اللہ کے اِس سچے ولی ، ز ُبیر
رضی اللہ عنہ ُ بن العوام کا شمار اُن عظیم
صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہوتا
ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان
مُبارک سے اُن لوگوں کے جیتے جی دُنیا میں ہی جنتی ہونے کی خوش خبری عطاء فرما
دی تھی ،
دوسرے خلیفہ بلا فصل أمیر
المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اپنی شہادت سے پہلے ، اپنے
بھائیوں میں سے جن چھ افراد کو اپنے بعد
خِلافت کے لیے تجویز فرمایا تھا ، ز ُ بیر بن العوام رضی اللہ عنہ ُ بھی اُن میں
شامل تھے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو
اللہ تبارک و تعالیٰ نےاِیمان میں بلندی کے علاوہ دُنیاوی رشتہ داریوں میں بھی ہر طرف سے عظیم
المرتبہ شخصیات سے جوڑا ہوا تھا ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کا
تعلق قریش سے تھا ، اِن کی والدہ محترمہ
صفیہ رضی اللہ عنھا بنت عبد المطلب تِھیں،
یعنی ، ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُرسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُکے والد
کا نام العوام اور دادا خویلد تھے ، جو کہ
اِیمان والوں کی پہلی ماں خدیجہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے والد تھے ، اِس طرح ز
ُبیر رضی اللہ عنہ ُ اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھا کے سگے بھتیجے تھے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی
شادی أسماء رضی اللہ عنہا سے ہوئی تھی جو انبیاء اور رُسولوں کے بعد سب سے زیادہ
بلند رتبے والے ہستی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہمیشہ کے ساتھی ،
اور پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین أبو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کی بیٹی
تِھیں،وہ أسماء رضی اللہ عنھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم اور
اپنے والد کی ہجرت کے وقت اُن کے ابتدائی وقت میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر خدمت
کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے انہیں """ ذات
النطاقتین """ لقب عطاء فرمایا ،
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میاں بیوی کو ایک اور بڑا شرف عطاء
فرمایا کہ انہیں کفار کے طعنے کے منہ ُ توڑ جواب
کا ذریعہ بنایا ، اور وہ یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
مدینہ ہجرت کے بعد ، کافی عرصہ تک مہاجر اور انصار سب ہی مسلمانوں میں سے کسی کے ہاں بھی بیٹاپیدا نہیں ہوا ، تو وہاں کفار
اور بالخصوص یہودیوں نے یہ مشہور کر دِیا کہ ہم نے اِن لوگوں پر جادو کر دِیا ہے
اب ان کے ہاں کوئی بیٹا نہ ہوگا ، ان کی نسلیں کٹ جائیں گی اور یہ ہمیشہ کے لیے بے
نام و نشان ہوجائیں گے ،
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُن کے اس جھوٹے دعوے کو باطل
کر دیا اور ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو اُن کی بیوی أسماء بنت ابو بکر الصدیق رضی
اللہ عنہما میں بیٹا عطاء فرمایا جو کہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کے گھروں میں پیدا
ہونے والا پہلے بیٹا تھے ، ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے یہ خوش خبری سُن کر پوری قوت سے بلند کی گئی آواز میں نعرہ تکبیر کہا ، اس بچے کی پیدائش اُس
وقت مسُلمانوں کی خوشیوں اور کفار کی
رسوائی کا بڑا سبب بنی ، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن کا نام """ عبداللہ
""" رکھا ،اور انہی کی کُنیت پر ز ُبیر رضی اللہ عنہ
ُکو"" أبو عبداللہ"" کہا جانے لگا ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُان خوش
قسمت لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ
سُبحانہُ و تعالیٰ نے اِسلام کی دعوت کے ابتدائی دِنوں میں ہی اپنا دِین حق قُبُول کرنے کی سعادت عطاء
فرمائی اور یُوں ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ سابقین الاولین میں بھی شُمار ہوتے ہیں ،
اِسلام قبول کرنے کی وجہ سے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کا چچا
اُنہیں بہت سزائیں دیتا ،وہ ز ُبیر رضی
اللہ عنہ ُکو لٹکا کر کہتا کہ اس دِین کو چھو ڑ دو، اور اپنے باپ دادا کے دِین پر واپس آجاؤ لیکن ز
ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کا جوا ب یہی ہوتا کہ
