::: نو
مولود ، یعنی نئے پیدا ہونے والے بچے کے کانوں میں اذان اور اقامت کہا جانا خِلاف
سُنّت ہے :::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ
مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ
عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ
علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ
لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا:::شروع اللہ کے
نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے
ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس
کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی
میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
عنوان میں مذکور موضوع پر بات کرنے سے
پہلے ہر ایک محترم قاری سے گذارش ہے کہ ، کوئی جواب ، کوئی کمنٹ ، کوئی ریمارکس
ارسال کرنے سے پہلے ، اِس مضمون کو بہت توجہ ، تحمل اور تدبر سے مطالعہ فرمایے ،
اور اگر آپ کے پاس موضوع سے متلعق کوئی ایسی بات ہو جس کا جواب اِس مضمون میں نہ
ہو تو اسے سامنے لایے ، اِن شاء اللہ اِس طرح زیادہ خیر ہو گی ،آپ کے تعاون پر میں آپ کا پیشگی
شکریہ ادا کرتا ہوں ، اور دعا گو ہوں کہ جزاک اللہ خیراًٍ ،
ہمارے ہاں یہ بات بہت معروف
ہے ، کہ جب کسی مُسلمان کے ہاں بچہ پیدا ہو ، تو اُس بچے کے دائیں کان میں اذان
کہی جانی چاہیے ، اور بائیں کان میں اقامت ،
اور افسوس ، صد افسوس کہ اِس کام کو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت سمجھا جاتا ہے ، جبکہ یہ کام نہ تو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے ثابت ہیں ،ا ور نہ ہی اُن کے صحابہ رضی اللہ
عنہم اجمعین سے ، پھر بھی کچھ غیر ثابت شدہ روایات کی بِناء پر ، اُن روایات کی
تحقیق جانے بغیر ، اِن کاموں کو سُنّت مانا جاتا ہے ، اور لوگوں کو بھی بطور سُنّت
اِس پر عمل کروایا جاتا ہے ،
اور کچھ فلسفے بھی بیان کیے
جاتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ""" اس میں ایک سبق یہ ہے کہ
اِنسان کی زندگی کی طوالت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کا
تھوڑا سا وقت ہے""" ،
اور کہا جاتا ہے کہ"""
اذان کی آواز سے ، اذان کے الفاظ سن کر
شیطان دُور بھاگتا ہے ، لہذا بچہ شیطان کے شر اور وساوس سے بچ جاتا ہے """،
اور کہا جاتا ہے کہ """
اِس کی حِکمت یہ ہے کہ بچہ اپنی زندگی میں پہلی آواز اللہ کے نام کی سنتا ہے ، اور اللہ کا ذِکر
سنتا ہے ، اپنے خالق کو پہچانتا ہے""" ، وغیرہ
وغیرہ ،
اِن شاء اللہ ،اِن فلسفوں ،
یا ، خود فِکری کی بنا پر کہی گئی نام نہاد خود ساختہ حِکمتوں کے بارے میں آخر میں
کچھ گذارشات پھر کسی وقت ، فی الحال اِن
کے جواب میں اتنا ہی کہتا ہوں کہ کسی معاملے ، کسی بات ، کسی کام کے بارے میں،
یا اُس کی بِناء پر کوئی فلسفہ، یا کوئی
حِکمت ایجاد کرنے اور اُسے ماننے سے یقینی
طور پر یہ جاننا چاہیے کہ اُس معاملے ، اُس بات یا اُس کام کی اصلیت کیا ہے ؟؟؟
اُس کی حقیقت کیا ہے ؟؟؟
خاص طور پر جب وہ معاملہ ، وہ
بات ، یا وہ کام اللہ تبارک وتعالیٰ کے دِین سے متعلق سمجھا جاتا ہو تو پھر
تو اُس کے بارے میں یقین دہانی سے پہلے کوئی بھی فلسفہ ، یا حِکمت
قُبُول کرنا سوائے آخرت کے نُقصان کے اور کچھ نہیں اور بسا اوقات آخرت سے پہلے
دُنیا کے نقصانات بھی ہوجاتے ہیں ،
:::::: نو
مولود ، یعنی نئے پیدا ہونے والے بچے کے کانوں میں اذان اور اقامت کہے جانے کی روایات
، اور اُن کی تحقیق ::::::
