Saturday, January 4, 2014

::::: أسماء الحُسنیٰ ، یعنی اللہ کے اچھے اچھے نام اور اُن کے ذریعے عبادت :::::




::::: أسماء الحُسنیٰ ، یعنی اللہ کے اچھے اچھے  نام اور اُن کے ذریعے عبادت :::::

بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین :::شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ اللہ کی طرف سے نہ تواُن کے  ساتھ کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذِکر بھی عِبادت ہے ، اور اُس سے دُعاء کرنا بھی عبادت ہے،

اللہ کے دِین اِسلام میں ہمیشہ سے یہ مقرر رہا ہے کہ ،  عِبادت کی اصل ممانعت ہے ،
اللہ جلّ و عُلا کا فرمان ہے  ﴿أم لهم شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ :::کیا اِن لوگوں کے(اللہ کے ساتھ) ایسے شریک ہیں جنہوں نے اِن کے لیے دِین کا (کوئی ) ایسا طریقہ نکالتے ہوں جس کی اللہ نے اِجازت نہیں دی
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے  ﴿فَاِنَّ مَن یَعِیشُ مِنکُم فَسیَری اِختلافاًً کثیراً ، فَعَلِیکُم بِسُنّتِی وَ سُنَّۃ الخُلفاء الراشدینَ المھدیَّینَ ، عضُّوا علیھا بالنَواجذِ ، وَ اِیَّاکُم وَ مُحدَثاتِ الأمور، فَاِنَّ کلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ ، وَ کلَّ ضَلالۃٍ فِی النَّارِ:::پس تُم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا ، تو تُم پر میری اور(میرے) ہدایت یافتہ ، ہدایت دینے والے خلفاء کی سُنّت فرض ہے اُسے دانتوں سے پکڑے رکھو ، اور نئے کاموں سے خبردار ، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ، اور ہر گمراہی جہنم میں ہےصحیح ابن حبان /کتاب الرقاق، صحیح ابن خُزیمہ /حدیث 1785/کتاب الجمعہ /باب51،سُنن ابن ماجہ /حدیث 42/باب 6، مُستدرک الحاکم حدیث 329 ، 331،اسنادہ صحیح/ احکام الجنائز /مایحرم عندالقبور/12،
[[[ الحمد للہ ، بِدعت کے بارے میں ایک کافی تفصیلی  دُرُوس مکمل ہو چکے ہیں ، اور اُن سے ماخوذ مضمون  بھی نشر کیا جا چکا ہے، جِس میں بِدعت کے لغوی اور شرعی مفہوم ، اچھی اور بری بِدعت کے فلسفے کی حقیقت ، اور بِدعات کو جائز بنانے کے لیے ڈالے جانے والے چند أہم شکوک کا رد بیان کیا گیا ہے]]]
محترم قارئین،اچھی طرح سے سمجھ لیجیے ، اور پھر اُس سے زیادہ اچھی طرح  یاد رکھیے ،کہ،عِبادات سو فیصد دِین ہیں لہذ ا کوئی بھی عِبادت نہ تو خود سے بنائی جا سکتی ہے ، اور نہ ہی  اللہ اور اُس کے خلیل  رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت  کے بغیر کی جا سکتی ہے  ، اور نہ ہی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود و کیفیات سے باہر ہو کر کی جا سکتی ہے ،
لیکن ہم اپنے ہی طور پر طرح طرح کی عِبادات  بنا کر ان پر عمل کرنے اور کروانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ، لہذا ایسا کرنا ہماری عادات میں شامل ہو چکا ہے ،
ہماری مَن گھڑت خود ساختہ عِبادات کا سب سے زیادہ زور ذکر و اذکار  پر چلتا ہے ، اور ہم لوگ محض اپنی سوچوں کے بنا پر ہی   اُن خودد ساختہ ذکر و اذکار اور دُعاؤں کے اِلفاظ ، انداز ، کیفیات و عدد وغیرہ کے ذریعے طرح طرح کے نتیجے  نکلنے کی خبریں لیے پھرتے ہیں ،
بسا اوقات تو اپنے خود ساختہ ،یا،  اپنے مذھب ، مسلک ، جماعت ، سلسلے وغیرہ سے منسوب اذکار اور دعاؤں کے بارے میں تو اس قدر شد و مد کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ گویا معاذ اللہ وہ خود ساختہ ذِکر و اذکار  قُران و سُنّت سے  معتبر ہیں ، اور اِس بات کی ضرورت ہی نہیں اُن خود ساختہ  ذِکر و اذکار اور دُعاؤں وغیرہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام ، تعلیمات اور حُدود پر پرکھ ہی لیا جائے ،
