Sunday, June 21, 2015

::: صلہ رحمی ، رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنا ، فضیلت،أجر و ثواب ، قطع رحمی رشتہ داریاں توڑنا ، گناہ اور عذاب :::

::: صلہ  رحمی ، رشتہ داریوں  کو جوڑے رکھنا،فضیلت،أجر و ثواب، قطع رحمی ، رشتہ داریاں توڑنا ، گناہ اور عذاب :::

بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
صلہ رحمی ، یعنی ، رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنے ، اُن کے حقوق ادا کرنے  کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب قران کریم میں ، اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  ز ُبان شریف سے  بہت سے اِرشادات اور احکام نازل فرمائے ہیں ،
جِن میں کچھ تو صلہ رحمی نہ کرنے ، یعنی رشتہ داریوں کو توڑنے ، کاٹنے ، ختم کرنے ، اُن کے حقوق ادا نہ کرنے کے بارے میں دُنیا اور آخرت میں خوفناک انجام کی خبر لیے ہوئے ہیں ،
اور کچھ صلہ رحمی کرنے ، کے خُوش کُن نتائج کی خبر لیے ہوئے ہیں ،
::::::: رحِم اور صلہ رحِمی سے کیا مُراد ہے؟ :::::::
سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ """رحِم """ کیا چیز ہے ، جِسے جوڑے رکھنے کے احکام فرمائے گئے ؟؟؟
اور جسے توڑنے ، کاٹنے کی صُورت میں خوفناک انجام کی خبریں دِی گئیں ؟؟؟
اور یہ کہ اِس """رحِم """ سے مُراد ، کون سی رشتہ داریاں ہیں ؟؟؟
لغوی طور پر لفظ """رحِم """ کا مفہوم """کسی پر مہربانی کرنا ، شفقت کرنا ، آسانیاں مہیا کرنا وغیرہ""" ہوتا ہے ،
اور اِسی مفہوم کے پیش نظر عورت کے پیٹ میں پائے جانے والی """بچہ دانی ، یعنی عورت کے پیٹ میں وہ تھیلی جس میں بچے کی تخلیق ہوتی ہے """ کو بھی """رحِم """کہا جاتا ہے  ،
وہ """رحِم """ جسے جوڑے رکھنے کے احکام  نازل فرمائے گئے ، اور جسے توڑنے کاٹنے والے کے لیے دُنیا اور آخرت کی سزاوں کی خبریں دی گئیں ، اِسی  سے متعلق ہے ،
اصطلاحی مفہوم میں لفظ """رحِم """ سے مُراد  ماں اور باپ کی نسبت سے بننے والے رشتے دار ہوتے ہیں ، لہذا جب قران کریم اور احادیث شریفہ میں لفظ """رحِم """ جوڑنے ، توڑنے ، نبھانے ، اِس کے حقوق ادا کرنے کے سیاق یا سباق کے ساتھ مذکورہو تو اِس سے مُراد یہ رشتہ داریاں ہی ہوتی ہیں ،
اِس کی مزید تفصیل بھی  بیان کی گئی ہے ، لیکن میں بات کو مختصر اور اِن شاء اللہ عام فہم رکھنے کے لیے صِرف اتنی ہی معلومات یہاں لکھ رہا ہوں جو بنیادی ہیں ، اور جن کا جاننا ہر مُسلمان کے لیے ضروری ہے ،
"""رحِم """سے متعلق رشتہ داروں کو """الارحام """ کہا جاتا ہے ،  
عُلماء کرام   نے اِس """رحِم """سے متعلق رشتہ داری کو تین اقسام میں ذِکر کیا ہے ،
::: (1) ::: """رحِم """سے متعلق رشتہ داری میں وہ لوگ  آتے ہیں جن سے نکاح حرام ہوتا ہے ،
::: (2) ::: """رحِم """سے متعلق رشتہ داری میں وہ لوگ آتے ہیں جو وراثت میں حصہ دار ہوتے ہیں ،
::: (3) ::: """رحِم """سے متعلق رشتہ داری میں نسب (ماں اور باپ کی طرف سے نسب )والے سارے ہی رشتہ دار آتے ہیں ، خواہ وہ وراثت میں حصہ پانے والوں میں سے ہوں ، یا نہ ہوں ،  لیکن رضاعت کی وجہ سے بننے والے رشتہ دار """الارحام """ میں نہیں آتے ، اور نہ ہی خاوند کے لیے اُس کی بیوی کے رشتہ دار """الارحام """ میں آتے ہیں ، اور نہ ہی بیوی کےلیے خاوند کے رشتہ دار """الارحام """ میں آتے ہیں ،
جی ہاں اگر بیوی یا خاوند کے """ارحام """کے ساتھ میاں بیوی میں سے کسی کا کوئی اپنا بھی ایسا رشتہ بنتا ہو جو """ارحام """ میں آتا ہے تو وہ الگ معاملہ ہے ،
کسی اور خاندانی رشتے کے عِلاوہ محض میاں بیوی ہونے کی وجہ سے اِن دونوں کے """ارحام """ ایک دُوسرے کے لیے """ارحام """ میں نہیں آتے ،  
اور یہ تیسرا قول ہی  دُرست ہے ،
اور اِس کی دلیل ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا روایت کردہ یہ واقعہ  ہے کہ ، ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے  اُن سے پوچھا کہ """مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِى؟:::کون لوگ میرے بہترین سلوک کے حق دار ہیں؟ """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ﴿أُمُّكَ:::تُمہاری ماں،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ  نے پھر عرض کیا """ ثُمَّ مَنْ::: پھر کون ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ﴿ثُمَّ أُمُّكَ:::تُمہاری ماں،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ  نے پھر عرض کیا """ ثُمَّ مَنْ::: پھر کون ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پھر یہ ہی  اِرشاد فرمایا کہ ﴿ثُمَّ أُمُّكَ:::تُمہاری ماں،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ  نے پھر عرض کیا """ ثُمَّ مَنْ::: پھر کون ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ﴿ثُمَّ أَبُوكَ:::تُمہارا باپصحیح مُسلم /حدیث/6664کتاب البِر والصلہ و الادب/باب1،
یہ سوال کرنے والے صحابی رضی اللہ عنہ ُ بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ ُ  کے دادا  ،معاویہ بن حیدہ تھے ،
