Friday, January 24, 2014

::::::: دوسروں کی کمزوریاں ،اوراپنی خوبیاں بیان کرنے سے پہلے سوچیے :::::::






::::::: دُوسروں کی کمزوریاں ،اوراپنی خوبیاں  بیان کرنے سے پہلے سوچیے :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ::: شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ اللہ کی طرف سے نہ تواُن کے  ساتھ کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے اُن سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اِنسانی نفس جن معاملات میں بہت زیادہ نزاع اور جدال کا شِکار رہتا ہے اُن میں سے ایک معاملہ دُوسروں کی خامیاں تلاش کرنا اور اُن خامیوں  کا ذِکر کرنا، یا اُن خامیوں کے ذریعے اُن لوگوں کا ذِکر کرنا  ہے ،
اور دُوسرا معاملہ یہ کہ  دُوسروں کی نسبت خود کو بہتر جانتے ہوئے اپنی ذات کی بڑائی بیان کرنا ہے ،
ہمارے دِین ء حق اِسلام میں یہ دونوں ہی معاملات ہمارے لیے ناجائز قرار دیے گے ہیں ، اِس کی تفصیل اِن شاء اللہ ابھی بیان کروں گا ،
::::: دُوسروں کی خامیاں تلاش کرنا ، اُن خامیوں کا ذِکر کرنا :::::
اور اللہ جلّ و عُلا کا حکم ہے کہ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ:::اے اِیمان لانے والو(تُم لوگوں میں)کوئی گروہ کِسی دُوسرے گروہ کا مذاق نہ اُڑائے ،ممکن ہے کہ وہ ( لوگ جِن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے،اللہ کے ہاں)اُن(مذاق اُڑانے والوں)سے زیادہ خیر والے ہوں، اور نہ ہی(اِیمان والی ) عورتیں(دُوسری اِیمان والی)عورتوں کا مذاق اُڑائیں ، ممکن ہے کہ وہ (عورتیں جِن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے ، اللہ کے ہاں )اُن (مذاق اُڑانے والیوں)سے زیادہ خیر والی ہوں،، اور آپس میں ایک دُوسرےکو عیب نه لگاؤ، اور نه کِسی کو بُرے لقب دو ،اِیمان(قبول کر لینے)کےبعد(کُفر اور )گُناه والے نام(دینا)بہت بُرا هے، اور جو(اِن کاموں سے)توبه نه کرے وه هی ظالم هےسُورت الحُجرات(49)/آیت 11،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ::: اے اِیمان لانے والو، بہت زیادہ گُمان کرنے سے دُور رہو ، بے شک کچھ گُمان گُناہ والے ہوتے ہیں ، اور نہ ہی (ایک دُوسرے کی ) جاسُوسی کرو، اور نہ تُم میں سے کوئی کسی دُوسرے کی غیبت کرے ، کیا تُم لوگوں میں سے کوئی یہ  پسند کرے گا کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے ، تو تُم اس سے کراھت کرو گے (پس غیبت کرنے سے بھی باز رہو کہ گویا اس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ)اور اللہ (کے غصے اور عذاب)سے بچو ، یقینا اللہ توبہ قبول کرنےو الا اور رحم کرنے والا ہے سُورت الحُجرات(49)/آیت 12،
اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے یہ حکم ادا کروایا کہ ﴿إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ تَنَافَسُوا وَلاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا  :::تُم لوگ گُمان بازی سے خبردار رہنا ، کیونکہ گُمان بازی یقیناً سب سے جھوٹی بات ہے ، اور نہ ہی (چُھپ کر خفیہ طور پر دُوسروں کی باتیں)سننا ، اور نہ ہی (چُھپ کر خفیہ طور پر دُوسروں کے معاملات)کھوج کرنا ، اور نہ ہی ایک دُوسرے کے سودے پر سودا کرنا ، اور نہ ہی حسد کرنا ، اور نہ ہی بغض رکھنا ، اور نہ ہی (ایک دُوسرے کی مدد کرنے میں اور دِین کے دُشمن سے سامنا کرنے میں ) پیٹھ دکھانا ، اور اللہ کے (اِیمان والے )بندے(ایک دُوسرے کے)بھائی بھائی بن جاؤصحیح مُسلم/حدیث /6701کتاب البِر الصلۃ الآداب/باب9، ایک دو لفظ کی کمی بیشی کے ساتھ یہ حدیث شریف صحیح بخاری میں بھی بہت سے مقامات پر مروی ہے ،