اِن خود ساختہ  ذِکر و اذکار اور دعاؤں اور اِن کے طور طریقوں میں سے ایک ،،،،  اللہ جلّ  وعُلا کے أسماء الحُسنیٰ  کو  اِستعمال کرنا بھی ہے ،
لوگوں نے، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کسی خبر کے بغیر ،  اللہ تعالیٰ کے ناموں کے مختلف ذِکر  اور وِرد بنا رکھے ہیں ، اور اُن کے مختلف نتیجے بھی مقرر کر رکھے ، جو کہ غلط ہے اور گمراہی ہے ،
جی ، اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ جلّ جلالہُ کے  ناموں کے ذریعے دُعاء کی جا سکتی ہے ، لیکن جو کچھ لوگوں نے بنا اور اپنا رکھا ہے وہ کچھ دُرُست نہیں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے ناموں کا ذِکر اور اُن کے ذریعے دُعاء ، اور اُن کے تحفظ کے بارے میں ہمیں جو کچھ اللہ اورُ اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سکھایا ہے ، یقیناً وہی حق ہے اور یقیناً ایک اچھے سچے مسلمان کو اِسی تعلیم اور تربیت کے اندر  رہتے ہوئے عمل کرنا چاہیے ،
آیے اللہ عزّ و جلّ کے اسماء الحسنیٰ کے بارے میں دی جانے والی تعلیم کا مطالعہ کرتے ہیں ،
اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ذاتی سوچوں ، پسند ، تعلق داریوں ، ضِد اور تعصب کو چھوڑ کر  اِس پر عمل کر سکیں ،

اللہ تبارک و تعالیٰ کے أسماء الحُسنیٰ محدود  نہیں ہیں ،  یعنی ان ناموں کا کوئی حتمی عدد اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک عظیم دُعا سکھاتے ہوئے ہمارے عقیدے کی درستگی کے لیے یہ تعلیم بھی دی اور فرمایا ﴿مَا أَصَابَ مُسلِمًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ فَقَالَ: اللهُمَّ إِنِّي عَبدُكَ، وَابنُ عَبدِكَ، ابنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكمُكَ، عَدلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسأَلُكَ بِكُلِّ اسمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيتَ بِهِ نَفسَكَ، أَو أَنزَلتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَو عَلَّمتَهُ أَحَدًا مِن خَلقِكَ، أَوِ استَأثَرتَ بِهِ فِي عِلمِ الغَيبِ عِندَكَ، أَن تَجعَلَ القُرآنَ رَبِيعَ قَلبِي، وَنُورَ صَدرِي، وَجِلَاءَ حُزنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذهَبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَمَّهُ، وَأَبدَلَهُ مَكَانَ حُزنِهِ فَرَحًا:::کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ جسے کوئی پریشان کُن فِکر یا غم لا حق ہوجائے اور وہ کہے : اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، اور تیری بندی کا بیٹا ہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ،اور میرے لیے تیرا حکم نافذ ہو کر ہی رہنے والا ہے ، تیرے فیصلوں میں انصاف ہے ، میں تُجھ سے ہر اُس نام کے ذریعے سوال کرتا ہوں جو تیرے لیے ہے ، جو نام  تُو نے خود اپنی ذات کو دِیا ، یا جو نام تُو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ، یا جو تُو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ، یا جس نام کو تُو نے اپنے پاس غیب کے علم میں اپنے لیے مخصوص کر لیا ہو ،  کہ  ،  تُو  قران کو میرے دِل کی بہار بنا دے ،اور میرے سینے کی روشنی بنا دے ، اور میرے غم کو دُور کرنے والا بنا دے  ،  اور میری پریشانیوں کو بھگانے والا بنا دے ، (تو جب کوئی بندہ یہ کلمات کہے گا تو )اللہ اُس کی پریشانی کو ضرور دُور فرمائے گا ، اور اُس کے غم کی جگہ اسے خوشی بدل دے گاصحیح ابن حبان / حدیث972 ،  المستدرک الحاکم /حدیث1877 ،مُسند احمد/ حدیث 3712اور 4318، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 199 ،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے أسماء الحُسنیٰ کا عدد اللہ تعالیٰ کے عِلاوہ  اورکوئی بھی نہیں جانتا ، اُس نے اپنے کون کون سے نام اپنے پاس علمء غیب میں رکھے ہیں ؟؟؟
