Sunday, March 24, 2013

موت کا وہ شرارہ ایک پردہ نشین نگینہ تھی

 

پچھلے تمام ایڈیشنز میں ہم نے مرد مثالی شخصیات کا ذِکر کِیا ، اِس دفعہ اِن شاء اللہ ہم خواتین میں سے ایک مثالی خاتون کا ذِکر کریں گے ، مرد ہو یا عورت ہمارے لیے یہی  حقیقی ہیروز ہیں ، کِسی مرد یا عورت کے ذِکر کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ صرف اپنی ہی جنس کے لیئے مثالی شخصیت ہے ، بلکہ ان میں سے ہر مرد ایک سچی مُسلمان عورت کے لیئے مثالی شخصیت ہے کہ وہ اپنے باپ ، بھائی ، خاوند ، بیٹے اور اگلی اولاد کو اِس مثالی شخصیت جیسا بنانے کی تگ و دو کرے اور جو کچھ اُس مثالی شخصیت کے مثالی کِردار میں سے وہ خود اپنا سکتی ہے اپنائے ، اور اِسی طرح خواتین کا ذِکر محض خواتین کے لیئے ہی نہیں بلکہ ہر سچے مُسلمان کے لیئے ہے کہ وہ اِس مثالی خاتون کی شخصیت کا پَرتو اپنی ماں ، بہن ، بیوی ، بیٹی اور اگلی اولاد میں سے جو مؤنث ہیں اُن میں اُجاگر کرنے کی کوشش کرے اور جو کچھ خوداپنا سکتا ہے اپنائے ۔
    آئیے آپ کو اللہ کی ایک نیک بندی اور ایک حقیقی ولیہ خاتون کا واقعہ سُناتے ہیں ،،،

     مُسلمانوں کا روم کے کافروں پر جہاد زور و شور سے جاری تھا ، امیرجہاد ، اللہ کی تلوار خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ اپنی تما تر بہادری اور مؤمنانہ فراست کے ساتھ اللہ اور اُس کے دِین اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دشمنوں پر اللہ کا قہر بن کر مسلط تھے ، اور اِن معرکوں میں جو بات اُن کے لیے بلکہ تمام مسلمان لشکر کے لیے حیرانگی کا باعث تھی ،،،،،

 وہ ایک گُھڑ سوار تھا جو بھرپور معرکے کے درمیان کہیں سے اچانک ظاہر ہوتا ، اُس نے سارے جِسم کو ایک سیاہ چادر میں لیپیٹا ہوتا اور ایک سبز چادر کی چوڑی پٹی اُس کی کمر پر اِس طرح بندھی ہوتی کہ اُس کا سینہ، گردن اور کمر کا پچھلے حصہ اُس میں چھپا ہوتا ، اور جب وہ نمودار ہوتا تو ایک چنگاری کی طرح دشمن کی طرف لپکتا اور اُس کے وار کِسی بڑی آگ کی لِپٹ کی طرح پھرتیلے ہوتے کہ جِس طرف جاتا دشمن گرتے ہی نظر آتے اور اُسکی پھرتی اور شجاعت کے سامنے کہیں کوئی کھڑا نہ رہتا ، وہ شرارہ صفت  گھڑ سوار دُشمن کی لاشیں گِرا کر  اُن کی صفیں کاٹتا ہوا اُن کے اندر تک گُھستا چلاجاتا اور جب واپس آتا تو اُسکے کپڑوں کا رنگ صِرف دُشمن کا خون ہوتا ، اور پھر ایک چکر لگا کر دُشمن پر ٹوٹ پڑتا ، جب تک میدانِ جہاد گرم رہتا اُس کی یہ ہی کاروائی رہتی ،
    امیرِجہاد  سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ اُسکی بہادری دیکھ کراُسے ملنے اور اُسکی شخصیت جاننے کی شدید خواہش کا اِظہار کرتے لیکن جِہاد کی کاروائی کی طرف سے کِسی اور طرف دھیان نہیں کر پاتے ،اُن کے عِلاوہ باقی لشکرِ اِسلام بھی اِس خواہش میں رہتا کہ اِس شخصیت کو جانے جِس نے رومیوں کے بڑے بڑے وار وریرز (زبردست جنگجولڑاکے) ٹکڑوں میں تقسیم کر دیے اور بڑے بڑے جنگجو ماہرین کو کُوٹ کر پھینک دِیا ،

