Monday, June 17, 2013

:::::: استخارہ سُنّت میں اور کہانیوں میں :::::::

::::: استخارہ ، سُنّت میں اور کہانیوں میں :::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
چند دِن پہلے ایک بھائی کی طرف سے ارسال کی گئی اِستخارہ کے بارے میں ایک حدیث نظر سے گذری ، جِسے اُنہوں نے بعنوان ''' جو استخارہ کرے ''' ارسال کِیا تھا ،
 اللہ تعالیٰ بھائی عبداللہ حیدر کو بہترین اجر عطاء فرمائے کہ اُنہوں نے دُعاءِ اِستخارہ والی حدیث کا حوالہ درج فرما دِ یا ، اور اُس کا مکمل متن بھی نقل کر دِیا ، میں اِس مضمون میں اُس حدیث کو پھر مکمل متن یعنی ٹیکسٹ کے ساتھ نقل کر رہا ہوں اور یہ اِس لیے کہ اِس موضوع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم کو اِن شاء  اللہ تعالیٰ پوری طرح سے حاصل کر لیں اور میری اِس کوشش کو اللہ تعالیٰ اُن غلط فہمیوں اور غلط عقید ے کی اصلاح کا سبب بنا دے ، جو غلط فہمیاں اور غلط عقائد ''' استخارہ ''' کے بارے میں ہم مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں،
 بات کو پوری طرح سے واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم عربی لُغت میں اُن الفاظ کے معنیٰ اور مفہوم کو سمجھیں جواِس موضوع میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ،
لفظ ، ''' اِستخارۃ ''' ،باب ''' اِستَفعَلَ''' سے ہے ، اور اِس کا معنی ہوتا ہے ، اُس ایک مذکر نے کام ہونا طلب کیا ،اب اِس باب میں جِس بھی کِسی کام کا ذِکر کیا جائے گا ، اُس کا معنیٰ ویسا ہی ہو ، میں چند ایسے الفاظ مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں جو قران و سنّت میں استعمال ہوئے ہیں ،اور عام مسلمان بھی اُن کو جانتے ہیں ، خواہ اُن کا معنیٰ اور مفہوم نہ جانتے ہوں لیکن صوتی تعارف رکھتے ہی ہیں ، مثلاً ،
''' اِستَسقیٰ ''' ، عام طور پر نمازِ استسقاء میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ، اِس کا اصل مادہ ''' سقیٰ '''یعنی ''' اُس ایک مذکر نے پلایا''' ، اور جب اِس کا باب تبدیل کر کے استعمال ہوا تو اِس کا معنیٰ ہو گیا ''' اُس ایک مذکر نے پینا طلب کیا ''' نمازِ استسقاء کو یہ نام اِسی لیے دِیا گیا ہے کہ اِس نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے بذریعہ بارش پانی پلانا طلب کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے اُس عِلاقے میں جہاں یہ نماز پڑھی جا رہی ہے یا جہاں کے لیے نماز پڑہی جا رہی ہے وہاں اپنی اُس مخلوق کو پانی پلا دے جو پانی کی کمی کا شکار ہورہی ہے ،
''' اِستَغفَرَ ''' اصل مادہ ''' غَفَرَ ''' یعنی ''' اُس ایک مُذکر نے معاف کر دِیا ''' باب کی تبدیلی سے معنیٰ ہو گیا ''' اُس ایک مُذکر نے معافی طلب کی ''' اور ''' اِستغفَارٌ ''' اِس باب کے فعل کا اسم مصدر ہے ،
''' استفتیٰ ''' اصل مادہ ''' افتیٰ '''یعنی ''' اُس ایک مُذکر نے فتویٰ دِیا''' باب کی تبدیلی سے معنیٰ ہو گیا ''' اُس ایک مُذکر نے فتویٰ طلب کیا '''،
 ''' اِستَعمَلَ '''اصل مادہ ''' عَمِلَ ''' یعنی ''' اُس ایک مذکر نے کام کیا ''' باب کی تبدیلی سے معنیٰ ہو گیا ''' اُس ایک مُذکر نے کام کرنا طلب کِیا '''
