Sunday, March 24, 2013

جن آگیا ، جن آ گیا


ضِرار بن الأزور
خیبر کے ایک بڑے قبیلے بنو اسد کا دولت مند ، ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل قیمتی گلّے کی ملکیت رکھنے والا، خوبصورت، بہادر،کڑیل جوان ،جس کی شمشیر زنی،نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری میں مہارت کا کوئی ثانی نہ تھا ، 
 رومیوں کے لشکرمیں خوف اور دھشت کا طوفان اٹھانے والا،اللہ کے علاوہ ہر ایک سے بے خوف مجاہد،سرفروش اور جانباز جرنیل جس کے حملہ آور ہوتے ہی رومی """جن آگیا ،جن آگیا"""  کہتے ہوئے دم دبا کر بھاگنے لگتے ، کہا جاتا ہے کہ جب لوہے کی زرہوں میں ڈوبے رومی جنگجواللہ کے سا سچے ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب  کے سامنے آتے تو وہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اپنی قمیص بھی اتار دیتا اور اُس  کی یہ شجاعت دیکھ رومی اُس سے اتنے خوف زدہ ہوتے کہ اُن کے دلوں میں یہ خیال پختہ ہوتا گیا کہ یہ کوئی انسان نہیں ، بلکہ جِن ہے لہذا وہ لوگ """ضرار رضی اللہ عنہ ُ  """  کو اس حال میں دیکھتے ہی """جن آ گیا جن آ گیا """کہتے ہوئے اُس کی زد سے دور بھاگنے کی کوشش میں لگے رہتے ،

میدان کارزار میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ مسلسل تابڑ توڑ حملے کرنے میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا ،اپنی بے مثال بہادری  اور لاجواب شجاعت و جوانمردی کی بدولت ایک ہزار دشمن افراد پر بھاری  سُپر کمانڈو جنگجو مجاہد جس کا نام سن کر دشمن محاورۃً نہیں  بلکہ حقیقتا تھر تھر کانپنے لگتا ،جو اپنی بے پناہ بے مثال بہادری اور مجاہدانہ کاروائیوں کی بنا پر تاریخِ اسلام کے اوراق میں قیامت تک جگمگاتارہے گا ، اللہ کا یہ حقیقی ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب  """ضِرار رضی اللہ عنہ بن الٔازور الاسدی """کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ،
    یہ ایک ایسے عظیم المرتبہ ، جلیل القدر صحابی تھے جنہیں مذکورہ بالا تمام خوبیوں اور صِفات کے ساتھ ساتھ اسلامی لشکر کا قابلِ رشک جرنیل ہونے کے علاوہ بلند پایہ شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ، ضِرار رضی اللہ عنہ جب بنو اسد قبیلے کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے خیرُالوریٰ ،نور الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی خدمتِ اقدس میں اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوئے ، تو انہوں نے پہلا کارنامہ یہ سر انجام دیاکہ ایک ہزار اونٹ اُن کے چرواہوں سمیت مسلمانوں کے بیت المال کے لیے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وعلیہ آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے ،
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کے قریبی وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے انہیں نبوت کے ایک جھوٹے دعویٰ دار طلیحہ الاسدی کے خلاف جہاد کے لیے ارسال کیا اور اس مہم کا سالار (کمانڈر) مقرر فرمایا ، طلیحہ اور اس کے ساتھی مجاھدین کی یلغار کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور اپنے بے شمار جانی نقصان کروا کے راہ فرار اختیار کر گئے ،

 اللہ کے اس سچے ولی  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُشمن  ، زکوۃ دینے سے انکار کرنے والے مالک بن نویرہ کو قتل کیا ، آج تک  اس منکر ء زکوۃ کے پیرو کار ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں ،جنہوں نے اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے مالک بن نویرہ اور اس کے پیرو کاروں کے چھیتڑے اُڑا دیے ،  

 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ مرتدین کا مکمل صفایا کرنے سے فارغ ہوئے، جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والوں ، مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی، طلیحہ بن خویلد اور ان کے پیروکاروں کو عبرتناک شکست سے دو چار کرنے کے بعد قیصر و کسریٰ یعنی ایران اور روم کو فتح کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ، چونکہ یہ دونوں اسلام کے خلاف بڑے مضبوط قلعے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے ایمان سے لبریز جرات و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئےلشکرِ اسلام کو حکم دیا کہ کسریٰ کو فتح کرنے کے لیے تیار ہو جائیں،