اس واقعہ کی ایک دوسری روایت، جو کہ بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے دادا  کے ذریعے بیان کی ہے اور اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے یہ اِلفاظ مُبارک ذِکر کیے گئے کہ ہیں ﴿ أُمَّكَ ثُمَّ أُمَّكَ ثُمَّ أُمَّكَ ثُمَّ أَبَاكَ ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ:::تُمہاری ماں ، پھر تُمہاری ماں ، پھر تُمہاری ماں ، پھر تُمہارا باپ ، پھر (ماں اور باپ کی نسبت سے)قریب والے اور قریب والےسُنن ابی داؤد/حدیث/5141کتاب الادب/باب130، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث شریف کو """حسن صحیح """قرار دِیا ہے ،
::::: فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام :::::
پس اِس حدیث شریف کی روشنی میں یہ واضح ہوا کہ """ارحام """ کے ضمن میں ماں اور باپ کی نسبت سے بننے والے رشتہ دار آتے ہیں ، جیسے بہن بھائی اور اِن کی اولاد، دادا ،دادی، نانا ، نانی ، چچا ، تایا ، پھوپھواور اِن کی اولاد ، ماموں ، خالہ اور اِن کی اولاد ،
اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ اِن کے عِلاوہ دیگر رشتہ دار """ارحام """ میں شامل نہیں ہوتے ، لہذا اُن کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ اُس قدر شدید نہیں جِس قدر """ارحام """ کےساتھ ہے ، لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گِز ہر گِز نہیں ، کہ """ارحام """ کے عِلاوہ دیگر رشتہ داروں کےساتھ نا مناسب رویہ رکھنا ، یا اُنہیں نظر انداز کرنا ، یا معاذ اللہ اُن کے ساتھ قطع تعلق کر لینا اُخروی اعتبار سے کسی  خطرے والا نہیں ، جی نہیں ،بلکہ ہر رشتہ دار کو اُس کا حق ادا کرنا ضروری ہے ، ہر رشتے کو رشتے کے مُطابق نبھانا مطلوب ہے ، کسی ایک رشتے کی بھینٹ کسی دُوسرےکو چڑھانا جائز نہیں ،
جِس کی ایک عام مثال میاں بیوی کے رشتہ نبھانے کے چکر میں ملتی ہے ، کہ اکثر اوقات بیویاں خاوند کے لیے اُس کے """ارحام """ سے، اور دیگر رشتہ داروں سے قطع تعلقی کا سبب بنتی ہیں ، خاوند بے چارہ اپنی بیوی کی رضا مندی کے لیے اُس کو خوش رکھنے کے لیے ، اُس کے شر سے بچنے کے لیے ، اُس کی طرف سے لائی جانی والی وقتی مصیبتوں سے بچنے کے لیے اپنے """ارحام """اور دیگر رشتہ داروں کا حق مارنے لگتا ہے ، یہاں تک کہ اُن """ارحام """کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے ، اور وقتی پریشانی سے بچنے کے لیے ابدی عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسی بیوی اپنے اِس لاچار خاوند کو جنہم میں پہنچانے کا سبب بنتی ہیں ، اور کہیں اس کے بر عکس بھی  دیکھنے کو ملتا ہے ، کہ خاوند بیوی کو اِس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی شرعی سبب کے بغیر اپنے """ارحام """ اور دیگر رشتہ داروں سے قطع تعلق رہے ،
::::: رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنے کی فضیلت ، اور  أجر و ثواب  ::::::
::::: (1) ::::: اللہ جلّ جلالہُ نے اپنےجن بندوں کے لیے جنّت میں گھر عطاء فرمائے جانے کی خوشخبری عطاء فرمائی اُن کی صِفات کا ذِکر فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا  ﴿ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ:::اور وہ لوگ جو اُن (رشتہ داریوں )کو جوڑے رکھتے ہیں جنہیں جوڑنے کا حُکم اللہ نے دِیا ہے ، اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کی سختی سے ڈرتے ہیں سُورت  الرعد(13)/آیت21،
یعنی ، رشتہ داریوں کو اللہ کے حکم کے  مُطابق جوڑے رکھنا ،جنّت میں گھر پانے کے اسباب میں سے ہے،پس  اپنی ذاتی خواھشات ، مقاصد ، اور  نام و نمائش کے لیے ، اپنی باتیں منوانے کے لیے رشتہ داریوں کو نبھاناآخرت میں کسی فائدے کا سبب نہ ہو گا ، بلکہ نقصان کا سبب ہو گا ، اِس کے بارے میں ابھی کچھ مزید بیان کیا جائے گا ، اِن شا ء اللہ ۔
::::: (2) ::::: اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ  کا حکم اور فیصلہ ہے کہ ﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا:::اور رشتہ داروں کو اُن کا حق ادا کرو ، اور محتاجوں کو ، اور مسافروں کو ، اور فضول خرچی مت کرو Oیقیناً فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ، اور شیطان تو اپنے رب(کے احکام ) کا(قولاً وعملاً )اِنکار (ہی)کرتا ہے سُورت  الاِسراء(بنی إِسرائیل17)/آیات26،27،
پس رشتہ داروں کو اُن کے حق ادا کرنا اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے ، لیکن یاد رہے ، اور خُوب یاد رہے کہ اِن حقوق کی ادائیگی میں فضول خرچی نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ فضول خرچی  کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کی صِفات میں سے قرار دیا ہے اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی (بہن)، پس جو کوئی رشتہ داریوں کو نبھانے کے نام پر فضول خرچی کرتا ہے اُسے یہ سمجھ ہی لینا چاہیے کہ اُس کا وہ خرچ اللہ کے ہاں مردُود ہے ، اور اللہ کے احکام اور اللہ کی نعمتوں کا کفر قرار پاتا ہے ۔
::::: (3) ::::: اللہ عزّ  وجلّ نے یہ بھی اِرشاد فرمایا ہے کہ (فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ:::اور رشتہ داروں کو اُن کا حق ادا کرتے رہو ، اور محتاجوں کو ، اور مسافروں کو ، ایسا کرنا اُن لوگوں کے لیے خیر والا ہے  جو لوگ اللہ کی رضا پانا چاہتے ، اور یہ ہی لوگ ہی کامیابی اور نجات پانے والےسُورت  الروم(30)/آیات38۔