یہ لغوی تفصیل (Gramatical Detail) لکھنے کا مقصد اُس غلط بات کو واضح کرنا ہے جو استخارہ کے بارے میں بہت ہی معروف ہے اور وہ یہ کہ ''' اِستخارۃ ''' کو ''' اِستشارۃ ''' کے معنیٰ اور مفہوم میں لیا جاتا ہے ، ''' اِستخارۃٌ ''' کا اصل ''' خِیَّرَ ''' اور مصدر ''' اِختیارٌ ''' یعنی اختیار کرنا ہے اور باب استفعل میں سے اِس کا مصدر ''' اِستِخارۃٌ ''' یعنی کِسی دوسرے سے اِختیار کرنے کی مانگ کرناہے ، اور ''' اِستشار ۃٌ''' کا معنی ''' کِسی سے مشورہ طلب کرنا ہے ،
'''اِستخارہ ''' اور ''' اِستشارہ ''' کے بارے میں اِسی غلط فہمی یا کم عِلمی کی بنیاد پر اصل حقیقت کھو دی گئی ہے ، اور وہ عقیدہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دُعاءِ اِستخارہ کے ذریعہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور اُن کے ذریعے اپنی ساری اُمت کو سکھا یا اُس صحیح صاف پاکیزہ عقیدے کو ہم تک پہنچنے نہیں دِیا گیا ،
دُعاء الاِستخارۃ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھُما کا کہنا ہے کہ:::
 """  کان رسول اللَّہِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَۃَ فی الْاُمُورِ کما یُعَلِّمُنَا السُّورَۃَ من الْقُرْآنِ یقول :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں تمام کاموں میں اِستخارہ کرنا ایسے سکھاتے تھے جیسے کہ قُرآن کی کوئی صُورت سیکھایا کرتے تھے ( اور فرمایا کرتے تھے )﴿اذا ہَمَّ احدکم بِالْامْرِ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ من غَیْرِ الْفَرِیضَۃِ ثُمَّ لِیَقُل اللَّہُمَ انی اَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْالُکَ من فَضْلِکَ الْعَظِیمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ ولا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ ولا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ اللہم ان کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہذا الْاَمْرَ خَیْرٌ لی فی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ اَمْرِی :::جب تُم میں سے کِسی کو ، کوئی کام کرنے کی سوچ (فِکر) آئے تو وہ فرض نماز کے عِلاوہ دو رکعت نماز پڑہے اور کہے اے اللہ میں تُجھ سے تیرے عِلم کے ذریعے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قُدرت کے ذریعے قُدرت طلب کرتا ہوں ، اور تجھ سے تیرا عظیم فضل مانگتا ہوں ، کیونکہ تُو ہی قُدرت رکھتا ہے اور میں نہیں ، اور تُو ہی سب کُچھ جانتا ہے اور میں نہیں اور تُو ہی غیب کو ہر طرح سے جاننے والا ہے ، اے اللہ تو جانتا ہے اگر یہ کام میرے لیئے میرے دِین اور معاش اور آخرت میں ﴾،
او قال ::: یا فرمایا ﴿عَاجِلِ اَمْرِی وَآجِلِہِ فَاقْدُرْہُ لی وَیَسِّرْہُ لی ثُمَّ بَارِکْ لی فیہ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہذا الْاَمْرَ شَرٌّ لی فی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ اَمْرِی ::: میرے دُنیا اور آخرت کے معاملے میں خیر والا ہے تو یہ کام میرے لیئے کر دے ، اور اے اللہ تُو جانتا ہے اگر یہ کام میرے لیئے دِین اور معاش اور آخرت میں