اور کون کون سا نام اپنی مخلوق میں سے  کس کس کو سکھایا ہے؟؟؟
 یہ معاملات علمء غیب میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ  عزّ و جلّ کو ہی ہے ، اِس میں سے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کے دِیے بغیر کوئی کچھ حاصل نہیں کر سکتا ،  لہذا  ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اللہ  یا اللہ کے رسول کریم  محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے تصدیق کے بغیر کسی نام کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے  نام کے طور پر قبول کر لیں ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے """ خُدا """ کہا ، لکھا ، پڑھا اور بولا جاتا ہے ، جو کہ یقیناً بالکل غلط ہے ، اس کی وضاحت """اللہ نہیں  ہے خُدا ::: http://bit.ly/1pRDuWN""" میں پیش کی جا چکی ہے ، کچھ لوگ ترجمے اور ترجمانی کے باب میں اللہ پاک کے لیے کوئی دوسرا نام ، یا خُدا جیسے باطل معبودوں کا نام اِستعمال کرنے کے جواز کے قائل ہیں ، افسوس کہ اب صدیوں سے مسلمان ہونے کے بعد ، اور اللہ کو اللہ کے نام سے جاننے کے بعد بھی ہم اِس ترجمے او ر ترجمانی کے چکر میں گھن چکر ہوتے ہیں ، اللہ ہم سب کو حق جاننے ، پہچاننے اور کسی تعصب اور ضِد کے بغیر ماننے اور اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے ،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف سے یہ  سبق بھی ملتا ہے کہ جو کچھ عِلم میں نہ ہو اُس کو کسی عدد  یا کسی صِفت یا کسی کیفیت میں محصور بھی نہیں  کیا  جا سکتا، بلکہ جس چیز کے بارے میں جو کچھ عِلم میں آیا اُس کو اُسی طرح اتنا ہی بیان کیا جانا چاہیے ، کسی بھی قِسم کی کمی یا زیادتی نہیں کرنا چاہیے ،
رہا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان مبارک کا کہ ﴿إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِسْمَا مِائَةً إِلاَّ وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ::: بے شک اللہ کے ننانوے نام(یعنی)ایک کم سو ہیں جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنّت میں داخل ہو گیامتفقٌ علیہ ،صحیح البخاری/کتاب الشروط/باب18، صحیح مُسلم/کتاب الذِکر و الدُعاء و التوبہ/باب2،
اِس فرمان مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے ناموں کے عدد کی حد بندی نہیں فرمائی بلکہ اُن ناموں میں سے وہ ننانوے نام ذِکر فرمائے ہیں جنہیںصحیح عقیدے کے مُطابق سمجھ کرانہیں اپنے ایمان و عمل کے ذریعے محفوظ رکھنے والے کو جنّت میں داخلے کی خوشخبری دی  ہے ، اور یہ بھی سمجھا جا  سکتا ہے کہ  ننانوے کا عدد بتا کر ایک ایسا عدد مقرر فرمایا ہے جس کے برابر أسماء الحُسنیٰ   کو صحیح عقیدے کے مُطابق سمجھ کر اُنہیں اپنے اِیمان اور عمل کے ذریعے محفوظ رکھنے والے کو جنّت میں داخلے کی خُوشخبری دِی ہے،
اِس کی مثال یوں سمجھیے جیسے کہ کوئی شخص کہے کہ میں نے سو بوری اناج اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تیار کر رکھا ہے ، تو اِس کا یہ مطلب ہر گِز نہیں ہو گا کہ اُس کے پاس یہی سو بوری اناج ہے کچھ اور نہیں ،