 رافع بن عُمیرہ  رضی اللہ عنہ ُ  نے جب اُس سپر ویرر کے بارے میں جاننے کے لیے مجاھدین کا یہ شوق دیکھا تو کہا """ میں نہیں سمجھتا کہ یہ شہسوار امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ کے عِلاوہ کوئی اور ہو سکتا ہے """

 ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ سامنے امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ    آ گئے ، تو رافع نے کہا """ اے أمیر ، یہ شہسوار کون ہے جو اِس طرح اپنی جان کو شدید خطرے ڈال کر دشمنوں کابُھرکس نکال رہا ہے """

امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُنے کہا  """  میں موجودہ حالت میں اِس کی اِن فدائی کاروائیوں کو مُناسب نہیں سمجھتا ، لیکن مجھے اِس شہسوار کی بُہادری اور عقل مندی بہت پسند آئی ہے ، اے اِسلام کے بہادرو ، سب جمع ہو کر اللہ کے دِین کی حفاظت کےلیے اِس دلیرکی مدد کرو اور اللہ کے دِین کی حفاظت میں اُس سے پیچھے نہ رہنا """

 پھر سب اکٹھے ہو کر صف بندی کر کے امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ کے پیچھے پیچھے دُشمن پر ٹوٹ پڑے ، جب وہ لوگ اُس شرارہ صفت  شہسوار کے قریب پہنچے تو امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے با آوازء بلندکہا  """  اے اللہ کی راہ میں اپنی جان کو داؤ پر لگانے والے اور اللہ کے دشمنوں کو برباد کرنے والے بھائی ، اپنے چہرے کو بے نقاب کرو کہ ہم تمہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں اور دِل ٹھنڈے کر سکیں """

 وہ شہسوار کوئی جواب دیے بغیر پھر دُشمن کی صفوں پر پَل پڑا اور پھر ویسا ہی ہوا کہ جِدھر وہ جاتا رومی خوف زدہ ہو کر اُس کے سامنے بھاگتے اور وہ اپنے دائیں بائیں اور سامنے سے اُن کو کِسی خوفناک آندھی کی پُھرتی سے اپنی تلوار کی لپیٹ میں لے لیتا اور کِسی خوفناک زلزلے کی طرح اُنہیں زمین بوس کرتا چلا جاتا ،

 ایک اور حملے سے فارغ ہو کر جب وہ پلٹا تو پھر کچھ مجاھد  اُسکے قریب پہنچے اور کہا """ تُم عجیب آدمی ہو ، تُمہار أمیر تُمہیں کوئی حُکم دے رہا ہے اور تُم اُسکی بات نہیں مانتے """ کوئی جواب دئیے بغیر وہ پھر دُشمن پر ٹُوٹ پڑا ،
    جب رومیوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے اور وہ پیچھے ہٹ گئے ، تو امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ اُس شہسوار کے قریب پہنچے اور کہا """  اے اللہ کے بندے تُم نے اپنے تمام مُسلمان بھائیوں کے اور میرے دِل میں بڑی محترم جگہ بنا لی ہے کیا تُم اِس سے زیادہ احترام چاہتے ہو ، جو اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے ، اپنا نام تک بتانے سے بھی گُریز کر رہے ہو """

 تو اُس شہسوار نے جواب دِیا """ اے أمیر میں آپکی بات جواب اِس لیے نہیں دے پا رہی کہ میں ایک پردے میں رہنے والی لڑکی ہوں اور چُھپائی جانے والی چیز ہوں میری حیا مُجھے روکتی ہے کہ آپ سے بات کروں """
امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """ تُم ہو کون ؟  """

