Friday, June 14, 2013

::::::: نفسیاتی امراض کے بنیادی اسباب میں سے أٔہم ترین سبب :::::::


:::::::  نفسیاتی امراض کے بنیادی اسباب میں سے أٔہم ترین سبب :::::::

بِسم اللہ ، والحَمدُللہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیَ مُحمدٍ  الَّذِی لا نَبیَّ بَعدَہ ُ،  ،و عَلیَ أَصحَابِہِ و أزواجِہِ وَ ذُریتہِ و مَن تَبعھُم بِإحسانٍ اِلیٰ یَومِ الدِّین، أما بعد،  

اِنسانوں کے نفسیاتی امراض کے بڑے اسباب میں سے بنیادی سبب اِن کے گناہ ہیں ، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ نفسیاتی امراض کا اصل بنیادی سبب گناہ ہی ہیں تو قطعا غلط نہ ہوگا ،

 ہو سکتا ہے اکثر قارئین کو یہ بات عجیب یا غلط سی لگے ، خاص طور پر ایسے لوگ جوصحیح  اسلامی تعلیمات سے دُور ہیں  اور اپنی یا دوسروں کی نفیساتی بیماریوں اور پریشانیوں کے دیگر مادی اسباب کی طرف توجہ کیے رکھتے ہیں اور انہی اسباب کے مطابق ان کے مادی علاج کی طرف لگے رہتے ہیں ، ایسے علاج جو عموماً ان نفسیاتی امراض سے نجات کا سبب تو نہیں بن پاتےلیکن کئی اور جسمانی امراض کا سبب ضرور بن جاتے ہیں ،

میں نے اپنی بات کے آغاز میں جو دعویٰ کیا کہ انسانوں کے نفسیاتی امراض کا سبب ان کے گناہ ہیں ، اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں کچھ اور باتیں بھی سمجھنا پڑیں گی ، جن میں سےسب سے پہلے یہ سمجھنا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں """ گُناہ """ کا کیا معنی و مفہوم ہے ؟

  گُناہ کی جائے پیدائش اور بڑھنے پُھولنے کا مُقام کونسا ہے ؟

::: جوابا ت :::

""" گناہ """ کا معنی  و مفہوم ہے """اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق اور خیر کے اِرادے کا قولی اور عملی انکار کرنا """،

گناہ  انسانی نفس کے اندر ہی پیدا ہوتا ہے اور اِسی کے اندر بڑھتا ہے ،پھر اِنسان کی سوچ اور خواھشات پر مسلط ہوتے ہوتے اِس کے اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے ، اِس کے ظاہر ہونے کے بعد یہ نا ممکنات میں سے ہے کہ وہ اُس انسان کے نفس اور  نفسیات پر اپنے اثرات نہ چھوڑے ،

یہ حق ہے کہ انسان کا ہر فعل اُس کے لیے کسی نہ کسی انجام کا سبب بنتا ہے ، اور گناہ کا انجام سوائے مصیبت کے اور کچھ نہیں  ہوتا ،

(((((وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ::: اور تُم لوگوں کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تو وہ تُم لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہوتی ہے ، اور اللہ (تو اپنی رحمت سے)بہت کچھ سے درگزر کرتا ہے)))))سُورت الشُوریٰ (42)/آیت30،

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے ، یا جو کچھ بھی اُس سے سرزد ہوتا ہے ، ہر ایک کام قولی ہو یا فعلی، خیروالا ہو یا شر والا ، یقیناً  اپنا کوئی نہ کوئی اثر، کوئی نہ کوئی نتیجہ اُس انسان کی شخصیت پر ضرور مرتب کر تا ہے ، ایسا اثر ایسا نتیجہ جو اُس انسان کی شخصیت کی بناوٹ پر براہ  راست اثر انداز ہوتا ہے ، اور گناہ سے متاثر اسی شخصیت کے مطابق اس انسان کا نفس اور نفسیات پلتے بڑھتے ہیں ، اور اس انسان کی عادات اور اس کا مزاج  بھی پھر اسی کے مطابق بنتے چلے جاتے ہیں ،

ایک گناہ سے آغاز ہو کر نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ اس انسان کا مزاج  گناہوں کی طرف مائل رہنے والا بن جاتا ہے ،گناہ کرنا اس کی سرشت میں شامل ہو جاتا ہے،اور گناہ کرتے رہنا اس کی عادت بن جاتا ہے ، اور عادت ایسی حرکات کو کہا جاتا ہے جن کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ان عادات کا شکارعجیب سی صورتحال میں مبتلا رہتا ہے ، اور جب کسی کی کوئی عادت بہت پکی ہو چکی ہو تو بسا اوقات وہ لاشعوری طور پر ہی اس کی تکمیل میں مشغول ہو جاتا ہے ، اور یوں اُس کی زندگی میں گناہوں کی کثرت ہوتی جاتی ہے ،