شیخ الاسلام احمدبن تیمیہ رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ اللہ کے أسماء الحُسنیٰ کی کوئی معین تعداد نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت   نہیں ہے """، اور اُن کا  یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے ، حق کے عین مُطابق ہے ،
 کیونکہ کسی صحیح حدیث میں أسماء الحُسنیٰ کی کوئی معین تعداد میسر نہیں ، اور نہ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام میں کہیں کوئی تعداد بیان ہوئی ہے ، لہذا اِس معاملے میں حق یہی ہے کہ اللہ کے أسماء الحُسنیٰ صِرف ننانوے ہی نہیں ،
پس اِس تعداد کو حتمی جاننا دُرُست نہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا نام ماننا بھی جائز نہیں جس کی اللہ عزّ و جلّ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف  ثابت شدہ خبر میسر نہ ہو ،  جیسا کہ اللہ جلّ ثناوہُ و تقدس أسماوہُ  کے لیے لفظ  """خُدا """ کا استعمال  ہے ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے خود اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعے اپنے أسماء الحُسنیٰ کی کوئی تعداد  مقرر بیان نہیں فرمائی ، اِس کی بڑی حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ  لوگ اُن ناموں  کی تلاش کے لیے اور اُن ناموں میں مُوجود عظیم  إِیمانی  فائدے حاصل کرنے کے لیے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ  میں زیادہ سے زیادہ تدبر کریں ، اور مُسلمانوں کی صفوف میں اپنے رب کی پہچان کر کے اُس کی رحمتیں حاصل کرنے  کے لیے مشقت کرنے والوں کی پہچان کر سکیں ،  اور غیر ثابت شُدہ ، خود ساختہ  قصے ،کہانیوں، روایتوں، حکایتوں،فلسفوں، اور منطقوں وغیرہ  کی بنا پر بنائے گئے مَعبُودوں کی عِبادت کرنے والوں کی پہچان ہو سکے ،
میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ اللہ کے ثابت شدہ أسماء الحُسنیٰ میں سےننانونے ناموں کو صرف ز ُبانی یاد کرنا ہی مقصود نہیں اور نہ ہی ایسا کرنے والے کے لیے جنّت میں داخلے کی خوشخبری ہے ، بلکہ """أَحْصَاهَا """ کا مفہوم درج ذیل تین صفات پر محیط ہے:::
::::::: (1) ::::::: لفظی طور پر اِن ناموں کا احاطہ کرنا  :::::::
::::::: (2) ::::::: اِن کے دُرُست معنیٰ  کی سمجھ ہونا:::::::
::::::: (3) :::::::اِن ناموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عِبادت کرنا:::::::
اِس تیسری صفت کے دو پہلو ہیں ،
::::::: (1) ::::::: اِن  ناموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پکارنا ، اللہ سے دُعا کرنا:::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ:::اور اللہ کے لیے اچھے اچھے نام ہیں لہذا اللہ کو اِن ناموں کے ذریعے پکارو ، اور اُن لوگوں کو (اُن کے حال پر )چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں ، بہت جلد یہ لوگ اپنے کیے کا پھل پائیں گےسورت الاعراف(7)/آیت 180،
اللہ  تبارک و تعالیٰ نے اُس کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں ہمیں یہ حکم دِیا ہے کہ ہم اُس کے اچھے اچھے ناموں کے ذریعے اُس سے دُعا کریں  ، اور یہ بھی سمجھایا ہے کہ  کسی کو اپنی طرف سے ا للہ کے لیے کوئی نام اختیار کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ ایسا کرنا اللہ کے ناموں میں الحاد ہے اور ایسا کرنے پرسزا کی وعید دی جا رہی ہے ،