 تو اُس نے جواب دِیا """میں خولہ ہوں الأزور کی بیٹی مجھے خبر ملی کہ میرا بھائی ضرار دُشمن کی قید میں ہے تو میں میدانِ جہاد میں آ گئی کہ اب میں اپنے بھائی کی جگہ اللہ کے دشمنوں سے جہاد کروں اور شاید اِس دوران اللہ تعالیٰ مجھے میرے بھائی کو آزاد کروانے کا موقع عطاء فرما دے """

امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """ اِن شاء اللہ ہم سب مل کر تمہارے بھائی کو آزاد کروانے کی کوشش کریں گے """
عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ ُ  کا کہنا ہے کہ """میں اُس وقت امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ کے دائیں طرف تھا ، اُنہوں نے سب کو اکٹھے ہو کر پھر دُشمن پر حملہ آور ہونے کا حُکم دِیا اور ہمیشہ کی طرح سب سے آگے وہ خود ہوئے اور اُن کے بائیں طرف خولہ بنت الأزور ہو گئیں ، جب رومیوں نے ہماری تیاری دیکھی اور خولہ کو بھی امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ کے پہلو میں دیکھا تو خوف سے چیخ کر پکارے """ اگر یہ قوم اِس شہسوار جیسی ہے تو اِس سے جنگ ہمارے بس کا روگ نہیں""" اور اپنے ٹھکانے کی طرف واپس ہو لیے ،

 اِس کے بعد خولہ اپنے بھائی کو تلاش کرتے ہوئے مُسلمان مجاھدوں سے پوچھ گچھ کرنے لگیں جب اُنہیں کوئی خبر نہ ملی تو اُنہوں نے بڑے رنجیدہ لہجے میں کہا """ اے میرے ماں جائے ، تیری جدائی کا انگارہ تیری بہن کے دِل  میں ہے لیکن تیرا کچھ پتہ نہیں چل رہا ، کیا پتہ تُم ہمارے باپ سے جا ملے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے سامنے شہید ہوئے تھے ، اللہ تُم پر اپنی رحمت کرے  """

 مجاھدین اور امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ اُن کی یہ بات سُن کربہت دلگیر ہوئے اور کچھ پر تو اتنی رقت طاری ہوئی کہ ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ،  پھر امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ اکیلے ہی دُشمن کی طرف پلٹے ، خولہ رضی اللہ عنہا  بھی اُن کے ساتھ ہو گئیں ، جب دُشمن نے اُن کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اپنے ہتھیار پھینک دیئے اور امان طلب کی ،

امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے ساتھیوں سے کہا انہیں پکڑ کر میرے پاس لے آؤ ، جب اُن کو لایا گیا تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ وردان کے فوجی ہیں اور حُمص کے رہنے والے ہیں وردان تو بھاگ گیا ہے اوریہ لوگ صلح کرنا چاہتے ہیں اور مُسلمان جو اور جتنا جزیہ کہیں یہ لوگ دینے کو تیار ہیں ،

امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """ اگر میں تُم لوگوں کے علاقے تک پہنچا تو پھر اِن شاء اللہ صُلح ہو گی، فی الحال یہ بتاؤ کہ کیا تُم لوگ ہمارے اُس ساتھی (ضرار بن الأزور )کے بارے میں کچھ جانتے ہو جِس نے تمہارے سردار کے بیٹے کو قتل کیا """

 تو اُنہوں نے کہا '"" کیا آپ اُس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جِس نے اِس شہسوار سے بڑھ کر ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا اور جو اپنے دھڑ سے کپڑے اُتار کر لڑتا ہے """

امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ اُن کی یہ بات سُن کر مُسکرائے اور کہا """ ہاں وہی """

