 673ہجری کے چوتھے مہینے  ربیع الثانی کی تیرہ (13) تاریخ میں پیدا ہوئے ، اور 748ہجری کے گیارہویں (11) مہینے ذی القعدہ کی تین تاریخ  میں فوت ہوئے ،  یعنی 75سال، چھ مہینے اور بیس دِن  کی عمر پائی ،
 جس میں سے کم از کم پہلے پندرہ سال تک  میں تو کسی تصنیف کی خبر نہیں ملتی ، اور آخری چار سال بینائی ختم ہوجانے کی وجہ سے اندھیرے میں گذرے ،یُوں باقی بچے تقریباً 56سال ،
اگر ہم إِمام صاحب رحمہُ اللہ کی وہ کتابیں دیکھیں جو انہوں نے اس مدت میں لکھیں ، اور اُس زمانے میں لکھیں جب ہمارے دور جیسی کسی سہولت کا کوئی شائبہ تک بھی نہ تھا ، نہ بجلی ، اور نہ ہی بجلی یا کسی اور طور پر چلنے والی کوئی ایسی مشین جو تصنیف و تالیف ، تحقیق تخریج ، اور  معلومات کو حفظ کرنے اور محفوظ شدہ معلومات میں فورا ً تلاش و بیسار کرنے میں مددگار ہوتی ،
اور پھر معاشرتی اور معاشی زندگی کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے ، جہاد بھی کرتے رہے ،
مادی کسوٹیاں تو یہ بتاتی ہیں کہ ، اُن حالات اور اُس زمانے  میں جو، اور جس طرح کی  کتابیں إِمام صاحب رحمہُ اللہ نے لکھی ہیں ، آج کوئی اُن کی عمر  سے دگنی عمر میں ، اور موجود دور کی تمام تر سہولیات کے باوجود ، اُس طرح کی ، اُتنی تو کیا اُن سے آدھی  تالیفات بھی مکمل نہیں کر سکتا ،
لیکن غیب پر إِیمان یہ سکھاتا ہے کہ جِس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نہ إِمام صاحب کے وقت میں برکت دی تھی ، اگر اُس طرح اللہ تعالیٰ کسی اور کو برکت عطاء فرمائے تو ویسا ، بلکہ شاید اُس سے زیادہ کام بھی ہو سکتا ہے ،
پس یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ مادی کسوٹیاں ، اور مادی ارقام میں زیادتی یا کمی درحقیقت کچھ اثر نہیں رکھتی ہیں ،
::::::: ایک  مثال :::::::  سُود کو دیکھ لیجیے ، مادی کسوٹیاں ، اور مادی ارقام کے مطابق تو سُود منافع اور مال بڑھاتا نظر آتا ہے ،  اور صدقہ و خیرات کرنا  مال کو کم کرتا دکھائی دیتا ہے ، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کاموں کی حقیقت یہ بیان فرمائی ہے کہ ﴿يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ::: اللہ سُود کو تباہ کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہےسُورت البقرہ (2)/آیت 276،
اِسی طرح ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو مادی کسوٹیاں اور ارقام یہ بتاتی ہیں کہ اُن کا مال بڑھ رہا ہے ، لیکن اللہ جلّ جلالہُ کا فرمان ہے کہ ﴿وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ:::ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے تباہی ہےسُورت المطففین(83)/پہلی آیت،
اور اکثر اوقات ہم اِس حقیقت کا نظارہ دُنیا میں کر لیتے ہیں ، کہ سُود خوروں اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کا مال ایسے کم ہوتا جاتا ہے ، کہ اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ پاتی کہ اچانک کیا ہو گیا ،  اور ایسے کاموں میں خرچ ہوتا رہتا ہے جہاں خرچ کر کے اُن لوگوں کو کوئی خوشی نہیں ہوتی ،
::::::: ایک اور مثال ::::::: ہمارے خُون کی ہے ، ہمارے جمسوں میں دوڑنے والا خون تقریباً ہر اِنسان کے لیے کافی مکروہ چیز ہوتا ہے ،اور کوئی بھی اِنسان اپنا یا کسی کا خون دیکھ پریشان ہی ہوتا ہے ،اُس خُون کی بُو تقریباً سب ہی کو بُری اور تکلیف دہ لگتی ہے ، خواہ وہ کسی بھی اِنسان کے جِسم سے نکلا ہو ، لیکن اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والے شہیدوں کا وہی خون، سینکڑوں ، ہزاروں لاکھوں اور اللہ ہی جانے کتنے سال گذرنے کے بعد بھی قیامت والے دِن مِسک کی خُوشبُو والا ہو گا﴿وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُكْلَمُ أَحَدٌ فِى سَبِيلِ اللَّهِ - وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِى سَبِيلِهِ - إِلاَّ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْكِ::: اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، جو کوئی بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ، اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے، تو قیامت والا دِن وہ زخمی (اِس حال میں) آئے گا کہ اُس کے خُون کا رنگ تو خُون والا ہی ہوگا لیکن اُس خون کی خُوشبُو مِسک کی خُوشبُو جیسی ہو گیصحیح البُخاری/حدیث/2803کتاب الجِہاد/ باب 10،
