::: زکوۃ
الفِطر احکام اور مسائل:::
::: ( 1 ) زکوۃ
الفطر کی حِکمت :::
::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا
فرمان ہے کہ(((رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے روزے داروں کے لیے فضول
اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیے اور غریبوں کی خوراک کے لیے زکوۃ الفطر فرض کی
،
لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے (فطرانہ )أدا کر دِیا تو وہ (اللہ کی طرف سے )قُبول
شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے عید کی نماز کے بعد أدا کیا تو وہ عام صدقات
میں سے ایک صدقہ ہو گا )))سُنن ابوداؤد/حدیث1609/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن
ماجہ/حدیث148،
::: ( 2 ) زکوۃ
الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟اور کب فرض ہوتی ہے ؟ اور کب تک أدا کی
جانی چاہیے ؟ :::
::: زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر
فرض ہے ، جیسا کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر غُلام اور
آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع ، یا جَو (Barley) کا ایک صاع
، زکوۃ الفِطر فرض کی ، اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید طرف پہلے یہ زکوۃ
أدا جائے ))) صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب31 صحیح مسلم/ کتاب الزکاۃ/باب4 ،
5 ،
::: زکوۃ الفِطر
کی أدائیگی کا وقت شوال کی پہلی أذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور أفضل
وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ،عید کی نماز کے بعد
زکوۃ الفِطر أدا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی
گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا ہے """
اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر أدا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے
گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے أدا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی أدائیگی
میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ أدائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو
گا """ ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے
دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر أدا کیا کرتے تھے ۔
::: ( 3 ) زکوۃ
الفطر کب فرض ہوتی ہے ؟ :::
::: فقہا کے مختلف
أقوال کے مُطابق زکوۃ رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو
جاتی ہے ۔
:::( 4 ) زکوۃ
الفطر أدا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟ :::
::: زکوۃ الفطرہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِس کے
پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت ہے ، اُن کے ایک دِن اور رات کے کھانے سے
زائد سامان شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں ،نوکروں
غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُس کی کفالت میں اور زیر پرورش ہے اور مسلمان ہے ،
اُنکی طرف سے بھی أدا کرے گا ، جیسا کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت
ہے کہ(((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر اُس بڑے
اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہ ءِ فِطر أدا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو
تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں))) سُنن الدارقُطنی/حدیث 200 ، إرواءُ الغلیل /حدیث 835،
::: ( 5 ) زکوۃ
الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں أدا کی جائے گی ؟:::
::: أبی سعید
الخُد ری رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے ((( ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں
ایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو (Barley)، یا ایک
صاع میوے (خُشک أنگور )، یا ایک صاع أقِط (یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ )میں
سے صدقہءِ فِطر أدا کیا کرتے تھے ))) صحیح البُخاری/ کتاب
الزکاۃ / باب 4 ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب 4،
::::: ایک أہم وضاحت
:::::
اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ
چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ
کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو أفضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی
ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا
ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ،
عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ
الفِطرکے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ """
الطعام """ یعنی """ کھانا """ ہے
لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جا سکتی ہیں،
::: ( 6 ) زکوۃ الفطر کی مِقدار :::
::: زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟ میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے أشخاص
میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ،
ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں رائج تھا ، کے
برابر زکوۃ الفِطر أدا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک مُد عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں
والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو
تقریباً أڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً
اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی بھی چیز زکوۃ الفِطر کے
طور پر دی جا سکتی ہے ۔
::: ::: یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور
وہ یہ کہ ،
زکوۃ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت
میں أدا کی جائے گی جِن کاذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ
الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں ، جی ہاں ، جائز نہیں ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا
گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ أدا کی جاسکتی تھی ،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ
ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ضرور اِس کو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ
عنہم أجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں
کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً أدا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم
أجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےبعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ
کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے أحکام اور سنتوں کو جاننے اور
سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے عمل کے
خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیئے کوئی بھی عقلی
یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا،
گو کہ کچھ علماء کرام غلے اور اناج وغیرہ کو خرید و فروخت میں نقد کے طور پر اِستعمال کرنے سے ا ِس بات کا جواز نکالنے کی کوشش کرتے ہیں
کہ فطرانہ نقد مال کی صُورت میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے ، لیکن ، اُن کی بات سُنت شریفہ کی تائید نہیں پاتی، اور
اگر کسی طور یہ مان بھی لیا جائے کہ نقد ادا کرنے کا کوئی جواز نکل ہی آتا ہے تو
بھی سُنّت شریفہ کے مُطابق عمل کرنا بلا
شک و شبہ افضل ہے اور اللہ کے ہاں قبول
ہونے کا یقینی امید وار۔
::: ( 7 ) زکوۃ
الفطر کِن کو دی جائے گی ؟ :::
::: صدقہءِ فِطر صِرف """ مسکینوں """
یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو أچھا کھانے کی طاقت نہیں رکھتے ، جیسا کہ
عنوان ( 1 ) میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ، کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن
لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دیا جائے گا ، جب کہ یہ بات دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نےفِطرانہ کے لیے """ مساکین """ کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔
::: ( 8 ) زکوۃ
الفطر کہاں أدا کی جائے گی ؟ :::
::: زکوۃ الفِطر کی أدائیگی کا أصل بُنیادی حُکم یہ
ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ فرض ہوئی ، اور وہ وہاں
موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ کو کِسی
دوسری جگہ أدا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےاور نہ ہی
صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان
اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں
اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی
دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیئے جا
رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیئے واجب ہے ،
ایسے کاموں کو ہوتے ہوئے
دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے اور یہ دُکھ اُس وقت درد محسوس ہونے لگتا ہے جب یہ کام دینی
جماعتوں اور دینی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے ، سُبحان اللہ یہ کیسی
دینداری ہے جو دین کے مطابق نہیں ؟ کیا صرف اپنی اپنی جماعت ، مذھب ، ٹولے اور
فرقے کو مالی امداد مہیا کرنے کے لیے یا اپنی اپنی دعوت کو مال بانٹ کر پھیلانے کے
لیے دین کے نام پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے خلاف کام
کرنا واقعتاً دین داری ہے یا محض جماعتی، مذھبی ، مسلکی ترویج کی ضد ، اللہ تبارک
و تعالیٰ ہم سب کے ظاہر و باطن کی اصلاح فرما دے ،
رہا معاملہ مال و زراعت کی
زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے
شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ أدا
کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے ۔
:::مصادر و مراجع ::: """
تمام
المِنّۃ
""" ، """ الوجیز فی فِقہِ
السُّنَّۃِ و الکتاب العزیز """ ، """ نبذۃ عن زکاۃ
الفِطر
"""۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون
کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