::::::: خاموشی نجات ہے :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً صَلی اللہ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّم و مَن أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ عَلیٰ مَسلکہِ
::: اکیلے اللہ کے
لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور
کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ اپنائی
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
راہ پر چلا:
السلامُ علیکُم
و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما کا کہنا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿مَن صَمتَ نَجا ::: جو خاموش رہا نجات
پا گیا ﴾ سُنن الترمذی / حدیث 2501
/ کتاب صفة القیامة /باب 50
، سلسلة الاحادیث الصحیحة / حدیث 536،
اور معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ ایک لمبی حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد
فرمایا ﴿ وَ ھل یکُبُ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلیٰ
وُجُوھھم الَّا حَصائدُ السِنَتِھم:::
تمھاری ماں تُمہیں کھو ئے ، کیا لوگوں کو
انکے مُنہ کی بل اگ میں پھینکے جانے کا سبب انکی ز ُبانوں کے پھل کے عِلاوہ کچھ
اور بھی ھو گا ؟ ﴾ سُنن ابن ماجہ / حدیث
3937 /کتاب الفِتن / باب 12 ،، سُنن الترمذی/حدیث 2616 / کتاب الایمان /باب 8 ،
اور امام الترمذی رحمہُ اللہ نے کہا یہ
حدیث حسن صحیح ھے ، اور امام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا یہ حدیث اپنی تمام اسناد
کے مجموعے کی بِنا پر صحیح ھے ، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ/حدیث 1122 .
پس یاد رکھنے والی بات ہے کہ ز ُبان کے شر سے صرف وہ ہی بچ سکتا ہے جو اللہ کی
عطا ءکردہ توفیق سے اپنی ز ُبان کو شریعت کی لگام ڈال کر رکھے ، اور اُسے صِرف
وہاں اِستعمال کرے جہاں اُس کا اِستعمال دِین دُنیا اور آخرت کے فائدہ والا ہو اور
اُسے دُنیا اور آخرت کی ذِلت اور رُسوائی سے بچانے کا سبب ہو ،
اِنسان کے أعضاء میں سے اللہ کی سے سب سے زیادہ نافرمان اور سب سے زیادہ گناہ
گار اور سب سے زیادہ باعث فساد ز ُبان ہے ،
اِن سب کاروائیوں کے باوجود اِنسانوں کی اکثریت اپنی ز ُبان کے اِستعمال کے
بارے میں لا پرواہی کا مظاہرہ کرتی ہے ، بلکہ یہ کہنا زیادہ دُرُست لگتا ہے کہ اِنسانوں
کی اکثریت اپنے جسم میں پائے جانے والے اِس چھوٹے سے لیکن انتہائی خوفناک ہتھیار
کا خود ہی شکار ہوتی رہتی ہے ، اور اُسے یہ اَحساس تک نہیں ہوتا کہ گوشت کا یہ
چھوٹا سا لَوتھڑا اُسے اغوا کرنے اور جہنم میں ڈلوانے کے لیے شیطان کا بہت بڑا
پھندہ بن جاتا ہے ،
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا
فرمان ہے کہ """وَاللَّه الذي لا إِلَهَ إِلا هُوَ مَا عَلٰى
وَجهِ الأَرضِ شَيءٌ أَحوَجُ إلىَ طُولِ سِجنٍ مِن لِسَانٍ::: اللہ
کی قسم جس کے علاوہ کو ئی سچا معبود نہیں زمین کی پشت پر ز ُبان سے زیادہ کوئی اور
چیز ایسی نہیں جو زیادہ تر قید رہنے کی حق
دار ہو""" المعجم الکبیر للطبرانی
/صحیح الترغیب و الترھیب / حدیث 2858
،
دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ ایک
دِن پہلے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ کے
پاس تشریف لے گئے تو وہ اپنی ز ُبان کو پکڑے ہوئے تھے ،
عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے
فرمایا """ مَه ، غفر اللهُ
لَك::: باز آیے اللہ آپ کی مغفرت کرے
"""،
تو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے
فرمایا """ إنّ هذا أورَدَني المَوارد ::: اس نے مجھ پر بڑی ھلاکت والے مواقع وارد کیے
ہیں """ مؤطا مالک /کتاب الکلام / باب 5 ، صحیح مشکاۃ
المصابیح ،
