Tuesday, June 30, 2015

: قُران و سُنّت کے باغ میں سے ::::::: تقدیر اور قضاء کا فرق ، کیا نیک کام اور دُعاء تقدیر کو تبدیل کرنے کے اسباب ہیں؟ :::::

::::::: قُران و سُنّت کے باغ میں سے :::::::  

::::: تقدیر اور قضاء کا فرق ، کیا نیک کام اور  دُعاء تقدیر کو تبدیل کرنے کے اسباب ہیں؟ :::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو، و الَّذی لَیس أصدق مِنہ ُ قِیلا، و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ :::سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر پہنچا  دی،
السلام ُعلیکم ورحمۃ ُاللہ و برکاتہُ ،
إِن شاء اللہ آج ہم یہ جانیں گے کہ ،  کیا دُعا ، صدقہ اور کوئی نیک کام اللہ کی مقرر کردہ تقدیر ، یا اللہ کے فیصلے میں تبدیلی کا سبب ہو سکتے ہیں ؟؟؟
اِس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ،  ہمارے لیے  یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ العلیم القدیر کے مقرر کردہ اندازے ، یعنی تقدیر اور ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کے فیصلے یعنی قضاء میں کیا فرق ہے ؟؟؟
سب سے پہلے تو یہ  بات اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ تقدیر اور قضاء ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں ، الگ الگ نہیں ہیں ، جو کچھ  تقدیر میں لکھا ہوا جُوں کا تُوں واقع ہو جاتا ہے ، وہ اللہ کی مشیئت سے واقع ہوتا ہے ،اوراُس کا واقع ہو جانا ہی اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے ،
 اور اگر اللہ کی مشیئت میں ہو جائے کہ وہ  تقدیر میں لکھے ہوئے کسی معاملے کو تبدیل فرما دے ، اور اپنی مشیئت کے مُطابق اُسے تبدیل فرما دے تو اُس معاملے کے لیے وہی اللہ کی طرف  سے قضاء ہوتی ہے ، یعنی وہی فیصلہ ہوتا ہے ، لہذا یہ دونوں یعنی قدر اور قضاء ، اندازہ اور فیصلہ ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط ہیں ،
خیال رہے کہ بسا اوقات دونوں اِلفاظ ایک دوسرے کے مفہوم میں اِستعمال ہوتے ہیں ، لہذا سیاق و سباق کا خیال رکھتے ہوئے عبارت کا معنی اور مفہوم سمجھا جانا چاہیے ،
اِس طرح کے اِستعمال کی وجہ سے کئی عُلماء کرام نے یہ بھی کہا کہ قضاء اور تقدیر دونوں ایک ہی چیز ہیں ، لیکن اُن کی یہ بات حقیقت سے مُطابقت نہیں رکھتی ،
 کئی عُلماء کرام نے  ، کافی تفصیل سے تقدیر اور قضاء کے مختلف درجات بیان فرمائے ہیں ، اور دونوں میں فرق کو بھی کافی تفصیل سے بیان فرمایا ہے ، اگر میں وہ سب کچھ یہاں بیان کروں تو بہت سے قارئین کے لیے یہ  موضوع کافی خشک اور شاید نا سمجھا جا سکنے والا بن جائے گا ، 
لہذا ، اِن شاء اللہ ، میں موضوع کو قارئین کے لیے آسان  فہم رکھنے کے لیے  اِن دونوں کی مختصر تعریف ، قُران اور صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ سے دلائل کی روشنی میں پیش کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ اِسے ہم سب کے لیے دِین دُنیا اور آخرت کی خیر کا سبب بنا دے  ،

:::::تقدیر :::::   اللہ جلّ جلالہُ کے مقرر کردہ اندازے ہیں ، جو کسی بھی مخلوق کے عِلم سے کہیں زیادہ مکمل اور یقینی ہیں کہ اُن میں جو کچھ لکھا گیا مخلوق کے معاملات بالکل اُسی طرح ہوتے ہیں ، لیکن  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے اُن میں تبدیلی ممکن ہے ،

اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے اُس کی مخلوق کے لیے مقرر کردہ اندازے ، یعنی تقدیر مخلوق کے بارے میں حکم اور فیصلے  نہیں ، لہذا مخلوق تقدیر کے سامنے بے بس و مجبور نہیں ،

جی ہاں مخلوق ، اپنے  اکیلے لا شریک خالق  اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اندازوں کے عین مُطابق ہی سب کچھ کرتی ہے ، لیکن اپنے لیے اچھے اور برے نتائج والے  عقائد ، افعال اور معاملات خود اختیار کرتی ہے ،

