Sunday, July 7, 2013

::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (5) :::: افطاری ، فضیلت ، احکام اور أہم مسائل :::::

::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (5) ::::
::::: افطاری ، فضیلت ، احکام اور أہم  مسائل  :::::
::: افطاری ::: فضیلت اور أہم مسائل :::
::::
افطاری کب کی جانی  چاہیے ؟ :::
*** اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے (((((وَ کُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ ؛ ثُمّ اَتّمُوا الصَّیامَ اِلیٰ اللَیلِ::: اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر میں سے تمہارے لیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے ؛ پھر رات تک روزہ مُکمل کرو)))))سورت البقرۃ (2)/آیت 187،
*** دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((اِذَا اَقبَلَ اللَیلُ مِن ھٰھُنَا وَ اَدبَرَ النَّھَارُ مِن ھٰھُنَا وَ غَرَبَت الشَّمسُ فَاَفطَرَ الصَّائِمُ  ::: جب رات وہاں ( یعنی سورج نکلنے والی جگہ )سے آجائے اور دِن وہاں (یعنی سورج غرُوب ہونے والی جگہ )سے چلا جائے اور سورج غرُوب ہو جائے تو روزہ دار روزہ کھول لے)))))صحیح البُخاری / حدیث 1954 ، صحیح مُسلم / حدیث 1100،
*** سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  نے اِرشاد  فرمایا (((((لَا یُزالُوا النَّاسُ بِخَیرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطرَ ::: جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے خیر سے رہیں گے)))))صحیح البُخاری / حدیث 1916 ، صحیح مُسلم / حدیث1098،
****** جو لوگ افطار میں جلدی کرنے کی بجائے دیر کرتے ہیں اور تمام مُسلمانوں کی مخالفت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے اِس ارشاد کی روشنی میں اُن لوگوں کے بارے میں کم از کم یہ بات تو یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ ہر گِز خیر پر نہیں ہیں ، اور یہاں بھی معاملہ فقہ کے اِختلاف کا نہیں بلکہ عقیدہ کے فساد کا ہے ، لہذا اِس سے بڑھ کر کہنے کی بھی اجازت ہے کیونکہ ،
***** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا ((((( لَا یَزالُ الدِّینُ ظَاہِراً مَا عَجَّلُ النَّاسُ الفِطرَ لِانَّ الیَھُودُ وَ النَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ ::: جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے دِین واضح اور غالب رہے گا ،کیونکہ یہودی اور عیسائی افطار میں دیر کرتے ہیں)))))سُنن ابو داؤد /حدیث 2350/کتاب الصیام/باب 20، حدیث صحیح ہے ،
***** اس مذکورہ بالا حدیث میں بیان فرمودہ  وضاحت کے مُطابق پتہ چل جاتا ہے کہ افطار دیر سے کرنا کِن کی لوگوں عادت تھی ،  اور اب مُسلمانوں میں وہ کون لوگ ہیں جو اپنے روحانی بڑوں کی عادات کو پورا کر رہے ہیں مگر اُن کا نام لینے کی جُرات نہیں ہے اِس لیے اپنی اس تابع فرمانی کو  چُھپانے کے لیے اور انجان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیئے کہیں باطنی شریعت کا نام لیتے ہیں ،  کہیں کسی کی شعیت کا دعوی کرتے ہیں ، کہیں کِسی خاص فقہ کا  پردہ کرتے ہیں ، کہیں کِسی خاص طریق کا لبادہ اوڑھا جاتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اِفطار میں تاخیر کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کی عادت تھی اورہے ، جو اِس عادت کو اپنائے ہوئے ہیں وہ دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر اُن یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروکاری کر رہے ہیں ، خواہ اپنے آپ کو