Sunday, March 24, 2013

ام عمارہ نسیبہ بنت کعب بن عَمرو


سابقہ شُمارے میں ہم نے ’’’ مُصعب الخیر بن عُمیر رضی اللہ عنہ ُ ‘‘‘ کا ذِکر کِیا تھا ، اور یہ بیان کِیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حُکم کے مُطابق مُصعب رضی اللہ عنہ ُ مدینہ میں اُنکے ہاتھوں پر اِیمان قُبُول کرنے والے انصاریوں کو حج کے موسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور عُقبہ کی بیعت ہوئی ، اور ذِکر کِیا گیا تھا کہ نو مُسلم انصاریوں میں 73 مَرد اور 2 خواتین تِھیں ، ہماری آج کی مثالی شخصیت اُن دو خواتین میں سے ایک ہیں ،

        اللہ اور اللہ کے رسول پر مکمل اِیمان لانے اور سچی محبت کرنے والی حقیقی مؤمنات  میں سے ایک مؤمنہ ، اللہ کی ایک حقیقی ولیہ ، اُم عمارۃ ، نُسیبۃ (اور کہا گیا لُسیبۃ) بنت کعب بن عَمرو بن عوف رضی اللہ عنہا و أرضاھا ، مدینہ المنورہ کے سابقین الاولین ، یعنی پہلے پہلے اِِیمان لانے والوں  میں سے ہیں ،

        جب مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہ ُمدینہ سے نو مسلم انصاریوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس مکہ جانے لگے تو اُم عمارہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند غزیۃ بن عَمرو رضی اللہ عنہ ُکے ساتھ ہو لِیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بیعت لے لی تو مَردوں کے فارغ ہونے کے بعد غزیۃ رضی اللہ عنہ ُنے اُن دو خواتین کو لے کر پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اورعرض کیا ’’’ اے اللہ کے رسول ، ہمارے ساتھ یہ دو عورتیں بھی آئی ہیں ، کہ آپ اِن سے بھی اُسی طرح بیعت لیں جِسطرح ہم سے لی ہے ‘‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( قد بایعتہما علی ما بایعتکم علیہ إنی لا أصافح النساء :::  جِس پر میں تُم لوگوں کی بیعت لی اُسی پر اِن دونوں کی بھی بیعت لیتا ہوں ، لیکن میں عورتوں سے ہاتھ نہیں مِلاتا ))))

 اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُم عمارہ اور اُم منیع رضی اللہ عنہما کی بیعت لی ، اور مدینہ المنورہ کی خواتین میں سے اُم عمارہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جِن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیعت لی ،

آگے چلنے سے پہلے ایک اہم بات کی طرف توجہ دِلوانا چاہوں گا ، اور وہ ہے غیر محرم مَرد و عورت کا ہاتھ مِلانا ، دیگر صحیح روایات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان ملتا ہے اور ساتھ اِیمان والوں کی والدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان بھی ملتا ہے کہ ((((( واللَّہِ مَا مَسَّت یَدُ رَسُول اللَّہِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یَدَ امرَأَۃٍ قَطُّ غیر أَنَّہُ یُبَایِعُہُنَّ بِالکَلَامِ ::: اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی بھی کِسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ، وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عورتوں کی بیعت (صِرف زُبانی ) بات کے ذریعے لیا کرتے تھے ))))) صحیح البُخاری /حدیث 4983/کتاب الطلاق /باب18 ، صحیح مُسلم /حدیث 1866/کتاب الاِمارۃ/باب21 ،

         مزید وضاحت اِس روایت میں ہے کہ ﴿ وما مَسَّت یَدُ رسول اللَّہِ رَسُول اللَّہِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یَدَ امرَأَۃٍ إلا امرَأَۃً یَملِکُہَا:::اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ہاتھ نے کِسی ایسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھویا جو اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ملیکت (یعنی بیوی یا باندی) نہ ہوصحیح البُخاری / حدیث6787،/کتاب الاحکام/باب 49،

        رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا تو یہ معاملہ تھا اور بیعت لیتے ہوئے اتنی احتیاط فرماتے تھے تو عام حالات میں اِس سے کہیں زیادہ احتیاط ہو گی کہ کِسی غیر محرم عورت کو نہ چھویا جائے ، اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اُمتیوں میں اب کتنے ایسے ہیں ، جو محبتِ رسول کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ، اور اولادِ رسول ہونے کا بھی ، اور ہاتھ تو کیا ، کیا کچھ تھام کر مُرید عورتوں سے بیعت لیتے ہیں اور ’’’ خدمت ‘‘‘ کرواتے ہیں ، پھر بھی وہ ’’’ پہنچے ہوئے ولی ‘‘‘ ہیں، اور جو اُن کے ایسے کاموں کی نشاندہی کرے اور اُن پر اِنکار کرے وہ ’’’ گستاخِ رسول ‘‘‘،

تھا غیرت نام جِس کا گئی وہ مُسلمان کے گھر سے     

        اُم عمارہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کے ساتھ مدینہ المنورہ واپس آ گِئیں ، کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بھی وہاں تشریف لے گئے ، اور کفر و اِسلام کا پہلا معرکہ ’’’ اُحد ‘‘‘ میں بپا ہوا ، اور ایک وقت ایسا آیا جب شیطان نے یہ خبر مشہور کی کہ محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم ) قتل کر دیئے گئے ہیں ، مسلمانوں کے وہ لوگ خاص طور پر وہ ، جو میدانِ جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دُور تھے یہ خبر سُن کر دِل برداشتہ ہو گئے اور میدان سے ہٹ کر دُور جا بیٹھے ، اور تقریباً دس صحابی رضی اللہ عنہم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حفاظت کے لیے اُن  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِرد گِرد اپنی جانوں کی قُربانی پیش کرتے رہے ، اِن صحابہ رضی اللہ عنہم میں  سے ایک اُم عمارہ رضی اللہ عنہا بھی تِھیں ،

        اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے دوش بدوش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر حملہ آور ہونے والوں کو بڑی دلیری سے روکتی رہیں اور زخم پہ زخم کھا کھا کر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حفاظتی دستے میں ہی رہِیں ،

        اُم سعد رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ، میں نے اُم عمارہ رضی اللہ عنہا کے کندھے پر ایک گہرے زخم کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیسا نشان ہے ؟

 تو اُنہوں نے بتایا کہ ’’’ اُحد کے جِہاد میں جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دُور ہو چکے تھے تو ابن قمیئۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ڈھونڈتا ہوا چیختا پھر رہا تھا کہ مجھے بتاؤ محمد(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کہاں ہے اگرآج وہ میرے ہاتھوں سے بچ گیا تو میں ناکام ہوں ، تو مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہ اُس کی طرف بڑھے (کہ وہ اُن کو محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سمجھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر حملہ آور نہ ہو ) مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ آگے بڑہنے والوں میں میں بھی تھی اور ابن قمیئۃ کے وار سے مجھے یہ زخم آیا ، لیکن وہ میرے واروں سے زخمی نہ ہوا کیونکہ اللہ کے اُس دُشمن نے دوھری  زِرہ پہن رکھی تھی ،

        ضمرۃ بن سعید المازنی اپنی دادی ماں ہند رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ ’’’ میں بھی جِہادِ اُحد میں شامل تھی اور مجاہدین کو پانی پلانے کے لیے سارے میدان میں پھر رہی تھی ، میں نے دیکھا کہ اُم عمارہ رضی اللہ عنہا انتہائی سختی اور دلیری کے ساتھ لڑ رہی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن کو دیکھ کر اُن کی تعریف فرمائی ، اور پھر میں نے دیکھا کہ ابن قمیئۃ سے لڑتے ہوئے اُن کے کندھے پر ایسا شدید زخم آیا جِس کا عِلاج ایک سال تک ہوتا رہا ‘‘‘،