او قال ::: یا فرمایا ﴿فی عَاجِلِ اَمْرِی وَآجِلِہِ فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عنہ وَاقْدُرْ لی الْخَیْرَ حَیْثُ کان ثُمَّ اَرْضِنِی بہ :::میرے دُنیا اور آخرت کے معاملے میں شرّوالاہے تو اِس کام کو مجھ سے دُور کر دے اور مجھے اِس سے دُور کر دے اور جہاں کہیں بھی میرے لیئے خیر ہے وہ مجھے عطاء فرمادے اور پھر مجھے اُس پر راضی فرما دے
قال::: اور فرمایا﴿ وَیُسَمِّی حَاجَتَہُ ::: اِس کے بعد دُعا کرنے والا اپنے کام کا ذِکر کرے
صحیح البُخاری / حدیث 1109/ کتاب الکسوف / باب26،
اور دوسری روایت ، حدیث /6955 /کتاب التوحید / باب 10 ، میں اپنے کام کا ذِکر دُعا کے درمیان کیے جانے کا ذِکر ہے ، یعنی جہاں'''ھذا الامر یعنی یہ کام ''' کہاجاتا ہے وہاں براہ راست کام کا نام لیا جائے ،
اِس صحیح ثابت شدہ حدیث شریف میں جو باتیں انتہائی وضاحت سے سامنے آتی ہیں ، جِن کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے اِن پاکیزہ  اِلفاظ میں دِی ہے جو اِلفاظ اِس حدیث شریف  میں ہیں ، وہ باتیں یہ ہیں کہ :::
::::: (1)  اللہ تعالیٰ ہی عالم ءِ غیب ہے  ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے عِلاوہ کوئی بھی اور عالم الغیب نہیں ،  ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلمل قران کریم کی آیت کی طرح توجہ اور مشقت کےساتھ بار بار اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ دُعا سکھانے کی محنت کرنے کی بجائے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو دو رکعت اضافی نماز پڑہنے اور یہ دُعا یاد کرنے اوردُعاء  کرنے کی محنت کرنے اور کروانے کی  بجائے یہ فرما دیتے کہ مجھ سے آ کرپوچھ لیا کرو،(عِلم ءغیب کی تعریف ایک الگ مضمون میں بیان کی جا چکی ہے، اِس لیے اُس کے بارے میں  مزیدکوئی بات نہیں کی جا رہی)۔
 ::::: (2)کِسی بھی کام کے ہونے نہ ہونے ، کرنے نہ کرنے کی قُدرت صِرف اللہ کے پاس ہے ، اُس میں سے جتنی جِس کو چاہے اور جیسے چاہے اور جب چاہے عطاء فرما دے ، نہ چاہے تو کوئی ایک سانس بھی اندر یا باہر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ۔
::::: (3) بنیادی عقیدے میں یہ درستگی پیدا کرنے کے بعد یہ سمجھایا گیا کہ'''اِستخارہ '''کے ذریعے ''' اِستخارہ''' کرنے والا اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتا ہے ، مشورہ نہیں کرتا ، کہ میں دو یا زیادہ کاموں میں سے کونسا کام کروں، لہذا اِس یقین اور اِیمان کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہی عالمِ الغیب ہے اور وہ ہی قادر مطلق یعنی مکمل ترین قُدرت رکھنے والا اور تمام تر قُدرت کا مالک ہے ، اُس سےخیر طلب کرو ، اور پھر وہ کام کرنا شروع کر دو،
جی ہاں، اِس دُرست عقیدے کے ساتھ '''اِستخارہ ''' کرنے کے بعد کام کا آغاز کر دیا جائے گا ،
اِستخارہ کی تعلیم اور طریقے والی اِس صحیح ثابت شدہ  حدیث شریف کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان پر غور کیجیے ،اِرشاد  فرمایا ہے ﴿ اذا ہَمَّ احدکم بِالاَمرِ::: جب تُم میں سے کِسی کو ، کوئی کام کرنے کی سوچ (فِکر) آئے ،،،
