Thursday, August 29, 2013

::: صبر ::: انتہائی میٹھے اور لذیذ پھلوں والا کڑوا کام ::: Sabar

::::::: صبر :::  انتہائی میٹھے اور لذیذ پھلوں والا کڑوا کام :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
    اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ، ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
::::::: صبر کی تعریف  :::::::
::::::: صبر کا لغوی معنیٰ ہے :::::::   کسی خوشی ،  مُصیبت ، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو  قابو میں رکھنا :::::::
 ::::::: صبر کا شرعی مفہوم  ہے :::::::   کسی خوشی ، مُصیبت ، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو  قابو میں رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا   :::::::
::::::: صبر کی فضیلت  :::::::
 :::::::  صبر ایک ایسا عظیم عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام کی صِفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا  ((((( وَإِسمَاعِیلَ وَإِدرِیسَ وَذَا الکِفلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِینَ ::: اور اِسماعیل اور اِدریس اور ذاالکِفل سب ہی صبر کرنے والوں میں سے تھے ))))) سورت الانبیاء / آیت85 ،
 :::::::  اور اس صبرکو ایک نیک عمل قرار فرماتے ہوئے اُس کا پھل یہ بتایا  (((((وَأَدخَلنَاہُم فِی رَحمَتِنَا إِنَّہُم مِّنَ الصَّالِحِینَ ::: اور ہم نے (اُن کے صبر کرنے کیے نتیجے میں ) اُن سب کو اپنی رحمت میں داخل فرما لیا کہ وہ (یہ)نیک عمل کرنے والے تھے )))))  سورت الانبیاء / آیت 86 ،
 :::::::  اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اپنے آخری رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ بتایا کہ یہ عظیم کام بہت بُلند حوصلہ رسولوں  کی صِفات میں رہا ہے اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو   اُس کام   کا حکم فرمایا ((((( فَاصبِر کَمَا صَبَرَ أُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ ::: اور(اے مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)آپ بھی اُسی طرح صبر فرمایے جس طرح (آپ سے پہلے )حوصلہ مند رسولوں نے فرمایا ))))) سورت الاحقاف / آیت 35 (آخری آیت ) ،
::::::: حقیقی صبر وہ ہے جو کسی صدمے کی ابتداء میں ہی اختیار کیا جائے :::::::
رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن پر میرا سب کچھ قُربان ہو نے ہمیں یہ عظیم حقیقت بھی بتائی کہ ((((( إِنَّمَا الصَّبر عِندَ الصّدمۃ الأولیٰ ::: بے شک صبر (تو وہ ہے جو) کسی صدمے کی ابتداء میں کیا جایا))))) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البُخاری / کتاب الجنائز / باب 41، صحیح مُسلم/حدیث 926 /کتاب الجنائز/ باب26 ،
::::::: صبر کی اہمیت اور عظمت   :::::::
:::::::   صبر کی أہمیت ، عظمت اور دُنیا اور آخرت کے فوائد کا اندازہ اِس بات سے خوب اچھی طرح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی قُرآن کریم میں ہمیں بہت دفعہ ، اور ہماری زندگیوں کے مُختلف حالات میں صبر اختیار کرنے کا حُکم فرمایا ہے :::::::
::::::: عمومی طور پر ہر معاملے میں صبر کیے رکھنے کا حُکم   :::::::
(((((وَاصبِر وَمَا صَبرُکَ إِلاَّ بِاللّہِ وَلاَ تَحزَن عَلَیہِم وَلاَ تَکُ فِی ضَیقٍ مِّمَّا یَمکُرُونَ::: اور (اے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر سوائے اللہ کی (دی ہوئی )توفیق کے ہو نہیں سکتا اور آپ ان لوگوں (کے کفر و عناد کی وجہ سے ان )کے لیے غمزدہ مت ہوں اور نہ ان لوگوں کی مکاریوں کی وجہ سے تنگی میں ہوں ))))) سورت النحل / آیت 127 ،
