Friday, June 12, 2015

:::::: چھٹیوں کا وقت ، فارغ وقت کیسے گذاریا جانا چاہیے؟ :::::::

::::::: چھٹیوں کا وقت ، فارغ وقت کیسے گذاریا جانا چاہیے؟ :::::::

بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتداعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ::: اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
ہر سال تقریبا ہر ایک سالانہ چُھٹیوں سے پہلے طرح طرح کے اِرادے بناتا ہے کہ اِس دفعہ چُھٹیوں میں یہ کروں گا،وہ کروں گا،فُلاں کام مکمل کروں گا،فُلاں سے ملوں گا، فُلاں جگہ جاؤں گا،وغیرہ وغیرہ،
گرمیوں کی چُھٹیاں آ رہی ہیں، اور کئی مُقامات پر آچکی ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ آپ اِن میں کیا کرتے ہیں؟؟؟
اور کِس طرح اِنہیں اپنے لیے دینی اور دُنیاوی طور پر فائدہ مند بناتے ہیں؟؟؟
عربی ضرب المثل ہے کہ"""گرمی دودھ خراب کر دیتی ہے"""یہ کہاوت ایسے لوگوں کے لیے کہی جاتی ہے جو اپنی کم عقلی کی وجہ سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں اور وقت کا فائدہ اُٹھانے کی بجائے اُسے کچھ اِس طرح اِستعمال کرتے ہیں کہ نُقصان اُٹھاتے ہیں،
چُھٹی کا مطلب ہوتا ہے کہ روز مرہ کے عام معمول کے کام کاج اور ذمہ داریوں سے فراغت،عقل مند وہ ہوتا ہے جو اِس فراغت کو ایسے کاموں میں اِستعمال کرے جِن کا نتیجہ اُس فراغت کے بعد آنے والے وقت میں اُسکے لیے دینی دُنیاوی اور اُخروی طور پر فائدہ مند ہو،نہ کہ نُقصان دہ،اور ایک سچا مُسلمان اپنی زندگی کے ہر ایک لمحے کو دینی اور اُخروی طور پر فائدہ مند بنانے کو دُنیاوی فائدہ مندی حاصل کرنے پر فوقیت دیتا ہے،

:::::: اِسلام میں فراغت آخرت کمانے کا ذریعہ ہے ::::::

اگر کوئی فراغت کا مقصداِس کے عِلاوہ کچھ اور سمجھے،مثلاًکہ فراغت سونے،کھیلنے کودنے،سیر سپاٹے کرنے وغیرہ کرنے کے لیے ہے تو وہ غلطی پر ہے،
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہم سب اکثر پڑہتے اور سُنتے رہتے ہیں﴿فَإِذَا فَرَغتَ فَانصَب(7)وَإِلَی رَبِّکَ فَارغَب:::پس جب فارغ ہوں تو اپنے رب (کی عِبادت)کے لیے کھڑے ہو جایے(7)اور اپنے رب کی طرف رغبت کیجیے(8)سورت الشرح(الم نشرح)،
پس مُسلمان کے لیے اُس کے رب کی طرف سے فراغت کے اِستعمال کا طریقہ مقرر کیا گیا ہے، اِس آیت مُبارکہ کی تفسیر میں کہا گیا""" یعنی جب آپ کے فارغ ہوں اور آرام کا وقت مل جائے تو اُس وقت میں اپنے رب کی عبادت میں محنت و مشقت کیجیے"""،
ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ"""جب فرائض سے فارغ ہو جائیں تو قیام الیل میں مشقت کیجیے"""،
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ"""جب فرض نمازوں سے فارغ ہو جائیں تو اپنے رب سے دُعا کرنے میں محنت و مشقت کیجیے"""،
اور الحسن البصری اور زید بن اسلم رحمہما اللہ سے روایت ہے کہ"""جب اپنے دُشمن سے جِہاد کرنے سے فارغ ہو جائیں تو اپنے رب کی عِبادت میں محنت کریں"""،