اور غور کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ :::
 اِنسان کے لاشعور اور پھر شعورمیں کوئی بھی کام کرنے سے پہلے کچھ مراحل طے ہوتے ہیں جِن کے نتیجے میں کام ہوتا ہے ، پہلا مرحلہ عربی میں ''' خَطرٌ ''' یعنی''' گُمان ، شائبہ'''کہلاتا ہے ، اور اُس کا مقام لا شعور ہوتا ہے ، جب یہ گُمان کچھ طاقت ور ہوتا ہے تو ''' ھَمٌّ ''' یعنی''' سوچ یا فِکر'''بن جاتا ہے اور اِس کا مُقام شعور ہوتا ہے ، اور جب یہ''' سوچ یا فِکر '''کچھ طاقتور ہوتی ہے تو وہ ''' اِرادۃٌ، او ، نِیّۃٌ ''' یعنی ''' اِرادہ یا نیّت ''' بن جاتی ہے ، اور اِس کا مُقام دِل ہوتا ہے ،
 پھر اِس کے بعد یا تو یا اِس ''' اِرادے یا نیّت'''  کے مُطابق عمل واقع  ہوتا ہے یا اِس ''' اِرادے یا نیّت ''' کا خاتمہ ہو جاتا ہے ،اور اِن دونوں میں سے کسی ایک انجام تک پہنچنے تک وہ''' اِرادہ یا نیّت''' دِل میں ہی رہے رہتا ہے ،
قارئین کرام ، کسی بھی اِنسان کی نفسیات میں کسی بھی کام  کے آغاز سے انجام تک واقع ہونے والے مراحل کی اِس تفصیل کے بعد ، اب  پھر  سے اِستخارہ والی حدیث مُبارک کے پہلے حصے پر غور کیجیے ، کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے '''سوچ یا فِکر '''کے بعداُس کی پختگی کے لیے اُسے ''' اِرادے یا نیّت ''' میں تبدیل ہونے سے پہلے عقیدے کی اصلاح کے ساتھ اللہ سے خیر طلب کرنے کا طریقہ سِکھایا ، کہ خیر طلب کرو ، اگر اِنسانی فطرت کے مطابق اگلہ مرحلہ طے ہوگیا اور اِرادہ بن گیا ، تو ، کام کا آغاز کر دو،
ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ سے بھی ''' اِستخارہ ''' کی دُعا روایت ہوئی ہے اور اُس میں ﴿ اِذا ہَمَّ احدکم بِالاَمرِِ::: جب تُم میں سے کِسی کو ، کوئی کام کرنے کی سوچ (فِکر) آئے کی بجائے ﴿ اِذا اَرادَ احدکم بِالاَمرِِ ::: جب تُم میں سے کوئی کِسی کام کا اِرادہ کرے کے الفاظ ہیں ، جو میری بات کی مزید تائید کرتے ہیں ، کیونکہ ''' اِرادے اور نیّت '''کے بعد یا کام ہوتا ہے یا اِرادہ ترک کیا جاتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ''' اِستخارہ''' کو کام سے پہلے ایک مرحلہ بنا کر یہ سِکھایا کہ یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد کام کا آغاز کر دو ،
یہ جو باتیں سنی سنائی جاتی ہیں ، لکھی پڑہائی جاتی ہیں کہ '''اِستخارہ ''' کے بعد کِسی قِسم کے لال پیلے جھنڈے ، جھنڈیاں ، یا روشنیاں نظر آتی ہیں یا کوئی بُزرگ دکھائی دیتا ہے یا کوئی اشارہ ہوتا ہے ، یا کوئی اِلہام ہوتا ہے ، سب مَن گھڑت ہیں ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اور نہ ہی کِسی صحابی  رضی اللہ عنہ ُ کی طرف سے کہیں بھی ، حتیٰ کہ کِسی کمزور روایت میں بھی ایسی کوئی بات اِشارۃً بھی نہیں ملتی ، جو لوگ ایسی بے بنیاد خِلاف سُنّت باتوں کو مانتے اور اُن پر عمل کرتے ہیں اُن کو اگر اشارے ہوتے ہیں تو وہی کرتا ہے جو اُنہیں خِلافِ سُنّت کام کرواتا ہے ، اور ایسی بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر جو لوگ صحیح ثابت شدہ حدیث شریف پر اور حدیث شریف جمع کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہیں ، الزام لگاتے ہیں ، اُن سے بھی یہ سب کام وہی کروا رہا ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اُس مردود کے ہر شر سے محفوظ رکھے،