::::::: شدید سختی والے کام کرتے رہنے میں صبر کیے رکھنے کا حُکم  :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اپنے  شرعی اور قَدری احکام اور فیصلوں کی مثال دے کر اس بات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا
(((((
فَاصبِر لِحُکمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِع مِنہُم آثِماً أَو کَفُوراً ::: اور (اے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) آپ رب کے حُکم پر صبر کیجیے اور اُن (کفار و مشرکین) میں سے کسی بھی گناہ گار یانا شکرے کی اطاعت مت کیجیے گا )))))سورت الدھر ( الانسان )/ آیت ٢٤ ،
::::::: کافروں، مُشرکوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور پریشانی پر صبر کیے رکھنے کا حُکم :::::::
(((((  لَتُبلَوُنَّ فِی أَموَالِکُم وَأَنفُسِکُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الکِتَابَ مِن قَبلِکُم وَمِنَ الَّذِینَ أَشرَکُوا أَذًی کَثِیراً وَإِن تَصبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِکَ مِن عَزمِ الأُمُور ::: تُم لوگ ضرور تُمہاری جانوں اور مال میں آزمائے جاؤ گے اور ضرور جنہیں تُم سے پہلے کتاب دی گئی اُن سے ، اور شرک کرنے والوں سے بہت زیادہ تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تُم لوگ صبر کرو گے اور اللہ سے بچو گے تو بے شک ایسا کرنا بہت بڑی ہمت والا کام ہے))))) سورت آل عِمران /آیت 186،
 یہاں یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کافروں ، مُشرکوں وغیرہ کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں اور پریشانیوں پر صبر سے مُراد یہ نہیں کہ ان کے ظُلم ، کفر ، شرک اور عناد کو ہمیشہ اور ہر طرح برداشت ہی کیا جاتا رہے گا ، نہیں ، بلکہ ان کواِسلام کی دعوت دینے ، حق اُن پر واضح کرنے ، اور نہ ماننے کی صورت میں ، یا ، اُن کی طرف سے اللہ کی شان میں گستاخی ، یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں گستاخی ، اللہ کے دِین کے خلاف کام کرنے ، مُسلمانوں کی جان مال عزت پر حملہ آور ہونے یا کسی بھی صورت میں اسے نُقصان پہنچانے کی صورت میں اُن کو ہر ممکنہ طور پر نہ صرف روکنے بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ جہاد کرے کا حُکم ہے ،
::::::: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، یعنی نیکوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے میں جو کوئی مُصیبت اور مشقت پیش آئے اس پر صبر کیے رکھنے کا حُکم اپنے ایک نیک بندے کے پیغام کے طور پر فرمایا :::::::
(((((  یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأمُر بِالمَعرُوفِ وَانہَ عَنِ المُنکَرِ وَاصبِر عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِن عَزمِ الأُمُورِ::: اے میرے بیٹے نماز قائم کر اورنیکی کا حُکم کر اور برائی سے روک اور جو کوئی مُصیبت تمہیں پیش آئے اس پر صبر کر بے شک یہ بڑی ہمت والا کام ہے ))))) سورت لُقمان /آیت17،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیشہ صبر کرنے ، کا حُکم دیتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ اس عظیم خیر و خوبی والی صفت کو حاصل کرنے کا طریقہ تعلیم فرماتے ہوئے انصار رضی اللہ عنہم اجمعین کو ارشاد فرمایا :::
(((((  مَا یَکُون عِندِی مِن خَیرٍ لَا أَدَّخِرہُ عَنکُم وَإِنَّہُ مَن یَستَعِفَّ یُعِفَّہُ اللَّہ وَمَن یَتَصَبَّر یُصَبِّرہُ اللَّہ ُ وَمَن یَستَغنِ یُغنِہِ اللَّہ وَلَن تُعطَوا عَطَاء ً خَیرًا وَأَوسَعَ مِن الصَّبرِ ::: میرے پاس خیر میں سے جو کچھ ہوتا ہے وہ تُم لوگوں سے بچا کر نہیں رکھتا اور بے شک جو عفت طلب کرتا ہے اللہ اسے عفت عطا فرماتا ہے ، اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دیتا ہے اور جو غِنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنی کر دیتا ہے ، اور تُم لوگوں کو صبر سے بڑھ کر خیر اور وسعت والی کوئی اور چیز ہر گز عطاء نہیں کی گئی ))))) صحیح البُخاری حدیث 6105/ کتاب الرقاق / باب 20، صحیح مُسلم /حدیث1053/ کتاب الزکاۃ / باب  42
