::::::: قوتء مدافعت پر
مثبت سوچ کے اثرات :::::::
بِسْمِ
اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد
:::
لوز
ویل (Louisville)یونیورسٹی کنتاکی امریکہ کے ماہرین نے
اپنی کچھ تحقیقات کے پیش نظر، یہ ، نظریہ
پیش کیا کہ""" اِنسان جس طرح اپنی زندگی کے معاملات کے بارے میں سوچتا ہے ،
سوچنے کا وہ انداز سوچنے والے کے جسم کی
قوت مدافعت پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے ،تحقیقات کے مطابق یہ پتہ چلتا ہے کہ
اگر کوئی انسان اپنی زندگی کے معاملات کے بارے میں مثبت انداز میں سوچتا ہے تو یہ
مثبت سوچ اُس کے جسم کی قوت مدافعت میں
اضافہ کا سبب ہوتی ہے اور عمومای طور پر سوچنے والے کی صحت کی بہتری کا سبب ہوتی
ہے"""،
ماہرین
کا یہ بھی خیال ہے کہ """یہ نئی تحقیق انسان کی کئی جمسانی اور
نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں بہت مددگار ثابت ہونے والی چیز ہے ، کیونکہ اس تحقیق
سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مستقبل کے بارے میں اچھے اور مثبت انداز میں سوچنا حال کے
بارے میں اچھے شعور کا سبب بنتا ہے ، اور اس طرح سوچنا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے
اور جسم کے نطام مدافعت کو مضبوط کرنے کا سبب ہو تا ہے ،جو کہ مختلف قسم کے
جراثیموں کے خلاف کام کرنے میں مضبوطی کا سبب بنتا ہے ، اور جو لوگ اس کے برعکس
انداز میں سوچتے ہیں وہ صحت کے اعتبار سے مشکلوں کا جلد شکار ہو جاتے ہیں،
اور حال
کی مصیبتوں کے بارے میں مثبت انداز میں سوچنےسے انسان فالج ، ہارٹ فیلر اور دماغی
سکتے وغیرہ سے بچے رہنے کے اہم اسباب میں سے ہے ، کیونکہ سامنے آنے والی مشکلات
اور مستقبل کے بارے میں مثبت اور اچھےانداز میں سوچنے کا اثر دماغ کے سامنے والے
درمیانی حصے پر ہوتا ہے جو حصہ آنکھوں کے پیچھے گہرائی میں واقع ہوتا ہے ، اور یہ
حصہ متحرک ہوجاتا ہے ، اس کے متحرک ہونے سے جسم کے مدافعتی نظام میں قوت پیدا ہوتی
ہے اور مشکلات سے سامنا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اورانسان مُشکلات یا پریشانیوں سے
فرار اختیار کرتے ہوئے سگریٹ نوشی یا شراب نوشی یا کسی اور قسم کے نشہ کے استعمال
یا برائی والے کام کی طرف مائل نہیں ہوتا"""،
اسے ہم
دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کی نفیسات اُن کے جسموں پر
اثرانداز ہونے والی ایک بڑی قوت ہے ، نفیساتی دباؤ کے سبب پیدا ہونے والی جسمانی مشکلات، اور نفسیاتی دباؤوں
کےعلاج کے بارے میں ایک الگ مضمون میں
کافی معلومات فراہم کر چکا ہوں ،
یہاں
اِس مضمون میں ، میں مذکورہ بالا نئی تحقیق کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں کہ
بہت سی""" نئی """ تحقیقات کی طرح یہ تحقیق بھی
ہمارے لیے نئی نہیں ، معاملہ وہی ہے کہ ہم اپنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات سے نا واقف ہیں ، اور اگر کچھ جانتے بھی ہیں تو درست فہم
اور تدبر کے بغیر ، اس لیے ایسی بہت سی باتوں کو
"""نئی""" تحقیق مان لیتے ہیں جو باتیں ہمیں پہلے
بتائی جا چکی ہیں ،
جی ہاں
، اگر ہم اپنے اکیلے لا شریک خالق اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں
تدبر کریں ،ا ور اپنی عقل کو اللہ اور خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی مقرر کردہ حدود میں رکھتے ہوئے تدبر کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے قران کریم میں
اللہ جلّ و علا نے ہمیں کئی مقامات پر یہ سکھایا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کے پریشان
کرنے والےمعاملات کو بھی مثبت انداز میں دیکھیں اور مثبت انداز میں سمجھنے کی کوشش
کریں ،
کوئی
پریشانی ،کوئی مُصیبت اور کوئی دُکھ یا تکلیف اِیمان والے کی زندگی میں مننفی سوچ
کا سبب نہیں ہونا چاہیے ،اُسے کسی بھی حال میں اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہیں ہونا
چاہیے ، اُسے کسی بھی حال میں اللہ کی رحمت ملنے سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ، اللہ
کی رحمت سے مایوس ہونے والے کو اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں شمار نہیں کیا جاتا ،