اور تابعین میں سے تفسیر کے اِمام مُجاھد رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ """جب آپ اپنے دُنیا کے کاموں سے فارغ ہو جائیں تو اپنی آخرت کے کاموں کے لیے مُشقت کریں"""،
کیا اِن مذکورہ بالا تفسیروں میں سے کہیں ایسا ہے کہ"""جب آپ فارغ ہوں تو سو جایا کیجیے،یا کھیلا کیجیے،یا سیر کیا کیجیے،وغیرہ وغیرہ"""،
میرے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ کام ناجائز ہیں ، یا انہیں بالکل ہی نہ کیا جانا چاہیے ، بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنی فراغت کو اِن کاموں میں بھی اِس طرح اِستعمال کیا جانا چاہیے جو دِین دُنیا اور آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند ہو،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی فراغت کو ضائع کرنے سے بچنے کی تلقین فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿نِعمَتَانِ مَغبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِن النَّاسِ(1) الصِّحَّۃُ وَ(2)الفَرَاغُ:::دو نعمتوںمیں لوگوں کی اکثریت لاپرواہی کا شِکار ہے (1)صحت اور(2) فراغتصحیح البُخاری/کتاب الرقاق کی پہلی حدیث،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿اِغتنم خمساً قَبلَ خَمسٍ(1) شبابکَ قَبلَ ھَرمکَ و (2)صَحتکَ قَبلَ سُقمکَ و(3)غِنائُکَ قَبلَ فَقرکَ و(4)فَراغکَ قَبل شُغلکَ و(5)حَیاتکَ قَبلَ مَوتکَ:::پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں سے فائدہ اُٹھاو (1)اپنے بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی کا اور (2) اپنی بیماری سے پہلے اپنی صحت کا (3) اور اپنی غُربت سے پہلے اپنی تونگری کا اور (4) اپنی مشغولیت سے پہلے اپنی فراغت کا اور (5) اپنی زندگی کا اپنی موت سے پہلےالمستدرک الحاکم/کتاب الرقاق کی حدیث 4،صحیح الترغیب الترھیب/حدیث 3355،
اِسی لیے سلف الصالح اِس بات کو بُرا جانتے تھے کہ اپنے فارغ وقت کو آخرت کمانے میں خرچ نہ کیا جائے اور ایسی فراغت جِس میں نہ آخرت کا کوئی کام کیا جائے اور نہ ہی دُنیاوی ضروریات میں سے کوئی کام کیا جائے کے بارے میں ایک عام کہاوت ہے کہ"""فراغت مَردوں کے لیے غفلت کا سبب اور عورتوں کے لیے جنسی شہوت کا سبب ہوتی ہے"""،اِس کی درستگی جاننے کے لیے فارغ لوگوں کا مشاہدہ ہی کافی ہے ،
یہ ہے سلف الصالح رحمہم اللہ جمعیاً   کی اِیمانی فقہ، جو کہ قُران و سُنّت کی دلائل پر مبنی ہے،پس ہمیں اِسی طرح اپنی بُنیادی تعلیمات کوسمجھنا چاہیے اور اِسی اِیمانی فقہ کے،مُطابق"""فراغت اور اُسکے اِستعمال کا طریقہ"""بھی سمجھنا چاہیے،نہ کہ اِدھر اُدھر سے آئے ہوئے گُمراہ کُن غیر اِسلامی خیالات و فلسفوں کی بُنیاد پر،
