Tuesday, June 23, 2015

:::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بلا ثبوت بلا تصدیق کچھ منسوب کرنے کا انجام :::::::




::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بلا ثبوت بلا تصدیق  کچھ منسوب کرنے کا انجام :::::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم

الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ :::سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے اِرداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  ادا کر دی،

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

ہم سب اللہ تعالیٰ ، اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ، اور اللہ کے دِین سے محبت کرتے ہیں ، لیکن اکثر اِس محبت میں اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کا شِکار ہو جاتے ہیں ،

جس کی ایک مثال  رسول اللہ محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کچھ منسوب کرنا ہے ،

جی ہاں اکثر باتوں کو ہم بلا جانے ، بلا پہچانے ، بس سُنی سُنائی کی بنیاد پر ہی حدیث شریف یا سُنّت شریف  کے طور پر نشر کر دیتے ہیں  جو کہ ایک گھناؤنا گناہ ہے ، جس کا انجام جہنم میں ٹھکانے کے علاوہ کچھ اور  نہیں ،

ذرا غور سے پڑھیے کہ اللہ کے آخری نبی اور  رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےایسا کام کرنے والے کے بارے میں کیا فیصلہ صادر فرما رکھا ہے :

﴿ مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ::: جِس نے مجھ پر جھوٹ منسوب کیا اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا صحیح بخاری /حدیث/107کتاب العِلم/باب 38،

﴿  إِنَّ كَذِبًا عَلَىَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ فَمَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::یقیناً مجھ سے جھوٹ منسُوب کرنا کسی بھی اور سے جھوٹ منسُوب کرنے کے جیسا نہیں ، بلکہ جِس نے جانتے بوجھتے ہوئےمجھ سے جھوٹ منسُوب کیا(یعنی بلا تصدیق و ثبوت کوئی بات یا کام منسُوب کر دِیا)تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیاصحیح مُسلم/حدیث/5مقدمہ/باب 2،

اِس مفہوم کی صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ تقریباً حدیث شریف کی ہر کتاب میں موجود ہیں ،

میں نے صِرف صحیح بخاری شریف اور صحیح مُسلم شریف کی روایات پر ہی اکتفاء کیا ہے ، کہ یہ دونوں کتابیں حدیث شریف کی تمام کتابوں میں سے سب سے زیادہ صحیح ترین اور قابل اعتماد ہیں ، 

::::::: فقہ الأحادیث،شرح اور أحکام :::::::

ہمارے کچھ ایسے مُسلمان بھائی بہن جو کہ فضائل وغیرہ میں ، یا ترغیب و ترھیب ، یعنی کسی کام کے اچھے انجام کی طرف مائل کرنے  کے لیے، یا کسی کام کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے ایسی روایات سناتے اور نشر کرتے رہتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، یا فعلی ، یا تقریری سُنّت شریفہ کے طور  ثابت نہیں ہوتیں ،

بلکہ اُن میں سے اکثر روایات تو ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی حوالہ ، کوئی سند ہی نہیں ملتی ، اور کئی ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں صدیوں پہلے محدثین کرام رحمہم اللہ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ روایات لوگوں کی خود ساختہ مَن گھڑت روایات ہیں ، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے ثابت نہیں ہوتِیں،

لیکن پھر بھی ہمارے وہ بھائی بہنیں،اپنے اختیار کردہ ، پسند کردہ ، عُلماء یا واعظین یا قصہ گو لوگوں سے حسن ءظن کی بِناء پر کسی تحقیق و تصدیق کے بغیر اپنے تئیں تبلیغء دِین کرتے ہوئے ایسی جھوٹی ، ناقابل اعتماد،غیر ثابت شدہ روایات بیان کرتے ہی چلے جاتے ہیں ، میرے ایسے بھائی بہنوں کو اِس گمراہی پر چلانے والوں کی طرف سے اپنے مسلک ، اپنی جماعت کی ضِد میں حقائق کو موڑنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ، جن کی اکثریت تو سطحی قِسم کی عقلی اور منطقی باتوں پر مشتمل ہوتی ہے ،

مثال کے طور پر  یہ کہاجاتا ہے کہ لوگوں کے دِل نرم کرنے اور انہیں نیکیوں کی طرف مائل کرنے کے لیے ہم ہر قسم کی صحیح کمزور ثابت شدہ غیر ثابت شدہ سب ہی روایات  بیان کر دیتے ہیں ، ہمارا مقصد تو نیک ہے ، لہذا اس میں کوئی قباحت نہیں ،