::::: (4) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشادفرمایا:::
﴿ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ:::جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھتا ہے تو  وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ، اور جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھتا ہے تو  وہ """ارحام """(اوراپنی دیگر رشتہ داریوں) کو جوڑے رکھے (یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور اچھائی کا ہی سلوک رکھے ) اور جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھتا ہے تو  وہ (صِرف )خیر والی بات کرے یا خاموش ہی رہےصحیح بخاری /حدیث /6138کتاب الادب/باب 85،
::::: فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام :::::
حدیث شریف میں مذکور تین کام إِیمان کے اجزاء  میں سے ہیں ،
یعنی ، مہمان کی عِزت کرنا ، حتی المقدور بہترین طور پر مہمان نوازی کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور اچھائی والا سلوک کرتے ہی رہنا خواہ وہ پریشان کرتے ہوں ، اور صِرف خیر کی بات کرنا، فساد والی بات کرنے کی بجائے خاموش رہنا ، اللہ اور قیامت کے دِن پر اِیمان کی نشانیوں میں سے ہے ،
جو کوئی اپنے آپ میں اِن کاموں کے خِلاف کوئی عادت پائے اُسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اُس کا إِیمان شدید کمزوری کی حالت میں ہے ، لہذا اُسے جلد از جلد  اپنی اصلاح کر لینی چاہیے ، اِس سے پہلے کہ اُس کی قیامت واقع ہو جائے، اُسے اپنے إِیمان کی اِس کمزوری کو بھی دُور کر لینا چاہیے ۔
::::: (5) ::::: ایک اور حدیث شریف میں خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  اِرشاد فرمایا ﴿مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِى رِزْقِهِ ، وَيُنْسَأَ لَهُ فِى أَثَرِهِ ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ::: جِسے یہ پسند ہو (یعنی جویہ چاہتا ہو)کہ اُس کے رِزق میں کُشادگی (وسعت، آسانی اور برکت )کی جائے اور اُس کی موت کو دُور کِیا جائے(یعنی اُس کی  عُمر بڑھا دی جائے ، لمبی کر دی جائے) تو"""ارحام """(اور دیگر رشتہ داریوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے اُ نہیں )کو جوڑے رکھےصحیح بخاری /حدیث /5986کتاب الادب/باب 12،صحیح مُسلم /حدیث /6688کتاب البِر و الصلۃ و  الادب/باب 6۔
::::: فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام :::::
جو ایسا نہیں کرے گا ،یعنی ، اپنے  اُس کو دو نقصان تو ہو گے ہی کہ ، نہ تو اُس کے رزق میں کشادگی ہو گی ، اور نہ ہی عُمر میں برکت ،
یاد رہے ، کہ  کسی چیز میں کشادگی ،آسانی اور برکت  ہونا کچھ اور ہے ، اور کسی چیز میں  اضافہ ہونا کچھ اور، اللہ اور اس کے رسول کریم کی نافرمانی کرنے والوں کو جان ، مال ، صحت ، معاشرتی جاہ و جلال میں اضافے ملتے  دیکھ کر یہ مت سمجھیے کہ اُن پر اللہ راضی ہے ، یا اُنہیں کشادگی ، آسانی اور برکت دی جا رہی ہے ، بلکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے ۔
::::: (6) ::::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  اِرشاد فرمایا  ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلاَمَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوا الأَرْحَامَ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ::: اے لوگو (اپنے درمیان ) سلام کرنا پھیلاؤ ، اور (محتاجوں کو ) کھانا کھلاؤ ، ،اور رشتہ داریوں کو جوڑے رکھو ، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں  تو نمازیں پڑھا کرو ، (اگر یہ کام کیا کرو گے )تو سلامتی کے ساتھ جنّت میں داخل ہو جاؤ گےسُنن ابن ماجہ/حدیث /3374کتاب الاطعمۃ/باب 1۔
یعنی ، رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنا بھی اُن کاموں میں سے ہے جنہیں کرنے والے کسی دُکھ اور پریشانی کے بغیر ، سلامتی کے ساتھ اللہ کی جنّت میں داخل ہوں گے ، اور اِس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جو یہ کام نہیں کرے گا اُس کا جنّت میں داخلہ محال ہے ۔
::::: رشتہ داریوں کو توڑنے ، کاٹنے اور ٹھیک سے نہ نبھانے کےانجام اور سزائیں ::::::
::: (1) ::: رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے اور ٹھیک سے نہ نبھانے والے فاسق  ہیں، اور نُقصان پانے والے ہیں :::
ہم سب کے ، ساری ہی مخلوق کے اکیلے خالق اور مالک ، اللہ القوی القدیر العظیم نے فیصلہ صادر فرما دِیا کہ﴿وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ O الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ O::: اور اِس (قران )کے ذریعے صِرف فاسق لوگ ہی گمراہ ہوتے ہیں O (اور یہ فاسق وہ ہیں )جو اللہ کے ساتھ  وعدہ کرنے کے بعد اُس کے وعدے سے پِھر سے جاتے ہیں ، اور جو (رشتہ داریاں ) اللہ  نے جوڑے رکھنے کا حکم دِیا ہے اُن رشتہ داریاں کو توڑتے ہیں ، اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، یہی لوگ (دُنیا اور آخرت میں حقیقی )نقصان پانے والے ہیں O سُورت بقرہ (2)/آیات 26،27،