جیسا کہ عام طور پر دیکھنے اور سننے میں یہ آتا ہے کہ چُھٹیوں کے آغاز سے پہلے ہی طالب عِلم (لڑکے اور لڑکیاں سب ہی)چھٹیوں میں خوب سونے،سیر سپاٹے کرنے،کھیل کُود کے مختلف سلسلے اور مقابلے منعقد کرنے بلکہ کئی ناجائز اور حرام کاموں(مثلاً فلمیں،ڈارمے،ناچ گانے وغیرہ دیکھنے سُننے)میں اپنے اِس فارغ وقت کو صرف کرنے کے اِردوں کا اظہار کرتے ہیں،اور وہ سب اور اُن کے بڑے اِنہی کاموں اور مشغولیات کو دُرست سمجھتے ہیں،اور اِن کاموں کی تکمیل میں اُن کی مدد کرتے ہیں، بلکہ صِرف وہ ہی کیا سارے کا سارا معاشرہ ہی اِس غلط فہمی اورکج روی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اِس مہینوں لمبی فراغت کو ایسے کاموں میں خرچ کر کے برباد کرنے کو ذہنی اور روحانی سکون،بلکہ ذہنی و روحانی قوت میں اضافے کا باعث سمجھتا ہے،
لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے سونے جاگنے،آنے جانے،کھلینے پڑھنے میں تقریباً ہر قِسم کی آزادی دیے رکھتے ہیں کہ"""چُھٹیاں"""ہیں،اگر اُن پر کہیں کوئی سختی کی جاتی ہے تو صِرف سکولز کا ہوم ورک وغیرہ ختم کرنے کے لیے، کسی اور اچھے اِسلامی یا اخلاقی کام کرنے کے لیے نہیں ،
جی ہاں یہ دُرست ہے کہ ہر پُر مُشقت کام کے بعد کچھ وقت آرام و سکون والا بھی چاہیے ہوتا ہے، لیکن ایک مُسلمان اور اللہ پر سچا اور مکمل اِیمان رکھنے والے کے لیے مندرجہ بالا کام نہ تو آرام والے ہوتے ہیں اور نہ ہی سُکون والے،شرعی طور پر اِن میں سے اکثر کام تو مُطلقاً بُرائی کے زُمرے میں آتے ہیں،اور باقی ایسے ہیں جو ایک خاص حد سے گذرنے پر بُرائی میں داخل ہو جاتے ہیں ،

::: کِسی کام کو کرنے کے وقت کو لمحات و لحظات میں ماپا جاتا ہے اور ہم اپنے دِنوں کے دِن بلکہ مہینوں کے مہینے ضائع کرتے ہیں :::

صرف دُنیاوی معاملات میں بھی عُلوم اِدارہِ وقت(Science of Time Management ) کے ماہرین ہر کام میں خرچ ہونے اور خرچ کیے جانے والے ہر ایک لمحے بلکہ لحظے تک کو بھی بہت اہم سمجھتے ہیں،اور اُس کو ایسے طور پر خرچ کرنے کو کہ جِس کا اُن کے مادیت والے معیار کے مُطابق کوئی مُثبت نتیجہ نہ نکلتا ہو،سراسر نُقصان اور حماقت قرار دیتے ہیں،
یہ معاملہ تو  اُن لوگوں کا ہے جو وقت کے اِستعمال کو صِرف دُنیاوی اعتبار سے دیکھتے ہیں ، جبکہ ہمیں ، آخرت پر یقین رکھنے والے مُسلمان  کی حیثیت سے اپنے وقت کے اِستعمال کو دُنیا اور آخرت دونوں ہی کے فائدے اور نقصان کو مدنظر رکھ کر سمجھنا ہوتا ہے ، اور اُن کاموں کو اختیار کرنا ہوتا ہے جن میں ہم اپنا وقت صَرف کریں  ،  
لیکن افسوس ، صد افسوس کہ اب عموما ً ہمارے اِسلامی معاشرے میں، اپنے اوقات اور بالخصوص فراغت والے اوقات کو  اِس طرح اِستعمال کیا جاتا ہے کہ شخصیات ، خاص طور پر نوجوانوں ، اور جوانوں کی شخصیات میں پائی جانے والی اچھی صِفات کو دِینی دُنیاوی اور اُخروی لحاظ سے بے فائدہ ، بلکہ نقصان دہ کاموں میں خرچ کروا کر ختم کر دِیا جاتا ہے ، یا کُند کر دِیا جاتا ہے ، دُھندلا دِیا جاتا ہے ، اور بُری صِفات کو اُجاگر کرنے والے کاموں میں لگایا جاتا ہے ،