کُچھ بھی سمجھتے یا کہتے رہیں ، خود بھی دھوکے کا شکار ہو رہے ہیں اور لوگوں کے سامنے اپنے لیے طرح طرح کے نام اور القاب بنا بنا کر دھوکہ دے رہے ہیں ،
یہ معاملہ کِسی ایک شخص کا نہیں بلکہ اَن گنت اشخاص کا ہے اور یہ عِبادت مُسلمانوں میں سے کوئی چند ایک نہیں بلکہ بہت بڑی تعداد کر رہی ہے ، اور یہ ایسی حقیقت ہے جِس کا انکار ممکن نہیں ، گو کہ عام طور پر انسان کا ازلی دشمن ایسی باتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ واریت کا نام دے اِس قِسم کی منافقت کو چھپانے کی کوشش کرواتا ہے ، لیکن ہمیں ہر ایسی چیز ،ایسے عقائد اور عِبادات جو قُران اور ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق نہیں ، اُن کا واضح طور پر اظہار کرنا ہوتا ہے تا کہ ہمارا جو مُسلمان بھائی یا بہن ایسی چیزوں کا شکار ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری بات کو اُس کی ہدایت کا ذریعہ بنا دے اور وہ مُسلمان اپنی جو صلاحیات ایسی بلا دلیل یا بغیر صحیح دلیل کی باتوں پر عمل کرنے اور اُنکو نشر کرنے میں خرچ کر رہا ہے وہ اللہ کے سچے دِین کی خدمت میں خرچ ہوں ، ایسی چیزوں (کاموں ، باتوں ، عقائد )کے اظہار کے لیے بسا اوقات ضروری ہو جاتا ہے کہ نام بنام نشاندہی کی جائے ، اور اِس کا مقصد لوگوں کو حق و ناحق کی پہچان کروانا ہوتا ہے ،اور یہ کہ ، اگر اللہ چاہے تو ،سننے پڑھنے والوں کی غلط فہمیاں دُور ہوں اور وہ جان سکیں کہ جِسے وہ دِین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں ، اور جِسے وہ دِین سمجھ کر اُس کی خدمت کر رہے اور اُس کی نشر و اشاعت و تبلیغ کرتے ہیں وہ دِین ہے بھی کہ نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: اِفطار کروانے کا اجر :::::
*** زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا ((((( مَن فَطَّرَ صائِماً کانَ لہُ مَثلُ اَجرِہِ غَیرَ اَنَّہُ لا یَنقُصُ مِن اَجرِ الصائِم شَیئًا  :::  جو روزہ دار کو افطار کرواتا ہے اُسکے لیے روزہ دار کے اجر کے برابر اجر ہے اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی)))))سُنن الترمذی /حدیث 807 ، سُنن ابن ماجہ /حد یث 1746 ،
***** اگر کِسی کے پاس اِفطار کیا جائے یا کھانا کھایاجائے تو ، صحیح ثابت شدہ  سُنّت شریفہ کے مُطابق ، اُس افطار کروانے کے لیے دُعا کے الفاظ یہ ہیں:::
انس رضی اللہ عنہ ُ    کا کہنا ہے کہ رسول اللہ جب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کِسی کے پاس اِفطار فرماتےتو اِرشاد فرمایا کرتے ((((( اَفطَرَ عِندَکُم الصَّائِمُونََ وَ اَکَلَ طَعَامَکُم الاَبرارُ و صَلَّت عَلِیکُم الملائِکَۃُ::: روزے دار تمہارے پاس افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں ، اور فرشتے تمہارے ہاں اُترتے رہیں )))))سُنن ابو داود / حدیث 3848 ، سُنن ابن ماجہ / حدیث 1747 ،
اِمام ا لالبانی  رحمۃُ اللہ علیہ نے """ آداب الزفاف / ص171 """کے حاشیے میں لکھا کہ """ یہ دُعا روزہ دار کے افطار کے لیے خاص نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کا یہ فرمانا کہ ( افطر عندکم الصائمون )خبر ہے بلکہ یہ کھانا کِھلانے والے کے لیے دُعا ہے کہ اُس کے پاس روزہ دار افطار  کیا کریں تا کہ وہ اُن کا اجر حاصل کر سکے"""،
یہ اندازء کلام تقریباً عربی کے ہر دُعائیہ فقرے میں اسی طرح ہوتا ہے ، کہ لغوی اعتبار سے ظاہری معنیٰ تو ماضی یعنی گذرے ہوئے زمانے کی خبر ہوتا ہے ، لیکن اُس کا مفہوم مستقبل یعنی آنے والے زمانے میں خواہش ہوتا ہے ، اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُسے ، دُعا ، بد دُعا یا محض خواہش کہا جاتا ہے ،