مجاھد مؤمنین ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ اللہ تعالیٰ کے حُکم کی تعمیل میں ، اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے اپنے امیر المؤمنین  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے،

((( مسلیمہ کذاب اور اسود العنسی کے خاتمے کا ذکر البراء بن مالک رضی اللہ عنہ ُ ، فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہُ اور ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے واقعات میں بیان کر چکا ہوں )))  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُ کی طرف سے اعلان جہاد سن کر بنو اسد کا یہ عظیم  اسد، جانثارِ اسلام اپنے ساز و سامان کو جمع کرنے لگا اور اپنے ہتھیاروں کو اپنے جسم پر سجانے لگا ، اس کی تیاری دیکھ اس کی بہن خولہ بنت ازور رضی اللہ عنھا پوچھا ''' بھائی جان کہاں کی تیاری ہے ؟کس معرکے کی طرف روانگی ہے ؟ ''' ضرار رضی اللہ عنہ نے اپنی پیاری اور لاڈلی بہن کو جواب دیا ''' بہن امیر المؤمنین کی طرف سے اعلان جہاد سن کر یہ سوال کیسا ؟ ''' خولہ رضی اللہ عنھا نے کہا ''' بھائی آپ جانتے ہیں کہ میں تیر اندازی میں بڑی مہارت رکھتی ہوں اور تلوار بازی میں بھی کسی سے کم نہیں ، آپ امیر المؤمنین سے میری سفارش کیجیے تا کہ میں بھی جہاد میں حصہ لے سکوں
ـ'''
    ضرار رضی اللہ عنہ نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ''' میری بہن یہ جنگ عورتوں کا کام نہیں ہوتا ، تمہار ا بھائی ان شاء اللہ تمہارے خاندان کی نمائیندگی کے لیے کافی ہے ، بہن نے جواب دیا کہ نہیں بھائی جان مجھے جہاد میں شامل ہونا ہی ہے لڑائی نہ سہی ، زخمیوں کی مرہم پٹی ، پانی پلانے کے کام کروں گی،
    اس طرح انہیں جہاد میں شمولیت کی اجازت مل گئی ، حضرت خولہ رضی اللہ عنھا کا ذکر سابقہ شُماروں میں سے ایک میں ہو چکا ہے اس لیے میں یہاں اُن کے بارے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کروں گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ ُکے حُکم پر اسلامی لشکر اپنی مہم پر روانہ ہوا ، اور شام کے مرکزی شہر دمشق کا محاصرہ جا کیا ابھی یہ محاصرہ جاری تھا کہ تاریخ اسلام ہی کیا تاریخ انسانی کے ایک عظیم جرنیل  اللہ کی تلوار ،خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ شاہِ روم ہرقل ایک بڑا لشکر لے کر فلسطین کے مشہور مقام اجنادین میں پہنچ کر خیمہ زن ہو چکا ہے ، اس کی کوشش یہ ہے کہ لشکرِ اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جائے،

سیف اللہ (اللہ کی تلوار) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ُ نے لشکرِ اسلام کے تجربہ کار، فدا کار اور جانباز ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ اس نازک ترین صورتحال کا کس طرح مقابلہ کیا جائے ، انہوں نے مشورہ دیا کہ سردست دمشق کا محاصرہ ترک کر دیا جائے اور شاہِ روم ہرقل کی فوج کا مقابلہ کیا جائے تجربہ کار ساتھیوں کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے،سیف اللہ  خالد رضی اللہ عنہ ُ نے لشکرِ اسلام کو فلسطین کے سرحدی مقام اجنادین کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا جہاں رومی لشکر ڈیرے ڈالے بیٹھا تھا ، جب لشکر دمشق کا محاصرہ ترک کر کے روانہ ہوا تو دشمن نے موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اچانک پیچھے سے حملہ کر دیا ،یہ حملہ اس قدر اچانک سے ہوا کہ لشکرِ اسلام کو اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا ، رومی بگولے کی طرح آئے اور لشکرِ اسلام کے پیچھے محو سفر خواتین کو گرفتار کر کے بڑی تیز رفتاری سے پیچھے ہٹ گئے ، گرفتار ہونے والی خواتین میں حضرت ضِرار رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت خولہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، انہوں نے اپنے ساتھ گرفتار ہونے والی خواتین کو منظم کیا اور خیموں کی چوبیں پکڑ کر دشمن پر حملہ کر دیا، پہرہ دینے والوں کے سر پھوڑ دئیے ، خواتین نے جس انداز میں اپنا دفاع کیا ، یہ کارنامہ بھی تاریخِ اسلام کا ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے ، اجنادین فلسطین کی سرحد پر واقع سر زمین شام کا معروف و مشہور مقام ہے، یہاں شاہِ روم نے ایک لاکھ مسلح رومی فوج بھیجی اور خود حمص میں قیام کیا ، اللہ کے مجاھدوں نے  روم کے ابلیسی لشکر کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ نے اپنے مجاھدوں کو فتح کا تاج پہنایا اور ابلیسی لشکر کو شکست و ذلت کا طوق ،