 اُنہوں نے کہا '' اُسے تو وردان نے ایک سو فوجیوں کی نگرانی میں باندھ کر بغل ( ایک علاقے کا نام ) کی طرف بھیج دِیا ہے تا کہ اپنے بادشاہ کے پاس بھیجے کہ یہ وہ جِن ہے جو زِرہ پہن کر لڑنے کی بجائے ننگے دھڑ لڑتا ہے اور جِس نے ہمارے اَن گِنت بہترین لڑاکے جنگجو (سپر فائٹنگ وریرز) قتل کیے اور تُمہارا بیٹا بھی """
امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے رافع بن عُمیرہ  رضی اللہ عنہ ُ کو بُلایا اور کہا """ اللہ نے تُمہیں اِس علاقے اور یہاں کے راستوں کا سب سے زیادہ عِلم دِیا ہے ، اور تمہیں تدبیر (پلاننگ پاور)بھی وافر عطاء فرمائی ہے ، اپنے ساتھیوں میں سے جِس کو چاہو ساتھ لے جاؤ اور ہمارے بھائی (ضرار بن الأزور ) کو رہا کروانے کی بھر پور کوشش کرو ، اللہ کرے کہ وہ تُم سے یہ کام لے لے """

رافع بن عُمیرہ  رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """ جو آپ کا حُکم اے أمیر ، اگر اللہ نے مجھے کامیاب کر دِیا تو یہ میرے لیے بڑی خوش نصیبی ہو گی """

 اُنہوں نے اپنے ساتھ لے جانے کے لیئے بہادر ترین مجاھدین میں سے سو گُھڑ سوار مُنتخب کیئے ، خولہ رضی اللہ عنہانے اُن سے درخواست کی کہ وہ بھی ساتھ جائیں گی ، تو اُنہوں نے کہا """ میں أمیر کے حُکم کے بغیر آپ کو ساتھ نہیں لے جا سکتا """

 خولہ رضی اللہ عنہاجلدی سے أمیر کے پاس پہنچیں ، اور اُس لشکر کے ساتھ جانے کی درخواست کرتے ہو ئے کہا """ اے أمیر ، آپ دیکھ چُکے ہیں کہ اللہ نے مُجھے اپنی حفاظت کا حوصلہ اور سلیقہ دے رکھا ہے ، مجھے ساتھ جانے کی اجازت دیجیئے ، اِن شاء اللہ میں اپنے مجاھد بھائیوں پر بوجھ نہیں بنوں گی بلکہ اُن کی مدد کروں گی """

امیرء جِہاد سیف اللہ خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ نے اجازت دے دی تو عُمیرہ بن رافع  رضی اللہ عنہ ُ نے خولہ رضی اللہ عنہا کوساتھ لے لیا اور دُشمن کے قافلے کے نشانات دیکھتے ہوئے روانہ ہو گئے ،
رافع بن عُمیرہ رضی اللہ عنہ ُ  اپنے قافلے کو لے کر دُشمن سے پہلے ہی اُس کی منزل کے قریب پہنچ گئے اور ''الحیات '' نامی ایک وادی میں رُکے اور اپنے ساتھیوں سے کہا """ الحمد للہ خوشخبری ہے کہ دشمن ابھی تک یہاں نہیں پہنچا ، بس اب ہم سب لوگ اِس وادی میں پھیل کر چُھپ جاتے ہیں اور دُشمن کا انتظار کرتے ہیں """