 مثلاً ، عام طور پر مر چکے مسلمانوں کے لیے"""رحمۃ اللہ علیہ"""::: لغوی معنیٰ :::اُس پر اللہ کی رحمت ہوئی ::: اور """ رحمہُ اللہ """ ::: لغوی معنیٰ ::: اللہ نے اُس پر رحم کِیا ::: اور """ مرحوم، یعنی جِس پر رحم کیا گیا """ یا """ مغفور ، یعنی جِس کی بخشش کی گئی""" وغیرہ کہا جاتا ہے ، یہ تمام فقرے بظاہر ایسے کاموں کی خبرہیں جو واقع ہو چکے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ، کیونکہ مر چکے لوگوں میں سے کِس کی مغفرت ہوئی اور کِس پر رحم ہوا یہ اللہ ہی جانتا ہے ، اور اللہ کی طرف سے دیے گئے علم کے مطابق سوائے اللہ کے رسولوں کے کوئی بھی اور شخص اس  امر کی خبر نہیں دے سکتا،
اگر اللہ کی طرف سے کِسی کے بارے میں ایسی  کوئی خبر آئی ہو تو اُس کو صِرف اُسی شخص  کی ذات کے لیے خبر ماننا ہو گا جِس کے بارے میں وہ خبر میسر ہو ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دِی کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے رسول  اللہ پر صلاۃ کرتے ہیں ، (صلاۃ کی تشریح ایک دوسرے مضمون ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  پر صلاۃ و سلام ''' میں کی جا چکی ہے ) اور صبرکرنے والے اِیمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی """صلاۃ """ ہونے کی اللہ نے خبر دی ، اور صحابہ  رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں ،
لہذا اگر اب کسی مسلمان کو """ صلی اللہ علیہ """ یا """ رضی اللہ عنہ ُ """کہا جائے گا تو ایسا کہنا اُس کے لیے دُعا ہو گی ، نہ کہ ایسا ہو جانے کی خبر ، چونکہ خبر اور دُعا کے استعمال  میں غلط فہمی اور غلطی کا امکان تھا بھی اور کچھ اس امکان کو قصداً استعمال بھی کیا جانے لگا تو مُسلمانوں نے عام طور پر اس بات کو اپنا لیا کہ """ علیہ السلام """ کے الفاظ بطور خبر  انبیاء اور رُسل کے لیے خاص کر دیے گئے ، اور """ رضی اللہ عنہ ُ """ کے الفاظ بطور خبر صحابی کے لیے خاص کر دیے گئے ، پس اب جب کوئی ان الفاظ کو کسی غیر نبی یا غیر صحابی کے لیے استعمال کرتا ہے تو ہم حسنء ظن کے مطابق یہ سمجھیں گے کہ وہ دعا کر رہا ہے ،
 عرب ہمیشہ سے فعل ماضی کے ایسے فقرے دُعا کے طور پر اِستعمال کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اِسلام میں بھی اِس اِستعمال کو برقرار رکھا گیا ہے ، کیونکہ مشرکین عرب اپنے تمام تر شرک کے باوجود اپنی لغت کو جانتے تھے اور ایسی غلط فہمیوں کا شکار نہیں تھے جِن کا شکار غیر عرب ہو تے ہیں ، لیکن ،،،، ہم ماضی کے فعل میں صادر ہونے والے فقروں کو خبر سمجھ کر اپنے مرنے والوں کے بارے میں بڑے عجیب عقیدے بنا لیتے ہیں ، اور اُنہیں کچھ کا کچھ بنا کر کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ہماری اِصلاح فرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::::  افطار کس چیز سے کرنا چاہیے ؟؟؟ :::::
*** أنس رضی اللہ عنہ ُ    کا فرمانا ہے کہ((((( کان رسولُ اللَّہُّ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  یُفطِرُ عَلَی رُطَباتٍ قبل ان یُصّلِّیَ فَاِن لَم تَکُن رُطَباتٍ فَعَلیَ تَمَرَاتٍ فَاِن لَم تَکُن حَسا حَسَوَاتٍ مِن مَاءٍ ::: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  نماز سے پہلے تازہ پکی رسیلی کھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ، اگر یہ کھجوریں مُیسر نہ ہوتِیں تو کِسی بھی کھجور سے ، اور اگر وہ بھی مُیسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے)))))سُنن