پس اللہ  جلّ جلالہُ کے لیے کوئی ایسا نام استعمال کرنا  ، جیسا کہ "خدا" وغیرہ ، جس کی خبر اللہ تعالیٰ یا اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے میسر نہیں ، اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے اور اس پر سزا اور عذاب دیے جانے کی یہ مذکورہ بالا وعید نازل کی گئی ہے ۔
::::::: (2) ::::::: اللہ پاک  کے ناموں کو اُن کے مقتضی کے مُطابق اِستعمال کیا جائے :::::::
یعنیاللہ کے ناموں میں سے اپنی دعاؤں میں اپنی ضرورت کے مُطابق ، اپنی طلب کے موافق نام استعمال کیے جائیں ،مثلاً جب اللہ کی رحمت کا سوال کرنا ہو تو یا رحیم ، یا رحمن کہہ کر پکارا جائے ، جب اللہ کی طاقت و قدرت سے مدد چاہیے ہو تو یا قوی یا جبار جیسے ناموں کے ذریعے پکارا جائے ،
یہ ہے مفہوم  """ احصائھا """ کا ، اور جب اِس کے مُطابق عمل ہو گا تو اِن شاء اللہ یہ عمل کرنے والارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دی ہوئی اُس خوشخبری کے مُطابق جنّت میں داخل ہونے والوں میں سے ہو گا ،
پس ہمیں اِس بات کو خوب خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نام اپنی طرف سے اختیار نہیں کیے جا سکتے ، اُس کی اور اُس کے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خبر کے مُطابق ہی اُس کے ناموں کے ذریعے اُس کو پکارا  جانا چاہیے ، یہ بھی ایک  عِبادت ہے لہذا  اِس عِبادت کو بھی صِرف اور صِرف اللہ اور اُس کے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے ہی ادا کرنا چاہیے،
اپنی طرف سے خود ساختہ نام بنا کر ، اور کسی دُعا کے بغیر صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے ناموں کے خود ساختہ وظیفے اور وِرد وغیرہ کرنا اور کروانا ، مثلاً یا غفور ، یا رحیم ، یا کریم ، وغیرہ اور اُن کے ساتھ کوئی دُعا ء نہ ہو ، بس نام ہی پکارتے چلے جایے ، اِس قِسم کی ساری عِبادات اللہ  تعالیٰ کے دِین میں سے کوئی موافقت نہیں رکھتی ہیں ، یعنی ، اللہ جلّ شانہ ُ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ، احکام ، اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کے خلاف ہیں ، اور جیسا کہ ابھی ابھی بیان کیا گیا ، کہ دِین سے متعلق جو بھی عمل سُنّت شریفہ کی موافقت نہیں پاتا وہ بدعت ہوتا ہے ، اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلے کے مُطابق ہر ایک بِدعت جہنم میں جانے والی ہے ، اِس میں کوئی حسنہ اور سیئہ یعنی اچھی اور بُری بِدعت کی تقسیم  کی کوئی گنجائش نہیں ، بلکہ یہ تقسیم بذات خُود ایک بِدعت ہے، (((اِس موضوع کو بِدعت سے متعلق دُرُوس میں بیان کیا جا چکا ہے ، وللہ الحمد )))
یاد رکھیے ، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارنا ، ایک عِبادت ہے ، لہذا ایسی کسی عِبادت کو اپنا کر نیکی برباد اور گناہ لازم والی روش مت اپنایے جو عِبادت اللہ جلّ جلالہُ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے تائید اور موافقت نہ رکھتی ہو ،
اللہ عزّ و جلّ ہم سب کو یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم اپنی جذباتی وابستگیوں ، اپنے اختیار کردہ خیالات اور افکار ، شخصیات اور گروہوں کی ضِد سے نجات پا سکیں اور اللہ کی عِبادت صِرف اور صِرف اُسی طرح کرسکیں جِس طرح اُس نے ، اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اجازت دی ہے ۔
و السلام علیکم ۔ طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت  : 08/02/1433 ہجری ، بمُطابق ، 03/01/2012 عیسوئی ،
تاریخ نظر ثانی  : 01/03/1435 ہجری ، بمُطابق ، 03/01/2014۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