::: (1) ::: ابی رافع رضی
اللہ عنہ ُکی روایت کے طور پر :::
(((رَأَيْتُ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ
بْنِ عَلِيٍّ بِالصَّلَاةِ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ::: جب
فاطمہ (رضی اللہ عنہا )نے حسن بن علی(رضی اللہ عنہما) کو پیدائش دی تو میں نےرسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اُنہوں نے حسن کے کان میں اذان کہی ، نماز کے
ساتھ (یعنی اقامت بھی کہی)۔)))،
یہ روایت کئی کتابوں میں مروی
ہے ،اِن شاء اللہ ، آپ کی خدمت میں کتابوں
کے حوالہ جات ذِکر کرتا ہوں ، اورپھر اِس روایت کی سند کا حال بھی ،
سُنن ابو داؤد /اول
کتاب الادب/باب115 في الصبيّ يُولد فَيُوَذَّنُ في
أُذُنِه،
سُنن الترمذی /حدیث/1436کتاب
الاضاحی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم/باب17الْأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ،
سُنن البیہقی الکبریٰ/حدیث/19781کتاب
الضحایا/باب52،
الآداب للبیہقی /حدیث/374باب الْمَوْلُودِ
يُؤَذَّنُ فِي أُذُنِهِ،
شعب الاِیمان، البیہقی/حدیث/8618السِتُونَ مِن
شُعب الإيمان ،
المستدرک للحاکم /کتاب
معرفۃ الصحابہ رضی اللہ عنہم/باب 23،
الدُعاء للطبرانی /حدیث/944باب
الْقَوْلِ عِنْدَ الْمَوْلُودِ إِذَا وُلِدَ،
المعجم الکبیر للطبرانی /حدیث/931باب
الالف/ عُبید اللہ بن ابی رافع ، عن ابیہ،اور
، باب الحاء/پہلا باب،
مُسند الروایانی/حدیث
/682حدیث ابی رافع کی پہلی روایت،
مُسند احمد/حدیث
/23869حدیث ابی رافع میں 14ویں روایت،
مُصنف عبدالرزاق/حدیث
/7986کتاب العقیقہ/باب4،
اِن سب روایات کی سند میں
"""عاصم بن عبید اللہ
""" نامی راوی ایسا ہے جسے أئمہ محدثین رحمہم اللہ نے ضعیف ، یعنی
، نا قابل اعتماد قرار دے رکھا ،
امیر المؤمنین فی الحدیث ،
إِمام محمد بن إِسماعیل البخاری رحمہُ اللہ نے اس کے بارے میں کہا """
مُنکر الحدیث ،،، یعنی اِس کی روایت کردہ حدیث منکر ہوتی ہے"""،تاریخ
الکبیر /ترجمہ رقم 3088،
إِمام المدینہ ، إِمام مالک نےأنس
رحمہُ اللہ نے """ضعیف ، یعنی ، ناقابل اعتماد """قرار
دِیا ، دیکھیےإِمام ابن عدی الجرجانی رحمہُ اللہ کی"""الکامل فی الضعفاء
الرجال/ترجمہ رقم 1381"""، اور ، إِمام شمس الدِین محمد بن احمد الذھبی رحمہُ
اللہ کی """تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام/ترجمہ
رقم125 """،
علامہ مغلطاي بن قليج البكجري
الحنفي رحمہُ اللہ نے """إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال/ترجمہ
رقم2628"""، میں لکھا کہ """مُضطرَب
الحَديث تُنكَر عليه أحاديث::: یعنی (إِمام) ابن القطان(
رحمہُ اللہ )نے کہا کہ اِس کی روایات میں اضطراب ہوتا ہے ، اِس کی روایات کا
اِنکار کیا جاتا ہے(اور کیا جائے گا)"""،
إِمام
محمد ابن سعد نے الطبقات الکبریٰ /الطبقۃ الرابعۃ من
التابعین من اھل المدینہ/ترجمہ رقم 102
میں کہا """ لَا يُحْتَجُّ
بِهِ::: اِس کی بات کو حُجت نہیں بنایا جاسکتا """،
إِمام ابن حبان رحمہُ اللہ نے
کہا """فَاحِشُ الْخَطَأِ:::بےہودہ قسم کی غلطیاں کرنے والا """،دیکھیے ، إِمام شمس الدِین محمد بن احمد الذھبی رحمہُ
اللہ کی """تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام/ترجمہ
رقم125 """،اور
إِمام ابن عدی الجرجانی رحمہُ اللہ کی"""الکامل
فی الضعفاء الرجال/ترجمہ رقم 1381"""،
اِن کے عِلاوہ إِمام احمد ابن
حنبل، إِمام النسائی، إِمام الدارقطنی ، إِمام شعبہ رحمہم اللہ جمعیاً نے بھی اِس