اس جِہاد میں مؤمنین کے  چند مشہور جرنیلوں کو بھی  اللہ تبارک و تعالیٰ نے طمغہء شہادت سے سرفراز فرمایا ، جن میں سے فدائی کاراوئیوں کا آغاز کرنے والے عظیم کمانڈو عکرمہ رضی اللہ عنہ ُ بن ابی جہل ، جارشا بن ہشام ، یعم بنعبداللہ البعدوری، ہشام بن عاص بن وائل السعجی ،فضل بن عباس بن عبد المطلب، ابان بن سعید بن عاص اورہماری آج کی محفل میں بیان کی جانے والی مثالی شخصیت ضرار بن الأزور رضی اللہ عنہم اجمعین سر فہرست ہیں ،
     ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ نے اس معرکے میں بھی اپنی اللہ داد بہادری کے مطابق ایسی جنگ کی کہ کوئی بڑے سے بڑا جری بہادر بھی ان کے سامنے ٹھہر نہ سکا ، رومی جرنیل روان کو ضرار رضی اللہ عنہ نے موت کے گھاٹ اتارا، ضرار رضی اللہ عنہ نے اسلام کی قبولیت کے بعد ہر معرکے میں جوانمردی ، جانفشانی، جانبازی ، شمشیر زنی اور نیزہ بازی کے ایسے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیئے جو قیامت تک تاریخِ اسلام کے اوراق میں جگمگاتے رہیں گے اور جن سے ہر دور میں اسلام کے مجاھد ایمانی حرارت حاصل کرتے ہوئے میدانِ جہاد میں قابلِ قدر خدمات سر انجام دیتے تھے، دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے ،

معرکہ ء اجنادین جسے جِہاد یمامہ بھی کہا جاتا ہے ،  میں  ضِرار رضی اللہ عنہ ُ نے دشمنوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ وہ سب کچھ بھول کر صرف انہی کے گرد ہو گئے اور ضِرار  رضی اللہ عنہ ُ کی دونوں پنڈلیاں کٹ گئیں تو وہ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اللہ کے دشمنوں پر اللہ کا عذاب بنے رہے اور وہ سب کے سب مل کر بھی اللہ کے اس مجاھد پر  اس حال میں بھی قابو نہ پاسکے ،

اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرنے کے شوقین ، اللہ  اور اس  کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کے سامنے ایک لمحے کے لیے بھی نہ جھکنے والا اللہ کا یہ سچا ولی اسی طرح اپنے گھٹنوں کے بل اللہ کی راہ لڑتا رہا یہاں تک  گھوڑوں کے پیروں تلے روندے گئے ، لیکن معرکہ رکنے تک میدان ء جِہاد سے نہ نکلے ، معرکہ رکنے پر اپنے امیر اللہ کی تلوار ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ُ کے پاس پہنچائے گئے  جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ُ اس میدانءِ جِہاد سے رخصت ہونے والے تھے تو ان کے رُخصت ہونے سے ایک دِن پہلے اللہ کا یہ سچا ولی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا سچا محب اپنے رب کی طرف روانہ ہو گیا ،     
یہ تھے اللہ کے سچے ولی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقیقی اور عملی محب ،  اللہ کرے کہ ہم انہیں اپنے آئیڈیلز بنائیں ،

 اللہ ہمیں ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔     

مصادر و مراجع ::: المستدرک الحاکم ،  الأصابہ فی تمیز الصحابہ ،  تھذیب التھذیب ، مقدمۃ ابن خلدون ، الأستعیاب فی معرفۃ الأصحاب،  معجم  البلدان ، تاریخ الطبری ، معجم الصحابہ ، معجم مااستعجم ، فتوح الشام ، البدایہ و النھایۃ،

 

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

Sahaba ke aur waqiat likhe janab

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