گناہ ایسی چیز ہے کہ اس کی جتنی کثرت ہوتی جاتی ہے یہ اپنے کرنے والے انسان کو  اسی قدرنیکی اور حق سے دورلیے جاتی ہے ، اُس انسان کے دِل و دِماغ پر ایک سیاہ اندھیرے غلاف کی طرح چھا جاتی ہے جس کے پار سے نیکی کی روشنی نہیں آپاتی ،

اس انسان کے دِل و دِماغ پر ایسی تاریک دُھند  بن  کر لپٹ جاتی ہے جس کے پار سے وہ  حق کی طرف دیکھ بھی نہیں پاتا  ،

اُس کا دِل سیاہ ہو جاتا ہے ، حق اور ہدایت کی طرف سے پِھر جاتا ہے ، حق بات سے اُسے عناد سا ہو جاتا ہے ، کہ اگر کہیں سے اس کی نظر میں آجائے یا کان میں پڑ جائے تو اسے اپنی سانسیں رکتی سی محسوس ہوتی ہیں ، اور حق بات کرنے والے اس کے لیے حقیر ہوتے ہیں ، جن کا مذاق اُڑانا اور جن کی تذلیل کرنا وہ اپنافرض سمجھنے لگتا ہے ،

پس  جب کسی کا دِل و دِماغ اس کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے تو اُس کی طبعیت حق بیزار ہو جاتی ہے اور طبعیی  طورپر وہ حق شناسی اور حق کے مطابق اچھے نیک عمل کرنے سے دُور ہی دُور ہوتا چلا جاتا ہے ،وہ حق شناسی جو  حقیقی سکون کا ذریعہ ہے اُس تک رسائی کی سوچ بھی اِس انسان کے دِل و دِماغ پر چڑھے ہوئے  سیاہ  غِلاف اور ان پر چھائی ہوئی تاریک دھند میں سے گذر نہیں پاتی ، اور وہ انسان حق سے مکمل طور پر منحرف ہو جاتا ہے ، یہ انحراف ہی اس کے نفس میں نامعلوم قسم کے اضطراب کا سبب ہوتا ہے جس میں تلاطم مختلف قسم کے """نفسیاتی امراض """، اور  ""' نفسیاتی دباوؤں """ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ،

میں نے یہ سب باتیں کسی خام خیالی ، یا ذاتی سوچ وفِکر  کی بنا پر نہیں کی ہیں، اور نہ ہی یہ کوئی فلسفیانہ مُو شگافیاں ہیں ، بلکہ یہ باتیں  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین کی روشنی میں کہی گئی ہیں ،

اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان فرامین پر غور کیجیے ، تدبر فرمایے تو اِن شاء اللہ اِن سب باتوں کے ثبوت سجھائی دے جائیں گے ، کہ انسانوں کے اپنے اعمال ہی ان کے دِلوں کو راہ حق سے دُور کرنے کا سبب ہیں ، اور یہی سبب اُنہیں  بے سکونی اور نفسیاتی امراض کا شِکار بناتا ہے ،

((((( كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ  ::: ہر گِز نہیں ، بلکہ ، ان کے اپنے ہی کاموں کے نتیجے میں ان کے دِلوں پر سیاہی چڑھ چکی ہے)))))سُورت المطففین(83) /آیت14 ،

اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس فرمان مُبارک کی تفسیر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اپنے بندوں کے دِلوں پر واقع ہونے والی اس تبدیلی کی خبر اِن الفاظ میں  کروائی کہ :::

(((((إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِى قَلْبِهِ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِى ذَكَرَهُ اللَّهُ فِى كِتَابِهِ ((((( كَلا ّ  بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ))))) :::جب کوئی اِیمان والا بندہ گناہ کرتا ہے تو(وہ گناہ ) اُس کے دِل پر  کالا نکتہ ہوجاتا ہے، اور اگر وہ بندہ توبہ کر لے، اور گناہ سے ہٹ جائے ، اور بخشش طلب کرلے، تو   اُس کا دِل صاف ہوجاتا ہے، اور اگر وہ گناہوں میں اضافہ کرتا ہے تو (دِل پر)سیاہی بھی بڑھتی جاتی ہے، اور یہی ہے وہ ’’’ ران‘‘‘ جس کا ذِکر اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے(کہ) ’’’ ہر گِز نہیں ، بلکہ ، ان کے اپنے ہی کاموں کے نتیجے میں ان کے دِلوں پر سیاہی چڑھ چکی ہے ‘‘‘ )))))سُنن ابن ماجہ/ کتاب الزُھد/باب 29 ذِکر الذنوب،إمام البانی رحمہُ اللہ نے ’’’حَسن‘‘‘ قرار دِیا ،

اپنے ہی گناہوں کی وجہ سے جن لوگوں کے دل پر سیاہی چڑھ جاتی ہے وہ لوگ راہ ء حق سے پھر جاتے ہیں ، باطل اور گناہوں کی طرف مائل رہتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ بھی ان ہی کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دِلوں کو گناہوں کی طرف ہی پھیر دیتا ہے ، اور گناہوں پر اصرار کی وجہ سے پھر ان کے لیے ہدایت کے دروازے بند کر دیتا ہے ،  