میں کفر کی طرف واپس نہیں آؤں گا،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے دعوتِ حق کے آغاز میں
دار أرقم کو اپنا مرکز بنایاتھا، ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُبھی اُن خوش نصیبوں میں سے
تھے جو دار أرقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محفل میں حاضر ہو
کر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پاکیزہ ز ُبان سے اللہ کے دِین کی تعلیمات
حاسل کرنے کی سعادت پاتے ،
دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو
بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت سے سرشار رکھا
تھا ، ایک دفعہ مکہ المکرمہ میں یہ افواہ پھیلی کے (معاذاللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کو کسی نے قتل کر دیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین غم و غصہ کی
شدید حالت سے دوچار ہو گئے ، اور سب سے زیادہ غصہ ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُکو آیا ،
اِس سے پہلے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اس خبر کےمطابق کچھ کرنے کا متفقہ
فیصلہ کرتے ، ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ اپنی تلوار لے کر مکہ کی وادیوں میں نکل پڑے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو تلاش کریں ، اور اگر اللہ نہ کرے یہ
خبر سچی ہے تو اُس مردود کو بھی جہنم واصل کریں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک کو نقصان پہنچایا،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ اس وقت کم عُمر تھے مکہ کے لوگوں نے
اُنہیں اس حال میں دیکھا تو ایک دوسرے کو دیکھ کر اُن پر طنز کرتے ہوئے کہا "
اس لڑکے کو دیکھو تلوار لیے پھرتا ہے" ،
اس دوران نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو کہ
وادیوں کے بالائی حصے میں تشریف لے گئے تھے ، واپس تشریف لے آئے ، اور ز ُبیر رضی
اللہ عنہ ُکو دیکھ کر اِرشاد فرمایا ﴿مَا لکَ یا زُبیر ؟ :::ز ُبیر تُمہارے ساتھ
کیا معاملہ ہے ؟﴾،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کی """ اے
اللہ کے رسول میں اُس کی گردن اتارنے نکلا ہوں جس نے آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش
کی ہے """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن کے لیے
دُعاء فرمائی،
اس واقعہ کے مطابق اِسلامی تاریخ میں اللہ کی رضا کے حصول
کے لیے ، رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت اور دفاع میں سب سے پہلے تلوار
نکالنے کا شرف بھی ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو ہی عطاء ہوا ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُنے تین
دفعہ ہجرت کی ، دو دفعہ حبشہ کی طرف اور ایک دفعہ مدینہ المنورہ کی طرف ، اس طرح
ہجرت کی فضلیت میں بھی ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ بلند رتبے والے ہوئے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو اللہ تعالیٰ نے لمبے قد والا ایک
بہت طاقتور انسان بنایا تھا ،اِن کی والدہ محترمہ ، رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی سگی پُھوپُھو صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کی تربیت
کچھ اس طرح کی تھی کہ وہ کافی سخت جاں اور ہمت والے بن گئے ،
تاریخ کی کتابوں میں لکھا کہ ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُکی والدہ
ماجدہ اُنہیں رات کے اندھیرے میں اکیلا چھوڑ دیتیں اور اُن کے جسم پر کچھ اس طرح
ضرب لگاتی رہتیں کہ اُن کا جسم مضبوط اور تکلیفیں برداشت کرنے والا بن جائے ،
ایک دفعہ کسی نے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی والدہ محترمہ سے
پوچھ ہی لیا کہ "آپ اپنے بیٹے کے ساتھ اتنا سخت رویہ کیوں رکھتی ہیں ؟ اسے
اس طرح جسمانی اذیت کیوں دیتی ہیں ؟ "،
توصفیہ رضی اللہ
عنہا بنت عبدالمطلب نے فرمایا "میں
اس لیے مارتی ہوں کہ یہ مضبوط بن جائے ،اور
پھر یہ پر کشش اسلامی لشکر کی سربراہی کرے "،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جِسمانی
قوت کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط ذہن اور حافظہ بھی عطاء فرمایا تھا ، اِنہیں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہودیوں کی ز ُبان سیکھنے کا حُکم فرمایا تا کہ
