Saturday, August 2, 2014

::::::: قُران کی حفاظت ::: Security Of Quran :::::::

                             ::::::: قُران کی حفاظت :::::::
اعوذ باللہ السمیعُ العیلم مِن الشِّیطٰنِ الرَّجیم و مِن ھَمزہِ و نَفخِہِ و نَفثہ،
قران کریم دوسری آسمانی کتابوں سے سب سے بلند اور ممتاز اس سبب سے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رکھنے کا خود ذمہ لیا ہے ، اور اس کا وعدہ فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ((((( إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ))))) سورت الحجر/آیت9،
اللہ تعالیٰ نے قران کو اس بات سے محفوظ فرما دیا کہ اس میں کچھ بڑھایا جاسکے یا کچھ کم کیا جا سکے ، اور اگر اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے قُران کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا تو اس میں بھی تحریف اور تبدیلی کا وہی حال ہوتا جو سابقہ آسمانی کتابوں کا ہوا ، کیونکہ سابقہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے انہی لوگوں کو سونپی تھی جن کی طرف اللہ نے وہ کتابیں اتاری تھیں ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ((((( إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَابِ اللّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَاء فَلاَ تَخْشَوُاْ النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ::: بے شک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی ہے جس کے ذریعے اللہ پر ایمان لانے والے انبیاء ، اہل اللہ اور عُلماءیہودیوں کے لیے فیصلے کیا کرتے تھے ، کیونکہ انہیں اللہ کی کتاب کی حفاظت کا حُکم دیا گیا تھا ، اور وہ اس پر (اقرار کرتے ہوئے)گواہ تھے ، لہذا (اے یہودیو)تم لوگ ، لوگوں سے مت ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت مت کرو، اور جو اللہ کے نازل کردہ (احکام اور ہدایات)کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے تو وہ کافر ہیں))))) سورت المائدة/  آیت 44 ،
قران الکریم کو اس عظیم خوبی کے ذریعے دوسری آسمانی کتابوں سے بُلند اور ممتاز کرنے کی حکمت  یہ نظر آتی ہے کہ یہ آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے ، آسمانی کتابوں کے سلسلے کو ختم کرنے والی ہے ،
لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے ایسے اسباب تیار اور مہیا فرمائے جو اس کے علاوہ کسی بھی اور کتاب کے لیے میسر نہیں تھے اور نہ ہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں ، ان شاء اللہ ،
::::::: اِن اسباب میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کا قران کولکھا ہوا جمع کرنا تھا ،
::::::: اور اِن اسباب میں سے یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تیسرے بلا فصل خلیفہ عُثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ ُ  کا تمام صحابہ  رضی اللہ عنہم کی رضا مندی سے قُران کو ایک کتاب کی صورت میں ثابت شدہ قرأٔتوں کے مطابق جمع فرمایا ، اور پھر اس کے نسخے لکھوا کر تمام ملکوں میں روانہ فرمائے ،اور اس کے علاوہ  قُران کے جو بھی لکھے ہوئے حصے تھے انہوں جلوایا دیا تا کہ کسی پریشانی اور اختلاف کا باعث نہ بنیں ،
::::::: اور  اِن اسباب میں سے سب سے بڑا اور معجزاتی سبب قُران کو زبانی یاد کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس محیر العقول کام کو  مسلمانوں کے لیے اس قدر آسان فرما دیا کہ تاریخ میں کسی قوم کا کسی کلام کی اتنی بڑی تعداد کو حرف بہ حرف تو کیا ایک ایک زیر و زبر کی مطابقت کے ساتھ یاد کرنے کی کوئی مثال نہیں  ۔ بلکہ ایسی کسی کوشش کی بھی کوئی مثال نہیں ، بلکہ ایسا کرنے کی سوچ کی بھی کوئی مثال نہیں ،
پس قُران کریم کو یاد کرنے والوں میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ، چھوٹے بڑے ، جوان بوڑھے ، عورت مرد ، عربی عجمی ، کالے گورے ، پیلے سُرخ  ہر قسم کے مسلمان اس کو یاد کرتے ہیں ،  کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اس کلام کو سب کے لیے آسان فرما دیا ہے اور اس کی خبر بھی فرمائی ہے ((((( وَلَقَدْ يَسَّرنَا الْقُرآنَ لِلذِّكرِ فَهَل مِن مُدَّكِرٍ ::: اور یقیناً ہم نے قران کو آسان فرما دیا ہے تو ہے کوئی نصحیت پانے اور یاد کرنے والا ))))) سورت  القمر/ آیت17.