راوی کو """ضعیف ، یعنی ناقابل اعتماد """قرار دِیا
ہے ، مذکورہ بالا حوالہ جات میں ہی یہ بھی مذکور ہے ، خاص طور پر آخری مُقام میں ،
::: (2) ::: عبداللہ ابن عباس
رضی اللہ عنہما کی روایت کے طور پر :::
(((أَذَّنَ
في أُذُنِ الحسنِ بنِ عليّ يومَ وُلِدَ ، فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى
وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْيُسْرَى::: جِس دِن حسن بن علی (رضی
اللہ عنہ ُ ) پیدا ہوئے ، اُس دِن(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے )حسن(رضی
اللہ عنہ ُ) کے کان میں اذان کہی ،پس حسن (رضی اللہ عنہ ُ)کے دائیں کان میں اذان
کہی ، اور بائیں کان میں اقامت کہی)))
یہ روایت امام البیہقی رحمہُ
اللہ نے """ شعب الاِیمان/حدیث/8620السِتُونَ مِن شُعب الإيمان """ میں روایت کی ، اِس کی سند میں"""الحسن بن عَمرو (کہیں عُمر بھی لکھا جاتا ہے)بن السیف السدوسی """ نامی راوی کو
"""متروک، یعنی جِس کی روایت ترک کی
جاتی ہیں """ قرار دِیا گیا ہے ، اور ،امام ابن المدینی
رحمہُ اللہ ، اور امام بخاری رحمہُ اللہ
نے اسے""" جھوٹا"""
قرار دِیا ہے ،
اور دوسرے راوی """محمد بن یُونُس الکدیمی"""، کوجھوٹا
اور روایات گھڑنے والا قرار دِیا گیا ہے ، لہذا یہ
روایت موضوع یعنی خود ساختہ ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے إِمام الالبانی رحمہُ اللہ
کی سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعۃ /حدیث 6121،
::: (3) ::: حُسین بن علی رضی اللہ عنہما کی روایت کے طور پر :::
(((مَنْ وُلِدَ
لَهُ مَوْلُودٌ، فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَى، وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ
الْيُسْرَى، لَمْ يَضُرَّهُ أُمُّ الصِّبْيَانِ:::جِس
کے ہاں بچہ پیدا ہوا ، اور اُس نے اُس بچے کے دائیں کان میں اذان کہی ، اور بائیں
کان میں اقامت کہی ، تو اُس بچے کو آسیب نقصان نہیں پہنچا سکتا )))
یہ روایت درج ذیل کتب میں مروی
ہے :::
مُسند ابی یعلی الموصلی/حدیث/6747مُسند
الحُسین بن علی میں سے نویں روایت9
،
اِسی کے حوالے سے إِمام ابن
السُنّی نے """عمل الیوم واللیلۃ /حدیث 623،باب مَا يَعْمَلُ
بِالْوَلَدِ إِذَا وُلِدَ""" میں نقل
کیا ،
شعب الاِیمان/حدیث/8619السِتُونَ مِن
شُعب الإيمان ، اِن کی روایت کا آخری لفظ """
الصِّبْيَانِ""" کی بجائے """
الصِّبْيَات"""ہے،
امالی ابن بشران /حدیث
488، الْمَجْلِسُ
التَّاسِعُ وَالسِّتُّونَ وَالسِّتُّمِائَةِ فِي الْمُحَرَّمِ مِنَ السَّنَةِ میں سے آٹھویں روایت 8،
اِس روایت کا آخری حصہ """ لَمْ
يَضُرَّهُ أُمُّ الصِّبْيَانِ"""کی بجائے
"""نَفَعْتَ عِنْدَ لَقِيِّ الْحِسَابِ"""ہے،
اِن تمام تر روایات کی سند
میں دو ایسے مشترک راوی ہیں ، جن کی روایت قبول نہیں کی جا سکتی ، اور وہ ہیں :::
"""مروان بن سالم الغِفاری"""، اور """یحیی بن العلا ء(البُجلی) الرازی
"""، اور """"""،
اِن میں سے پہلے راوی"""مروان بن سالم الغِفاری""" کے بارے
میں ، اُس کی یہی روایت بیان کرنے کے بعدإِمام الھیثمی رحمہُ اللہ نے
"""مجمع الزوائد و منبع الفوائد/حدیث6206،کتاب الصید والذبائح/بابان فی المولود/
الأذان
في أذن المولود """ میں """متروک، یعنی جِس کی روایت ترک کی جاتی ہیں """
قرار دِیا ،
اور دُوسرے راوی"""یحیی بن العلا ء(البُجلی) الرازی"""کے
بارے میں إِمام احمد رحمہُ اللہ نے بتایا
کہ یہ جھوٹا تھا اور روایات بنایا کرتا تھا
،
