::::::: کسی کی تعریف کرنے کا شرعی حکم :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ
و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ
، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء
نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے
والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ
ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن
اُس شخص نے) اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی
کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
اِنسانی زندگی کے لوازمات میں سے ہے
کہ اِنسان ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے ہیں اور برائی بھی ،
کسی کو برا کہنا تو یقینا نقصان دہ ہی سمجھا
جاتا ہے ،لیکن کسی کی تعریف کرنا عموما نقصان دہ خیال نہیں کیا جاتا کیونکہ بظاہر
اِس میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا ، جب کہ حقیقتا اِس میں کئی تقصانات ہوتے ہیں ،
حتی کہ اگر کوئی کسی کی تعریف کسی بھی دنیاوی مقصد کے لیے نہ کرے ، بلکہ واقعتا دل
سے راضی ہو کر کسی لالچ کے بغیر ہی کرے ، تو بھی اگر وہ تعریف دُرُست طور پر نہ کی
جائے ،تو وہ تعریف کرنے اور جس کی تعریف کی جائے دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہے ،
اِس موضوع کو میں نے کافی عرصہ پہلے،
لیکن مختصر طور پر """ بات ہی تو
ہے """ میں بھی بیان کیا تھا ، اب ایک الگ موضوع کے طور
پر کچھ تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ پیش کر رہا
ہوں ،
کسی بھی اِنسان کا صِرف وہی قول ، اور
عمل ، جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات کی حدود میں
ہو گا وہ اس کے لیے دین دنیا اور آخرت کی خیر والا ہو گا ،
"""""یہاں
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا کے مال و عزت و حیثیت و صحت و طاقت و قوت وغیرہ
میں اضافہ خیر کی یا اللہ کی رضا کی دلیل نہیں """""
آئیے ، دیکھتے ہیں ، بلکہ سیکھتے ہیں کہ کسی کی تعریف کرنے کے بارے
میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کیا تعلیم دی ہے؟؟؟
:::::::
أبی بکرہ الثقفی رضی اللہ عنہ ُ(یہ
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نہیں ہیں ، بلکہ ایک اور صحابی ہیں )سے روایت ہے کہ :::
ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم کے سامنے کسی کی تعریف کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے
کئی دفعہ ارشاد فرمایا ﴿ وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ ، قَطَعْتَ عُنَقَ صَاحِبِكَ مَن
کان مادحاً اخاہ لا محالۃ فلیقُل مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لا
مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا ، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ ، وَلاَ أُزَكِّى
عَلَى اللَّهِ أَحَدًا ، أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَلِكَ
مِنْهُ::: تمہارا برا ہو ، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی ، تم نے اپنے دوست
کی گردن کاٹ دی، اگر کوئی اپنے (کسی مُسلمان) بھائی کی کسی خوبی کو جانتا ہو اور
اس کی تعریف کرنا بہت ضروری سمجھتا ہو تو وہ یوں کہے ، میرا خیال ھے کہ فُلان ایسا
ایسا ھے ، اور اللہ ہی اُس کے بارے میں بہتر جانتا ھے ، میں اللہ کے سامنے کسی کی
تعریف نہیں کر رہا ، ( بلکہ یہ تو اُس کے بارے میں )میرا خیال یوں ھے﴾صحیح
البخاری/حدیث2662/کتاب الشھادات/باب 16،صحیح مُسلم/حدیث 3030/کتاب الزھد/باب 14
،
:::::::
أبی موسی الاشعری رضی اللہ عنہ ُ سے
روایت ہے کہ :::
ایک دفعہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے کسی کی تعریف کی اور خوب تعریف کی تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ﴿ أَهْلَكْتُمْ۔ أَوْ ۔ قَطَعْتُمْ
ظَهْرَ الرَّجُلِ::: تُم لوگوں نے اس (یعنی جس کی تعریف کی جا رہی ہے اُس )کو ھلاک کر
دیا ۔۔۔ یا فرمایا ۔۔۔ اُس کی کمر توڑ دی ﴾،صحیح البخاری/حدیث6060/کتاب الادب/باب 54،صحیح مُسلم/حدیث 7696/کتاب الزھد والرقائق/باب 15،
::::: فقہ
الحدیث :::::
::::: (1) ::::: کسی
کی اس کے سامنے تعریف کرنا حرام قرار دیا گیا ، کیونکہ جس کی تعریف کی جاتی ہے اس
کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے ، کہ ، تعریف اس کے نفس میں تکبر اور گمراہی کا سبب بن
سکتی ہے اور عام انسانی فطرت اس کی شاہد ہے ،
::::: (2) ::::: کسی کی تعریف کرنا ، حسن ظن ، یعنی نیک خیالی کی بنا پر ہونا
چاہیے نہ کی حتمی فیصلے کے طور پر ، اگر کسی کی تعریف کرنا بہت ہی ضروری ہو تو
تعریف کرنے والا اپنے خیال کے طور پر بیان کرے ، اور فیصلہ و حکم اللہ کی طرف
پلٹائے ، کیونکہ اللہ ہی ہر معا ملے کی حقیقیت جانتا ہے ، خود سے ایسا حکم لگانے کا
درجہ ، کم سے کم اللہ کی شان میں گستاخی ہے ،
کِسی کے سامنے اُس کی تعریف کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن کے ساتھ بہت شدید رویہ اپنانے کی تربیت دیتے ہوئے
اِرشاد فرمایا ہے ﴿إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِى وُجُوهِهِمُ
التُّرَابَ ::: اگر تم لوگ (کِسی کے سامنے اُس کی ) تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے
چہروں پر مٹی پھینکو ﴾ صحیح مُسلم/حدیث 7968/کتاب الزھد والرقائق/باب 15،
اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ
ہم اللہ کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مکمل عملی تابع
فرمانی کریں اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور اسی پر ہماری حاضری ہو ،
اس
مضمون کے ساتھ ز ُبان کے اِستعمال اور بات چیت کے نتائج کے بارے میں دیگر ، درج
ذیل مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ مفید ہو گا ،
(1) بات ہی تو ہے ،،، (2) ھنڈیا
اور چمچ ،،،
(3) اِلفاظ معانی اور مفاہیم کے سانچے ہوتے ہیں ،،، (4) دوسروں کی کمزوریاں ،اوراپنی خوبیاں بیان کرنے سے پہلے سوچیے،،، (5) خاموشی نجات ہے (6) صِدق ، سچائی ،
الحمد للہ یہ مضامین میرے بلاگ پر بھی موجود ہیں اور مختلف
فورمز پر بھی ، والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 12/10/1429 ہجری ، بمطابق
، 13/10/2008عیسوئی،
تاریخ تجدید : 21/03/1435 ہجری ، بمطابق
، 23/01/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