یہودیوں کی طرف سے آنے والے خطوط پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو
سنا یا کریں تو اللہ کی مہربانی سے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے صرف پندرہ دِن میں
یہودیوں کی ز ُبان لکھنا پڑھنا سیکھ لی ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے سترہ سال کی عُمر سے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سربراہی میں ہر معرکہ جِہاد میں شرکت کی ، اور
کسی بھی جِہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا ،
جِہادء اُحد میں ز
ُبیر رضی اللہ عنہ ُرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دائیں بائیں ہی رہے،
تاریخی روایات میں مذکور ہے کہ جِہادء بدر کے میں ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے زرد
(پیلے)رنگ کا عمامہ زیب ء سر کیا ہو اتھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے بھی اِ س دِن زرد عمامہ زیبء سر فرمایا ، اور اللہ کی طرف سے مدد کے لیے آنے والے فرشتوں نے
بھی زرد رنگ کے عمامے ہی زیب ء سر کیے ہوئے تھے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ اُن عظیم جنگجو صحابہ رضی اللہ عنہم
میں سے تھے جوبیک وقت دونوں ہاتھوں سےتلوار
چلا کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم ، اور اللہ کے دِین کے
دُشمنوں پر عذاب ڈھایا کرتے تھے،
پہلی دفعہ ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی بُہادری اورطاقت کا
اندازہ ،اور اُن کی والدہ کی دی ہوئی تربیت کے کا نتیجہ جِہادء اُحد میں ظاہر ہوا
، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے میمنہ پر مُنذر بن عمرو رضی اللہ عنہ
ُ کو اور مَیسرہ پر ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو سپہ سالار مقرر فرمایا اور ان کا
معاون مقداد بن أسود رضی اللہ عنہ ُ کو مقرر فرمایا،
جب میدان جِہاد سج گیا ، تو اللہ کے دُشمنوں کی صٖفوں میں
سے سب سے پہلے ایک ایسا بہادر اور مضبوط شخص لڑائی کے لیے للکارتا ہوا مسلمانوں کے
سامنے آیا جسے مُسلمان بھی "لشکر کا مینڈھا" کہتے تھے، اِس بد بخت کا
نام تھا طلحہ بن ابی طلحہ ،ابلیس کا یہ پیروکاراپنے اونٹ پر سوار ہو کر باہر نکلا تھا اور بڑے تکبر
سے مسلمانوں کو لڑنے کے لیے للکارنے لگا ،
صحابہ کی اکثریت اس کی طاقت اور بہادری کی وجہ سے اس کا سامنا کرنے کے بارے میں
ابھی تردد میں ہی تھے کہ ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے اللہ کے دُشمنوں میں سے ایک
طاقتور ترین دُشمن سے لڑنے کے موقع سے فائدہ اُٹھا لیا اور تیز و تُند طوفان کی
طرح آگے بڑھے اور ایک پر قوت چھلانگ لگا کر اُس ابلیسی لشکر کے رُستم کے اُونٹ پر چڑھ گئے اور کفر کی طاقت سے بھرے
ہوئے اُس مینڈھے کو ذبح کر ڈالا ، رسول
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ منظر
دیکھا کے اپنے رب کی عظمت و کبریائی کا نعرہ بلند فرمایا ، اور سارا میدان جِہاد
اللہ کی تکبیروں سے گونج اُٹھا ،
اور یُوں ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو اللہ تعالیٰ نے دِین حق
کے دُشمنوں کو قتل کرنے والوں میں سے پہلا ہونے کا شرف بھی عطاء فرمایا ،
جِہادء اُحد کے اختتام پر جب قریشی اور مکی کافر
مکہ کی طرف واپس فرار ہوئے تو اُن کے پلٹ کر حملہ کر دینے کے ممکنہ اندیشے
کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مناسب خیال فرمایا کہ اُن کی
خبر گیری رکھی جائے ،
تو ابو بکر الصدیق اور ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ ستر مجاھدین
کا ایک لشکر لے کر اُن کافروں کے پیچھے گئے ، جب کافروں کو اس بات کا پتہ چلا تو
اُنہیں مدینہ المنورہ کی طرف واپس پلٹنے
کی ہمت ہی نہ ہوئی ،
اسی طرح کا واقعہ جِہادء احزاب کے موقع پر بھی پیش آیا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دُشمن کے لشکر کی خبر گیری کے بارے میں
پوچھا ﴿مَنْ يَأْتِينِى
بِخَبَرِ الْقَوْمِ يَوْمَ الأَحْزَابِ؟:::کون ہے جو مجھے احزاب والے دِن دُشمن کی
خبر لا کر دے گا ؟﴾،
تو ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے فوراً آگے بڑھ کر اِس خوفناک کام کو سر انجام دینے کے
لیے خود کو پیش کیا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک دفعہ پھر وہی
