Saturday, July 6, 2013

::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (4) :::: سحری ، فضیلت ، احکام اور مسائل :::::

::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (4) ::::
::::: سحری ، فضیلت ، احکام اور مسائل  :::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ        
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
::: سحری ::: فضیلت اور اہم مسائل :::
::::
سحری کیوں کرنا چاہیے ؟ :::
یُوں تو اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ روزہ رکھنا ہو تو سحری کے وقت کھانا بہتر ہے ، ذرا دِین داری کا خیال ہو تو کہا جاتا ہے کہ سُنّت ہے کہ سحری کے وقت کھایا جائے ، اور اگر پہلے کھا کر سو لیا جائے تو بھی کوئی خاص مُضائقہ نہیں ،
 آئیے ذرا اِن باتوں کا واقعتا  صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے :::
::::: انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ  کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا((((تَسَحَّروا فَاِنَّ فی السَّحُورِ بَرکَۃٌ :::سحر ی کیا کرو ، کیونکہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے)))))صحیح البُخاری/حدیث 1923 /کتاب الصوم/باب20، صحیح مُسلم حدیث 1095 / کتاب الصیام/باب9 ،
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سحری میں برکت ہونے کی خبر دِی ہے اور اِسکو نہ چھوڑنے کی ترغیب دی ہے ، اِس لیے یہ معاملہ مُضائقے یا غیر مُضائقے کا نہیں ، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہے ،،،
::::: کہیں آپ اُن میں سے تو نہیں جو اپنے آپ کو سحری کی برکت سے محرُوم رکھتے ہیں ؟
::::: عَمر بن العاص رضی اللہ عنہ ُسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((فَصلُ مَا بَینَ صَیِامنا و صَیِام اَھلِ الکِتابِ ؛ اَکلَۃ السَّحَرِ ::: ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے )))))صحیح مُسلم ، حدیث ، 1096 ۔
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا ((((( اِنَّھَا بَرکَۃٌ اَعطَاکُم اللَّہ ُ اِیَّاھَا ، فَلا تَدعُوہُ ::: بے شک یہ برکت جو اللہ نے تُم لوگوں کو عطا کی ہے لہذا اسے نہیں چھوڑنا))))) سُنن النسائی/کتاب الصیام/باب 24 ،
::::: عبداللہ ابن عَمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( تَسحَرُوا و لَو بِجُرعَۃِ مَاءٍ:::سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو))))) صحیح ابن حبان/کتاب الصوم/باب السحور ،
::::: عبداللہ ابن عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((اِنَّ اللَّہ َ و الملائِکتہ ُ یَصَّلُونَ عَلیَ المُتسَحَرِینَ ::: بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے دُعا کرتے ہیں))))) صحیح ابن حبان/ کتاب الصوم/باب السحور ،
سحری کا کھانا چھوڑنے والا نہ صرف اِن مذکورہ بالا فائدوں سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی ، اور کافروں کی نقالی کا مُرتکب بھی ہو جاتاہے ،
***** ذرا غور فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمانے کے مُطابق مسلمانوں اور اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے روزوں میں سحری کا کھانا ہی فرق کرنے والی چیز ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سحری کھانے کے بارے میں کتنی تاکید فرمائی ہے اور کتنی خوش خبریاں دی ہیں ،
*****  کہیں آپ اُن میں سے تو نہیں جو رات گئے کھانا کھا کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں تا کہ سحری کرنے میں نیند خراب نہ ہو ؟؟؟ سحری کی برکت بھی گئی ؛ کافر اور مسلمان کے روزے کا فرق بھی نہ رہا ؛ فجرکی نماز بھی گئی ؛ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی تو روزہ نہیں!!!