محترم بھائیو ، اور بہنوں ،
یہ ہیں وہ روایات جن کی بنا پر نومولود ،
یعنی نئے پیدا ہونے والے بچے یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں
اقامت کہے جانے کی بدعت مروج کی گئی،
آپ کے سامنے یہ تحقیق پیش ہو
چکی ہے کہ یہ سب کی سب روایات ناقابل یقین اور ناقابل اعتماد ہیں ، لہذا، اِن روایات کو کسی طور کسی عقیدے یا عمل کی دلیل
نہیں بنایا جا سکتا ۔
کچھ لوگ اِن معلومات کا ، یا
اِن میں سے کچھ معلومات کا عِلم رکھنے کے باوجود ،اپنے مسلک ، مذھب ، گروہ ، جماعت
، یا پسندیدہ شخصیت کی تائید کرنے کے اندھیرے سے نکل نہیں پاتے اور کچھ اِس قِسم
کی تاویلات کرتے ہیں کہ """ گو کہ کچھ محدثین نے اِن روایت کو ضعیف
کہا ہے لیکن چونکہ اُمت کی اکثریت کا اِس کام پر تواتر سے عمل ہے لہذا اِن
روایات کی سند کا ضعیف ہونا اِن روایت کو
مسترد کرنے کی دلیل نہیں بنے گا """،
لا حول ولا قوۃ
الا باللہ ، کِس قدر بودی بات ہے ، محترم قارئین ، خود
ہی سوچیے کہ اگر اُمت میں کوئی نا دُرُست
بات منتشر ہو جائے اور اُمت کی اکثریت اُس پر عمل کرنے لگے اور مسلسل عمل کرنے لگے
، تو کیا اُمت کی غلط فہمی ، کم علمی، بھیڑ چال، اور لوگوں کے بارے میں بے جا حُسن
ظن اُس غلط بات کو دُرست بنا دیں گی ؟؟؟
اگر کوئی بد بخت ، اپنے طور
پر کوئی جھوٹ بنا کر اُس جھوٹ کو اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی ذات پاک سے منسوب کر دے اور امت
اُس کو مان لے ، اور اس پر مسلسل یعنی تواتر کے ساتھ عمل کرنے لگے تو کیا وہ جھوٹ
اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات مُبارک سے منسوب
ہو جائے گا ؟؟؟
محترم قارئین ،
بات کو مختصر رکھتے ہوئے ختم کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، یہ کام ، یعنی نو مولود کے کان میں اذان کہنا ، یا ایک
کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہنا، نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی
قولی یا عملی سُنّت مبارکہ سے ثابت نہیں ہوتا ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم سے
، اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ جب یہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
زندگی مبارک میں تھا ہی نہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہاں سے کرتے ، معاذ
اللہ وہ بدعات بنانے والے تو نہیں تھے ،
اور نہ ہی تابعین رحمہُم اللہ کی
زندگیوں میں اِس کا کوئی ثبوت میسر ہے ،
لہذا کِسی شک اور شبہے کے بغیر یہ
کام بدعت ہے ، اور ہر بِدعت گمراہی ہے ، اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ،
یہ کام کب سے اُمت میں ظاہر ہوا؟ اِس
کے بارے میں اِن شاء اللہ پھر کسی وقت معلومات مہیا کروں گا ،
جو معلومات مہیا کی گئی ہیں ، اور جن
روایات یا فلسفوں کی حقیقت بیان کر دی گئی ہے ، اگر کسی بھائی یا بہن کے پاس اُن کے علاوہ کوئی اور دلیل ہو ، یا اُن کے
دل و دماغ میں اِن کے علاوہ کوئی اور
اشکال ہو تو سامنے لائے ، اِن شاء اللہ اُن کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا ،
لیکن سب سے گذارش ہے کہ کسی شک میں
مبتلا ہونے سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ ہماری اس گفتگو میں زیر مطالعہ نومولود کے کانوں میں اذان اور اقامت وغیرہ
کہنے والے یہ کام قران و سنت کی کوئی صحیح دلیل نہیں رکھتے ، لہذا ان کا دِین
اسلام میں کوئی حصہ نہیں خواہ یہ بظاہر بالکل اسلامی کام نظرآتے ہیں ،