اِرشاد فرمایا ، اور ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے ایک دفعہ پھر خود کو پیش کیا، جب
تیسری دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے وہی سوال فرمایا اور ز ُبیر
رضی اللہ عنہ ُ نے خود کو پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے
اِرشاد فرمایا ﴿إِنَّ لِكُلِّ نَبِىٍّ
حَوَارِيًّا ، وَحَوَارِىَّ الزُّبَيْرُ:::یقیناً ہر نبی کے خاص مددگار ہوتے ہیں ، اور میرا خاص
مددگار ز ُبیر ہے﴾،
بنی قریظہ پر جِہاد کے معرکے کے لیے بھی جب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ خواہش فرمائی کہ کوئی دُشمن کی خبر لے کر آئے تو ز
ُبیر رضی اللہ عنہ ُ ہی تشریف لے گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی وآلہ
وسلم کی حکم کی تعمیل کر کے اُن کی خدمت اقدس میں واپس پہنچے تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي:::میرے ماں باپ تُم پر قربان ہوں ﴾، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی اتنی زیادہ خوشی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے
ایسی عظیم سعادت والی دُعا ء ہے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے چند ہی لوگوں کو نصیب ہوئی ،
جِہادء بدر میں اللہ تعالیٰ نے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی قوت و
جانبازی کا ایک اور منظر دِکھایا کہ کفار و مشرکین کا ایک طاقتور جنگجو عبیدہ بن
سعید بن عاص جو کہ سر تا پا لوہے کا لباس پہن کر میدان میں آیا، اِس لباس میں سے
سِرف اُس کی آنکھیں ہی دِکھائی دے رہی تھیں ، اُن نے بڑی نخوت سے مُسلمانوں کو
للکار کر کہا "میں ہوں ابو ذات الکرش
"،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کسی شعلے کی طرح اُس کی طرف بڑھے کہ
اُسے کچھ سنبھلنے کا موقع بھی نہ دِیا اور اُس کی آنکھوں برچھی ماری جو سیدھی اُس بد
بخت کے کفر بھرے دماغ میں گھس گئی ، اور وہ مردء مؤمن کی ایک ہی یہ ضرب سے جہنم
واصل ہو گیا ، ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کا وار اس قدر طاقت سے کیا گیا تھا کہ جب
اُنہوں نے اُس کافر کی لاش پر پاؤں رکھ کر برچھی نکالی تو اس کے دونوں سرے ٹیڑھے
ہو گئے،ابو الکرش کے قتل سے فارغ ہو کر ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ دشمنوں میں جا گھسے
اور اس بہادری سے لڑے کہ تلوار میں دندانے پڑھ
گئے اور وہ خود بھی زخموں سے چُور ہوگئے لیکن معرکے کے اختتام تک کسی
کمزوری کے بغیر کافروں پر اللہ کا عذاب بن کر مُسلط ہی رہے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی یہ برچھی اُن سے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے لے لی ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُنیا سے
رُخصت ہونے کے بعد ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُنے وہ برچھی واپس لے لی تو خلیفہ اول بلا
فصل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے وہ برچھی ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ سے مانگ لی
، اُن کی وفات کے بعد وہ برچھی پھر ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُنے واپس لے لی ، تو خلیفہ
دوئم بلا فصل عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے وہ برچھی اُن سے مانگ لی ، اُن کی شہادت
کے بعد وہ برچھی پھر ز ُبیر رضی اللہ عنہ
ُنے واپس لے لی ، تو خلیفہ سوئم بلا فصل عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ُ نے وہ
برچھی اُن سے مانگ لی ، اُن کی شہادت کے بعد وہ برچھی خلیفہ چہارم بلا فصل علی رضی
اللہ عنہ ُ کے خاندان کے پاس پہنچی تو ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے اُن سے واپس لے لی
اور پھر ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُکی موت تک وہ برچھی انہی کے پاس رہی ،
فتح مکہ کے موقع اللہ تبارک و تعالیٰ نے ز ُبیر رضی اللہ
عنہ ُ کو ایک اور فضلیت عطاء فرمائی کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ ولعی آلہ وسلم نے
فتح مکہ والے دِن ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ُ کا انصار
کی سرداری والا جھنڈا بھی عطاء فرمایا اور ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ اسلامی لشکر کے
دو جھنڈے ہاتھوں میں بلند کیے فاتح کے حیثیت سے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ، اور دونوں جھنڈے کعبہ شریف کے پاس گاڑے ، اور کچھ روایات میں ہے کعبہ میں لٹکا