یعنی ز ُبان ایسی چیز ہے جس کے شر سے انبیاء اور رسولوں کے بعد سب سے اعلیٰ
ترین اِنسان ، پہلے بلا فصل خلیفہ رسول
اللہ، ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُبھی خوف زدہ تھے ، تو پھر کسی اور
کو بھلا کوئی خوش فہمی کیوں رکھنی چاہیے ،
اِنسانی جِسم کے اِس شر انگیز پرزے کے شر سے بچنے کا بہترین طریقہ خاموش رہنا
ہے ،
خاموشی کی فضیلت کو سمجھنے کے لیے ہم کچھ
اِس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ""" بات یعنی ز ُبان سے نکلے
ہوئے الفاظ""" کو چار اِقسام میں تقسیم سمجھا جاتا ہے،
(1) جو صرف نُقصان دہ ہوتی ہے،
(2) جو صرف فائدہ مند ہوتی ہے،
(3) جو نُقصان دہ بھی ہوتی ہے اور فائدہ
مند بھی،
(4) جو نہ نُقصان دہ ہوتی ہے اور نہ ہی
فائدہ مند،
پس جو پہلی قِسم کی بات ہے اُس سے تو بہر صورت باز ہی رہنا چاہیے تا کہ کسی کا کوئی نُقصان
نہ ہو ،
اور اِسی طرح تیسری قِسم والی بات کہ جس میں نُقصان اور فائدہ دونوں ہوتے ہیں
اُس سے بھی باز رہنا ہی چاہیے تا کہ کسی کا کوئی نقصان نہ ہو ،
اور جو چوتھی قِسم ہے وہ فضولیات میں شامل ہوتی ہے کہ اُس کا نہ کوئی فائدہ
اور نہ ہی کوئی نقصان تو پھر ایسی بات میں وقت اور قوت صرف کرنا فضول ہی تو ہوا ،
اور کسی بھی فضول کام میں خود کو مشغول کرنا حماقت ہی ہوتا ہے ، اور اس بات کا بھی
اِمکان رہتا ہے کہ اپنے وقت اور قوت کو ضائع کرنے کے حساب میں کوئی گناہ ذمے پڑ
جائے ،
اِس کے بعد صرف ایک ہی قِسم کی بات رہ جاتی ہے یعنی باتوں میں سے تین چوتھائی((75% تو قابل اِستعمال نہیں اور صرف ایک چوتھائی یعنی((25% وہ بات جو صرف فائدہ مند ہو، اور وہی قابل اِستعمال ہے ،
لیکن اُس میں بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر اُس میں گناہ والی بات شامل ہو جو
بظاہر تو دُنیاوی فوائد والی ہو لیکن آخرت میں نُقصان اور عذاب کا باعث ہو ، مثلاً
ریاء کاری والی بات ، جھوٹ ، غیبت ، تزکیہ ءنفس ، وغیرہ ،
پس اِس باقی رہ جانے والی ایک چوتھائی((25% بات میں بھی بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہاں بھی ز ُبان کو
شُتر بے مہار کی طرح چھوڑا نہیں جانا چاہیے ،
اِن باتوں کو جاننے کے بعد ،اور ز ُبان کی طرف سے وارد ہونے
والی دوسری مُصیبتوں اور تباہیوں کو جاننے کے بعد یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اِس
معاملے میں فیصلہ کُن بات یہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے
فرما دی کہ ﴿مَن صَمتَ نَجا ::: جو خاموش رہا نجات پا گیا ﴾
::::::: خاموش رہنا سیکھا جاتا
ہے پس سیکھا جانا چاہیے :::::::
گو کہ کچھ لوگ اللہ کی طرف سے ہی خاموش طبع ہوتے ہیں یعنی
کم بولتے ہیں لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ،
تقریبا ہر ایک کو
اچھا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بولے اور لوگ سُنیں بلکہ وہ ہی بولتا رہے اور لوگ بس اُسے
سُنتے رہیں ، اِس طرح سُنے جانے کا نفس پر ایک عجیب اثر ہوتا ہے جو عموما برائی کی
طرف لے جاتا ہے جس کا کم سے کم درجہ خود نمائی اور خود ستائشی کا پیدا ہونا ہوتا
ہے ،
پس اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے خاموش رہنا سیکھنا پڑتا
ہے اور اچھے مسلمان کو یہ سیکھنا ہی چاہیے کہ بغیر جائز ھدف کے بات نہ کرے
اور دِینی اور اُخروی فائدے اور نُقصان کے
بارے میں اچھی طرح سوچ سمجھ کر بات کرے ،
مورّق العجلي (تابعی )رحمهُ الله کا فرمان ہے """"" تعلمتُ الصمتَ في
عشرِ سنين ، وما قلتُ شيئًا قط إذا غضبتُ، أندمُ إذا زالَ غضبي ::: میں نے خاموش رہنا دس سال میں سیکھا اور جب غصے میں
آتا تو کبھی کچھ بھی ایسا نہ کہتا کہ غصہ
اُترنے کے بعد اُس کہے ہوئے پر شرمندگی ہو """"" سير أعلام النبلاء 4/353-355 .