پھر دُہراتا ہوں کہ '''اِستخارہ'''کا مطلب ہے '''خیر طلب کرنا ''' جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِلفاظ مبارک میں بالکل واضح طور پر بیان کِیا گیا ہے ، کہ اگر اِس کام میں میرے لیے خیر ہے تو اسے میرے لیے آسان فرما دے اور اگر شر ہے تو اِسے مجھ سے ، اور مجھے اِس سے دور کردے ، پس ہمیں اِس بات پراِیمان رکھنا چاہیے کہ اللہ سے خیر طلب کرنے کے بعد جہاں تک اُس کام میں ہمارے لیے خیر ہوگی اللہ تعالیٰ وہاں تک اُسے کروا دے گا اور جہاں سے شر کا آغاز ہوگا اللہ تعالیٰ اُس کو ہم سے دُور فرما دے گا اور ہمارے لیے اُس کام کا جو بھی نتیجہ ہو گا وہ یقینا ہمارے لیے خیر ہی ہوگا ، خواہ وہ بظاہر ہمارے لیے تکلیف دہ ہی نظر آتا ہو ،
''' اِستخارہ '''کرنے کی لیے اُسکی تیاری کے بارے بھی کئی خاص ہدایات مفت بہم پہنچائی جاتی ہیں مثلاً ، نہانا چاہیے ، سفید لباس پہننا چاہیے ، '''اِستخارہ ''' رات کے وقت  کیا جاناچاہیے ، ''' اِستخارہ ''' کرتے ہوئے أگر بتیاں (خُوشبُو والی لکڑیاں وغیرہ)سُلگا لینی چاہیں ، یا استخارہ کیے جانے والے مُقام کے  اِرد گِرد خُوشبُوچھڑک لینا چاہیے ،،،، پھر ،،، سفید بستر پر سونا چاہیے اور وہ بھی سیدھی کروٹ پر ، منہ قبلہ کی طرف کرکے ، وغیرہ وغیرہ ،
یہ سب باتیں ویسی ہی ہیں جیسی کہ ''' اِستخارہ ''' کے نتیجے کے بارے میں ہیں ،
 یعنی بے بُنیاد اور مَن گھڑت ، پھر یہ بھی سننے اور پڑھنے میں میسر ہے کہ ، اگر ایک دفعہ ''' اِستخارہ ''' کرنے سے کوئی اِشارہ نہیں ہوتاتو بار بار کرو ، یہاں تک کہ اِشارہ ہو جائے ، کچھ نے اِشارہ نہ ہونے کی صورت میں ''' اِستخارہ ''' کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دِن بھی مقرر کر رکھے ہیں ، اور اگر اِشارہ نہ ہو تو سب مل کر کہتے ہیں ، کام مت کرو ، یہی اِشارہ ہے ، ولا حَولَ و لا قُوۃَ اِلَّا بِاللَّہِ ،
یہ ہی نتیجہ ہوتا ہے سُنّت کو ترک کر کے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی اپنی سوچ یا فلسفے کے مطابق طریقے اختیار کرنے کا کہ کہیں کوئی راہ مقرر نہیں ہو پاتی ،اور جب راہ ہی گم ہو تو منزل پہ کیا پہنچے گا راہی ﴿ فَانَّ اصدَق َ الحَدِیثِ کِتَابُ اللَّہِ ، وَخیرَ الھُدیٰ ھُدیٰ مْحمَّدٍ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، وَ شَرَّ الامُورِ مُحدَثَاتُھَا ، وَ کُلَّ مُحدَثَۃٍ بِدَعَۃٌ، و کُلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ ، وَ کُلَّ ضَلالۃٍ فِی النَّارِ :::بے شک سب سے زیادہ خیر والی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے خیر والی ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت ہے ، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ،
