Sunday, March 24, 2013

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ


اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت بے حساب و بے کنار ہے ، جِسے جو چاہتا ہے دیتا ہے ، اور یہ بھی اللہ ہی  کی سُنّت میں مُقرر ہے کہ اُس کے سچے اِیمان والے تابع فرمان عملی مؤمن بندوں کے سچے اِیمان اور نیک اعمال کو دیکھ کر اللہ کی رحمت اُن کے مزید تر ہو جاتی ہے ، پھر چاہے تو ایسی ایسی عطاء فرماتا ہے جس تک رسائی کسی دوسرے کے لیے ناممکن ہوتی ہے۔ اللہ کی ایسی ہی بے مثال رحمتوں میں سے ایک رحمت کسی اِیمان والے بندے کو اُس کے جیتے جی دُنیا میں ہی جنّتی ہو جانے کی خوشخبری عطاء فرما کر اُسے جنّتی بنا دینا ہے۔  آج میں ایسے ہی دس خوش نصیبوں میں سے جنہیں دُنیا میں جیتے جی اُن کے ناموں کے ساتھ جنّتی ہونے کی سندیں عطاء ہوئیں ، میں سے  ایک جنّتی کا کچھ ذِکر کروں گا ، اِن شاء اللہ۔  اللہ کرے کہ اللہ کا یہ سچا ولی ، میری یہ چند باتیں اور اُس کا یہ تذکرہ پڑھنے سننے والوں کے لیے اُن کی مثالی شخصیات (آئیڈیلزIdeals-) میں شامل ہو جائے ،

اللہ کا یہ سچا ولی ، دُنیا میں چلتے پھرتے ہوئے جنّت کی سند حاصل کرنے والا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قبیلہ قُریش میں سے تھا ، اور  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  پر اِیمان لانے والے سب سے پہلے مؤمن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ راشد أمیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رشتے دار بھی تھا ،،،

،،، ان کا تعلق بنی قریش کے ذیلی قبیلے بنو تمیم سے تھا ،،یہ بھی  ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے بر حق دِین اسلام کی دعوت کو پہلے پہل ہی قبول کیا ،  اور اللہ  کے اِس دِین اور اللہ  کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم پر اِیمان لے آئے ،

 ان کواِسلام کی طرف دعوت دینے والے ، اِسلام کی رغبت دِلانے کا نیک ترین کام کرنے والے ابوبکر صدیق رضی اللہ  عنہ ُ تھے،

سُرخی مائل سفید  رنگت ، درمیانے قد کاٹھ اور کچھ گھنگھریالے بالوں والے  یہ اللہ کے محبوب بندے """ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ"""تھے،

اللہ تبارک و تعالیٰ نے طلحہ رضی اللہ عنہ  کو طاقتور و توانابدن ،چوڑےچکلے سینے ، عریض کندھوں والا بہت ہی بہادر ، اور پھرتیلا بنایا تھا ، اور چال بھی ایسی عطاے فرمائی تھی کہ دیکھنے والا اُن کی قوت اور مضبوطی سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکتا ،،،،،طلحہ رضی اللہ عنہُ اس قدر چست، پھرتیلے،فعال اور تیز طرار تھے کہ جب بھی کسی جانب دیکھتے تو  پورے ہی جِسم کو حرکت میں لے آتے،ان کی والدہ کا نام """صعبۃ بنت عبداللہ" تھا،

طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ کچھ یوں ہےکہ ایک مرتبہ طلحہ رضی اللہ عنہ تجارت کے لیےبصریٰ گئے،وہاں پر ایک راہب لوگوں سے کہہ رہا تھا """جاؤ دیکھو، کیا کوئی شخص مکہ سے آیا ہوا ہے؟"""،

 طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا""" میں مکہ سے آیا ہوں"""،

 یہ سُن کر راہب اُن کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا """ کیا احمد کا ظہور ہو چکا ہے؟"""،

 طلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا""" کون احمد؟"""،

 اُس نے کہا """ احمد بن عبدالمطلب،وہ آخری نبی ہیں،وہ اللہ کے گھر  (بیت اللہ ، مکہ المکرمہ)سے ہجرت کر کے کھجوروں کے اُس علاقے کی طرف جائیں گے جہاں کی زمین بنجر اور پہاڑوں کی چٹانیں سخت ہیں"""،

پھر اُس راہب نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ وہ فوراً      اُس آخری نبی  کے  لائے  ہوئے دِین  کو  قبول  کرنے  میں  سبقت  کریں۔طلحہ  رضی  اللہ  عنہ  وہاں ے کسی اور طرف جانے کی بجائے اپنا تجارتی سفر ترک کر کے فی الفور بصریٰ سے ہی واپس مکہ المکرمہ تشریف  لے  گئے،جب  وہ  مکہ  پہنچے  تو  لوگوں  سے  پوچھا  کہ  """ کیا  یہاں  پر میرے  بعد  کوئی   واقعہ  رونما  ہوا؟ """،

لوگوں نے بتایا کہ """ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب  جو امین کے لقب سے مشہور ہیں ،انہوں نے نبوت کا  دعویٰ کیا ہے اور ایک نئے دِین کی دعوت لے آئے ہیں ،اورمحمد کی دعوت قبول کرنے والوں میں ابن ابی قحافہ عبدالرحمٰن ابو بکر بھی ہے"""،

چونکہ طلحہ رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست تھے اور دل سے ان کا احترام کرتے تھے،اس لیے فوراً    ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا""" اے ابی قحافہ کے بیٹے ! اُٹھو ، آؤ ہم عبادت کریں"""،

 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا""" کس کی؟"""

 طلحہ رضی ا للہ عنہ نے کہا""" لات اور منات  کی"""

 ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا""" یہ لات  اور منات کون ہے؟"""

 طلحہ رضی اللہ عنہ بولے""" اللہ کی بیٹیاں ہیں """

 صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا""" اچھا !اگر یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تو ان بیٹیوں کی ماں کون ہے؟"""

یہ سن کر طلحہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ غلطی پر ہیں اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سچے ہیں ، صحیح راستے پر ہیں،

پھر صدیق رضی اللہ عنہ نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور کہا"""طلحہ ! اُس کی عبادت کرو جو سب کا خالق و مالک ہے اور جو  کبھی فنا نہیں ہو گا """،

چنانچہ انہوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دعوتِ اسلام کو قبول کر لیا اور اپنا دِل و رُوح اپنے رب کے سامنے  جھکا دیے ،اور اُن کے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے بھی اُنہیں  اپنے محبوب بندوں میں قبول فرما لیا ،

اس کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اُن کی بیعت فرمائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو راہب والی بات بتائی جس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار کیا،

چونکہ طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ بھی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے،اِس لیے ان کو بہت اذیتیں دی گئیں،قریش نے ان کا بہت ستایا،ان کو بہت مارا پیٹا گیا، نوفل بن خویلد بن اسد نے انہیں اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کو ایک رسی سے باندھ دیا،اسی طرح طلحہ رضی اللہ عنہ کے بھائی عثمان بن عبیداللہ نے ان دونوں کے نماز سے روکنے کی بہت کوششیں کیں مگر ناکام رہا،ہجرت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کو دینی بھائی چارے میں  منسلک فرما دیا،جب طلحہ رضی ا للہ عنہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ابو   ایوب   انصاری  رضی اللہ عنہ کو ان کا دینی بھائی بنایا گیا،

طلحہ رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے کیونکہ نبی اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو اور سعید رضی ا للہ عنہ بن زید کو دشمنوں کی خبرگیری کے لیے مقامِ حوراء اِرسال فرمایا تھا ، جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو انہیں یہ خبر ملی کہ بدر کے مُقام پر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے دِین کے دُشمنوں کے ساتھ جِہاد میں مصروف ہو چکے ہیں ، اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سربراہی میں اللہ کے دِین کے لیے جانیں لٹانے کی خواھش کو روکتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم کی تعمیل میں مصروف رہے اور مشرکین کی حرکتوں کی خبرگیری کرتے رہے، اور اِس طرح جِہادءِ بدر میں  اُن کی بھی شمولیت ہو گئی ، جسے اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے شرفء قبولیت عطاء فرمایا اور انہیں بھی مالِ غنیمت عطا کیا،