یعنی رشتہ داریاں توڑنے والے، تڑوانے والے ، توڑنے کا سبب بننے والے ، اوراللہ کی زمین میں  فساد پھیلانے والے،خو اہ وہ فساد وسیع پیمانے پر ہو ، محدود پیمانے پر یا شخصی اور خاندانی پیمانے پر ، بہر صُورت فساد پھیلانے والے ، دُنیا اور آخرت میں یقینی طور پر نقصانات ہی پائیں گے ، خواہ وقتی طور پر انہیں کچھ مادی فوائد مل بھی جائیں ، انجام نقصان ، ذِلت اور رسوائی ہی ہو گا ۔
::::: (2) ::::: رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے اور ٹھیک سے نہ نبھانے والے اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں :::::
رشتہ داریاں توڑنے اور فساد پھیلانے والوں کے بارے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ بھی صادر فرمایا ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ O أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ O :::تُم لوگوں سے یہ توقع ہے کہ (جب تم لوگوں کو کوئی قدرت مل جائے تو)تُم لوگ  (اللہ اور اس کے رسول کے احکام ماننے سے پِھر جاؤ گے، اور )زمین میں فساد پھیلاؤ گے ، اور رشتہ داریاں توڑو گے O یہ ہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور جنہیں اللہ بہرہ کر دیتا ہے اور اُن کی بصارت ختم کر دیتا ہے(یعنی وہ حق بات سننے سمجھنے اور دیکھنے سے محروم ہو جاتے ہیں) Oسُورت محمد (47)/آیات ،22،23،
پس جان رکھیے کہ فساد پھیلانے والے ،خو اہ وہ فساد وسیع پیمانے پر ہو ، محدود پیمانے پر یا شخصی اور خاندانی پیمانے پر ، بہر صُورت فساد پھیلانے والے  اور رشتہ داریاں توڑنے والے ، تڑوانے والے ، توڑنے کا سبب بننے والے سب ہی اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں ، اور حق تک پہنچنے سے محروم کر دیے جاتے ہیں ۔
::::: (3) ::::: رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے والے اللہ کی رحمت سے کاٹ دیے جاتے  ہیں :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَقُولُ مَنْ وَصَلَنِى وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَنِى قَطَعَهُ اللَّهُ::: رشتہ داری عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے ، اور کہتی ہے کہ جِس نے مجھ جوڑا اللہ اُسے (اپنی رحمت کے ساتھ)جوڑتا ہے ، اور جِس نے مجھے کاٹا اللہ اُسے (اپنی رحمت سے )کاٹ دیتا ہےصحیح مُسلم /حدیث /6683کتاب البِر و الصلۃ و  الادب/باب 6۔
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں بڑی وضاحت سے یہ بتا دِیا گیا ہے کہ رشتہ داریاں کاٹنے والا ، توڑنے والا ، اللہ کی رحمت سے کاٹ دِیا جاتا ہے ، اور رشتہ داریاں جوڑنے کی ایک فضیلت بھی  بیان ہوئی ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ کی رحمت سے جوڑ دِیا جاتا ہے ۔
::: (4) ::: رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے اور ٹھیک سے نہ نبھانے والوں کی کوئی نیکی قُبُول نہیں کی جاتی :::
﴿إِنَّ أَعْمَالَ بَنِى آدَمَ تُعْرَضُ كُلَّ خَمِيسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَلاَ يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ:::ہر جمعرات کو (یعنی جمعرات اور ) جمعہ کی(درمیان والی) رات میں آدم کی اولاد کے تمام عمل (اللہ کے حضور )پیش کیے جاتے ہیں ، اور رشتہ داریاں توڑنے والا کا کوئی (بھی نیک)عمل قُبُول نہیں کیا جاتا مُسند أحمد/حدیث/10543مُسند ابی ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 3225،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "حسن " قرار دِیا ہے ،صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 2538۔
::: (5) ::: رشتہ داریاں توڑنا ، کاٹنا اور ٹھیک سے نہ نبھانا اللہ کو سخت نا پسند ہے :::
ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا """ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟:::اے اللہ کے رسول ، اللہ کے ہاں کونسے کام سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إِيمَانٌ بِاللَّهِ:::اللہ پر إِیمان،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے پھر عرض کیا """ ثُمَّ مَهْ؟:::پھر( اِس کے بعد) کون سا؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ ثُمَّ صِلَةُ الرَّحِمِ:::پھر(اِس کے بعد)رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنا،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے پھر عرض کیا """ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَبْغَضُ إِلَى اللَّهِ؟:::اے اللہ کے رسول ، کون سے کام اللہ کو سخت نا پسند ہیں ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ:::اللہ کے ساتھ شرک کرنا،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے پھر عرض کیا """ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ مَهْ؟::: اے اللہ کے رسول،پھر(اِس کے بعد)کون سا؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ ثُمَّ قَطِيعَةُ الرَّحِمِ:::پھر(اِس کے بعد)رشتہ داریوں کو توڑنا،
صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے پھر عرض کیا """ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ مَهْ؟:::اے اللہ کے رسول،پھر(اِس کے بعد)کون سا؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ ثُمَّ الْأَمْرُ بِالْمُنْكَرِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمَعْرُوفِ:::پھر(اِس کے بعد)برائیوں کا حکم دینا (انہیں پھیلانا ، نشر کرنا ، رائج کرنا ، ایسے کاموں میں مدد کرنا وغیرہ)، اور نیکی سے روکنا (نیکی کے کاموں میں روکاٹ ڈالنا، روکنے کی کوشش کرنا ، وغیرہ )مُسند ابی یعلیٰ الموصلی /حدیث 6839،حدیث رجل من بنی خثیم ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "صحیح "قرار دِیا ، صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 2522،
یہ بات کسی کو سمجھانے کی ضرورت تو نہیں کہ جو کام اللہ کو سخت نا پسند ہو اُس کا انجام اللہ کی ناراضگی اور عذاب کے عِلاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ،
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ، رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنے کا حکم سننے کے بعد صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے نیک کاموں کے بارے میں مزید کوئی سوال نہیں کیا ، لیکن رشتہ داریوں کو توڑنے سے باز رہنے کا حکم سننے کے بعد برے کاموں کے بارے میں مزید ایک سوال کیا ، جِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ اِلفاظ ادا ہوئے کہ ﴿ ثُمَّ الْأَمْرُ بِالْمُنْكَرِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمَعْرُوفِ:::پھر(اِسکے بعد)برائیوں کا حکم دینا (انہیں پھیلانا ، نشر کرنا ، رائج کرنا ، ایسے کاموں میں مدد کرنا وغیرہ)، اور نیکی سے روکنا (نیکی کے کاموں میں روکاٹ ڈالنا، روکنے کی کوشش کرنا ، وغیرہ )
اب اگر ہم اِن الفاظ کو سابقہ باتوں کے تسلسل کے ساتھ ہی مسلسل سمجھیں تو یہ معاملہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ رشتہ داریاں جوڑے رکھنے ، بنائے رکھنےاورنبھانےمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جو برائی اور گناہ کے ضمن میں آتا ہو ، اور نہ ہی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جو کسی نیکی سے روکنے والا ہو ،
رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنے کے لیے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ ہم گناہوں اور برائیوں والے راستے اپنائے ، اگر کوئی رشتہ دار کسی گناہ یا برائی والے کام میں کوئی مدد چاہتا ہو تو ایسے میں اُس کے رشتہ داری کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا ، اور ایسے کسی کام میں اُس کی کوئی مدد کرنے کی بجائے اُس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور اُسے اُس گناہ اور برائی والے کام سے روکنے کی کوشش کی جائے گی ، کیونکہ اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بڑی ہی وضاحت سے یہ حکم فرما رکھا ہے کہ ﴿لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِى مَعْصِيَةِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:::اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی مخلوق کی تابع فرمانی نہیں کی جا ئے مُسند أحمد/حدیث/21198 بقية حديث الحكم بن عمرورضی اللہ عنہ ُ میں سے پہلی حدیث ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث 180۔
::: (6) ::: رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے اور ٹھیک سے نہ نبھانے والوں کے لیے آخرت سے پہلے دُنیا میں بھی سزا  ہے :::
رشتہ داریاں توڑنے  تڑوانے ، ختم کرنے کروانے ،والوں کے لیے  آخرت سے پہلے دُنیا میں بھی سزا ہوتی ہے ، یہ خبر بھی اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا کروا دی ہے کہ ﴿مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يُدَّخَرُ لِصَاحِبِهِ فِي الْآخِرَةِ، مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ :::بد کرداری (زنا ، بے پردگی ، بے حیائی ، بے غیرتی وغیرہ )اور رشتہ داریاں توڑنے کے علاوہ کوئی اور گناہ ایسا نہیں جِس کی سزا  اللہ ، بہت جلد ہی دُنیا میں ہی نہ دیتا ہو ، اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ گناہ کرنے والے کے لیے آخرت میں بھی سزا محفوظ نہ  رکھتا ہو اِس حدیث شریف کو إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے ، تعلیقات الحِسان علی صحیح ابن حبان /حدیث457،صحیح الادب المفرد /حدیث /48باب27،
رشتہ داریوں کو توڑنے والے ،تڑوانے والے ، توڑنے یا ختم کرنے والے کروانے والے ، اور رشتہ داریوں کا حق ادا نہ کرنے والوں ،  ایسے کام  ہونے کا سبب بننے والوں کے لیے دُنیا  کی سزا مختلف انداز میں ہوتی ہے مثلاً  ، بے سکونی ، ذِلت ، رُسوائی ، لوگوں کے دِلوں میں نفرت ، کراھت ، اور ایک وقت آتا ہے کہ اُن کے اپنے قریبی لوگ ، والدین ، اولاد بھی اُن کو کسی عِزت کا حق دار نہیں سمجھتے ۔
::: (7) :::رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے اور ٹھیک سے نہ نبھانے والوں کے لیے آخرت میں کیا سزا ہے؟ :::