ابو داؤد /حدیث 2353 /کتاب الصوم /باب21 ، سُنن الترمذی/حدیث696 ، سلسلہ الصحیحہ/حدیث 2840،
***** اِس کے عِلاوہ کِسی اور چیز سے افطار کرنا اپنی ذاتی پسند یا عادت تو ہو سکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کی سُنّت نہیں جیسا کہ کُچھ لوگ نمک سے افطار کرنے کے بارے میں اِس غلط فہمی کا شِکار ہیں کہ یہ سُنّت ہے ،تفصیل پھر کبھی اِن شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: افطاری کی دُعاء ؛؛؛ کب اور کیا ؟؟؟ :::::
****** ابن عمر رضی اللہ عنھُما سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  افطار کیا کرتے تھے تو فرمایا کرتےتھے (((((ذھب الظماءُ وَ اَبتَلت العَرُوق وَ ثَبَتَ الاجر اِن شَاءَ اللَّہ:::پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر پکا ہوگیا)))))سُنن ابو داؤد /حدیث 2354 ، اِمام الالبانی رحمۃ اللہ  علیہ نے اِس حدیث کو حسن قرار دِیا ، اِروا الغلیل / حدیث 920،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے اِن الفاط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ افطار کے بعد ادا کیے جانے والے ہیں نہ کہ پہلے ، کیونکہ افطار سے پہلے نہ تو پیاس جاتی ہے ، نہ ہی رگیں تر ہوتی ہیں اور نہ ہی روزہ مُکمل ہوتا ہے کہ جِس کا اجر پکا ہو جائے ، پس یہ دُعا نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر کا انتہائی خوبصورت انداز ہے ، اور اپنے اِیمان اور نیک عمل کے مطابق اللہ کی رحمت سے ثواب مل جانے کے یقین کا اظہار ہے ، کہیں کوئی دُعا نہیں ،لیکن ہم نے اِن اِلفاظ کو دُعا بنا کر بے وقت اور بے سمجھ اِستعمال کرنے کا ڈھنگ اپنا رکھا ہے ، کہ ہم لوگ اِسے روزہ کھولنے سے پہلے پڑھتے ہیں اور جو کچھ اِس میں ہے اُس کو عملی طور پر جھوٹ بناتے ہیں ،
اِس کے عِلاوہ ایک دو احادیث ایسی ہیں جِن سے یہ دلیل لی جاتی ہے کہ روزہ دار کی حالتِ روزہ میں یا افطاری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے وہ احادیث صحیح نہیں ہیں ، سحری اور افطاری کی دُعاؤں کے موضوع پر حاصلِ کلام یہ ہے کہ اِن اوقات کے لیے کوئی خاص دُعا نہیں ہے ،چلتے چلتے ذرا اُن دو جملوں کا جائزہ لے لیا جائے ، جو افطاری کی دُعا کے طور پر مشہور ہیں ،
***** (1)***** اللَّھُم لک صُمنَا ،و علیٰ رزقِکَ اَفطرنَا ، اللَّھُمَ تَقبل مِنا اِنَّکَ اَنت َ السَّمِیعُ العلِیم ،
اِمام ا لالبانی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث کو ضعیف یعنی کمزور قرار دِیا ہے ،""" اِرواءَ الغلیل / حدیث 919"""،
*****
(2)***** """ بِسّمِ اللَّہ اللَّھُم لک صُمت ُ و علیٰ رزقِکَ اَفطرت """ حدیث ضعیف ، یعنی کمزور نا قابل حُجت ہے ، ''' الکلم الطیب للالبانی /حدیث 166 ،
یہ  مذکورہ بالا دو جملے عام طور پر افطاری کی دُعا کے طور پر مشہور ہیں ، اور دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  سے ثابت نہیں ہیں ،اب یہ فیصلہ کرنا تو قطعاً مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے عِلاوہ کِسی اور کی سُنّت پر چلنے والے کہاں جائیں اور اُن کے اعمال کہاں جائیں گے؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد ُ للہ ، """ ماہ رمضان اور ہم ::: 5 ::: افطاری ، فضیلت ، احکام اور أہم مسائل """ مکمل ہوا ،اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
 اِن شاء اللہ اگلا مضمون بعنوان """ ماہِ رمضان اورہم ::: (6) ::::قیام اللیل ،فضیلت اور أہم مسائل  """والسلام علیکم۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