اپنی خواہشات  حتیٰ کہ اپنی ضرویات تک کو بھی بالائے تاک رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی تعمیل کرنا صرف انہی تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ سارے ہیں صحابہ کی فطرت ثانیہ تھا ، اللہ اُن پر راضی ہوا اور اُنہیں راضی رکھا ، اللہ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت دے ، اُن کی حبء  اور اطاعتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دسواں حصہ بھی اگر ہم میں میسر ہو جائے تو ہماری اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی کرتوتوں کے سب لُٹائی گئی عِزت لَوٹ سکتی ہے ،

جِہاد ء بدر میں تو طلحہ رضی اللہ عنہ ُ کو اللہ کی راہ میں لڑنے کا موقع میسر نہ ہوا تھا لیکن جِہاد ء اُحد میں انہوں نے ایسی جانثاری ، جانبازی ، بہادری اور سرفروشی کا مظاہرہ کیا جِس میں اُن کے جِہادء بدر میں سے دُور رہنے  کی کمی پوری ہو گئی ،جِہادء اُحد میں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر چاروں طرف سے کافروں نے یلغار کر دی اور اِردگِرد صحابہ رضی اللہ عنہم نہ رہے تو ایسے کڑے ترین وقت میں طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے سامنے اپنے جِسم کو ڈھال بنا کر قائم ہو گئے ، اُس شدید ترین وقت میں طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صِرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے رشتے میں ماموں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ کھڑے تھے ،

دونوں ہی بہت ماہر تیر انداز تھے ، انہوں نے اپنی تیر اندازی کے ذریعے دُشمنوں کے دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے جسموں پر بے شمار تیر اور نیزوں اور تلواروں کے زخم سجاتے ہوئے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو محفوظ رکھا ، اور اللہ کے دِین کے کامیاب ہونے اور کفر کے ناکام ہونے کا سبب بن گئے ،

اس معرکے میں طلحہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے ہاتھ پر روکتے رہے  جس کے نتیجے میں اُن کا ایک ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو گیا ،

سر میں تلوار کا ایک شدید گھاؤ لگا ، پورا جِسم زخموں سے چُور چُور ہوا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنی پُشت پر اٹھا لیا اور دُشمنوں کے نرغے سے نکال کر ایک چٹان تک پہنچایا ، اللہ  نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے طلحہ رضی اللہ عنہ ُ کی یہ محبت اور جانثاری دیکھ کر اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی  زبان مُبارک پر ہی طلحہ رضی اللہ عنہ ُ کے لیے یہ اعلان جاری کروایا ﴿أَوْجَبَ طَلْحَةُ:::طلحہ نے (اپنے ) لیے جنّت واجب کر لی سنن الترمذی / حدیث4103/کتاب المناقب/باب22،

اور سعد رضی اللہ عنہ ُ  کی اس جان نثاری پر خوش ہو کر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ ُ کے لیے وہ فرمان اِرشاد دفرمایا جو کسی اور کے لیے نہیں فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے پاک پاتھوں سے سعد رضی اللہ عنہ ُ کو تیر عطاء فرماتے اور پاک زبان سے یہ اِرشاد فرماتے ﴿يَا سَعْدُ ارْمِ ، فِدَاكَ أَبِى وَأُمِّى:::تِیر پھینکو اے سعد تُم پر میرے ماں باپ قُربان ہوںصحیح البخاری/حدیث2905/کتاب الجہاد/باب80،صحیح مُسلم/حدیث6386/کتاب فضائل الصحابہ/باب5،

اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ::: اِیمان والوں میں سے کچھ مَرد ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سےجو عہد کیا تھا اُسے نبھادِیا ہے پس اُن میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو اپنا کام مکمل کر چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو(اپنے عہد کو پورا کرنے کے )انتظار میں ہیں اور انہوں نے(اپنے عہد میں )کوئی تبدیلی نہیں کیسُورت الاحزاب /آیت 23،کے بارے میں کسی شخص  نے سوال کیا کہ """ عہد پورا کرچکنے والے کون لوگ ہیں ؟ """ تُو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ  کو دیکھ کر اِرشاد فرمایا ﴿هَذَا مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ::: یہ اُن میں سے ہے جو اپنا عہد نبھاچکے ہیںسنن الترمذی/کتاب تفیسر القران/باب34،امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے حسن صحیح  قرار دیا،

اور ایک روایت ہے کہ فرمایا ﴿طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ::: طلحہ اُن میں سے ہے جو اپنا عہد نبھاچکے ہیںسنن ابن ماجہ/حدیث124، سُنن الترمذی /کتاب المناقب/باب 22،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے حسن قرار دیا ،

  ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا ﴿مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِى عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ::: جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ کسی شھید کو زمین کے اوپر چلتا ہوا دیکھے تو وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لےسنن الترمذی /حدیث/کتاب المناقب/باب22، امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،

غز وہ ذی قرد 6 ہجری میں ہوا ، اس معرکہء جِہاد کو تاریخ میں غزوۃ الغابہ بھی کہا جاتا ہے ،مُختلف تاریخی روایات کی روشنی میں اس غزوہ میں بھی مجاھدوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد سات سو مذکور ہے ،

 مُسلمانوں کے ابتدائی دور کے جِہادی معرکوں کی طرح اِس معرکے میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ  علیہ وعلی  آلہ وسلم نے اپنے تھوڑے سے جانبازوں کے ساتھ کفر کا مقابلہ کیا ، ایسی قوت کا مقابلہ کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اذیت دینا چاہتی تھی اور انکار ء اِسلام کی عام روش سے ہٹ کر کسی اور انداز میں اُن کی اہانت کرنا چاہتی تھی ، کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اونٹ چُرا لیے تھے ، اگر انہیں چھوڑ دِیا جاتا تو دُنیاء کُفر اس بات پر اِتراتی رہتی اور مُسلمانوں کو طعنے مارتی رہتی کہ تمہارے  رسول اللہ کے جانور تک تو تم اور تمہارا رسول چُھڑا نہیں سکے ، لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان مبارک کی حفاظت جو کہ در حقیقت اللہ کے دِین کی حفاظت ہے ، اُس حفاظت کے لیے

ذی قرد ایک چشمے کا نام تھا ہے  جو مدینہ اور خیبر کے درمیان واقع تھا، کہا جاتا ہے کہ اُس کے آثار اب بھی باقی ہیں ، قبیلہ بنو غِطفان کے کچھ کافر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ ہانک کر لے گئے تھے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ اُن کافر چوروں کو سزا دینے کے لیے نکلے ،

ذی قرد چشمے پر ایک کنواں تھا جس کا نام """بیسان صالح""" تھا،،،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو تبدیل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا """ اِس کا پانی اچھا ہے"""،

طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں خرید کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا، اور مجاھدین کے جانور ذبح کر کے ان کے کھانے کا انتظام بھی کیا ، یہ سب دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم بہت خوش ہوئے اوراِرشاد  فرمایا ﴿اے طلحہ ! تم تو بڑے سخی ہو اس کے بعد طلحہ رضی ا  للہ عنہ کا نام """ طلحۃ الفیاض""" پڑ گیا۔

انہوں نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی ،بیعتِ رضوان میں بھی موجود تھے،ہر ہر مقام پر انہوں نے اپنی بہادری اور جانثاری کے جوہر قائم کر دیئے،

طلحہ رضی اللہ عنہ  جس قدر دولت مند تھے اسی قدر سخی  اور فیاض بھی تھے، ان کی فیاضی اور فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے کی صِفت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ  وسلم نے ان کو """ طلحۃ الخیر""" کا لقب  بھی عطا فرمایا،