پس یہ معاملہ بالکل واضح ہے کہ کسی شرعی حاجت کے بغیر کسی کے اندرونی اور ذاتی معاملات کی کھوج کرنا اور اُن کے عیوب ، خامیوں ، کمزوریوں اوراُن  گناہوں کو جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہو نشر کرنا ، اوراُن عیوب ، خامیوں ، کمزوریوں اوراُن  گناہوں وغیرہ کی بنا پر لوگوں کو مذاق ، طنز اور ذِلت کا شکار بنانا حرام ہے ، یہ حکم مُسلمانوں کے درمیان خصوصی طور پر زیادہ شدید ہے اور عمومی طور پر سب انسانوں کے  بارے میں ہے ۔
 اِس کے بعد ہم دیکھتے ہیں دُوسرے معاملے کا شرعی حکم ،
::::: دُوسروں کی نسبت خود کو بہتر جانتے ہوئے اپنی ذات کی بڑائی بیان کرنا:::::
اللہ جلّ جلالہ ُ کا حکم ہے ﴿فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى::: پس تُم لوگ اپنی بڑائی بیان مت کیا کرو ،وہ (اللہ)زیادہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ کون تقویٰ والا ہےسُورت النجم (53)/آیت 32،
اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں ، ہماری ذاتوں کے بارے میں بڑائیاں بیان کرنے سے منع فرمایا ہے ، کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ درحقیقت اُس کے ہاں کس کا کیا درجہ ہے ؟ ؟ ؟ اور کسی کی حقیقت کیا ہے ؟ ؟ ؟
پس کسی مُسلمان  میں کوئی خامی یا کمزوری دیکھ کر خود کو اُس سے برتر نہیں سمجھا جانا چاہیے اور نہ ہی اپنے اندر کوئی اچھائی یا خوبی پانے کی صُورت میں اپنی تعریف کرنی چاہیے ،
جی ہاں ، اپنی تعریف ، یا اپنے اندر پائی جانے والی کسی اچھائی یا خوبی کا ذِکر کرنے کا جواز  چند خاص اسباب کی بنا پر ہوتا ہے ،
جِس کی وضاحت فرماتے ہوئے ،اِمام النووی رحمہُ اللہ نے کہا کہ  """ إعلم أن ذكر محاسن نفسه ضربان :::
 مذموم ; ومحبوب ،،،،، فالمذموم أن يذكره للافتخار وإظهار الارتفاع والتميز على الأقران وشبه ذلك ،
 والمحبوب أن يكون فيه مصلحة دينية ، وذلك بأن يكون آمرا بمعروف ، أو ناهيا عن منكر ، أو ناصحا أو مشيرا بمصلحة ، أو معلما ، أو مؤدبا ، أو واعظا ، أو مذكرا ، أو مصلحا بين اثنين ، أو يدفع عن نفسه شرا ، أو نحو ذلك ، فيذكر محاسنه ناويا بذلك أن يكون هذا أقرب إلى قبول قوله واعتماد ما يذكره ،،،،،،و أن هذا الكلام الذي أقوله لا تجدونه عند غيري فاحتفظوا به ، أو نحو ذلك ،،،،،وقد جاء في هذا المعنى ما لا يحصى من النصوص ::: جان لو کہ اپنے ذات کی خوبیاں بیان کرنا دو  طرح سے ہے ،،،،، مذموم (بُرا قرار دیا گیا )، اور محبوب (پسندیدہ)،
پس مذموم تو یہ کہ کوئی شخص اپنی ذات کی خوبیاں ، فخر (یعنی تکبر)، اور اپنے جیسے دُوسروں پر (معاشی یا معاشرتی ) بلندی ، اور انفرادیت کے اظہار کے لیے کرے ، یا ایسے ہی کسی اور سبب کی بِناء پر ،
اور محبوب یہ ہے کہ ، کسی شخص کا اپنی ذات کی بڑائی بیان کرنے کا سبب یا تو کوئی دینی فائدہ ہو ، اور وہ اس طرح کہ وہ شخص کسی نیکی کا حکم کر رہا ہو، یا کسی برائی اور گناہ سے روک رہا ہو ، یا کوئی نصحیت کر رہا ہو، یا کسی (نیکی والے)فائدے کی طرف اشارہ کر رہا ہو ، یا تعلیم دے رہا ہو  ، یایہ تربیت دے رہا ہو ، یا واعظ کر رہا ہو ، یا(دِین دُنیا اور آخرت کے معاملات کی)یاددہانی کروا رہا ہو ، یا دو (یا کچھ ) لوگوں کے درمیان جھگڑے اور فتنے فساد وغیرہ کو ختم  کروا رہا ہو ، یا اپنی جان سے کوئی شر دُور  کر رہا ہو، یا اِسی قِسم کا کوئی اور معاملہ ہو ،  تو ایسے میں اپنی بڑائی اور خوبیاں ذِکر کرے تا کہ اُسکی بات کی قبولیت کا امکان زیادہ ہو جائے ، اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اُس پر اعتماد کیا جائے ،
اور  یہ (یاد رکھو ) کہ ، یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ باتیں تمہیں کسی اور کے پاس نہیں ملیں گی ، لہذا اِنہیں حفظ کر لو ،  یا اسی طرح کا کوئی معاملہ کر لو (کہ انہیں محفوظ رکھ سکو)،