کیونکہ ، اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو عطاء کردہ شعور کے مُطابق اُس مخلوق کے لیے خیر اور شر کی خبر دے دی ہے، خاص طور پر اِنسانوں اور جِنّوں کو ، اور اُنہیں اپنے لیے خیر اور شر اختیار کرنے کی قُدرت بھی دے رکھی ہے ، لہذا ایسا نہیں کہ اِنسان مجبور محض ہے ، اور گناہ کرنے کے لیے  اپنی تقدیر کی وجہ سے مجبور ہے ، بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اپنے لیے گناہ اور نیکی ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت اور نافرمانی اختیار کرنے میں آزاد ہے ، اور اپنے اختیار کردہ عقائد اور اعمال کے مُطابق اللہ سے بدلہ پانے والا ہے، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،

جیسا کہ اللہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے  یہ بتا رکھا ہے کہ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ::: اور تُم لوگوں کو جو کوئی بھی مُصیبت آتی ہے تو وہ تُم لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے (یعنی اپنے ہی کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے ہے )اور اللہ تو (تُم لوگوں کی )بہت(سی غلطیوں اور کوتاہیوں)سے در گذر فرماتا ہے( کہ اُن کی وجہ سے کوئی مُصیبت نہیں ڈالتا) سُورت   الشُوریٰ (42)/آیت 30 ،

::::: تقدیر پر إِیمان رکھنا فرض ہے:::::

اللہ جلّ ثناوہ ُ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ:::کوئی بھی مُصیبت ایسی نہیں جو زمین پر آئے اور یا تمہاری جانوں پر آئے ، جو ہماری طرف سے اُس مُصیبت کو پیدا کرنے سے پہلے ہی  کتاب میں لکھی نہ ہو ،یقیناً یہ(سب کچھ کرنا)اللہ کے لیے بہت آسان ہےسُورت الحدید(57)/آیت 22،
اور اِرشاد فرمایا ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ::: (اے رسول)کیا آپ نہیں جانتے کہ، جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے اللہ سب ہی کچھ جانتا ہے ، بے شک یہ سب کتاب میں (لکھا ہوا)ہے،یقیناً یہ سب اللہ کے لیے بہت آسان ہےسُورت الحج(22)/آیت70،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ:::بے شک ہم نے ہر ایک چیز ایک مقرر شدہ اندازے کے ساتھ بنائی ہےسُورت القمر (54)/آیت49،
اور اللہ جلّ ثناوہُ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر ادا کروائی  کہ ﴿كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلاَئِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ - قَالَ - وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ::: اللہ نے  آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمانے سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری مخلوق کی تقدیریں لکھ دِیں   (یعنی مخلوق کی زندگی کے ہر معاملے اور ہر کام کے بارے میں اندازے لکھ دیے)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا، اور(اُس وقت) اللہ کا عرش پانی کے اوپر تھا صحیح مُسلم /حدیث /6919کتاب القدر/باب2،
اور یہ خبر بھی اداکروائی کہ ﴿  كُلُّ شَىْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّى الْعَجْزُ وَالْكَيْسُ أَوِ الْكَيْسُ وَالْعَجْزُ :::ہر ایک چیز تقدیر کے مُطابق ہے یہاں تک کہ عجز اور چستی و ہوشیاری بھی صحیح مُسلم /حدیث /6922کتاب القدر/باب4،
اور جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب میں لکھ رکھا ہے اُس پر إِیمان رکھنا لازم ہے ، جیسا کہ اللہ عزّ و جلّ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے إِیمان کے بارے میں خبر ادا کروائی کہ﴿ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ:::(إِیمان یہ ہے )کہ تُم اللہ پر إِیمان رکھو اور اُس کے فرشتوں پر ، اور اُس کی کتابوں، اور اُس کے رسولوں پر ، اور آخرت کے دِن پر ، اور تقدیر کے خیر اور شر والی (دِینی، دُنیاوی  اور اُخروی لحاظ سے اچھی اور بُری ) ہونے پر إِیمان رکھوصحیح مُسلم /حدیث /6922کتاب القدر/باب4،
اور یہ بھی بیان کروایا کہ ﴿لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَهُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَهُ:::کوئی بندہ اُس وقت تک إِیمان والا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تقدیر کے خیر اور شر والی (دِینی، دُنیاوی  اور اُخروی لحاظ سے اچھی اور بُری ) ہونے پر إِیمان نہ رکھے، یہاں تک کہ  وہ یہ جان لے کہ جو کچھ اُسے ملا (جو کچھ اس کے ساتھ ہوا) وہ اُسے چھوڑنے والا نہیں تھا ، اور جوکچھ اُسے نہیں ملا (جو کچھ اُس کے ساتھ نہیں ہوا) وہ کچھ اُسے ملنے والا نہیں تھا (کیونکہ جو کچھ ملا اور جو کچھ نہیں ملا وہ سب اللہ کے فیصلے تھے جو نافذ ہوئے اور ہمیشہ ایسا ہی ہو گا)سُنن الترمذی /حدیث /2294کتاب القدر/باب10، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ۔
:::::قضاء ::::: اللہ احکم الحاکمین کے فیصلے ہیں ، جو وہ اپنی مخلوق میں سے جس کے بارے میں  جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے صادر فرماتا ہے ، سوائے چند ایک ایسے فیصلوں کے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے سے فرما رکھے ہیں ، جیسا کہ فرمایا ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحسَانًا:: اور تُمارے  رب نے فیصلہ کر رکھا ہے، تُم لوگ  اُس کے عِلاوہ کسی کی عِبادت نہیں کرو ،اورماں باپ کے ساتھ بہترین سلوک رکھوسُورت الإِسراء(بنی إِسرائیل17)/آیت 23،