دیے گئے ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ ہر غزوہ میں شریک رہے ،اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرتے کرتے اِن کے جسم پر
بہت سے تمغے زخموں کی صورت میں ثبت ہوئے ، جِن میں سے تین تو بہت بڑے تھے ، جن کے
بارے میں عروہ بن ھشام رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ میرے دادا کہ
جسم پر تین نشان بہت نمایا ں تھے ۔دو تو اُن زخموں کے نشان تھے جو جِہادء بدر میں لگے تھے ، اور ایک
اُس زخم کا نشان تھا جو جِہادء یرموک میں لگا تھا ، اور وہ زخم اتنے گہرے تھے کہ
میں اُن میں اپنی انگلیاں پھیرا کرتا تھا ، اور میں اُس وقت دس سال کا تھا
"""،
جِہادء یرموک میں ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی اللہ کی راہ میں
جانبازی اور بہادری بہت ہی نمایاں نظر آتی ہے ، کہ جب شام کے علاقے میں رومیوں سے
لڑائی شروع ہونے والی تھی تو ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے کافروں کے ٹڈی دل لشکر کو
دیکھ کر مجاھدین سے مخاطب ہو کرکہا """ یہ فوج !ارے یہ تو بہت
کمزور ہے ۔ یہ دیکھو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ کتنی حقیر ہے """
اور یک یکا کُفر کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے بُزدِلوں کے لشکر میں اللہ کا قہر بن
کر ٹوٹ پڑے اور اُن کے لاشے گِراتے ہوئے دوسری طرف نکل گئے ، اور پھر اِسی طرح اُن
کی صفوں کو کاٹ گِراتے ہوئے واپس اپنی فوج میں تشریف لے آئے ، ز ُبیر رضی اللہ عنہ
ُ کی اِس فِدائی کاروائی کو دیکھ کر سب ہی مجاھدین کے حوصلے بڑھ گئے ، مضبوط تر ہو
گئے ، اور وہ اللہ کے دُشمنوں کے لیے ناقابل تسخیر بن گئے اور اللہ کے لطف و کرم
سے اپنے وقت کی سُپر پاور کو شکست کی ذلت سے دوچار کر دِیا ،
سن چھتیس 36 ہجری ، جمادی
الثانی کے آخری حصے میں ، جب چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ
ُ کے خِلاف جنگ جمل کا میدان تیار ہوا ، تو ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ، علی رضی اللہ عنہ ُ کے مخالفین میں تھے ، میدان
میں پہنچ کر علی رضی اللہ عنہ ُ نے دریافت کیا کہ """ ز ُبیر ابن
العوام کہاں ہیں ؟ """ ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ
، علی رضی اللہ عنہ ُ کے سامنے آئے ، دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوئے کہ
اُن کی سواریوں کے جانوروں کی گردنیں ایک دوسرے سے مل گِئیں ، تو امیر المؤمنین
علی رضی اللہ عنہ ُ نے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی ایک حدیث شریف یاد کروائی ، جِسے سُن کر ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا
""" اے کی قسم میں آپ سے نہیں لڑوں گا """ ، اور
صفوف میں سے نکلتے ہوئے مدینہ المنورہ کی طرف واپس روانہ ہوگئے ،
یہ منظر دیکھ کر امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے اِرد
گِرد جمع منافقین جو کہ خود کو شعیان علی
و اھل بیت کہہ کر مسلمانوں میں فساد کروا رہے تھے ، اُن منافقین میں سے عمرو بن
جرموز نامی ایک شخص ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کے پیچھے ہو لیا ، اور اپنے ساتھ دو اور
منافقوں فضالہ بن حابس اور نفیع کوبھی شامل کیا ، جنہوں نے ز ُبیر رضی اللہ عنہ
ُ کو کوفہ سے چند میل کے فاصلے پر وادی
السباع کے مُقام پر پا لیا ، اور ملاقات کا شوق ظاہر کیا، ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ
کے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ شخص اسلحے کے ساتھ کسی تیاری میں لگتا ہے ، ز ُبیر رضی
اللہ عنہ ُ نے فرمایا "کوئی بات نہیں ، ملنے دو "، اور کچھ روایات میں ہے کہ نماز کا وقت تھا ، پس
ان لوگوں نے نماز کے وقت ہونے کا ذِکر کر کے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو روکا ، اور
جب وہ اپنی سواری روک کر اترنے والے تھے تو بد بخت منافق عمرو بن جرموز نے پیچھے
سے دو وار کر کے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو زخمی کیا اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے
اُس کے دو جہنمی ساتھیوں نے بھی حمل کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے حواری ،جیتے جی دُنیا میں ہی جنتی ہونے کی ضمانت حاصل کرنے والے ز ُبیر