عمر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ یوم اُحد کے جہاد میں ام عمّارہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ ما التفتُّ يَوم أحدٌ يمَيناً ولا شِمالاً إلّا وأراها تُقاتِلُ دُوني :::میں نے اُحد کے دِن میں جب بھی اپنے دائیں یا بائیں دیکھا تو مجھے ام عمّارہ میرے دفاع میں لڑتی ہوئی دکھائی دی

 

        ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند  زید بن عاصم میں سے ایک بیٹے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ’’’ جِہادِ اُحد میں اپنی والدہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے میرے بائیں بازو پرمشرکین میں سے ایک کھجور کے درخت جیسے لمبے آدمی نے وار کیا اور میرا بازو کافی زخمی ہو گیا جِس میں سے خون رکتا ہی نہ تھا ، تو میری والدہ نے اپنے کمر بند میں سے تیار شدہ پٹیوں میں سے ایک پٹی میرے زخم پر باندھی اور مجھے کہا ::: جاؤ بیٹا دُشمن سے لڑو ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  یہ سب ملاحظہ فرما رہے تھے ، تو فرمایا ﴿  اُم عمارہ تُمہارے جیسی ہمت بھلا کون رکھتا ہے اور میری والدہ مجھے زخمی حالت میں میدان جِہاد میں بھیجتے ہوئے ہنس رہی تِھیں ‘‘‘

        اور جب میں اور میری والدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر حملہ آور کافروں سے لڑ رہے تھے اور میری والدہ زخمی ہو چکی تِھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مجھے پکارتے ہوئے فرمایا ﴿  اے اُم عمارہ کے بیٹے ، (میری فِکر چھوڑو اور)اپنی ماں کی طرف سے لڑو تا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی کر لے ، اللہ تُمہارے گھرانے میں سے تُم دونوں پر برکت کرے ، اے اللہ اِنہیں جنّت میں میرے ساتھیوں میں سے بنا

تو میں نے (اورمیری والدہ) نے کہا """اب اِس کے بعد مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ دُنیا میں مجھ پر کوئی بھی مصیبت ٹوٹے """

        سُبحان اللہ ، اُم عمارہ اور اُن کے بیٹے کو یہ پاکیزہ دُعا مبارک ہو اور اللہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی یہ قُبُول دُعا فرمائے ، اور اُم عمارہ اور اُن کے بیٹے کو جنّت میں بھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھیوں میں سے بنائے ۔

یہ تھے اللہ کے سچے ولی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے عملی محب ، نہ کہ ہم لوگوں کی طرح محض دعویٰ محبت کرنے والے ، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت عطاء فرمائے۔

         ہم میں سے شاید ہر ایک کا دِل اپنے لیے بھی یہ دُعا کرنے کو دِل تڑپتا ہے ، لیکن ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کتنی تابع فرمانی کرتے ہیں ؟؟؟

 اور اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات چھوڑ کر دوسروں کی مان کر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کتنی عِزت کرتے ہیں ؟؟؟

 اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور عقائد و عِبادات اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خِلاف اپناتے ہیں ، کوئی اُن کی شان میں گستاخی کرے تو ’’’ حقوق اِنسانی ‘‘‘ اور ’’’ آزادی ء رائے ‘‘‘ کی مالا جپتے ہیں ، تو ایسا کرتے ہوئے کِس منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت کی دُعا کریں ، یا کِس خوش فہمی کی وجہ سے یہ اُمید رکھیں کہ روزِ محشر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سفارش و شفاعت نصیب ہو گی ، یا جنّت میں اُن صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ میسر ہو گا ؟؟؟

::::: مصادر و مراجع  ::::: معجم الصحابۃ للبغوی ،معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم،الاستعیاب فی معرفۃ الصحابۃ لابو عمر ابن عبدالبر، المنتظم فی تاریخ الاُمم و الملوک  لابن الجوزی ، البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر ، الطبقات الکبریٰ لابن سعد، سیر الاعلام النُبلاء للذھبی ،الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن حَجر العسقلانی ، الروضۃ الفیحاء فی اعلام النساء للیٰسین خیر اللہ ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