 اُن لوگوں کے چُھپنے کے تھوڑی ہی دیر کے بعد دُشمن کے قافلے کا گَرد و غبار نظر آنے لگا ، جوں ہی دُشمن کا قافلہ پورے کا پورے وادی میں داخل ہوا ، مجاھدین نے تکبیر بُلند کرتے ہوئے چاروں طرف سے حملہ کر دِیا اور ایک گھنٹے سے کم وقت میں اپنے بھائی ضرار بن الأزور رضی اللہ عنہ ُ کو بھی آزاد کروا لیا اور تمام کافروں کو قتل کر کے اُنکا اسلحہ اور سواریاں قابو کر کے واپس پلٹ گئے
دیکھیئے اللہ کے وہ بندے اور بندیاں جو اللہ کی رضا کے طلب گار ہوتے ہیں کِس طرح اللہ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُقرر کردہ حدُود اور پابندیوں میں رہتے ہوئے اللہ کے دِین کے عین مُطابق اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں، اِن حقیقی أولیاء  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے اور عملی محبان کی زندگیاں کوئی قصے کہانیاں نہیں واقعات ہیں ، اور نہ ہی یہ کہنا دُرُست ہے کہ وہ زمانہ اور تھا اور اب حالات بدل چُکے ہیں اُنکے وقت کے مُطابق وہاں بھی بہت جدت پسندی اور آزاد روی کا واویلا رہتا تھا ، اِسی لیے تو کافر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے احکام سُن کر کہتے تھے ، (((((
إِن ھذا إِلَّا أساطیر الأولین ::: یہ سب تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ))))) سورت الانعام / آیت25، یعنی ہمارا زمانہ تو نیا ہے ، نئے دور کی نئے تقاضے ہیں یہ مُحمد اور اُس کی باتوں کا زمانہ تھوڑی ہے کہ اب اِن پُرانی کہانیوں کو سُنا جائے اور اُن پر عمل کِیا جائے ، اور آج بھی اُن کے رُوحانی پیروکار کچھ اِسی قِسم کا فلسفہ بیان کرتے ہیں ،
خولہ بنت الأزور رضی اللہ عنہا کی بہادری اور اللہ کی راہ میں اپنی جان داؤ پر لگانے کا یہ ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ اور بھی واقعات ہیں ، لیکن طوالت کے خوف سے اُنہیں بیان نہیں کِیا جارہا ، اِس واقعہ میں خاص غورکرنے کی چند باتیں ہیں ،
ا
اللہ تعالیٰ نے اپنے دِین میں عورت کو ڈربے کی مُرغی نہیں بنایا ، اور نہ ہی عورت کو پردے اور چاردیواری کا قیدی بنایا ہے ، صِرف اُس پر چند ایسی پابندیاں لگائی ہیں، جو اُس کی فطری حیا ء کو رونق بخشتی ہیں ، اُسے سِکھاتی ہیں کہ تُم ایک قیمتی نگینہ ہو جِس کی چمک دمک کے کئی رنگ ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی بازار کے لیے نہیں صرف اُن کے لیے اور اُس طرح ہے جِن کے لیے اور جِس طرح تمہارے خالق و مالک اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے ، اوروہ پابندیاں اُسے اپنی عزت کا احساس دِلاتی ہیں ، اُسے یہ سمجھاتی ہیں کہ تُم کِسی کی بیٹی ہو ، بہن ہو ، بیوی ہو ، ماں ہو ، اور اگر اِس کے عِلاوہ کچھ بنو گی تو پھر محض ایک جِنسِ تماشا ہو جاؤ گی ، جِس کےطلب گار تو بہت ہوتے ہیں لیکن اُسکی کوئی عِزت نہیں ہوتی ، جو ہوس پرستی اور نفسانی خواہشات کا ہدف تو ہوتی ہے لیکن اُسے مُحبت نہیں کی جاتی ،
   اللہ تعالیٰ نے عورت کواُس کی اپنی اور اُس کے خاندان کی عِزت اور حیاء کی حفاظت کے لیے مقرر کردہ پردے کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی کے کِسی بھی معاملے میں شریک ہونے کا حق دیا ہے ، اِسلام میں عائد کردہ چند پابندیاں عورت کو وہ عِزت اور حفاظت عطاء کرتی ہیں جواُس سے پہلے کِسی معاشرے و مذہب  میں نہیں تھیں اور نہ اُسکے عِلاوہ کِسی معاشرے و مذہب میں ہیں،

اِسلام میں اللہ اور اس  کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہر حکم اور ہر پابندی پر عمل کرتے ہوئے صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم اجعمین نے دُنیا کی سپر پاورز کو اپنے پیروں تلے روند کر بھی دکھایا اوردُنیا کی زندگی میں  اپنی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں بھی حلال ذرائع سے اور بہترین طور پر پورا کر کے دِکھائیں ،

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان حقیقی  مثالی شخصیات کی محبت رزق فرمائے اور ان کے قدموں  کے یقنیاً جنت تک پہنچانے والے نقوش پر قدم بہ قدم چلنے کی ہمت و جرأت عطا فرمائے ، و آخر کلامنا اَن الحمدَ للہ و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ ، والسلام علیکم۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