'''استخارہ ''' کے بارے میں جو مراسلہ بھیجا گیا تھا اُس میں ایک حدیث لکھی گئی تھی چلتے چلتے اُس پر بھی نظر کرتے چلیں،
 یہ حدیث امام الطبرانی نے روایت کی جِس کی سند میں عبدالقدوس ولد عبدالسلام ولد عبد القدوس اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ، اور وہ الحسن (البصری)سے کہ انس بن مالک کے بارے میں روایت ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کہا ﴿ مَا خَابَ مَن استَخَارَ ولا نَدمَ مَن استَشَارَ ولا عَال مَن اقتَصَدَ ::: جِس نے اِستخارہ کیا وہ خراب نہیں ہوتا ، اور جِس نے مشورہ کِیا وہ شرمندہ نہیں ہوتا ، اور جِس نے میانہ روی اختیار کی وہ مُفلس نہیں ہوتا المعجم الاوسط/حدیث 6627 ، المعجم الصغیر /980،
اِس حدیث کی صحت کے بارے میں، اِمام ابو بکر الھیثمی نے مجمع الزوائد /کتاب الادب /باب ١٣١ ما جاء فی المشاورۃ ،میں فرمایا ::: اِس روایت کی سند میں عبدالقدوس ولد عبدالسلام دونوں( باپ بیٹا ) ضعیف جِداً یعنی ( حدیث روایت کرنے کے معاملے میں )انتہائی کمزور (ناقابل حجت )ہیں ، اگر بفرض محال اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اِس میں اللہ سے مشورہ کرنے کے بات نہیں بلکہ صرف مشورہ کا ذِکر ہے ، اور اگر کوئی یہ سوچے کہ استخارہ کے ذِکر کے بعد مشورہ کرنے کا ذِکر ہے ، اور اِستخارہ صرف اللہ سے کیا جاتا ہے لہذا یہاں اللہ سے مشورہ کرنے کا ذِکر ہے ، جواب میں کہتا ہوں ، اِستخارہ یعنی خیر طلب کرنا کِسی او ر سےخیر طلب نہیں کی جا سکتی کیوں ؟ حدیث کی شرح میں جو بیان کیا گیا ہے اُسے دوبارہ پڑہیئے اِنشاء اللہ سمجھ آ جائے گا کہ یہ صرف اللہ کی قدرت میں ہے کہ وہ کِسی کو کِسی کام میں خیر عطاء فرمائے ، اور مشورہ لینے ، دینے کی قدرت اللہ نے اپنی مخلوق کو بھی دے رکھی ہے ، اگر یہاں ذِکر کیے گئے مشورہ کو اللہ سے مشورہ کرنا مانا جائے تو اللہ تعالیٰ سے کوئی بات یا کام منسوب کرنے کے لیے صاف واضح صحیح نص یعنی قرانی آیت یا صحیح حدیث چاہیے ہوتی ہے ، اپنی سوچ سمجھ عقل فلسفہ و منطق کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ سے کوئی بات منسوب نہیں کی جا سکتی ، اِسی کو جھوٹ باندھنا ، الزام لگانا کہا جاتا ہے ، اِس موضوع پر مزید بہت بات کی جا سکتی ہے لیکن اُس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جب یہ حدیث ہی درست اور قابل حجت نہیں تو پھر اِس کی شرح یا تفسیر کے لیے وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
اپنی دُعاؤں میں مجھے مت بھولیے گا ۔
والسلامُ علیکُم و رحمۃ ُ اللہ و برکاتُہ ۔عادِل سُہیل ظفر ۔ 2007/7/24۔
یہ مضمون سب سے پہلے مذکورہ بالا تاریخ پر پاک نیٹ پر نشر کیا گیا تھا ، جس کا لنک درج ذیل ہے:
------------------------------------------------------------------------------------------
اس نئے مضمون کے برقی نسخے کا لنک درج ذیل ہے :

1 comments:

Anas Nazar نے لکھا ہے کہ

جزاکم اللہ خیرا

اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں برکت فرمائیں!

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