::::::: صبر کو اللہ تعالیٰ نے ، اس کی مدد کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا  :::::::
((((( وَاستَعِینُوا بِالصَّبرِ وَالصَّلاَۃِ وَإِنَّہَا لَکَبِیرَۃٌ إِلاَّ عَلَی الخَاشِعِینَ :::(اے ایمان والو )صبر اور نماز کے ذریعہ (اللہ سے)مدد طلب کرو اور بے شک(اللہ سے )ڈرنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لیے ایسا کرنا بہت بڑی مشکل (والا کام)ہے)))))سورت البقرۃ /آیت 45،
::::::: صبر کی ا ِقسام :::::::
:::::::صبر کی پہلی قِسم ::::::: جزوی صبر:::::::
مثلاً ، کچھ لوگ بلکہ اکثر لوگ نیک یا اچھے کام کرنے میں تو صبر کرتے  ہیں  یعنی  نیک  کام  کرنے میں جو تکلیف یا پریشانی آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی ساتھ نافرمانی  والوں  کاموں  سے  باز  رہنے  کے  لیے صبر نہیں کرتے اور ایسے  کاموں  کا  شکار  ہوتے  رہتے ہیں  ،  ایسے لوگ ''' صابرین ''' میں شمار نہیں ہو سکتے ، اور نہ ہی """نفس کے خِلاف جِہاد کرنے والے مجاہدین  """ میں شمار ہو سکتے ہیں ،
کیونکہ جب تک ایمان کی قوت بہت زیادہ نہ ہو ، قوت صبر مضبوط نہیں ہو سکتی ، اور مُسلمان پر ایسے وقت آتے ہی رہتے ہیں جب کوئی ذہنی جسمانی وقتی لذت ، کوئی ظاہری مادی فائدہ ، کوئی دُنیاوی خواہش ، کوئی آخرت تباہ کر دینے والا گناہ ، اور کبھی دُنیا بھی تباہ کر دینے والا کام اُس مُسلمان کی کمزوری کو مزید کمزور کرتے کرتے اُس پر غلبہ پا ہی جاتا ہے اور وہ شخص حلال و حرام ، جائز نا جائز کی تمیز بھول کر ، وہ کام کر گذرتا ہے ، اور آخرت میں ہلاک ہونے والے بد نصیبوں میں سے ہو جاتا ہے ، پس جزوی یا کسی ایک طرف سے کیا جانے والا صبر شرعی مفہوم کے مطابق صبر نہیں ہوتا ،  اور ایسے صبر کے عاملین شرعی لحاظ سے نہ تو  """صابرین """ کے زُمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی  """نفس کے خِلاف جِہاد کرنے والے مجاہدین  """ کے زُمرے میں ،
صبر کی مثال یوں بھی سمجھی جا سکتی ہے جیسے کہ کسی گاڑی کی بریک ، اگر خود کار، رواں راہوں پر کوئی بِنابریک گاڑی دوڑے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا انجام خوفناک ہی ہو گا، پس اسی طرح اگرکسی مُسلمان کا صبر ایسا مظبوط اور طاقتور نہیں جو اُس کو زندگی کی چھوٹے چھوٹے گلی کُوچُوں میں ہی نہیں اس کی شاہراہ حیات پر بھی گناہوں سے نہ روکے تو وہ اس بے مُہاری کی وجہ سے دُنیا میں بھی ذِلت اور نفرت کماتا ہے اور اسی حالت میں اگر مر جائے تو آخرت میں بھی ذِلت اور ہلاکت ،
:::::::   صبر کی  دوسری قِسم   :::::::
::::::: اللہ اور اس کے  رسول  صلی  اللہ  علیہ  و  علی  آلہ  وسلم کی تابع فرمانی کرنے میں صبر کرنا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ  پر مضبوطی سے قائم رہنے میں صبر کرنا ہے  :::::::
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو حُکم فرمایا اور ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے یہ حُکم اُن  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ساری اُمت کے لیے ہوا   (((((  وَاعبُد رَبَّکَ حَتَّی یَأتِیَکَ الیَقِینُ ::: اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم ) اپنی  (دُنیاوی) زندگی تمام ہونے تک اپنے رب کی عِبادت کیے جایے ))))) سورت الحجر / آیت 99،