امام غزالی رحمہُ اللہ ، الاحیاء میں لکھتے ہیں """"" کہا گیا کہ الربیع بن خثعم (رحمہُ اللہ ) بیس سال
تک دُنیاوی باتوں کے لیے نہیں بولے جب صُبح ہوتی تو وہ قلم دوات اور کاغذ اپنے
ساتھ رکھ لیتے اور دن پھر جو بولتے اسے لکھ لیتے اور شام کو (اس لکھے ہوئے کے
مطابق) اپنا محاسبہ کرتے """""
سبحان اللہ ، اللہ کا خوف رکھنے والے اِس طرح
اپنے نفس سے جہاد کیا کرتے تھے ، اور اپنے بدن کے سب سے خوفناک اور خطرناک حصے کو
قابو میں رکھا کرتے تھے ،
کسی نے خوب کہا ہے کہ ز
ُبان تمام نفسانی خواہشات کا مجموعہ ہوتی ہے اور اُس کےخِلاف جہاد کرنا مشکل ترین
جہادوں میں سے ہے اور نفس کے خلاف جہاد بدن کے خلاف جہاد سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ
بدن تو محکوم ہے جبکہ نفس حاکم ہے جو بدن کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حکم
کرتا ہے،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبی یوسف علیہ السلام کا
فرمان اللہ تعالیٰ نے ذِکر فرمایا کہ ﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ
لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: اور میں اپنے
آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دیتا بے شک نفس تو برائی کا حُکم دیتا ہے سوائے اُس کے،
کہ ، جِس پر میرا رَب رحم فرمائے ، بے شک میرا رب بہت ہی بخشش کرنے و الا اور بہت
ہی رحم کرنے والا ہے﴾ سورت يوسف / آیت 53،
پس نفس کے خلاف جہاد سب سے زیادہ شدید اور مُشکل
جہاد ہے جیسا کہ رسول الله صلى الله عليه و علی آلہ وسلم کا فرمان
ہے کہ ﴿ أفضل المؤمنين إسلاماً مَن سَلَمَ المُسلمونَ
مِن لسانهِ ويدهِ وأفضل الجهاد مَن جاهد نفسَهُ في ذاتِ اللهِ وأفضل المهاجرين مَن
جاهد لِنفسهِ وهواه ُفي ذات ِالله ::: اِیمان والوں میں سب سے بہترین اسلام والا وہ ہے جو اپنی ز
ُبان اور ہاتھ(کے نقصانات )سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے ، اور سب سے بہترین جہاد (اُس
کا )ہے جو اللہ(کی اطاعت )میں اپنے نفس کے
خلاف جہاد کرے ، اور بہترین مہاجر وہ ہے جو اللہ کی ذات میں(یعنی اللہ کی ذات کے
فرامین اور احکامات کے مطابق ) اپنے نفس اور خواہشات کے خلاف جہاد کرے﴾ السلسلہ الاحادیث
الصحیحۃ /حدیث 1491،
سلف الصالح رحمہم اللہ جمعیاً میں یہ نشانیاں اور صفات
بدرجہ اُتم پائی جاتی تھیں ، صرف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں ہی نہیں بلکہ اُن سے بعد والوں میں بھی ،
محمد بن واسع رحمہُ اللہ (پانچویں طبقے کے تابعی )نے اپنے
ایک ساتھی مالک بن دینار رحمہ اللہ کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا """ يا أبا يحيى ، حِفظُ اللِّسانِ أشدُّ عَلى
النَّاس مِن حِفظ الدَّنانیر والدَّراهِم:::اے یحی
کے باپ ز ُبان کی حفاظت کرنا لوگوں کے لیے دِینار و دِرھَم کی حفاظت سے زیادہ مشکل
کام ہے """"" الصمت و الآداب
اللسان ، باب ذم المداحین ،
اِمام الأوزاعي رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """" كتب إلينا عُمر بن عبد العزيز رحِمهُ الله : أما
بعد ؛ فإن مَن أكثرَ ذِكرَ المَوت، رَضيَ مِن الدُّنيا باليِسيرِ ، ومَن عدَّ كلامَهُ
مِن عَملهِ قَلَّ كلامَهُ إلا فيما يَعنيهِ ::: (امیر المؤمنین) عُمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے
ہمیں لکھا ؛؛؛ جس نے موت کا کثرت سے ذِکر کیا وہ دُنیا کے تھوڑے (سے مال و متاع)پر
راضی ہو گیا اور جس نے اپنے عمل میں سے اپنی باتوں کو تیار کیا تو وہ صرف وہاں بولے گا جہاں اُسے بولنا چاہیے
اور یوں اُس کی باتیں کم ہو جائیں گی """" سیر الأعلام النُبلاء / جلد 5
/ صفحہ 133 ،
اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ایسے ایمان والے بن
سکیں جو ز ُبان کی آفات اور مصائب کو پہچانتے ہیں اور ان سے ہر طور محفوظ رہنے کی
کوشش میں رہتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کے ساتھ ز ُبان کے اِستعمال اور بات چیت کے نتائج
کے بارے میں دیگر ، درج ذیل مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ مفید ہو گا ،
(1) بات ہی
تو ہے ،،،
(2) ھنڈیا اور چمچ ،،،
(3) اِلفاظ معانی اور مفاہیم کے
سانچے ہوتے ہیں ،،،
(4) دوسروں کی کمزوریاں ،اوراپنی
خوبیاں بیان کرنے سے پہلے سوچیے ،،،
(5) کسی کی
تعریف کرنے کا شرعی حکم (6) صِدق ، سچائی ،
الحمد للہ یہ مضامین میرے بلاگ پر بھی موجود ہیں اور مختلف فورمز پر بھی ، والسلام
علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 03/04/1431 ہجری ، بمطابق ، 19/03/2010عیسوئی،
تاریخ تجدید : 23/03/1435 ہجری ، بمطابق ، 25/01/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل لنک سے اتارا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