::::::: قران کریم کی حفاظت کے اس معجزاتی سبب اور طریقے کے ذریعے ہمیں بہت سے گواہ اور ثبوت ملتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرما چکا ہے ، یہ واقعہ ہی دیکھیے :::
ایک دفعہ ایک یہودی مامون الرشید کے دربار میں حاضر ہوا اور مامون کے سامنے کچھ گفتگو کی جو بہت ہی بہترین انداز میں تھی ، اس کے انداز کلام اور علم کو دیکھ کر مامون بہت متاثر ہوا اور اس کو  اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اسے مال و عطاء کی رغبت بھی دلائی ، لیکن وہ یہودی یہ کہہ کر چلا گیا کہ """میرے باپ دادا کا دین  ہی میرا دین ہے """ ، پھر اگلے سال یہی یہودی مامون الرشید کے دربار میں آیا اور فقہ کے بارے میں بہت اچھے انداز میں بات کی ، مامون نے اس کی باتیں سن کر کہا """ کیا تُم وہی نہیں ہو ؟ """ یعنی وہی جسے میں نے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور اُس نےقبول نہیں کی تھی ،
اس نے کہا """ جی ہاں میں وہی ہوں """
مامون نے کہا """ تو پھر(میری دعوت چھوڑ کر اس کے بعد )تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا بنا ؟ """
اُس نے کہا """ میں آپ کے پاس سے نکلا تو میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں ان ادیان (تینوں دین) کا امتحان کروں ، آپ جانتے ہیں کہ میری لکھائی بہت اچھی ہے ، لہذا میں نے یہاں سے جانے کے بعد سب سے پہلے انجیل کے تین نسخے لکھے اور اُن میں کمی اور زیادتی کی ، پھر  انہیں لے کر  گرجا میں گیا اور سب نسخے فروخت کر دیے ،
اس کے بعد میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کی اور پھر انہیں لے کر بیعۃ (یہودیوں کی عبادت گاہ) میں گیا اور وہ سب نسخے فروخت کر دیے ،
اس کے بعد میں نے قران کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کی اور پھر اسے کچھ مسلمانوں کے پاس لے گیا تو انہوں نے ان نسخوں کو لےکر دیکھنا اور پڑھنا شروع کیا اور تھوڑی بعد انہوں نے وہ نسخے خریدنے کی بجائے مجھے مارنے کے لیے پکڑ لیا ، کیونکہ انہوں نے ان نسخوں میں میری طرف سے کی گئی کمی اور زیادتی کو فوراً ہی پکڑ لیا تھا ، اس طرح مجھ پر یہ واضح ہو گیا کہ یہی کتاب محفوظ ہے اور یہی اس دِین کی حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے  ، لہذا میں نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمان ہو گیا ،
یہ واقعہ اور اس طرح کے کئی واقعات قران حکیم کے محفوظ رہنے  کی ایک مستقل حسی دلیل ہیں جن سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، پس جو کوئی قران کریم میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی واقع ہو جانے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہی نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر جُھوٹ  باندھنے والا ہے اور اللہ کے فرمان کا منکر یعنی کافر ہے ،
اللہ کے آخری اور حتمی دِین کی دو میں ایک بنیادی اساس قران کریم کی لفظی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے لیا اور اللہ تعالی سے بڑھ کر اور کوئی سچا نہیں ، اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا نہیں ،
اسلام کے دشمنوں نے اپنے تمام وسائل استعمال کرنے کے بعد یہ جان لیا کہ اللہ کی اس کتاب میں وہ لوگ کسی طرح کی لفظی تبدیلی نہیں کر سکتے نہ کوئی کمی کر کے اور نہ کوئی زیادتی کر کے ، تو انہوں نے قران کے فہم میں معنوی تحریف کا راستہ اپنایا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ، اور ہیں ،
قران کو سمجھنے کے لیے اپنی اپنی عقل اور رائے ، منطق اور فلسفہ کا استعمال رائج کیا گیا ،ا ور ان کا سب سے پہلا زہریلا پھل یہ نکلا کہ قران کو سمجھنے کا سب سے پہلا ، بنیادی ترین اور درست ترین  ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ،فعلی اور تقریری سُنّت مبارکہ کو قران کے مقابل بنایا گیا اوراُمت مسلمہ کے  ہر کس  و ناکس کو بظاہر قران کا محب اور قران پر عمل پیرا ہونے کےزعم میں مبتلا کرنے کی کوشش کے ذریعے یہ کج روی سُجھائی  جانےلگی کہ وہ اپنی سوچ و فکر کی بنا پر سُنّت کو رد یا قبول کرتا رہے ،  
پس ہم ایسے کئی لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قران  کریم میں مذکور اللہ تبارک و تعالی کے  الفاظ مبارک میں سے چند ایک کے بھی لفظی و لغوی معانی نہیں جانتے چہ جائیکہ ان کے احکام اور اللہ کی مراد جانتے ہوں ، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کو رد کرتے ہیں ، اور قران کی معنوی تحریف کرتے ہیں ،  لیکن  یہ بھول جاتے ہیں ((((( إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران)ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں))))) میں کیے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہر دور میں اپنے اِیمان والے بندوں میں سے  ایسے بندے ظاہر فرماتا رہتا ہے جو اللہ کے کلام کی اس معنوی تحریف کے دجل کو بھی ظاہر کر کے باطل کرتے رہتے ہیں ، اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس آخری کتاب اور اس میں موجود اپنے احکامات کو محفوظ رکھے گا ،
(((((يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ::: چاہتے ہیں کہ اپنے منہوں (کی پھونکیں ) سے اللہ کی روشنی بُجھا دیں اور اللہ انکار کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنی روشنی مکمل کر کے ہی رہے گا بے شک کافر جتنا بھی نا خوش ہوں ))))) سورت التوبہ / آیت 32 ۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو کافروں کی ہر چال سے محفوظ رکھے اورہر شر سے محفوظ رکھے ۔
تاریخ کتابت : 09/021/1430 ہجری، بمطابق ، 06/10/2009 عیسوئی ۔
تاریخ تحدیث و تجدید : 05/10/1435 ہجری، بمطابق ، 01/08/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