اور اُمت کے لیے الگ سے بھی حُکم فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا  ((((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اصبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّہَ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ ::: اے اِیمان لانے والو صبر کیا کرو اور ایک دوسرے کو صبر کرنے میں مدد دیا کرو ،اور اللہ کی راہ میں جِہاد کے لیے تیار رہو اور اللہ (کی ناراضگی او عذاب ) سے بچا کرو تا کہ تم کامیابی حاصل کر سکو))))) سورت آل عِمران / آیت 200 ،
آیت مُبارکہ میں """ رابطہ """ میں رہنے کا جو حُکم ہے اس کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو مذکورہ بالا ترجمہ میں بیان ہوا ہے یعنی """ اللہ کی راہ میں جِہاد کے لیے تیار رہنا ، ذہنی ، مالی اور بدنی  طور پر """ ، اور ایک معنیٰ ہمیں مندرجہ ذیل حدیث مُبارک میں مِلتا ہے :
((((( ألا أَدُلُّکُم عَلَی مَا یَمحُو اللَّہُ بِہِ الخَطَایَا وَیَرفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ ::: کیا میں تُم لوگوںکو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس کے ذریعے اللہ خطائیں مِٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے )))))  صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ''' کیوں نہیں یا رسول اللہ ''' تو اِرشاد مُبارک فرمایا ((((( إِسبَاغُ الوُضُوء ِ علی المَکَارِہِ وَکَثرَۃُ الخُطَا إلی المَسَاجِدِ وَانتِظَارُ الصَّلَاۃِ بَعدَ الصَّلَاۃِ فَذَلِکُم الرِّبَاطُ ::: ناپسندیدہ حالات میں بہت اچھی طرح وضوء کرنا اور بہت زیادہ دفعہ مسجدوں کی طرف جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری کا انتظار کرنا تو یہ تُم لوگوں کے لیے رباط ہے ))))) صحیح مُسلم / کتاب الطہارۃ /باب 14 ،
اور ایک معنیٰ سلف الصالح کی بیان کردہ تفسیر میں ملتا ہے ، جیسا کہ امام حسن بصری رحمہُ اللہ کا فرمان ہے ''''' اِیمان والوں کو حُکم دیا گیا ہے کہ اللہ نے انکے لیے جو دِین چُنا ہے وہ اِسلام ہے، اُس دِین پر وہ صبر کریں ، لہذا اِسے کسی فائدے کے لیے بھی نہ چھوڑیں اور کسی نُقصان کے اندیشے سے بھی نہ چھوڑیں ، اور کسی سختی کی وجہ سے بھی نہ چھوڑیں اور کسی نرمی کی وجہ سے بھی نہ چھوڑیں ، اورمرابطہ یعنی خود کو جوڑے رکھنے کا معنی باقاعدگی سے ادائیگی عِبادات ہے اور اللہ کے احکام پر ثابت قدمی اور مظبوطی سے عمل پیرا رہنا ہے '''''
:::::::   صبر کی  تیسری قِسم   :::::::
:::::::  اللہ کی مقرر کردہ تقدیر پر صبر ، اور مُسلمان کو جو مصیبتیں،پریشانیاں وغیرہ آئیں اُن پر صبر کرنا  :::::::
 لیکن یہ صبردِینی اور آخرت کے لحاظ سے صرف اسی صورت میں اچھا ہوسکتا ہے جب اس پر اللہ کی طرف سے اجر و ثواب ملنے پر یقین رکھا جائے ،  ((((( وَلَنَبلُوَنَّکُم بِشَیء ٍ مِّنَ الخَوف وَالجُوعِ وَنَقصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ::: اور ہم ضرور تُم لوگوں خوف اور بھوک اور مال اور جان اور پھلوں میں سے کسی نقصان کے ذریعے آزمائیں گے اور (اے مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے O الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتہُم مُّصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّـا إِلَیہِ رَاجِعونَ ::: وہ لوگ کہ جنہیں جب کوئی مُصیبت پکڑ لیتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم نے اُسی کی طرف واپس جانا ہے O أُولَـئِکَ عَلَیہِم صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِم وَرَحمَۃٌ وَأُولَـئِکَ ہُمُ المُہتَدُونَ::: یہ ہی ہیں جن پر اُن کے رب کی طرف سے مغفرت اور نجات  ہیں اور رحم ہے اور یہ ہی ہیں ہدایت یافتہ لوگ))))) سورت البقرہ / آیات 155 تا 157 ،