اور (یہ جو کچھ میں نے کہا ہے اس کی دلیل کے طور پر )اس کے معنی( اور مفہوم کے مطابق ) اتنی نصوص آئی ہیں کہ جن کی گنتی کرنا (تقریباً ) ناممکن ہے """،  الاذکار/باب باب مدح الإنسان نفسه وذكر محاسنه۔
اور پھر اِمام صاحب رحمہُ اللہ تعالیٰ نے اس کی کئی مثالیں پیش کی ہیں ، جن میں سے چند ایک یہاں ذِکر کرتا ہوں ،
::::: (1)::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  غزوہ حنین  کے موقع پر فرمایا ﴿أَنَا النَّبِىُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ:::میں نبی ہوں ، جھوٹ نہیں بولتا ، میں ابن عبدالمطلب کا بیٹا ہوںصحیح بخاری/حدیث /2930کتاب  الجِہاد/باب97،صحیح مُسلم/حدیث /4715کتاب الجِہاد والسِیر/باب28،
::::: (2) ::::: ایک اور موقع  پر اِرشاد فرمایا ﴿أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ::: میں قیامت والے دِن  آدم کی اولاد کا سردار ہوں ، اور سب سے پہلے میری قبر کھولی جائے گی ، اور( میں) سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں ، اور سب سے پہلے میری شفاعت کی جائے گیصحیح مُسلم/حدیث /6079کتاب  الفضائل/باب2،
یہ مذکورہ بالا حدیث شریف ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کی روایت ہے ، اور ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کی روایت میں بڑی صراحت سے وہ الفاظ بھی موجود ہیں جو اِمام النووی رحمہ ُ اللہ کے مذکورہ بالا فرمان میں بیان کردہ ، مذموم اور محبوب کی تقسیم کی دلیل بھی بنتے ہیں ،
ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کی روایت کردہ حدیث شریف یہ ہے کہ﴿أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الأَرْضُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلاَ فَخْرَ وَلِوَاءُ الْحَمْدِ بِيَدِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ ::: میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں ، اور (میں اِس پر )کوئی تکبر  نہیں (کرتا)، اور وہ  میں ہی  ہوں  کہ قیمات والے دِن جِس کے لیے سب سے  پہلے زمین (قبر) کھولی جائے گی ،اور (میں اِس پر )کوئی تکبر  نہیں (کرتا)، اور( میں) سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں ، اور سب سے پہلے میری شفاعت کی جائے گی اور (میں اِس پر )کوئی تکبر  نہیں (کرتا)، اورقیامت والے دِن (اللہ کی حمد و تعریف ) کا جھنڈا میرے ہاتھ ہو گا اور (میں اِس پر )کوئی تکبر  نہیں (کرتا)سُنن ابن ماجہ /حدیث /4450کتاب الزُھد/ باب37، إمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، (کچھ دیگر کتب میں بھی صحیح اسناد کے ساتھ ، لیکن الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ حدیث شریف منقول ہے)،
::::: (3) ::::: اور ایک موقع پر اِرشاد فرمایا  ﴿وَاللَّهِ إِنِّى لأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ:::اللہ کی قَسم ، میں تُم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور تُم سب سے زیادہ اللہ (کی ناراضگی اور غصے )سے بچنے والا ہوںصحیح بُخاری/حدیث /5063کتاب النکاح/ باب1،
::::: (4) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوہرے داماد ، اور تیسرے بلا فصل خلیفہ ، مظلوم شہید عُثمان (بن عفان) رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  کا جب فسادیوں اور بلوائیوں  نے  محاصرہ کر رکھا تھا ، تو وہ رضی اللہ عنہ ُ اُن سب کے سامنے آئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا """ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ ﴿ مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ ، فَحَفَرْتُهَا ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ قَالَ ﴿ مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ فَجَهَّزْتُهُمْ ، قَالَ فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ ::: کیا تُم لوگ جانتے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ﴿ جِس نے رُومہ کا کنواں کھدوایا تو اُس کے لیے جنّت ہے ، تو میں نے وہ کنواں کُھدوایا، کیا تُم لوگ جانتے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ﴿جِس نے تنگدستی (کی اِس حالت میں جہاد کرنے )والی فوج  کو (ہتھیار، کھانا، لباس اور سواریاں وغیرہ دے کر ) تیار  کیا تو اُس کے لیے جنّت ہے ، تو میں نے اُن (مجاھدین ) کو تیار کیا ، راوی کا کہنا ہے کہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عثمان رضی اللہ عنہ ُ کی تصدیق فرمائی """""،صحیح بخاری /حدیث/2778 کتاب الوصایا/باب 33،  
::::: (5) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِسلامی بھائی ، چچا زاد بھائی ، محبوب ساتھی اور محبوب داماد ، اور چوتھے بلا فصل خلیفہ ، منافق رافضیوں کے ہاتھوں شہید  ہونے والے  أمیر المؤمنین علی (بن ابی طالب )رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے فرمایا  کہ """""وَالَّذِى فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ [صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -] إِلَىَّ أَنْ لاَ يُحِبَّنِى إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلاَ يُبْغِضَنِى إِلاَّ مُنَافِقٌ ::: اُس کی قسم جِس نے  (بیج) کو پھاڑ ا (اور اُس میں پودے اگائے)اور (مخلوقات کی)جان کو تخلیق کیا، یقیناً مجھے ، نہ  پڑھ لکھ سکنے والے (ہمارے )نبی(محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مجھ سے صِرف (سچے ) اِیمان والا ہی محبت کرے گا ، اور صرف منافق ہی مجھ سے دُشمنی اور نفرت کرے گا """""، صحیح بخاری /حدیث/2778کتاب الوصایا/باب 33،  
صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال میں اس قسم کی مثالیں مزید بھی میسر ہیں ،
حاصل کلام یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے اللہ کی عطاء سے اپنے اندر کوئی اچھائی پاتے ہیں تو اُس اپنی بڑائی کے طور پر بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ناجائز ہے ، جی ہاں اپنے اندرپائے جانے والی کسی اچھائی کا ذِکر صِرف  انہی مقاصد کے لیے کیا جا سکتا ہے جں کا بیان ابھی کیا گیا ہے ، پس ہمیں اپنی ذات میں ملنے والی کسی اچھائی یا بڑائی والی صِفت کا  ذِکر کرنے سے پہلے یہ خوب سوچ اور سمجھ لینا چاہیے کہ کیا ہم  دِینی طور پر ایسا کرنے کا جواز رکھتے ہیں؟؟؟
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اُس کی رضا پانے والوں میں سے بنائے ،
اس مضمون کے ساتھ ز ُبان کے اِستعمال اور بات چیت کے نتائج کے بارے میں دیگر ، درج ذیل مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ مفید ہو گا ،
(1)    ::: بات ہی تو ہے ::: http://bit.ly/1dBpp65  ۔
(2)     ::: ھنڈیا اور چمچ :::     http://bit.ly/1bmLO7s  ۔
(3)   :::  اِلفاظ معانی اور مفاہیم کے سانچے ہوتے ہیں :::   http://bit.ly/1ejWkx5  ۔    
(4)   ::: کِسی کی تعریف کرنے کا شرعی حکم   :::   http://bit.ly/1e7vBra      ۔
(5)     ::: خاموشی نجات ہے     :::    http://bit.ly/1flLOrl      ۔
(6):::قُرآن و سُنّت کے سایے میں ::: صِدق،،،سچائی:::   http://bit.ly/1avEyeY         ۔
الحمد للہ یہ سب مضامین یہاں  میرے اِس بلاگ پر بھی موجود ہیں اور مختلف فورمز پر بھی ، 
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
طلب گارء دُعاء ،  آپ کا بھائی ، عادِل سہیل ظفر ۔
 تاریخ کتابت : 1435/03/18 ہجری ، بمطابق ، 2014/02/20 عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