ایسا سوچنا ، سمجھنا اور دوسروں کو  یہ کچھ سمجھانا ایک  خوفناک غلطی ہے،  جب ہمارے پاس ہزاروں صحیح ثابت شدہ احادیث موجود ہیں جو فضائل اور ترغیب والی ہیں تو پھر کیوں ہم اپنے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے وہ کچھ منسوب کر کے نشر کرتے ہیں جو اُن کی ذات شریف سے ثابت نہیں ہوتا،  یہ عمل رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک  سے جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟

اور  ابھی ابھی سنائی گئی صحیح حدیث شریف کے مطابق اس کام کے کرنے والے کا ٹھکانا جہنم نہیں تو  اور کیا ہے ؟؟؟

جھوٹی اور کمزور غیر ثابت شدہ   روایات ، اور قصے اور حکایات سنا سنا کر اپنے طور پر لوگوں کو نیکی پر لگانےوالے کبھی یہ تو سوچیں کہ جب اللہ کے سامنے حساب و جزاء کا وقت آئے گا تو اُن لوگوں کے سنائے اور بتائے ہوئے جھوٹ پر عمل کرنے والوں کو وہ اجر اور وہ فضلیتیں نہیں ملیں گی جو یہ سُنایا کرتے تھے ، تو ،،،،، کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن لوگوں کی نیکیاں اُن کو دے دی جائیں جنہیں یہ جھوٹ  سنا سنا کر   اپنے خیال میں نیکی پر لگاتے تھے، ،، یا اُن لوگوں کے گناہ اِن کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں کہ تم ہی تو تھے رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے جھوٹ منسوب کر کر کے اِن لوگوں کو گمراہ کرنے والے ، اب اُس جھوٹ منسوب کرنے کے گناہ کے ساتھ ساتھ اُس جھوٹ پر عمل کرنے والوں کے گناہ بھی بھگتو،

جھوٹی روایات ، قصے کہانیاں اور حکایات سنا کر لوگوں کو جھوٹی   فضیلتوں  اور جھوٹے اجر و ثواب کے گرادبوں میں  پھنسا نے والے ہمارے مُسلمان بھائیوں اور بہنوں میں سے کچھ لوگ اپنے اس گناہ کو جائز بنانے کے لیے کچھ ایسے عُذر بھی پیش کرتے ہیں جو بظاہر عِلمی سے محسوس ہوتے ہیں ،

اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جھوٹی ، غیر ثابت شدہ روایات کو بطور حدیث و سنّت پھیلانے والے ہمارے وہ بھائی بہنیں ابھی ابھی ذِکر کردہ احادیث شریفہ میں سے صحیح مُسلم کی مذکورہ بالا حدیث شریف، اور اِنہی اِلفاظ والی دیگر احادیث شریف میں فرمائے گئے لفظ """ مُتَعَمِّدًا""" کا معنی """جان بوجھ کر(اِرادۃً)""" کرتے اور سمجھتے ہیں اور اِس معنی  کی وجہ سےیہ خیال کرتے ہیں ، یا اُنہیں یہ سمجھا دِیا گیا ہے کہ """ہم جان بوجھ کر تو کوئی جھوٹ منسوب نہیں کرتے ، ہم تو مختلف کتابوں میں مذکور روایات بیان کرتے ہیں اپنی طرف سے تو بنا کر نہیں بتاتے ، وغیرہ وغیرہ"""،

تو ایسے خیالات کے شِکار اپنے بھائیوں اور بہنوں سے گذارش کرتا ہوں کہ """رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے کوئی بھی قول ، فعل یا تقریر  منسوب کرنا ، جو کہ روایات کی جانچ پڑتال کی کسوٹیوں پر پورا نہ اُترتا ہو،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف سے ثابت نہ ہوتا ہو ، اُس کو یوں ہی آگے بڑھا  دینا جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کرنا ہی ہوتا ہے """،یہ میرا ذاتی خیال یا فہم نہیں ، بلکہ ایک جلیل القدر صحابی أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کے فرمان کے مُطابق ہے ،

جی ہاں ، اِسے توجہ اور تدبر سے پڑھیے ،

أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا ہے کہ"""إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِى أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ ﴿ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَىَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