اس آیت میں بیان کردہ خوشخبریوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے  بلا فصل خلیفہ  فاروق أعظم أمیر المؤمنین  عُمر رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا ''''' نِعم العِدلان و نِعمت العَلاوۃ ::: یہ دو بہترین بدلے ہیں اور (ان کے ساتھ) ایک بہترین اضافی(أجر ) ہے ''''' صحیح البُخاری / کتاب الجنائز / باب 41 کے عنوان کے طور پر یہ قول مذکور ہے ، اور مستدرک الحاکم /کتاب  التفسیر /باب من سورۃ البقرۃ ، میں مع سند مذکور ہے ، اور امام الحاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے ،
 أمیر المؤمنین رضی اللہ عنہ ُ کے اِس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے فرمان مُبارک ((((( أُولَـئِکَ عَلَیہِم صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِم وَرَحمَۃٌ))))) میں صبر کرنے والوں کے لیے  اللہ کی طرف سے """ صلوات یعنی مغفرت اور نجات"""  اور  """ رحمت """  دو بہترین بدلے ہیں اور   ان دو کے علاوہ  ایک اور  ((((( وَأُولَـئِکَ ہُمُ المُہتَدُونَ ))))) یعنی """ ہدایت یافتہ بنا دیا جانا """ بھی ہے ،
  :::::::  أنس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا  ((((( اِذا أرادَ اللَّہُ بِعبدِہِ الخَیر عَجَّلَ لَہُ العَقوُبۃَ فی الدُّنیا وَ إِذا أرادَ بِعبدِہِ الشّرَّ أمسَکَ عَنہُ بِذَنبہِ حَتیٰ یُوافِیَ بِہِ یَومَ القَیامۃِ  ::: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے لیے خیر کا اِرداہ فرماتا ہے تو اسے دُنیا میں ہی (اُس کے گناہوں کی ) سزا دے دیتا اور جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کے لیے سختی کا اِرادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہوں کی وجہ سے اس (پر گرفت کرنے )سے رُکا رہتا ہے تا کہ اُن گناہوں کا بدلہ قیامت والے دِیا جائے )))))  سُنن الترمذی / حدیث /کتاب الزُھد /باب 56، حدیث حسن ہے ، السلسلہ الصحیحہ /حدیث 1220 ،
  :::::::  انس رضی اللہ عنہُ سے ہی ، یہیں اسی سند کے ساتھ ،دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا  (((((  إنَّ عِظم الجَزاء َ مَع عِظم البلاء و إِنَّ اللَّہَ إِذا أحبَ قَوماً أبتلاھُم فَمَن رَضِیَّ فِلہُ الرِّضَا وَ مَن سَخَطَ فَلہُ السَّخطُ ::: بے شک عظیم ثواب عظیم امتحان کے ساتھ ہی ملتا ہے اور بے شک جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اس قوم کو امتحانات میں ڈالتا ہے تو جو (اُن امتحانات پر)راضی ہوا (یعنی صبر کیا ) تو اس کے لیے(اللہ کی ) خوشی ہے اور جو (اُن امتحانات پر) ناراض ہوا (یعنی صبرنہ کیا ) تو اس کے لیے (اللہ کی) ناراضگی ہے ))))) سُنن ابن ماجہ / کتاب الفتن /باب 23 ، سُنن الترمذی /کتاب الزھد / باب 56 ، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ / حدیث 146 ،
::::::: صبر  کے نتائج  :::::::

صبر کرنے والوں کے لیے قران اور احادیث میں بہت ہی زیادہ خوشخبریاں ہیں ،  مثال کے طور پر :::
::: (1) ::: ((((( وَأَطِیعُوا اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذہَبَ رِیحُکُم وَاصبِرُوا إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِینَ ::: اور اللہ کی اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کی تابع فرمانی کرو اور آپس میں تنازع مت کرو (ایسا کرو گے )تو تمہاری ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ))))) سورت الانفال/آیت46 ،
::: (2) :::  (((((وَاللَّہُ یُحِبُّ الصِّابِرِین :::اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے))))) سورت آل عِمران / آیت 146