جبکہ ہمارے اکیلے دِین حق اِسلام میں  ہمیں اپنے وقت کو بالترتیب دِینی،اُخروی اور دُنیاوی،مُثبت نتائج اور فوائد والے کاموں میں صَرف کرنے کی تعلیم و تربیت دی گئی ہے،
قُران و حدیث میں سے اُس کی دلیل گُذر چکی ہے،اور بُررگان دِین کے اقوال میں بہت کچھ ایسا ملتا ہے جو ہمیں اپنے وقت کی قدر و قیمت کا احساس اور اُس کے صحیح اِستعمال کا ڈھنگ سکھاتا ہے،اور فارغ رہنے سے منع کرتا ہے ، بلکہ فراغت کے اوقات کو کسی نہ کسی اچھے ، مثبت نیکی والے کام میں اِستعمال کرنے کی تلقین ملتی ہے ، خواہ وہ کام دُنیاوی معاملات تک ہی محدود ہو ، اور اگر دِینی کاموں میں سے ہو ، یا دُنیا کے ساتھ ساتھ دِین کے تعلق بھی ہو تو گویا سونے پر سہاگے کے مانند ہوا، اُن اقوال میں سے مثال کے طور پر چند اقوال پیش کرتا ہوں:::
::: (1) ::: رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، أمیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما و أرضاھُما ،کے بارے میں روایت کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ """مجھے کبھی کوئی شخص بھلا محسوس ہوتا ہے، لیکن جب مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ فارغ رہتا ہے تو وہ میرے لیے پسندیدہ نہیں رہتا """(1
اور فرمایا """مجھے یہ پسند نہیں کہ میں تُم لوگوں میں سے کسی کو فارغ دیکھوں کہ نہ دُنیا کے کاموں میں مشغول ہو اور نہ ہی دِین کے کاموں میں"""(2)، (1،2 بحوالہ ، مِن مشکلات الشباب ، لشیخ ابن عُثیمین رحمہُ اللہ )،
اِس طرح فارغ رہنا کہ نہ اپنی دُنیاوی زندگی کی ضروریات پوری کرنے میں مشغول ہو اور نہ ہی اپنی آخرت سنوارنے میں، کِسی سچے اِیمان والے کےشایانء شان ہی نہیں ،
اور یُوں بھی اِس قِسم کی فراغت اِنسان کی ذہنی اور جِسمانی صلاحایات کو بُری طرح سے نابود کر دیتا ہے، اور فارگ اِنسان کا دِل و دِماغ جِسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ سوچ و فِکر کے منفی نہج کا بھی شِکار ہو جاتا ہے ، جِس کے نتیجے میں اکثر اوقات اُس سے ایسے اقوال و افعال سر زد ہوتے ہیں جو اُسے اپنے معاشرے میں ناپسندہ افراد میں شامل کرنے کا سبب ہوتے ہیں ،
کِسی عقل مند نے کیا خوب کہا ہے کہ """الوقت کسیف إِن لم تقطعہ قَطعَک ::: وقت تلوار کی مانند ہے کہ اگر تُم اُسے نہیں کاٹو گے تو وہ تُمہیں کاٹ دے گا"""
اِس قول کو اگر اِسلامی تعلیمات کے اِس قول کو اگر اِسلامی تعلیمات کے مُطابق کہا جائے تو یہ کہا جانا چاہیے کہ """الوقت کسیف إِن لم تقطعہ بأحسنٍ قَطعَک بالسُوءٍ ::: وقت تلوار کی مانند ہے کہ اگر تُم اُسے  اچھے طور پر نہیں کاٹو گے تو وہ تُمہیں برے طورپر کاٹ دے گا"""،
یعنی """وقت تلوار کی مانند ہے اگر تُم اُسے اچھے ، مُثبت نیکی والے کاموں میں اِستعمال کر کے نہیں کاٹو گے تو  وہ تمہیں برے منفی اور گناہ والے کاموں میں مشغول رکھ کر تمہاری شخصیت کی اچھائی اور عزت کو کاٹ ڈالے گا """،