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ جبلء  حِراء کے اوپر تھے  تو وہ پہاڑ ہلنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ﴿ اثْبُتْ حِرَاءُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ ::: اے حراء مضبوطی سے کھڑے رہو تُمہارے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور شہداء ہی ہیں

وَعَدَّهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :::  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُنہیں گِن کر (یعنی نام لے کر) فرمایا ﴿أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ وَابْنُ عَوْفٍ وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ::: ابو بکر ، اور عُمر ، اور عُثمان ، اور علی ، اور طلحہ ، اور زُبیر ،اور سعد ، اور ابن عوف ، اور سعید بن زید

طلحہ رضی اللہ عنہ پہلے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین   ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  اور دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین   عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں  اُن کے خاص مُشیروں  میں شامل تھے ، اُن کے مشوروں کو سب ہی بڑی قدر و منزلت کے ساتھ قبول فرماتے تھے ، دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ ان خاص بزرگ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اجمیعن میں شامل تھے جن کو خلیفہ بنانے کے لیے نامزد کیا گیا تھا،

طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی روشن زندگی میں بہت سی شادیاں کیں، اس کے علاوہ اِن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد بھی تھے،  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی "اُمِّ کلثوم" طلحہ رضی اللہ عنہ  کے عقد میں تھیں،

ان کی ساری بیگمات میں کُل اولاد  دس بیٹے اور چار بیٹیاں  تھیں، ان کی اولاد  کئی نسلوں تک اعلیٰ مناصب پر فائز تھیں،طلحہ رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی "اُمِّ اسحاق"کا عقد  حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ہوا،

 حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ حسین  بن علی رضی اللہ عنہما کے عقد میں آئیں،فاطمہ بنت حسین  رضی اللہ عنہ بھی  انہی کی بیٹی تھیں ،

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عبدالرحمن اور مصعب بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم بھی طلحہ رضی اللہ عنہ ُ  کے داماد تھے،

طلحہ رضی اللہ عنہ باسٹھ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے،،ان کو بصرہ میں دفن کیا گیا،،، انہوں نے وراثت میں  جاگیروں کے علاوہ لاکھوں درہم و دینار اور بہت سارا سونا اور چاندی بہت تعداد میں چھوڑا جس کو ان کے ورثاء میں تقسیم کر دی گیا،

ان کی موت کے اسباب کے طور پر کچھ مختلف روایات ملتی ہیں ، لیکن تقریبا سب ہی روایات میں یہ بات مشترک ہے کہ انہیں عبدالملک بن مروان نے تِیر سے زخمہ کیا تھا اور وہی اِن کی موت کا سبب بنا، وہ موت جِسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم شھادت قرار دے چکے تھے ، پس اللہ کی طرف سے جنتی ہونے کی سند پانے والا اللہ کا یہ سچا ولی ، اللہ کے رسول کے فرمان کے مطابق شھادت کی موت پا کر اپنے رب کی جنتوں کی طرف روانہ ہوگیا ۔ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ،

اللہ ہمیں اور ہمارے سب ہی کلمہ گو بھائیوں بہنوں ، بچوں بچیوں کو ان عظیم شخصیات کو اپنے لیے مثالی شخصیت چننے کی ہمت دے دے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی جرأت عطا ء فرما دے اور ہماری اپنے ہی ہاتھوں اور اپنی ہی کرتُوتوں کی بنا پر لُٹائی ہوئی عِزت واپس لینے کا حوصلہ عطاء فرما دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصادر و مراجع ::: صحیح البخاری ،صحیح مُسلم ، سنن الترمذی ،سنن ابن ماجہ ،سنن النسائی ، صحیح ابن حبان ، المستدرک الحاکم ، المعجم الکبیر للطبرانی ، الإستيعاب في معرفة الأصحاب، أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ، سير أعلام النبلاء، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني،مغازی للواقدی ، مروج الذهب للمسعودی، تاريخ مدينة دمشق ، البدء والتاريخ لِابن المطھر ، البدایہ والنھایۃ ، العواصم من القواصم في تحقيق مواقف الصحابة لابن العربی ،

 

 

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