::::: سحری کا وقت کب تک ہے ؟  :::::
*****  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ہے (((((وَکُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ:::اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ فجر کے وقت میں سے تمہارے لئیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے))))) سُورت البقرہ (2)/آیت 187 ،
***** عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سےعرض کیا :::
یا رسول اللَّہ اِنی اجعَلُ تحت َ وسادَتی عِقالین ،عِقالاًابیض َ و عِقالاًاسودَاعرفُ اللیلَ مِن النَّھارِ فقال لہُ رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ و علی آلہ وسلم((((( اِنَّ وَسادَتَکَ لَعَرِیضٌ، اِنَّمَا ھُوَ سَوَادُ اللَّیلِ و بَیَاضُ النَّھارِ)))))
 اے اللہ کے رسول میں اپنے تکیے کے نیچے دو دھاگے رکھتا ہوں ، سفید دھاگہ اور کالا دھاگہ ، تا کہ دِن میں سے رات کو جان سکوں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن سے فرمایا(((((تمہارا تکیہ بہت کُشادہ ہے ، وہ تو رات کا کالا پن اور دِن کی سُفیدی ہے)))))،
یعنی آیت سے مُراد کالے اور سفید دھاگے کا الگ الگ نظر آنا نہیں بلکہ رات اور دِن کا الگ الگ ہونا ہے ،صحیح مُسلم ، حدیث 1090 ،
***** زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے ((((( تَسَحَّرنَا مَع رسول ِاللَّہِ صلی اللَّہ علیہ و علی آلہ وسلم، ثُمَّ قُمنَا اِلیٰ الصَّلاۃِ ؛ قِیلَ ؛ کَم کان بینَھُمَا ؛ قال ؛ قدرُ خَمسِینَ آیَۃً :::ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ سحری کی اور پھر نماز کے لیے اُٹھے ، (زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے )پوچھا گیا ؛ نماز اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا ؛ اُنہوں نے جواب دِیا ؛ پچاس آیات کے برابر))))) یعنی جتنا وقت پچاس آیات پڑہنے میں لگتا ہے۔صحیح البُخاری ، حدیث ، 1921 ، صحیح مُسلم ، حدیث ، 1097،
***** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( اِذا سَمِعَ احدُکُم النِّدَاءَ وَالاِنِاءُ عَلیٰ یَدِہِ فَلا یَضَعہ ُ حَتَّی یَقضِی حاجَتَہ ُ مَنہ ُ ::: جب تُم میں سے کوئی اذان سُنے اور کھانے کا برتن اُسکے ہاتھ میں ہو تو وہ برتن رکھے نہیں جب تک اُس میں سے اپنی ضرورت پُوری نہ کر لے ))))) سُنن ابو داؤد / حدیث ، 2350 ،
یعنی اگر سحری کھاتے کھاتے اذان شروع ہو گئی اور ابھی کھانے کی حاجت ہے تو جو کھانے کی چیز ہاتھ میں ہے اُسے چھوڑنے کی بجائے کھا لیا جائے ، لیکن اِسکا یہ مطلب ہر گِز نہیں کہ اذان سے کُچھ لمحات پہلے ہاتھوں میں چیزیں تھام لی جائیں تا کہ دیر تک کھایا جاسکے ،
***** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا ((((( نِعمَ سَحُورُ المؤمِن التَّمرُ ::: اِیمان والے کے لیے بہترین سحری کھجور ہے))))) صحیح ابنِ حبان ، حدیث ، 883 ، سلسلہ احادیث الصحیحہ ، حدیث ، 562 ،سُنن ابو داؤد ، حدیث ، 2342 ۔
::::: روزہ کی نیت کب اور کیسے ؟؟؟ :::::
******* اِیمان والوں کی والدہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ، امیر المؤمنین خلیفہ دوئم بلا فصل عُمر رضی اللہ عنہ ُ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((((( مَن لَم یَجمَع الصَّیامَ قَبلَ الفَجرِ فَلا صَیامَ لہُ ::: جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیّت نہیں کی اُس کا روزہ نہیں ))))) سُنن ابو داؤد / حدیث 2454 ،
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں ((((( مَن لَم یُبَیِّتِ الصَّیامَ مِن اللَّیلِ فَلا صَیامَ لہُ ::: جس نے روزہ کی نیّت کے ساتھ رات نہیں گُزاری اُس کا روزہ نہیں))))) سُنن الدارمی حدیث 1698 ، سُنن النسائی ، احادیث 2330 تا 2339 ، اِمام الالبانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ، الاِرواء ُ الغلیل حدیث ، 914 ،
عِلامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہُ اللہ  نے """ عون المعبود """ میں اِس مذکورہ بالا حدیث  شریف کی شرح میں اِمام الخطابی رحمہُ اللہ  کا یہ قول نقل کیا کہ """ اِس حدیث میں اِس بات کی وضاحت ہے کہ جو پہلے وقت میں ہی روزے کی نیّت نہیں کرے گا اُس کا روزہ دُرست نہیں ہو گا """،
اِمام محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمہُ اللہ نے '' سُبُلُ السَّلام '' میں اِس حدیث کی شرح میں لکھا """ یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ روزہ کی نیّت کے بغیر رات گُزارنے والے کا روزہ دُرست نہیں ہوتا ، اِس کا مطلب یہ ہے کہ رات کے کِسی بھی پہر میں آنے والے دِن کے روزے کی نیّت کرنا ضروری ہے ، نیّت کا پہلا وقت غرُوب کا ہے ، """،
********* یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نیّت کی جگہ دِل ہے ، کِسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اِرادہ نیّت کہلاتا ہے ، وہ کام دینی ہو یا دُنیاوی ، اِنسان کے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی اِرادہ ہوتا ہے ، وہ اِرادہ اُس کے شعور میں ہو یا لا شعور میں ، ہوتا ضرور ہے ، عِبادت کےلیے بھی اِسی طرح اِرادہ یا نیّت ہوتی ہے ، اِس کو الفاظ کی شکل میں ادا کرنا کِسی بھی عِبادت کے لیے سُنّت سے ثابت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ، لہذا یہ مت بُھولیے کہ نہ تو روزہ رکھنے یا کھولنے کی کوئی ایسی نیّت ہے جو کہ پڑہی یا بولی جائے اور نہ ہی کِسی بھی اور عِبادت کی ، حج اور عُمرہ کا تلبیہ ایک اور چیز ہے اورنیّت اور چیز ، تلبیہ کو لفظی نیّت کہنا یا سمجھنا غلط فہمی ہے ، نیّت کرنے سے مُراد اپنے اِرادے کو حاضر کرنا اور پُختہ کرنا ہے ، اگر نیّت کرنے سے مُراد کوئی الفاظ ادا کرنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنہوں نے ہمیں نیّت کرنے کے بارے میں تعلیم دی اور نیّت کی اہمیت کا عِلم دِیا ، ضرور وہ  الفاظ بھی سکھاتے جِن کے ذریعے نیّت کی جاتی ، مگر ہمیں سُنّت اور حدیث کے خزانوں میں صحابہ رضی اللہ عنہُم کے آثار میں ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کی تعلیمات میں کہیں بھی ایسے کوئی الفاظ نہیں ملتے جنہیں """نیّت"""کے الفاظ کہا جاتا ہو ، یا کہا جا سکتا ہو،
ابھی ذِکر کی گئی دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے الفاظ مبارک  اِس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نیّت کہنے کی نہیں کرنے کی چیز ہے کہیں اشارۃً بھی کِسی عِبادت کی کوئی نیّت کہنے کا ذِکر نہیں ،
 یہ طرح طرح کی نیّتں بہت بعد میں بنائی گئی ہیں ،لہذا یقینا دین کا حصہ نہیں ہیں اور اللہ کے ہاں غیر مقبُول ہیں براہِ مہربانی ایسے کاموں سے اپنے آپ کو اور اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کو بچائیے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے راستے کو جاننے اور اُس پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی پر چلتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ۔