میں تُم لوگوں کو اِس لیے زیادہ حدیثیں نہیں سناتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ﴿جِس نے بلا تصدیق کوئی بات مجھ سےمنسُوب کرنے کا اِرادہ کیا تو یقیناً اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا"""صحیح مُسلم/حدیث/3مقدمہ/باب 2،

أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا یہ قول صاف صاف سمجھا رہا ہے کہ """ مُتَعَمِّدًا، یا ، تَعَمَّدَ """سے مُراد جھوٹ بنا کر منسوب کرنا  ہی نہیں ، کیونکہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں ایسا کرنے کا تصور بھی محال ہے ،

بلکہ""" مُتَعَمِّدًا، یا ، تَعَمَّدَ """کا مفہوم """بلا تصدیق"""ہے ،

اسی لیے ، اِسی مفہوم کے مُطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان شریف میں مذکور انجام کے خوف سے أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ جیسے صحابی کثرت سے حدیث سنانے سے گریز کرتے رہے کہ کہیں اُن کے منہ ُسے کوئی ایسی بات یا ایسا کام  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسُوب نہ ہو جائے جو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نہ فرمائی ہو ، نہ کیا ہو ، جب کہ وہ خود صحابی تھے،

اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں جہاں کہیں ، جو کچھ بھی حدیث کے طور پر سنا یا پڑھا دِیا جاتا ہے ہم اُس کی حقیقت اور صحت کی خبر جانے بغیر اُسے فوراً آگے بڑھا دیتے ہیں،

ایسا کرنے کا انجام بھی کچھ مختلف نہیں ، اور اِس کی خبر بھی اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے خلیل  اور آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے اِن اِلفاظ میں کروا رکھی  ہے کہ﴿كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ:::کسی کے(اللہ کے ہاں)جھوٹا قرار پانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے آگے سنا دےصحیح مُسلم/حدیث/7مقدمہ/باب 3،

اِس مذکورہ بالا حدیث شریف سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ کسی کے بارے میں، کوئی بھی بات بلا تصدیق آگے بڑھا دینے والا شخص اللہ کے ہاں جھوٹا قرار پاتا ہے ، لہذا ہمیں کسی بھی بات کو یُوں ہی بلا تصدیق آگے بڑھانے سے ، نشر کرنے سے باز ہی رہنا چاہیے،

اور اِس کے علاوہ ، اِس مسئلے کا ایک اور پہلو سے بھی یہی حال ہے کہ ،""" مُتَعَمِّدًا"""کچھ منسُوب کرنے کے بغیر بھی اِس کام کا یہی انجام بیان فرمایا گیا ، ملاحظہ فرمایے:::

﴿مَنْ يَقُلْ عَلَىَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::جِس نے میرے بارے میں ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو یقیناً اُس نے  اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا صحیح بخاری/حدیث/109کتاب العِلم/باب 38،

لہذا """ مُتَعَمِّدًا""" کچھ منسُوب کرنے  والا معاملہ درحقیقت وہی ہے جو أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ نے سمجھایا ہے کہ آپ اِرداۃً جھوٹ منسُوب کیجیے یا بلا تحقیق اور بلا تصدیق کوئی  بات یا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسُوب کیجیے ، حشر وہی ہونا ہے ،

لہذا ، یاد رکھیے ، اور خُوب سمجھ لیجیے کہ خواہ آپ فضائل بیان کرنا چاہ رہے ہوں ، یا لوگوں کو نیکیوں کی ترغیب  دینا چاہ رہے ہوں ، یا اُنہیں گناہوں کے انجام سے ڈرانا چاہ رہے ہوں ، اگر تو  آپ  اللہ کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف سے بلا تصدیق کچھ بھی منسُوب  کر رہے ہیں ، تو یقیناً آپ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا رہے ہیں ، 

 اور عین ممکن ہے کہ جتنے لوگ آپ کے جھوٹ سے متاثر ہو کر غلط غیر تصدیق شدہ کام کریں گے ، اُنہیں آپ کے جھوٹ کے مُطابق بتایا  گیا أجر و ثواب آپ کے کھاتے میں سے دِلوایا جائے ، کیونکہ آپ ہی اُنہیں ایسی باتیں سناتے رہے تھے جِن کی کوئی خبر اللہ تبارک وتعالیٰ یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نہیں تھی،