رہا معاملہ بزرگوں کا ان غیر ثابت شدہ باتوں کے بارے میں کچھ کہنے لکھنے
کا تو اس کے بارے گذارش یہ ہے کہ جو عقیدہ یا کام
اللہ کی کتاب ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے ثابت ہی نہیں ہوتا ، اس کے درستگی ، حِکمت یا فضائل کے بارے
میں کسی نے کیا کچھ ہی کیوں نہ کہا ہو ،اُس
کا کہا ہوا دِین میں کوئی دلیل نہیں ہوتا
،
ہمیں ہمت کر کے یہ کڑوی کسیلی لیکن سچی
باتیں قبول کر ہی لینا چاہیے کہ
""" جو
عبادت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے سرٹیفائیڈ نہ
ہو گی وہ ثواب کی حامل نہیں ہو سکتی ، اور سُنّت مُبارکہ کی پیروی ہی اہل سُنّت کا
مسلک ہے ،
اور ،اگر ہم کسی شخصیت کے بارے میں،
اس کے علم و فضل، زُھد و تقویٰ کے بارے
میں حسنء ظن رکھتے ہیں تو وہ حسنء ظن اس شخصیت کے کہے یا لکھے ہوئے کو دینی اعمال
کی درستگی کی دلیل نہیں بنا سکتا، کسی بزرگ کا کچھ کہنا ، لکھنا اس وقت زیر توجہ
ہو گا جب اُن کی دلیل
ثابت شدہ ہو گی،"""،
ان باتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے (((((بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ
::: ایسا دروازہ جِس دروازے کے اندر کی طرف تو رحمت ہو گی اور اس کے سامنے کی طرف
سے ظاہری طور پر عذاب ہو گا)))))سُورت الحدید(57)/آیت13،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا دِین اس
طرح سمجھنے ، ماننے ، اپنانے اور اس پر عمل پیرا رہنے کی توفیق دے جِس طرح اس نے
وہ دِین اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرمایا ، اور جِس طرح
ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت تک پہنچایا ، و السلام علیکم۔
طلبگار دُعاء ، آپ کا بھائی عادِل
سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 11/10/1432ہجری، بمُطابق،09/09/2011عیسوئی،
تاریخ تجدید و
تحدیث : 24/01/1436ہجری، بمُطابق،17/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::: ایک وضاحت :::
اِس مضمون کا موضوع علم الرجال ، اور جرح و تعدیل کے قوانین یا اصطلاحات
نہیں ، لیکن ، ایک بھائی کی طرف سے کیے گئےایک اعتراض کے جواب میں یہ معلومات شامل کر رہا ہوں کہ :::
ضعیف ، کا لفظی معنی کمزور ہوتا ہے ، میں نا
قابل اعتماد اِس لیے لکھتا ہوں کہ جس راوی کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اُس کی بات ،
اُس کی روایت قابل اعتماد نہیں ہوتی ، اگر کسی راوی کو کمزور قرار دینے کا سبب اُس
کے حفظ کی کمزوری ہو تو ہمیں أئمہ کرام کی جرح میں اِس کا ذِکر مل
جاتا ہے ، اور اگر ایسا کوئی سبب بیان نہ ہو تو اِس کا مفہوم یہی ہوتا ہے کہ وہ
شخص روایت بیان کرنے میں کمزور تھا ، لہذا اِس معاملے میں ناقابل اعتماد ہے ، اُس
کی روایات کو دلیل اور حُجت نہیں بنایا جا سکتا ، رہا معاملہ حافظے کی کمزوری کی
وجہ سے ضعیف یعنی ناقابل اعتماد قرار دیے جانے کا تو بھی ایسے راوی کی وہی روایات
قبول کی جاتی ہیں جو اُس نے سنتے وقت لکھ کر محفوظ کر لی ہوں ، یا تو اُس جن
روایات کی گواہی دیگر بااعتماد راویوں کی روایات سے ملتی ہو۔
تاریخ اضافہ :26/01/1436ہجری،بمُطابق،19/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 comments:
بہوں ڈاہڈے مسئلے کردے او
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، اساں ڈاہڈے مسئلے نیں کریندے پیتیجے ، تساں حداں چاں ٹیپیاں نیں ۔ مڑ واپس آونا اوکھا پے آ لگیندا اے ۔
Jazakallah khair bhai jaan
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