اِس بات کا اعلان اللہ
سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے ایک نبی علیہ السلام کے قول کے طور پر اپنے فرامین
مبارکہ میں فرمایا ﴿ وَلَا
تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ
الْكَافِرُونَ:::اور اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا ، بے شک اللہ کی
رحمت سے صِرف کافر ہی مایوس ہوتے ہیں ﴾سورت یُوسُف(12)/آیت 87،
اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ایک اور نبی اپنے پہلے خلیل اِبراہیم علیہ
السلام کے قول کے طور پر اپنے کلام میں یہ بھی بتا دِیا کہ جو کوئی بھی اللہ کی
رحمت سے مایوس ہوتا ہے وہ راہ حق سے بھٹکا ہوا گمراہ ہوتا ہے ﴿ قَالَ
وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ:::اُس نے کہا ، اوراللہ کی رحمت سےتو صِرف (راہِ حق سے)گمراہ
لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں ﴾سورت الحَجر(15)/آیت 56،
اب
ذرا اللہ تبارک و تعالیٰ کی اِس پُکار پر غور فرمایے ، جو اُس نے اپنے دوسرے اور
آخری خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک سے ادا کروائی جِس میں
اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے بندوں کو پُکار کر حُکم فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ قُلْ يَا عِبَادِيَ
الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ
اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ::: (اے محمد)آپ(میری طرف سے) فرما دیجیے کہ
اے میرے وہ بندوجنہوں نے(گناہ کر کے)اپنی جانوں پر ظلم کیے، اللہ کی رحمت سے مایوس
نہ ہو، بے شک اللہ(چاہے تو) سارے ہی گناہ بخش دینے والا ہے، بے شک اللہ ہی بہت
زیادہ بخشش کرنے والا ، بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے ﴾سورت الزُمر(39)/آیت 53،
غور
فرمایے ، محترم قارئین، اللہ جلّ و عزّ نے اِن مذکورہ بالا فرامین مبارکہ میں ہمیں
یہ تعلیم دی ہے کہ اگر واقعتا اِیمان والے ہیں تو پھر ہمیں کسی بھی حال میں اللہ
کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ، حتیٰ کہ اگر کبھی کوئی گناہ کر بیٹھیں تو بھی
اُس گناہ سے اِس یقین کے ساتھ توبہ کر لیں کہ اللہ بخشش کرنے والا ہے ،
اب
سوچیے کہ یہ تعلیم برے ، سخت ، پریشان کن حالات و واقعات کی موجودگی میں بھی اچھی
اور مثبت سوچ رکھنے کی تعلیم ہی تو ہے، جب
اِس تعلیم کے مطابق ہم اپنے اکیلے لا شریک خالق و مالک اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس
ہی نہ ہوں تو اِن شاء اللہ کوئی بھی حال ہمارے لیے نفسیاتی کمزوری کا سبب نہیں بن
پائے گا ، اور جب ہمارا ذہن اوردِل دُکھوں ،پریشانیوں ، مُصیبتوں وغیرہ پر ڈرے گا
نہیں تو یقینا ً ہمارے جسم میں موجود
مدافعتی نظام مزید قوت پکڑے گا ، اور اِیمان کی سلامتی ، اور آخرت کی خیر کےساتھ
ساتھ ایک اضافی فائدے کے طور پر اللہ تعالیٰ ہمیں جمسانی کمزوریوں سے بھی محفوظ رکھے گا ،
اب
بتایے کہ لوگوں کی تحقیق کچھ نئی چیز نہیں، بلکہ اُن لوگوں کے اور ہمارے اور ساری
ہی مخلوق کے رب اللہ پاک نے ہمیں چودہ سو چالیس سال پہلے ہی یہ بتا دِیا تھا ،
لیکن ہماری کوتاہی کہ ہم اپنے رب کے کلام قران کریم میں اُسی رب کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق تدبر کرنے سے دُور ہی
دُور رہتے ہیں ، اور اللہ نے جن لوگوں کو ہمارے لیے مشعلء راہ بنایا ، اُن لوگوں
کی تعلیمات کو دقیانوسی ، پرانی باتیں کہہ
کر ، یا سمجھ کر ، یا تاریخی روایات کہہ کر یا سمجھ کر اُن باتوں سے بھاگتے ہیں ،اور
یقیناً یہ ایک بہت بڑی گمراہی ہے ، ایسی گمراہی جو شاید دُنیاوی فوائد میں سے تو
کچھ مل جانے کے اسباب میں سے ہو جاتی ہو لیکن آخرت کے خسارے کے علاوہ کچھ اور لانے
والی نہیں ،
اللہ
جلّ و علا ہم سب کو ، اور ہمارے ہر ایک مسلمان بھائی اور بہن کو یہ توفیق عطاء
فرمائے کہ ہم اللہ کے کلام پاک کو اللہ کی مقرر کردہ حُدُود میں رہتے ہوئے ، اللہ
کے مقرر کردہ اسباب و ذرائع کے مطابق سمجھ سکیں ، والسلام علیکم۔
پی ڈی
ایف ڈاون لوڈ لنک
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