پس میرے محترمین ، اللہ کے واسطے اِس کام سے باز رہیے ،اللہ جلّ و عزّ کے بارے میں کوئی بھی بات ، کوئی بھی کام  منسُوب کرنے سے پہلے، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور  رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک سے کچھ بھی منسُوب کرنے سے پہلے ، دِین کے متعلق کوئی بھی بات ، کوئی بھی مسئلہ آگے بڑھانے سے پہلے اُس کی تصدیق کیجیے ،

اور صِرف حُسن ظن کی بناء پر نہیں ، بلکہ شریعت اور شرعی عُلوم میں مقرر قواعد و قوانین ، اور شرعی طور پر مقبُول دلائل کی بنا ء پر تصدیق کیجیے ،

یاد رکھیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں اِس کام کا مکلف نہیں بنایا کہ ہم جو کچھ بھی سنیں اور پڑھیں اُس کو نشر کرنے لگیں ، بلکہ اِس کا مکلف بنایا ہے کہ بلا تصدیق کوئی بھی بات آگے نہ بڑھائیں۔

اور ذرا یہ بھی سوچیے کہ ہمارے پاس بلا شک و شبہ ہزاروں صحیح ثابت شدہ قولی اور فعلی اور تقریری احادیث شریفہ کا ذخیرہ مو جود ہے ، جن میں زندگی کے تقریباً سارے ہی معاملات کے بارے میں احکام ، تشریحات ، ترغیب اور ترھیب سب ہی کچھ  کا بیان میسر ہے ، تو پھر کیوں کوئی مُسلمان اپنے دِین کی دعوت کے لیے ، اپنے کسی مسلمان بھائی یا بہن کو نیکی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کے لیے جھوٹی روایات کا سہارا لیتا ہے ؟؟؟

اِس  مسلک پر چلنے والے ،میرے مُسلمان بھائی بہنیں یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ صِرف صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں ملتا ہے وہ معاذ اللہ لوگوں کو اللہ کے دِین کی طرف بلانے اور دعوت و تبلیغ کے لیے کم ہے ، لہذا ہر قسم کی روایت بیان کر دینا چاہیے ، اگر جھوٹی ہے تو ہمیں کیا ، جِس نے روایت کی تھی وہ ذمہ دار ہے،

تو اُن کی خدمت میں گذارش ہے کہ اللہ کے سامنے آپ لوگ جھوٹے قرار پائیں گے ، روایات جمع کرنے والوں نے اسناد کے ساتھ روایات پیش کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ، بعد میں آنے والوں نے اُن اسناد کے مطابق اُن روایات میں سچی ، جھوٹی ، کمزور ، ناقابل حجت ، ناقابل اعتماد، وغیرہ ہر قسم کی روایات واضح  کر دِیں،

لہذا اب آپ کے لیے یا کسی بھی مُسلمان کے لیے ایسا کوئی عذر نہیں رہا کہ"""دروغ بہ گردن راوی ، یعنی روایت کرنے والا جھوٹ کا ذمہ دار ہے"""،

محترم یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ بلا تصدیق کسی جھوٹ کو نشر کر دیتے ہیں تو آپ بھی جھوٹے راوی ہوجاتے ہیں،

لہذا اِدھر اُدھر کی تاویلات میں الجھ کر اپنی غلطی سے چشم پوشی کی کوشش کرنے کی بجائے ، عقلمندی ، بہادری ، اور إِیمانی جرأت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے اپنی اصلاح کیجیے ، غلطی ترک کیجیے اور درستی اپنایے ، اور اِسی کو نشر کیجیے،

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اپنے اپنے اختیار کردہ ، مذاھب ، مسالک ، جماعتوں اور شخصیات کے لیے ضِد اور تعصب سے آزاد ہو کر سچائی کو اپنا سکیں ، اور صِرف سچائی کو ہی نشر کریں ، اور اُن لوگوں میں سے نہ ہوجائیں جو اپنی اپنائی ہوئی غلط روش کو اپنی أنا ، اپنی نام نہاد عِزت کی وجہ سے ترک نہیں کرتے ، وہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ::: اور جب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ (کی نافرمانی ، ناراضگی اور عذاب)سے بچو تو اُس کی عِزت اُسے گناہ پر لگائے رکھتی ہے ، پس اُس کے لیے تو جہنم ہی کافی جو بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے سُورت البقرہ(2)/آیت206،

والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ۔

طلبگارء دُعاء ،

آپ کا بھائی عادِل سُہیل ظفر ۔

تاریخ کتابت :06/09/1436ہجری، بمُطابق،23/06/2015عیسوئی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