::::::: ایک اور مثال ::::::: روزہ دار کے منہ ُ کی بُو ہے ، جو دوسروں اِنسانوں کے لیے کراہت اور تکلیف کا باعث ہوتی ہے لیکن اللہ کے ہاں وہ بُو مِسک کی خُوشبُو سے بھی بہترین ہوتی ہے ﴿وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ:::اور بے شک روزہ دار کے منہ ُ کی بُو اللہ کے ہاں مِسک کی خُوشبُو سے بھی بہترین ہوتی ہےسُنن ابن ماجہ /حدیث/1707کتاب الصیام/پہلا باب ، سنن الترمذی /حدیث/769کتاب الصوم/ باب55 ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
::::::: ایک اور مثال ::::::: ہم میں سے تقریباً ہر ایک شخص بیماری اور تکلیف کو برا سمجھتا ہے اور عموماً کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی صُورت میں اُس بیماری کے بارے میں بری باتیں کی جاتی ہیں ،
کسی بیماری کے ظاہری مادی نتائج کی وجہ سے اُس سے ڈرنا اور اُسے برا سمجھنا ، برا کہنا بہت قدیم سے اِنسانی معاشرے میں پایا جاتا ہے ،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے  اس ظاہری مادی نتیجے کی وہ حقیقت بھی بیان کروائی جو اللہ کے غیب میں سے تھی ،
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک صحابیہ اُم السائب ، یا اُم المُسیب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو وہ بخار کی حالت میں کانپ رہی تھیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ﴿مَا لَكِ يَا أُمَّ السَّائِبِ أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيَّبِ تُزَفْزِفِينَ ::: تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہے اے ام السائب ، یا (فرمایا)اُم المسیب ، تم کانپ رہی ہو ،               
صحابیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی""" الْحُمَّى لاَ بَارَكَ اللَّهُ فِيهَا::: بخار ، اللہ اِس میں برکت نہ دے""" نے،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لاَ تَسُبِّى الْحُمَّى فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِى آدَمَ كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ  :::بخار کو بُرا مت کہو ، کیونکہ یہ آدم کی اولاد کی خطاؤں کو اس طرح لے جاتا ہے جِس طرح لوھار کی دھونکنی لوہے کے گند کو (اُڑا)لے جاتی ہے صحیح مُسلم/حدیث/6735کتاب البِر والصِلۃ والادب/ باب14،
غور فرمایے ، محترم قارئین ، کہ جو کوئی تو  اللہ کی طرف سے ظاہر فرمائے گئے  اِس غیب پر إِیمان رکھتا ہے وہ کسی بیماری یا تکلیف کو برا نہیں سمجھے گا اور نہ ہی برا کہے گا ، بلکہ اُس کے ظاہری مادی نتیجے کے نقصانات سے بچاؤ کی کوشش کے ساتھ ساتھ اُس کے حقیقی غیبی فوائد کی طرف توجہ رکھتے ہوئے اُس کی تکلیف پر صبر کرے گا،اور صبر کے عظیم دینی دُنیاوی اور اُکروی فوائد حاصل کرنے والوں میں ہو گا ،
اللہ تبارک و تعالٰی ہم سب کو اور ہمارے سب کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کو معاملات اور کاموں کے  ظاہری مادی نتائج سے متاثر ہونے سے محفوظ رکھے اور حقیقی غیبی نتائج پر اِیمان رکھتے ہوئے اُس اِیمان کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
والسلام علیکم، طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت  : 13/09/1435ہجری ، بمطابق ، 11/07/2014 عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