اگر اِنسان وقت کی قیمت جان لے اور اپنی فراغت کا مُثبت فائدہ مند حل تلاش کر لے تبھی وہ اپنے اِنسان ہونے اور اِس دُنیاوی زندگی میں اپنے موجود ہونے کے اصل مقصد کو سمجھ پاتا ہے، اور اُس مقصد کی تکمیل کی دُرست کوشش کر پاتا ہے ، اور وہ مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی عِبادت کرنا،
::: (2) ::: اِمام الحسن البصری رحمہُ اللہ سے منقول ہے کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا کرتے تھے"""میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے وقت کو اُس سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے جتنا کہ تُم لوگ اپنے دراہم اور دیناروں کو سمجھتے ہو"""،
::: (3) ::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ"""میں سب سے زیادہ اپنے اُس دِن پر نادم ہوتا ہوں جِس کا سُورج غروب ہوجائے اور میری عُمر میں سے ایک دِن کم ہو جائے لیکن میرے(اچھے نیک )عمل میں کوئی اضافہ نہ ہوا ہو"""،
سُبحان اللہ ، محترم قارئین ، سوچیے ، غور فرمایے ،  کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ جیسے صحابی اگر اپنے وقت کا اِس طرح احساس کرتے ہیں ، اور روز مرہ کے معمولات میں سے ملنے والے فراغت کے لمحات کو اپنے لیے اضافی نیک اعمال نہ کما  پانے پر ندامت محسوس کرتے تھے  تو ہمارے اوقات اور دِن کیسے ہیں؟؟؟اپنی آخرت کے لیے کون سے نیک کام ہم اُن میں کرتے ہیں؟؟؟

::: اپنی فراغت کے نفع بخش اِستعمال کے لیے منصوبہ بندی :::

اپنے اوقات اور خاص طور پر فراغت کے وقت کے اِستعمال کی بہترین منصوبہ بندی وہ ہے جِس میں کہ ہر ایک لمحہ نفع بخش بنایا جائے اور شیطان کے لیے ایک پل کی بھی  فُرصت نہ رکھی جائے جِس میں وہ اِنسان کو کِسی بہکاوے،گُناہ،یا بُرائی کا شِکار کر لے اور ایسے کاموں میں مشغول کر دے جِن میں عقل و جسم کی مُشقت،مال و وقت کا خرچہ بھی ہو اور نتیجے میں وہ کام کرنے والا اللہ کی رحمت سے دُور اور اللہ کے عذاب کے قریب ہو جائے،
مُسلمان اپنے دِین اِسلام کی تعلیمات کے مُطابق اپنے وقت کی قدر و منزلت جانتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ ایک ایک لمحہ اُس کی عُمر میں سے جا رہا ہے اور ہر ایک لمحے میں کیے ہوئے ہر ایک کام اور بات کا بدلہ اُسے ملنے ہی والا ہے،لہذااپنے وقت کی مکمل حفاظت کرتا ہے،اور اُسے اِس طرح اِستعمال کرتا ہے کہ وہ اُس کی دِینی ، دُنیاوی اور اُخروی زندگی میں کامیابی ، عِزت اور اپنے رب کی خوشی کے حصول کا سبب ہو،نہ کہ اِس کے بر عکس،
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر گُذر جانے والا دِن کبھی پلٹ کر آنے والا نہیں،لہذا جو کچھ اُس میں کر لیا گیا وہ ہو چکا اور جو وقت اُس میں سے فارغ گُذار دِیا گیا وہ دوبارہ کبھی اِستعمال نہیں کیا جا سکتا،