رشتہ داریوں کو توڑنے والے ،تڑوانے والے ، توڑنے یا ختم کرنے والے کروانے والے ، اور رشتہ داریوں کا حق ادا نہ کرنے والوں ،  ایسے کام  ہونے کا سبب بننے والوں کے لیےدُنیا کی سزا کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کو آخرت میں بھی سزا ملنی ہے ، اور وہ سزا کیا ہے ، اِس کی خبر بھی اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے کروا دی کہ ﴿لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ:::رشتہ داریاں کاٹنے والا( توڑنے والا) جنّت میں داخل نہیں ہو گاصحیح مُسلم /حدیث /6688کتاب البِر و الصلۃ و  الادب/باب 6، صحیح بخاری کی روایت میں لفظ [[[رحم]]]نہیں ہے ، لیکن اِس پر سب مسلمانوں کا مکمل اتفاق ہے کہ [[[کاٹنے والے ، توڑنے والے]]] سے مُراد رشتہ داریاں توڑنے والا ہی ہے ، صحیح بخاری /حدیث /5986کتاب الادب/باب 12۔
::::::: درحقیقت رشتہ داریاں جوڑنے والا کون   ہے؟ :::::::
کئی لوگ اپنے اپنے خیالات کی بنا پر رشتہ داریاں جوڑنے ، اور اُن کے حق ادا کرنے کے اپنے الگ ہی معیار بنائے ہوتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جو کچھ وہ سوچتے ہیں، وہ کچھ اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات اور فرامین کے مُطابق  دُرست ہے یا نہیں؟؟؟
رشتہ داریاں جوڑنے والا ، رشتہ داریوں کا حق ادا کرنے والا کون ہے ؟؟؟
 اِس کا فیصلہ بھی اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف کے ذریعے مختلف مواقع پر مخلتف اِلفاظ میں صادر فرمایا ،
::::::: (1)::::::: ﴿ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ ، وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِى إِذَا قَطَعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا :::رشتہ داری جوڑنے والا وہ نہیں جو  بدلے میں رشتہ داری جوڑتا ہے ، بلکہ رشتہ داری جوڑنے والا وہ ہے کہ جِس کے ساتھ تعلق توڑا جائے (یا زیادتی کی جائے ، اُس کے رشتے کا حق ادا نہ کیا جائے )تو بھی وہ رشتے کو جوڑے رکھےصحیح بخاری /حدیث /5991کتاب الادب/باب 15،
::::::: (2)::::::: ﴿ صِلْ مَنْ قَطَعَكَ وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَكَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ :::جو تمہارے ساتھ رشتہ داری توڑے ، اُسکے ساتھ رشتہ  جوڑے رکھو، اور جو تمہیں (معاشی ، معاشرتی ، اور خاندانی مدد میں سے )کچھ نہ بھی ) دیتاہو تُم اسے دیتے رہو ، اور جو تُم پر ظلم کرے اُس سے درگزر کرومُسند أحمد /حدیث /17915حدیث عُقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ ُ  میں سے حدیث رقم 161،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث891،
::::::: (3)::::::: ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں شکایت پیش کی کہ """ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِى قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِى وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَىَّ وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَىَّ::: اے اللہ کے رسول ، میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں ، کہ میں جن کی حقوق ادا کرتا ہوں ، اور رشتہ داری جوڑے رکھنے کی کوشش کرتا ہو ، اور وہ مجھے الگ کیے رکھتے ہیں ، اور میں اُن کے ساتھ بھلائی والا رویہ رکھتا ہوں لیکن وہ مجھ سے برا رویہ رکھتے ہیں ، اور میں اُن کے ساتھ بردباری اور درگذر والا رویہ رکھتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدتمیزی اور برائی والا رویہ رکھتے ہیں  """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ وَلاَ يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ  ::: اگر تو تم ویسا ہی کرتے ہو جیسا کہہ رہے تو ، گویا کہ تُم اُن لوگوں کو گرم ریت کِھلا رہے ہو ***اور جب تک تُم اسی طرح کرتے رہو گے ، اللہ کی طرف سے تمہارے لیے اُن لوگوں کے شر سے بچاؤ کے لیے ایک مددگار مقرر رہے گاصحیح مُسلم/حدیث /6689کتاب البِر و الصلۃ و الادب/باب6،
::::: فقہ الاحادیث :::::
مذکورہ بالا حدیث شریف میں معمولی سا تدبر کرنے سے بھی یہ اچھی طرحس ے سمجھ آتا ہے کہ رشتہ داریاں جوڑے رکھنا ، نبھانا یہ نہیں کہ آپ اچھائی کے بدلے میں اچھائی کریں ، دُنیاوی مقاصد کے لئے اچھائی کریں ، یعنی  اگر کوئی رشتہ دار آپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا تو آپ اُس کے ساتھ اچھا سلوک کریں ، اور نہ ہی یہ ہے کہ آپ کسی رشتہ دار کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور وہ اُس کے مطابق نہ کرے ، تو آپ اپنے اچھے رویے کو بدل دیں ،
اور نہ ہی یہ ہے کہ آپ اپنا ، وقت ، مال یا اپنے وسائل میں سے کچھ اور خرچ کر کر کے رشتہ داروں  سے یہ توقع رکھیں کہ وہ صِرف آپ کی مرضی کے مُطابق ہی رہیں ، آپ کی غلط صحیح ہرہی بات مانیں ، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یقین رکھیے کہ آپ رشتے داریاں جوڑنے یا نبھانے والوں میں سے نہیں ، بلکہ اپنے نفس کی  پیروی کرنے والوں میں سے ہیں ، اپنی شخصیت کو پہچانے بغیر ، صِرف اپنی بڑائی منوانے کی کوشش کرنے والوں میں سے ہیں ، جس کا نتیجہ عموماً  اچھا نہیں ہوتا ، اور کسی دُوسرے سے زیادہ خُود آپ کے لیے اچھا نہیں ہوتا ،
اگر آپ  اپنے کسی اچھے عمل کے بدلے کی اُمید مخلوق سے رکھتے ہیں ، تو جان لیجیے کہ آپ نے وہ کام اللہ کے لیے نہیں کیا ، بلکہ اپنے نفس کے لیے ، دُنیا کے دکھاوے کے لیے ، اور یا کسی بھی اور مقصد اور نیّت سے کیا ہے ،  اللہ کے لیے نہیں ، اور اگر وہ دِکھاوے کے لیے کیا گیا ہو تو پھر ریا کاری میں شامل ہو گیا ، جو کہ چھوٹا شِرک ہے ، پس نیکی تو کوئی نہ ہوئی گناہ لازم ہو گیا ،