((((( فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ  ::: اور جب وہ لوگ (راہ حق سے ، انکارء حق کی طرف ) پِھر گئے تو اللہ نے  ان کے دِلوں کو(ہی)پھیر دیا، اور اللہ(پھر اس حال تک جا پہنچنے والے) گناہ گاروں کو ہدایت نہیں دیتا)))))سُورت الصف(61) /آیت 5،

دِل پھر جانے کے بعد ، حق سے اِنکار ، جو مسلمانوں میں تو عموماً فعلی ہوتا ہے کہ ز ُبان سے تو انکار نہیں کرتے لیکن کام اس کے خِلاف کرتے ہیں ، اور یہی فعلی انکار ہے ، تو اُن کے اِنکار کی ہی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُن کے نفوس پر مہریں ثبت کر دیتا ہے،

(((((بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ ::: بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کے دِلوں پر اُن کے اِنکار کی وجہ سے مہر لگا دیتا ہے))))) سُورت  النساء(4)/آیت 155،

جب دِلوں پر حق سے اِنکار کی وجہ سے ،   گناہوں کی وجہ سے مہریں لگ جاتی ہیں ، تو اِنکار کرنے والوں پر ایسی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں  جن کی بنا پر وہ  حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتے ہیں ، اور وہ  لوگ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں کہ اُن ظاہر و باطن میں کہیں سُکون نہیں رہتا ، ہمیشہ بے سکونی اور اضطراب کی حالت میں رہتے ہیں

((((( وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ  :::اور ہم اُن کے دِلوں اور اُن کی نظروں کو پلٹادیں گے(کہ اُنہیں کہیں سُکون و قرار نہیں ہوپائے گا )جس طرح یہ پہلی ہی دفعہ میں (ہماری آیات اور احکام پر )اِیمان نہیں لائے ، ہم بھی انہیں ان کی سرکشی میں حیراں و سرگرداں چھوڑ دیں گے  ))))) سُورت  الانعام(6)/آیت 110،

پھر اس حیرانگی اور بے سکونی میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اور اگر  اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا انکار کرنے والا گناہ گار  سچے اِیمان اور نیک اعمال کے سچے اِرادے کے ساتھ اللہ  کی طرف واپس نہیں پلٹتا  تو اس کا خاتمہ اِیمان پر ہونے کی اُمید نہیں ہوتی ،

(((((وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ::: اور وہ لوگ جن کے دِلوں میں (اللہ کی آیات اور احکامات  سے انکارکی)بیماری ہے تو وہ بیماری انہیں اُن کی گندگی میں بڑھاوے پر بڑھاوا دیتی ہے  اور وہ اس(عملی کُفر  کے)حال میں ہی مرتے ہیں)))))سُورت التوبہ(9)/آیت 125،

پس یہ بات ہمارے ، اور تماتر مخلوق کے  اکیلے ، لا شریک خالق اور مالک کی طرف سے بیان کردہ ہے کہ اُس کی نافرمانی ، اور دیگر گناہوں کا دُنیا میں نتیجہ گناہ گار کی بے سُکونی اور نفسیاتی امراض کی صورت میں بھی نکلتا ہے ،

اور اِس کا واحد علاج اللہ کی آیات اور احکام پر مکمل اِیمان لانے کے ساتھ ہی ساتھ اُن احکامات پر حتی الامکان  عمل پیرا ہونا ہے ،

نفسیاتی  امراض کے اسباب اور ان امراض کے  علاج کے بارے میں درج ذیل مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ فائدہ مند رہے گا :

::: نفسیاتی دباؤ  Anxiety سے نجات کا طریقہ  :::

http://bit.ly/1Tf7qrP

::: اِنسانی نفس میں  نفسیاتی دباؤ ، اِضطراب اور خوف ، اَسباب اور عِلاج  :::
https://bit.ly/2WtgzbE

::: اللہ کی عطاء پر راضی ہونا ہی اصل تونگری (غِناءَ)، اورحقیقی سُکون  ہے :::

http://bit.ly/18fm7nq

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر شر اور دُکھ سے محفوظ رکھے ،

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

طلبگارء دُعاء،

 آپ کا بھائی ،

 عادِل سُہیل ظفر،

تاریخ کتابت: 03-08-1434ہجری، بمُطابق،13-06-2013عیسوئی۔

تاریخ تجدید و تحدیث :27-11-1441ہجری، بمُطابق، 18-07-2020عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ (PDF

http://bit.ly/ZMzKdl 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 صوتی نُسخہ ( آڈیو فائل MP3)  :

https://archive.org/details/20200812_20200812_1857

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب :

https://youtu.be/r1_jIvjSfhQ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب ہی قارئین محترمین سے گذارش ہے کہ  میرے چینل میں شمولیت اختیار فرما لیجیے، اور نئی ویڈیوز کی خبر پانے ( یعنی نوٹیفیکیشن) میں شراکت بھی، جزاکم اللہ خیراً ، اور پیشگی شکریہ بھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