::: (3) :::  ((((( وَبَشِّرِ المُخبِتِینَ  O اور (اے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِیمان پر)اطمینان رکھنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیےOالَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَت قُلُوبُہُم وَالصَّابِرِینَ عَلَی مَا أَصَابَہُم وَالمُقِیمِی الصَّلَاۃِ وَمِمَّا رَزَقنَاہُم یُنفِقُونَ ،،،،، ::: یہ وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور جو کچھ (مُصیبت پریشانی وغیرہ) انہیں آن پڑتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں ،،،،، )))))  سورت الحج /آیت 34 ، 35 ،
::: (4) :::   ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا  :::
(((((الطُّہُورُ شَطرُ الإِیمَانِ وَالحَمدُ لِلَّہِ تَملَأُ المِیزَانَ وَسُبحَانَ اللَّہِ وَالحَمدُ لِلَّہِ تَملَآَنِ أو تَملَأُ ما بَین السَّمَاوَاتِ وَالأَرضِ وَ الصَّلَاۃُ نُورٌ وَالصَّدَقَۃُ بُرہَانٌ وَ الصَّبرُ ضِیَاء ٌ وَالقُرآنُ حُجَّۃٌ لک أو عَلَیکَ کُلُّ النَّاس یَغدُو فَبَایِعٌ نَفسَہُ فَمُعتِقُہَا أو مُوبِقُہَا ::: طہارت ایمان کا حصہ ہے اور ''' الحمد للہ ''' (کہنا) میزان(ترازو) کو بھر دیتا ہے اور ''' سُبحان اللہ اور الحمد للہ ''' (کہنا) آسمانوں اور زمین کے درمیان کو بھر دیتا ہے اور نماز روشنی ہے، اور صدقہ واضح دلیل ہے، اور صبر چمک ہے، اور قُرآن حجت ہے(  یا  خود  )  تمہارے  لیے (یاخود)  تمہارے خِلاف ہر انسان نے کل کو جانا ہے اور اپنی جان کو بیچنا ہے تو کوئی تو اپنی جان کو چُھڑانے والا ہے اور کوئی اس کو ھلاک کرنے والا ))))) صحیح مُسلم /کتاب الطہارۃ/باب اول (پہلی حدیث)،
::::::: صبر سب سے عظیم نجات کا ذریعہ :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آخرت میں اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے نجات کے سب سے عظیم ذریعے اور طریقے کے حصول کا ایک
 سبب اور ذریعہ صبر کو قرار دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا  ((((( إِنَّما یُوفَّی الصّابِرونَ أجرَھُم بَغیر حِساب ::: اوربے شک اللہ صبر کرنے والوں کو ان (کے ) صبر کا اجر بغیر حساب کے عطاء فرمائے گا ))))) سورت الزُمر/ آیت10،
::::::: صبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی حاصل کرنے کا ذریعہ :::::::
((((( وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابتِغَاء وَجہِ رَبِّہِم وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقنَاہُم سِرّاً وَعَلاَنِیَۃً وَیَدرَؤُونَ بِالحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُم عُقبَی الدَّارِ ::: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیا اورنماز قائم کی اور جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا اُس میں سے ، سرعام اور چُھپ چُھپ کر (اللہ کی رضا کے لیے ہی) خرچ کیا اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے رہے وہ ہی ہیں جن کے لیے آخرت کاگھرہے (22) جَنَّاتُ عَدنٍ یَدخُلُونَہَا وَمَن صَلَحَ مِن آبَائِہِم وَأَزوَاجِہِم وَذُرِّیَّاتِہِم وَالمَلاَئِکَۃُ یَدخُلُونَ عَلَیہِم مِّن کُلِّ بَابٍ ::: (اور وہ گھرہے) ہمیشہ رہنے کے باغات جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ داداوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے جو بھی (اپنی) اصلاح کرے گا (وہ بھی اس گھر میں داخل ہوں گے ) اور فرشتے ہر دروازے سے ان سب کے پاس آیا کریں گے (23) سَلاَمٌ عَلَیکُم بِمَا صَبَرتُم فَنِعمَ عُقبَی الدَّارِ ::: (اور کہا کریں گے ) تُم سب نے جو صبر کیا اُس کے سبب تُم سب پر سلامتی ہو پس کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر (24))))))  سورت الرعد ،
::::::: صبرکرنا ایک کڑوا کام ہے لیکن اس کے یقینی پھل انتہائی میٹھے اور لذت آمیز ہیں  :::::::
((((( وَإِن عَاقَبتُم فَعَاقِبُوا بِمِثلِ مَا عُوقِبتُم بِہِ وَلَئِن صَبَرتُم لَہُوَ خَیرٌ لِّلصَّابِرینَ ::: اور اگر تُم لوگ بدلہ (ہی)لو تو بالکل اتنا ہی لو جتنی تُم پر زیادتی کی گئی اور اگر صبر کرو تو یقینا صبر کرنا ، صبر کرنے والوں کے لیے زیادہ خیر والا ہے )))))سورت النحل / آیت 126،