 آخر الذکر حدیث شریف میں جو گرم ریت کِھلانے کا ذِکر ہے تو اِس کی شرح میں عُلماء کرام نے کہا کہ"""یہ بات کناہے کے طور پر فرمائی گئی ہے ،یعنی اُن کی طر ف سے قطع رحمی کے باوجود تمہاری طرف سے صلہ رحمی کی وجہ سے اُنہیں اس قدر تکلیف دہ گناہ ہو رہا ہے گویا کہ اُن لوگوں کے منہ گرم ریت سے بھرے جارہے ہیں"""،
پس یہ واضح ہوا کہ اگر کسی کی تمام تر اچھی کوششوں کے باجود اُس کے رشتہ دار اُس کی قدر نہ کرتے ہوں ، اور اُس کی اچھائیوں کے بدلے میں اُس کے ساتھ برائی ہی کرتے ہوں ، اور اُس کی صلہ رحمی کے بدلے میں اُس کے ساتھ قطع رحمی ہی کرتے ہوں ، اور وہ شخص اپنی اچھائی کو نہ روکے تو وہ لوگ شدید دردناک عذاب کما رہے ہیں ، اور یہ شخص خیر ہی خیر پا  رہا ہے ،
اور یہ بھی خیال فرمایے کہ اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم نے اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کی شکایت کے جواب میں اُسے یہ نہیں کہا کہ ، تم کافی کر چکے ہو ، چھوڑ دود ایسے رشتہ داروں کو ، یا یہ کہ ، یہ کوئی رشتہ داری نہیں ، جو تمہار خیال نہیں کرتا تم بھی اُس کی پرواہ نہیں کرو ،
نہیں ، بلکہ ، اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو اُس کے اِسی نیک عمل پر قائم رہنے کی ترغیب دی ، کہ اِسی میں خیر ہے ، تم بدلے کی پرواہ کیے بغیر اپنی صلہ رحمی جاری رکھو ۔
:::::: رشتہ داریاں جوڑنے رکھنے کے چند أہم اسباب :::::::
::: (1) ::: رشتہ داریاں جوڑے رکھنے کی فضیلت اور اُس کے أجر و ثواب کو یاد رکھنا ،
::: (2) ::: رشتہ داریاں توڑنے ، کاٹنے ، ٹھیک سے نہ نبھانے کے انجام اور عذاب کو یاد رکھنا ،
::: (3) ::: رشتہ داریاں جوڑے رکھنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد طلب کرتے رہنا ،
::: (4) ::: رشتہ داروں کی طرف سے کوئی زیادتی ہونے کی صُورت میں اُن کی طرف سے پیش کیے گئے عُذر قُبُول کرنا ،
::: (5) ::: رشتہ داروں کی طرف سے ملنے والے دُکھ اور تکلیفوں پر درگذر کرنا ، اور بدلہ نہ لینے کا عزم رکھنا،
::: (6) ::: رشتہ داروں کے ساتھ کیے گئے اچھے سلوک پر احسان نہ جتانا،اور اُن سے کسی بدلے کی توقع نہ رکھنا ،
::: (7) ::: رشتہ داروں کے ساتھ بے تکلفی اور ہنسی مذاق میں حُدود سے تجاوز نہ کرنا ، جو کوئی مذاق برداشت کرنے والا نہ ہو اُس کے ساتھ مذاق نہ کیا جائے ،اور ہر کسی کو اُس کے مزاج کے مُطابق ملا جائے ،
::: (8) ::: رشتہ داروں میں کسی اختلاف کی صُورت میں تحمل اور بُردباری کے ساتھ اُسے دُور کرنے کی کوشش کرنا ،
::: (9) :::اپنی زندگی میں پیش آنے والے خوشی اور غمی کے ، خاص طور پر خوشی کے مواقع پر رشتہ داروں کو شامل رکھنا ،
::: (10) ::: رشتہ داروں میں کمزور اور غریب لوگوں کی مددگاری کے لیے ، مالدار لوگوں کو مستقل مددگاری کی ترغیب دیتے رہنا ، اور اُن  کے اموال میں سے غریب رشتہ داروں  کے لیےکچھ نکلوا کر اُن تک پہنچاتے رہنا ۔
:::::: رشتہ داریاں توڑنے والے چند معروف کام :::::::
::: (1) ::: جہالت  :::   جی ہاں ،  کسی کام کے اچھے اور برے انجام کے بارے میں نہ جاننا ، اُس کے بارے میں جاھل ہونا ایک بہت بڑی مُصیبت ہے ، جو اَن گنّت مشکلوں ، پریشانیوں ، اور تکلیفوں کا سبب ہوتی ہے ،خود جاھل کے لیے بھی اور دُوسروں کے لیے بھی ، لہذا ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے ہر معاملے کے بارے میں اپنی جہالت کو دُور کرنے کی مکمل کوشش کریں ، اور دُرُست انداز میں کریں ، یعنی ، محض سُنی سنائی باتوں کو عِلم نہ سمجھ لیں ، اور نہ ہی تصدیق شدہ معلومات کو قُبول کریں ، بلکہ اپنے ہر ایک معاملے کے بارے میں تصدیق شدہ معلومات حاصل کریں ، مُسلمانوں سے حُسن ظن مطلوب ہے ، لیکن یہ حُسن ظن کسی معاملے میں کوئی دلیل نہیں ہوتا ، لہذا اپنے کسی شخصیت کے بارے میں اپنے حُسن ظن کو اپنے لیے اور دُوسروں کے لیے گمراہی کا سبب مت بننے دیجیے ،
::: (2) ::: تقوی کی کمی ، إِیمان کی کمزوری :::
اِس کا سبب بھی ایک طرح سے جہالت ہی بنتا ہے ، کہ ہم لوگ اپنے إِیمان کی حالت کے بارے میں جہالت کا شِکار ہوتے ہیں ، اور اپنے إِیمان کی کمزوری کو بھانپ نہیں پاتے ، خود کو اہل تقویٰ سمجھتے ہیں ، جب کہ ہمارے اقوال و افعال تقویٰ اور إِیمان کی کمزوری کی دلیل ہوتے ہیں ،
سوچیے تو سہی ، اگر ہمارا إِیمان مضبوط ہو ، تقویٰ مطلوبہ حد تک ہو ، تو کیا ہم اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق رہیں گے ؟؟؟
اُن کے جائز حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کریں گے ؟؟؟
اُن کے ساتھ کیے گئے اچھے سُلوک کے بدلے کے منتظر رہیں گے ؟؟؟
اُن کی طرف سے کیے گئے برے سُلوک کا بدلہ لینے کا اِرداہ رکھیں گے ؟؟؟
یقیناً آپ کا جواب ہو گا کہ """نہیں """،
اور یہ ہی دُرست جواب ہے ،
تو پھر ،،،،،، اپنے إِیمان اور تقویٰ کی حالت کا اندازہ آپ خود ہی کر لیجیے ، اور اِن میں  جو کمزوری پائیں اُسے دُور کرنے کی کوشش کیجیے ، اور اپنی رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنے کی کوشش کرتے رہیے ، اوروہ سب کام کرتے رہیے جو إِیمان اور تقویٰ میں اضافے کا سبب ہوتے ہیں ۔