روزے کی نیّت کے نام پر چند اِلفاظ ہمارے ہاں مشہور ہیں ، اور عجیب دُکھ کی بات ہے کہ حدیث کے طور پر مشہور ہیں ، """ و بصومِ غَدٍ نویت مِن شھرِ َرمضان """ جب کہ کہیں کِسی صحیح تو کیا کمزور حدیث میں بھی یہ ، یا کوئی بھی اور الفاظ نیّت کے لیے نہیں ملتے ، ہمارے جو بھائی اِن الفاظ کی تشہیر کرتے ہیں ، اُن پر شرعاً واجب ہیں کہ وہ نیّت کو الفاظ میں ادا کرنے اور پھر خاص خاص کاموں کے لیے خاص خاص نیّت کے اِلفاظ کی دلیل بھی پیش کریں ، اور اگر اُنکے پاس اِس کی کوئی دلیل نہیں اور یقینا نہیں ، تو پھر ایسی باتیں نشر کر کے اپنی اور دوسروں کی آخرت کی تباہی کا سبب بننے سے بچیں۔
اسی طرح افطار کی """ دُعا """ کے طور پر مشہور ہونے والے اِلفاظ کا بھی معاملہ کچھ عجیب ہی ہے ، اُس کا ذِکر اِن شاء اللہ تعالیٰ افطار کے موضوع میں کروں گا ۔

::::: نفلی روزے کے لیے پہلے سے نیّت کرنا ضروری نہیں ، اور نفلی روزہ کِسی بھی وقت توڑا جا سکتا ہے :::::
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور پوچھا (((((ہَل عِندَکُم شَئٍی؟::: کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ )))))،
ہم نے کہا """نہیں """ ،
تونبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( فَاِنِی اِذَن صَائِم::: اچھا تو پھر میرا روزہ ہے)))))،
پھرکِسی اور دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے میں نے عرض کیا """ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)تحفے کے طور پر حیس (کاحلوہ)آیا ہے """ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( اَرِینِیہِ فَلَقَد اَصبَحتُ صَائِماً ::: تو لاؤ میں صبح سے روزے میں تھا ))))) اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے وہ حلوہ کھا لیا ۔ صحیح مُسلم/ حدیث 1154 ، کتاب الصیام / باب 32،
::::: سحری کرنے کے لیے پاکیزگی کی حالت میں ہونا ضروری نہیں ؟؟؟  :::::
ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان  فرمان کہ (((((اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ صَلی اللَّہ علیہ و علی آلہ وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُہُ ::: میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے)))))،
پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہوں نے بھی یہی بات کی۔ صحیح البخاری / حدیث 1830 / کتاب الصوم / باب 25،
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
::: ایک وضاحت :::
رمضان سے متعلقہ موضوعات میں مہیا کردہ  معلومات صرف چند اہم مسائل کے بارے میں  بنیادی معلومات ہیں ، تفصیلی معلومات نہیں ہیں ،
 کسی بھی قاری (پڑھنے والے مرد و خاتون )کے ذہن میں اگر کوئی سوال ہو تو بلا جھجک کرے ، انشاء اللہ قران و ثابت شدہ سُنّت کے مطابق جواب دیا جائے گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلمکا فرمان ہے ((( فاِنما شفاء العَی السوال ::: بے شک جہالت کی شفاء سوال کرنا ہے )))صحیح الجامع الصغیر /حدیث 4362،
اور امام مجاہد کا فرمان ہے """ لا یَتعلمُ العِلمَ المُستحی و لا المُکتبر ::: حیا کرنے والا اور تکبر کرنے والا علم  نہیں سیکھ سکتا """،
الحمد ُ اللہ ،""" ماہِ رمضان اور ہم ::: 4 ::: سحری ، فضیلت اور احکام  """ مکمل ہوا ،
اِن شاء اللہ ، اگلا مضمون  بعنوان """ ماہِ رمضان اور ہم ::: 5 :::اِفطار ، کیوں ، کب ، اور دیگر مسائل""" ہو گا ۔ و السلام علیکم۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