::::::: صبر کے میٹھے پھلوں میں سے ایک  :::::::
((((( وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّہُم مِّنَ الجَنَّۃِ غُرَفاً تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا نِعمَ أَجرُ العَامِلِینَ ::: اور وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے انہیں ہم ضرور جنت کے وہ کمرے عطا فرمائیں گے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہوں گے اور یہ لوگ اُن کمروں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور یہ نیک) کام کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہے O الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّہِم یَتَوَکَّلُونَ ::: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب (اللہ) ہر (ہی ) توکل کیا کرتے تھے O ))))) سورت العنکبوت / آیت 58 ، 59 ،
:::::::::::: اے مُسلمان بھائی ، بہن ، یہ کائنات اور اس میں جو کچھ بھی ہے سب فانی ہے ، اس کی چکا چوند سے اپنی عقل کو خیرہ ہونے سے بچاتے ہوئے ، اورعقل کی تِیرہ کاریوں سے بچتے ہوئے ، جو انسان کو حق سے دور کرتی ہیں اور یہ سمجھاتی ہیں کہ وہ حق پر ہی ہے ، اور اُس کے دِل و دِماغ سے اِیمان کی روشنی کو عقلی اور مادی فلسفوں اور لذتوں  کے اندھیروں میں گم کر دیتی ہیں  ، اِن  سب وساوس سے بچتے ہوئے ، ان عارضی چیزوں کی بجائے ہمیشہ رہنے والی لذتوں اور کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کے لیے کام کیجیے ،
خیال رکھیے کہ اس ختم ہوجانے والی زندگی کے فانی مزے آپ کو ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کے مزوں کے بارے میں کسی دھوکے کا شکار کر کے اُن ابدی مزوں سے محروم کرنے کا سبب نہ بن جائیں ،
جی ، یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ آخرت کا ابدی آرام و سکون عیش عشرت حاصل کرنے کے لیے دُنیا اور اس کی لذتوں میں سے صرف حلال کو اختیار کرنا ہو گا ، اور حرام سے خود کو باز رکھنا ہو گا ، خواہ وہ بغیر کسی محنت اور مشقت کے ہی ملتا ہو ، اور ایسا کرنے کے لیے صبر اختیار کرنا ہو گا ،
اللہ کی ذات و صِفات کی پہچان ، جو کچھ اللہ نے اپنے صاحب اِیمان نیک اور صبر کرنے والے بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے اُس کا وہ عِلم جو اللہ نے اپنے کلام قران کریم میں عطا فرمایا یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مُبارک پر قران کے علاوہ جاری فرمایا اورپھر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح اُس عِلم کی حقانیت پر بغیر کسی شک و تردد ، عقلی ، فلسفیانہ ، تاویل کے اِیمان رکھنا، ااور اُس اِیمان کے عملی تقاضے بالکل اُس طرح مکمل کرنا جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علیہ آلہ وسلم نے فرمایا ، اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کر کے دکھایا اور سِکھایا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ حقائق سمجھنے اور ان کو قبول کرنے کی مشقت ، اور پھر ان پر عمل کرنے کی مشقت پر صبر عطا فرمائے و السلام
 علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،  طلبگارءِ دُعا آپ کا بھائی ، عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ  کتابت : 30/06/1430ہجری، بمُطابق، 23/06/2009عیسوئی ،
تاریخ تجدید و تحدیث :17/10/1434 ہجری، بُمطابق ، 24/08/2013عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کے ساتھ""" اپنے آپ کو اِیمان اور عقیدے کے بارے میں وسوسوں سے کیسے بچایا جائے ؟ """ ،
اور  """ حِکمت """ کا مطالعہ بھی ان شاء اللہ کافی مفید ہو گا ۔
اور