رضی اللہ عنہ ُ کو شہید کر کے اپنے لیے جہنم پکی کر لی ،
البدایہ و النھایہ میں اِمام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے لکھا
کہ زیادہ مشہور یہ ہے کہ ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کو وادی السباع میں سوتے ہوئے شہید
کیا گیا ،
عمرو بن جرموز نے ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی تلوار ، انگوٹھی
اور سر تن سے جدا کیے ، اور لے کر أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی خدمت میں
حاضر ہوا کہ اس طرح وہ مقربین میں سے ہو سکے اور اُن کا اعتماد حاصل کر کے
مسلمانوں کے درمیان فتنے اور فساد کو مزید ہوا دے سکے ، لیکن جب وہ أمیر المؤمنین
علی رضی اللہ عنہ ُ کی خدمت میں پہنچا ، اور ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی تلوار اُن
کی خدمت میں بھجوائی ، اور ملاقات کی اجازت طلب کی ، تو أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نےز ُبیر رضی
اللہ عنہ ُکی تلوار دیکھ کر فرمایا """ اِس تلوار نے ہمیشہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پریشانیوں کو دُور کیا ہے """
، اور اُس بد بخت جہنمی کو ملاقات کی اجازت نہ فرمائی ، بلکہ اجازت طلب کرنے کا پیغام لانے والے سے کہا """ جاؤ ، صفیہ کے بیٹے کے قاتل
کو جہنمی ہونے کی خبر سنا دو""" ،
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی لاش کو وہیں وادی السباع میں ہی
دفن کیا گیا تھا ۔
ز ُبیر رضی اللہ عنہ ُ کی شہادت کی خوش خبری بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز
ُبان مبارک سے ادا ہو چکی تھی جب ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، ابو
بکر الصدیق، عُمر الفاروق، عُثمان الغنی ذوالنورَین ، علی بن ابی طالب ، طلحہ
،زبیر بن العوام، اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ حِراء پہاڑ پر کھڑے تھے کہ اچانک پہاڑ لرزنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿اسْكُنْ حِرَاءُ فَمَا
عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِىٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ:::سُکون پکڑو (اے)حِراء ، تُمہارے اُوپر سوائے نبی ، یا صدیق
، یا شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے﴾، صحیح مُسلم /حدیث6401/کتاب فضائل الصحابہ/باب2،حدیث کی تقریبا ً سب ہی معروف کتابوں میں الفاظ کے کچھ فرق سے
یہ حدیث شریف مذکور ہے ،
اللہ کے یہ سچے والی ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی سچے عملی محب اپنی ساری زندگی اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ نچھاور
کرتے ہوئے تاریخ دانوں کے محتاط اندازے کے مطابق چھیاسٹھ 66 سال کی عُمر میں اللہ کے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق شہادت کے عظیم رُتبے پر
فایز کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے چل پڑے ، فانی دُنیا کی امتحانوں سے نجات دی
گئی اور اللہ کی رضا اور جنت کی طرف بلا لیا گیا ۔ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ،
اللہ تبارک و
تعالیٰ ہم سب کو اور ہر ایک کلمہ گو کو یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم اللہ کے اِن سچے
اولیاء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن سچے محبان ، یعنی صحابہ
رضی اللہ عنہم اجمعین کو اپنے لیے مثالی شخصیات بنا کر ان کے نقش قدم پر چل سکیں ۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ و السلام علی رسولہ الامین ۔
مصادر ومراجع ::: صحیح البخاری ،صحیح مُسلم ،
صحیح ابن حبان ، سُنن ابو داؤد ، سُنن الترمذی ، سُنن ابن ماجہ ، سُنن النَسائی ،المُستدرک
للحاکم ، مُسند أحمد ، سُنن الدارقُطنی ، تاریخ
مدینہ دمشق،الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب ، سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب -
رضي الله عنه – أسد الغابہ ، الإصابة في تمييز الصحابة، سير أعلام النبلاء ، سمط
النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي ، السيرة النبوية لابن كثير ، الرياض النضرة
في مناقب العشرة ، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، الفتنة ووقعة الجمل ، الكامل في التاريخ
، تاريخ الرسل والملوك ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