[[[تقویٰ ، کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان """تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے ؟"""کافی عرصہ پہلے شائع کر چکا ہوں ،  یہ مضمون درج ذیل ربط پر موجود ہے ، http://bit.ly/1ayREEx  اپنی قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر اِس کا مطالعہ بھی فرمایے ، اِن شاء اللہ خیر کا ہی سبب ہو گا ]]]
::: (3) ::: تکبر ::: کچھ لوگ کسی معاشی ، معاشرتی ، خاندانی ، اور بدنی خوبی ملنے کی وجہ سے دُوسروں کو خود سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں ، اور یہ خیال کرنے لگتے ہیں وہ ہر ایک معاملے میں اپنی منوانے کا حق رکھتے ہیں ، اور دُوسروں کو اُن کی کوئی بھی بات رد کرنے کا کوئی حق نہیں ، اور اِس تکبر میں وہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں اور قریب والوں کو رگڑتے ہیں ، اور اگر کوئی اُن کی کسی غلط بات کو بھی رد کر دے تو وہ اپنے اِس تکبر میں رشتہ داریاں توڑنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتے ، بلکہ بسا اوقات تو اپنے اِرد گِرد والوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔
::: (4) ::: حسد ::: کچھ لوگوں کو اللہ جلّ ثناوہُ کی طرف سے دُوسروں کی نسبت کئی چیزوں میں اضافہ اور برکت عطاء ہوتے ہیں ، اور دُوسرے اللہ کی اِس عطاء پر جلتے ہیں ، جنہیں وہ عطاء نصیب ہوتی ہے اُن سے حسد کرتے ہیں ، وہ لوگ یہ نہیں جانتے ، نہیں سمجھتے کہ  حسد اللہ کے عمل پر اعتراض ہوتا ہے ، جو کہ ایک کفریہ عمل ہے ،
اپنے اُس حسد کی آگ میں جل جل اُن لوگوں کو صِرف یہ ہی یاد رہتا ہے کہ کسی طرح یہ نعمتیں ، یا اِن میں سے کوئی نعمت اُس شخص سے چھین لی جائے ، اُس کے ہاتھوں سے نکال دی جائے ، اور اس کوشش میں وہ کسی رشتہ داری ، کسی دوستی ، کسی تعلق کا کوئی خیال نہیں  رکھتے ، اور گناہوں کی دلدل میں دھنستے  ہی جاتے ہیں ۔
::: (5) ::: کنجوسی ، اور شُح::: عمومی طور پر کنجوسی ، اور خاص طور پر خیر کے کاموں میں کنجوسی  بھی رشتہ داریوں کو توڑنے اور کاٹنے کے اسباب میں سے ہے ، کہ ایسے لوگوں میں یہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مال اور رزق میں سے کچھ کسی دُوسرے پر خرچ کر لیں ، لہذا وہ لوگ صِرف اپنے مال اور دیگر وسائل کو بچانے کی فِکر  میں رہتے ہیں خواہ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہوتا رہے ،
[[[الحمد للہ ،  شُح  کے بارے میں بھی ایک تفصیلی  مضمون نشر کیا جا چکا ہے""" شُحَّ،یعنی خیر کے کاموں کے لیے کنجوسی اور برائی والا لالچ ہلاکت کا سبب ہے"""، درج ذیل لنک پر مطالعے کے لیے میسر ہے ،http://bit.ly/1lxbFhO اِن شاء اللہ ، اِس کا مطالعہ بھی فائدہ مند ہو گا ، خود بھی توجہ اور تدبر سے پڑھیے اور دُوسروں کو بھی پڑھنے کی دعوت دیجیے ]]]  
::: (6) ::: دُنیا اور اُس کے فوائد پر توجہ رکھنا:::دُنیاوی مقاصد کے حصول کے پیچھے دوڑنے والا عموماً اپنے رشتہ داروں کے لیے کوئی وقت نہیں نکال پاتا ، اور پھر ایسا ہو کر ہی رہتا ہے کہ وہ رشتہ داریاں ٹوٹنے کا سبب بن جاتا ہے ،
::: (7) ::: دُنیا اور اُس کے فوائد پر توجہ رکھنا:::کچھ لوگ عموماً اپنے کسی رشتہ دار کی طرف سے کسی معاملے میں کسی کوتاہی کی وجہ ، اور عموماً کوتاہی  کا سببجانے بغیر ہی اُسے طعنے دینے لگتے ہیں ، طنز کرنے لگتے ہیں ، ایسا رویہ بھی رشتہ داروں میں دُوری اور بالآخر رشہ داری ختم ہونے کا سبب بنتا ہے ،
::: (8) ::: رشتہ داروں کو خوش اخلاقی سے نہ ملنا  :::کچھ لوگ اپنے گھر آنے والے رشتہ داروں سے ، یا کسی موقع پر ملاقات ہونے کی صُورت میں ، اپنے رشتہ داروں سے خوش اخلاقی سے پیش نہیں آتے ، دُور دُور رہتے ہیں ، یا بیزاری والا رویہ رکھتے ہیں ، یہ عمل بھی دُوسروں کے دِلوں میں کدورت پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے اور دُوریاں بڑھنے کا سبب ہوتا ہے ، حتی کہ ایک وقت آتا ہے کہ جب وہ رشتہ صِرف نام کا ہی رہ جاتا ہے ،
::: (9) :::وراثت کی تقسیم میں دیر کرنا ، یا  نا انصافی کرنا ::: یہ دونوں کام بھی ایسے ہیں جو رشتہ داریوں کو توڑنے ، بلکہ دُشمنیوں میں بدلنے والے ہیں ،
::: (10) ::: خاندانی شادیوں کی صُورت میں طلاق ہو جانا :::خاندان میں ہونے والی شادیوں میں سے اگر کسی کا انجام طلاق کی صُورت میں واقع ہو تو یہ بھی کسی خاندان کے بہت سے گھرانوں کے رشتے اور تعلق کے برے خاتمے کا سبب بنتا ہے ، لہذا  اگر کسی خاندان میں  اگر کہیں میاں بیوی کے درمیان کوئی چپقلش ہو جائے تو  ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ اُن میں صلح کروائی جائے ، اور نوبت طلاق  تک نہ پہنچنے پائے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہمارے نفوس کی شر سے محفوظ رہنے کی ہمت عطاء فرمائے اور یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم بحیثیت اِنسان اپنی حقیقت اور وقعت جان لیں ، اور اللہ کے ، اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تابع فرمان بن کر زندگی گذراتے ہوئے اپنے اللہ جلّ ثناوہُ کی خدمت میں حاضر ہوں ،والسلام علیکم ۔
تاریخ کتابت :04/09/1436ہجری ، بمُطابق ، 21/06/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