اگر ہم اپنی اِسلامی تاریخ کا مُطالعہ کریں تو اُس کے صفحات ایسے لوگوں کے ذِکر سے بھرے نظر آتے ہیں جِنہوں نے اللہ کی اِس نعمت"""فراغت"""کو ٹھیک سے پہچانا اور اُس سے زیادہ ٹھیک طور پر اِستعمال کِیا،اور وقت کی قدر و قیمت کو اپنے دِین کی تعلیمات کے مُطابق جانا اور اِستعمال کِیا اور اپنے اپنے وقت میں دینی و دُنیاوی عِلم،کو تقوے،کی کسوٹی پر رکھ کر سیکھا اور سیکھایا،اور اللہ کی عبادات سے غافل نہ ہوئےاور نہ ہی اللہ کے دِین کی سر بُلندی کی جدوجہد سے،اور پھر اپنے اپنے وقت میں میں ہر ایک سے بڑھ کر ہوئے ، اور اہلِ دِین و اہلِ دُنیا کے لیے عِلم و معرفت کا نفع بخش ذریعہ ہوئے،مرنے کے بعد وہ لوگ زمین کی تہوں میں داخل کے دیے گئے،لیکن اُن کا ذِکر برقرار ہے،اُن کے  مُحبت و احترام برقرار ہے،
کیا ہی بھلا ہو کہ ہم لوگ اپنی فراغت کے دِن،گھنٹے،منٹ بے کا ر یا گُناہ والی مشغولیات میں اپنی فراغت برباد کرنے کی بجائے اللہ کی یاد میں گُذاریں،اپنا دِین سیکھنے اور سِکھانے میں گُذاریں،کم سے کم اپنے دِین کے بنیادی عقائد اور احکام ہی سیکھ لیں ، ضرورت مندوں کی حاجت روائی میں گُذاریں،
چُھٹیوں سے پہلے ہی طالب عِلم بچے اور بچیاں،لڑکے اور لڑکیاں اور اُن کے ذمہ دار یہ طے کر لیں کہ  اِن چھٹیوں میں کتنا قُران یاد کیا جائے گا اور اُسے سمجھا جائے گا،کتنی احادیث سمجھ کر اُنہیں یاد کیا جائے گا،اور اُنہیں زیادہ سے زیادہ نشر کرکیا جائے گا،کن کن غریبوں،ناداروں،بیواوں کی مدد کی جائے گی،ذاتی طور پر کی جائے یا لوگوں سے مل ملا کر اُن کی مدد کروائی جائے،ایسے عِلم اور فن سیکھے جائیں جو عام معمول کی پڑہائی میں مُیسر نہیں،لیکن فائدہ مند ہیں اوراگر حدودِ شریعت میں رہتے ہوئے اُن کا اِستعمال کیا جائے تو گُناہ کے ز ُمرے میں بھی نہیں آتے،بلکہ ہماری دُنیا اور آ خرت میں فائدہ کا سبب بن سکتے ہیں،مثلاً، کمپیوٹر، موبائل ، ہینڈ ہلڈ ڈیوائسز،اور انٹر نیٹ وغیرہ سے متعلقہ کام سیکھے جائیں اور اُنہیں نیکی پھیلانے اور بُرائی سے روکنے کے لیے استعمال کیا جائے،اللہ کے دِین کی نشر و اشاعت کے لیے اِستعمال کیا جائے،سچائی کے ساتھ اور اِسلامی قوانین کی حدود میں رہ کر اچھے اخلاق پر مبنی صِفات کو اپنانے کی ترغیب مہیا کرنے ، اور بری صِفات سے دُور رہنے کی ہمت مہیا کرنے کے لیے اِستعمال کیا جائے ،
خود بھی یہ یاد رکھا جائے اور اپنے ہر مسلمان بھائی اور بہن کو بھی یہ یاد کروانے کی کوشش کی جائے کہ ،

::: اِنسان کی زندگی کے ہر لمحے کا حساب ہو گا :::

جی ہاں اِنسان کی زندگی کے ہر ایک لمحے کا حساب ہو گا،کوئی ایسا وقت یا گھڑی نہیں جو حساب سے خارج ہو گی،جیسا کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ پڑہائی لکھائی کے دِنوں یا چھٹیوں کے اوقات کا، یا فراغت میں کاٹ دیے جانے والے بے کار اوقات کا حساب نہ ہو گا کیونکہ چھٹیاں اور فراغت تو دیے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ اُنہیں جیسے جی اہے اِستعمال کیا جائے اور اپنے من کی مرضی کے مطابق سکون و راحت حاصل کی جائے ، پہلی بات تو یہ کہ چھٹیاں اور ایسی فراغت اِنسانوں کی اپنی بنائی اور اختیار کردہ ہیں ، اُن کے خالق اور رب اللہ جلّ و عُلا کی طرف سے اُنہیں کوئی چُھٹی یا کوئی ایسی  فراغت نہیں جسے ہم بے کار ہی گذار دیں یا برائی اور گناہ والوں کاموں میں گذار سکیں ،