::::: تقدیر پر إِیمان رکھنا فرض ہے:::::

اللہ عزّ و جلُ  کی قضاء ، یعنی اُس کے کیے ہوئے فیصلوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ،  اور اِس پر إِیمان رکھنا فرض ہے ،
جِس کی سُنّت شریفہ میں دلیل ، وہی حدیث شریف ہے جو ابھی ابھی تقدیر  پر إِیمان رکھنے کے فرض ہونے کے دلائل  کے آخر میں ذِکر کی گئی ، اور اللہ تبارک أسماوہُ کے کلام پاک قران کریم میں سے دلائل درج ذیل ہیں :::
﴿ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا ::: اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہنا ہے سُورت مریم(19)/آیت 21،
پس اللہ جلّ ثناوہُ جب کوئی فیصلہ فرما لیتا ہے تو اُس کا نفاذ ہونا ہی ہوتا ہے ،
﴿وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ::: اور جب اللہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس کام کو کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہےسُورت البقرہ (2)/آیت117، 

فیصلہ تقدیر میں لکھے ہوئے کے نافذ ہونے کا ہو ، یا کسی تقدیر میں تبدیلی کا ہو ، اُس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ،

﴿  لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ:::اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیںسُورت یُونس (10)/آیت64،
﴿وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا:::اور اللہ کا حکم قطعی طور پر طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے(جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی)سُورت الأحزاب (33)/آیت38،

جب کہ تقدیر میں تبدیلی کا امکان ہوتا ہے ،

جِس کی خبر اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اِن الفاظ میں کروائی کہ ﴿   لَا يَزِيدُ فِى الْعُمْرِ إِلاَّ الْبِرُّ وَلاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ:::عُمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی سوائے نیکی کے ، اور ےتقدیر کو کوئی چیز دُور نہیں کرتی سوائے دُعاء کےسُنن ابن ماجہ /حدیث /95باب فی القدر، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث 154،
اور یہ خبر بھی کروائی کہ﴿ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِى رِزْقِهِ ، وَأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِى أَثَرِهِ ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ::: جِسے یہ پسند ہو کہ اُس کے رزق میں وسعت کی جائے ، اور اُس کی باقی عُمر میں اضافہ کیا جائے تو وہ اپنی رشتہ داروں ساتھ اچھا سلوک کرےصحیح بخاری/حدیث /5985کتاب الادب/باب12،
پس یہ معاملہ واضح ہے کہ مخلوق  اللہ جلّ شانہ ُ کی مقرر کردہ تقدیر کے مُطابق عمل کرتی ہے ، لیکن اُس تقدیر کے سامنے بے بس نہیں ، مجبور نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُس تقدیر کو بدلنے کے اسباب بھی مقرر کر رکھے ہیں اور اُن کی  خبر بھی کروا رکھی ہے ، لہذا ہمیں  ہر و ہ سبب اختیار کرنا چاہیے جو ہماری تقدیر میں لکھے ہوئے  ، ہمیں ملنے والے کسی بھی شر کے بارے میں اللہ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کا سبب ہو سکے ، اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اُس شر کو اپنی رحمت اور خیر کے ساتھ تبدیل کر دے ۔
 والسلام علیکم۔تاریخ کتابت : 19/03/1436 ہجری، بمُطابق،10/01/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مسیر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