اور دوسری بات یہ کہ وقت چُھٹی کے ضمن میں ہو ، یا فراغت کے ضمن میں اُسے جیسے بھی گذاریا جائے ، وہ اِنسان کا عمل ہی تو ہوتا ہے اور اِنسان کے اکیلے  خالق اور مالک کا فرمان ہے کہ ﴿ کُل نَفسٍ بِمَا کَسبَت رَھینَۃٌ::: ہر جان اپنی کمائی کے بدلے (اللہ کے ہاں ) گروی رکھی ہوئی ہے سورت المدثر/آیت38،
پس اِنسان جو بھی جب بھی جہاں بھی کمائے گا اُسی کے مُطابق ثواب یا عذاب پائے گا،اِس میں سے کِسی وقت کے کِسی عمل کی چھوٹ نہیں،خواہ وہ وقت ہماری بنائی ہوئی چھٹیوں کا ہو ، یا ہمیں میسر ہو جانے والی فراغت کا ،
ابی برزہ الاسلمی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبدٍ یوم القِیَامَۃِ حتی یُسأَلَ عن أَربَعٍ (1)عن عُمُرِہِ فِیمَا أَفنَاہُ وَ(2)عَن جَسَدِہِ فِیمَا أَبلَاہُ وَ(3)عَن مَالِہِ من أَینَ اکتَسَبَہُ وَفِیمَا وَضَعَہُ وَ(4) عَن عِلمِہِ مَاذَا عَمِلَ فیہ::: قیامت والے دِن بندے کے قدم اپنی جگہ سے ہلیں گے بھی نہیں جب تک اُس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا(1)اُس کی عُمر کے بارے میں کہ کِن کاموں میں اُسے فناء کیا اور(2)اُس کے جِسم کے بارے میں کہ کِن کاموں میں اُسے مُبتلا کِیا اور(3)اُس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کِن کاموں میں خرچ کِیا اور(4)اُس کے عِلم کے بارے میں کہ اُس پر کیسے عمل کِیاسُنن الدارمی /حدیث537 ، سُنن الترمذی / حدیث 2416/کتاب الزھد  السلسلہ الصحیحہ /حدیث 946، 
لہذا ہمیں بہت اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ وقت خواہ چھٹی کا ہو یا کِسی کام میں مشغولیت کا اُس کا حساب بہرحال دینا ہی ہے اور جیسے وہ وقت کاٹا جائے گا،جیسا اُس کا اِستعمال کیا گیا ہوگا ویسا ہی انجام ہو گا،پس ہمیں اپنی فراغت کے اوقات اپنی آخرت سنوارنے میں اِستعمال کرنے چاہییں،نہ کہ اُسے تباہ کرنے میں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے وقت کی قدر جانیں اور اُسے اپنے دِین دُنیا اور آخرت کے فائدے اور عِزت والی مشغولیات میں اِستعمال کریں اور ایسے کام کریں جو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ہر مُسلمان اور ہر اِنسان کے لیے فائدہ مند ہوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
تاریخ کتابت : 04/07/1429ہجری،بمُطابق،07/07/2008عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 25/08/1436ہجری، بمُطابق، 12/06/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