Wednesday, July 3, 2013

::::::: سُنّت مُبارکہ کے باغ میں سے ::::::: ::::::: مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص اور مُقیّد کرنے کا شرعی حُکم :::::::

::::::: سُنّت مُبارکہ کے باغ میں سے :::::::
::::::: مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص اور مُقیّد  کرنے کا شرعی حُکم :::::::
رمضان کے دِنوں میں  عموماً مساجد میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ اپنے لیے جگہ مخصوص کر کےمُقیّد رکھتے ہیں، خاص طور پر عِشاء کی نماز میں ، اور اس کے بعد تراویح کی نماز میں ایسا کیا جاتا ہے ، کہ کچھ لوگ پہلی  یا دوسری صف میں کرسی  یا  مصلیٰ یعنی جائے نماز  وغیرہ رکھ کر اپنے لیےجگہ مخصوص  کر کے اس پر قابض ہو  جاتے ہیں،اور خود نماز شروع ہونے سے چند ہی منٹ پہلے تشریف لاتے ہیں اور یوں پہلے سے آنے والوں کی حق تلفی بھی کرتے ہیں اور دیگر گناہوں کا شکار بھی ہوتے ہیں ،  
اِن لوگوں کی کاروائی کو اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں بہت تفصیل سے اس مسئلے کا شرعی حُکم ملتا ہے ، ملاحظہ فرمایے :::
عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ﴿نَهىٰ رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عن نَقرَةِ الغُرَابِ وَافتِرَاشِ السَّبعِ وَأَن يُوَطِّنَ الرَّجُلُ المَكَانَ في المَسجِدِ كما يُوَطِّنُ البَعِيرُ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے(ان کاموں سے)منع  فرمایا کہ (نماز کے سجدے میں)کوّے کی طرح چونچیں ماری جائیں ، اور(اس سے) کہ(نماز کے سجدے میں)درندے کی طرح بازو پھیلائے جائیں ، اور (اس سے)کہ کوئی شخص مسجد میں اپنے لیے جگہ خاص کر لے جس طرح کہ اُونٹ اپنے لیے جگہ خاص کرتا ہے سنن ابو داؤد /حدیث 862/کتاب الصلاۃ /باب 149،سنن ابن ماجہ /حدیث1429/ کتاب الصّلاۃ و السُنّۃ فیھا/باب 204، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 1168، مُسند احمد ، صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان، وغیرھا ،
(اس حدیث مبارک میں بعض کاموں سے منع فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کاموں کی پہچان کے لیے جانوروں کے کاموں کی مثال دے کر سمجھایا ہے ، یہ ایسے لوگوں کے لیے لمحہء فکر ہے  جو اس قسم کی مثالوں کو غیر مہذب سمجھتے یا کہتے ہیں، جبکہ گناہ گاروں ، مشرکوں اور کفار کے لیے  اس قسم کی مثالیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بیان فرمائی گئی ہیں، اب اگر کوئی انہی آیات اور احادیث کو ہی بیان کرے تو "مہذب " لوگوں کی تیوریاں چڑھنے لگتی ہیں ، اور خود خواہ اُن کے کلام میں کتنی ہی بد تہذیبی اور فحاشی شامل ہو ، وہ انہیں سُجھائی نہیں دیتی، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ)
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کی طرف سے مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص و مقید کرنے کا کہیں کوئی ادنی ٰ سا ثبوت بھی نہیں ملتا ، اگر اس کام میں کچھ تھوڑی سی بھی خیر ہوتی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یقیناً یہ کام کرتے ، پس   اس طرح یہ کام بدعات کے ز ُمرے میں بھی داخل ہو جاتا ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس صحیح ثابت شدہ اور انتہائی واضح  فرمان مبارک کی روشنی میں عُلماء کرام رحہم اللہ کے چند فرامین بھی ذکر کرتا چلوں ،
مجموع الفتاویٰ میں  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے""""" وَأَمَّا مَا يَفعَلُهُ كَثِيرٌ مِن النَّاسِ مِن تَقدِيمِ مَفَارِشَ إلَى المَسجِدِ يَومَ الجُمُعَةِ أَو غَيرِهَا قَبلَ ذَهَابِهِم إلَى المَسجِدِ فَهَذَا مَنهِيٌّ عَنهُ بِاتِّفَاقِ المُسلِمِينَ ؛ بَل مُحَرَّمٌ ::: یہ جو بہت سے لوگ جمعہ والے دِن یا اُس کے عِلاوہ بھی خود نماز کے لیے جانے سے پہلے ہی  اپنے بچھونے مسجدوں میں پہنچا دیتے ہیں ، یہ کام مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ ممنوع ہے بلکہ حرام ہے """""،
اور پھر شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس مسئلہ سے متعلق کئی مسائل  کے بارے میں کافی سیر حاصل گفتگو فرمائی ، جِس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عُلماء کرام رحمہُ اللہ  میں سے کئی نےتو  مسجد میں مخصوص کر کے قبضہ کی ہوئی جگہ پر نماز  کے باطل ہونے اور قبول نہ ہونے کا حکم لگایا ہے ،
::::: مسجد میں اپنے لیے جگہ مخصوص کرنے کے نقصانات :::::
::: (۱) ::: نماز کے لیے مسجد میں جلدی نہ جانا :::  جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے  کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ (((((لَو يَعلَمُ النَّاس ما في النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ ثُمَّ لم يَجِدُوا إلا أَن يَستَهِمُوا عَليهِ لَاستَهَمُوا ::: اگر لوگوں کو پتہ ہو کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (اجر و ثواب )ہے تو  اگراس (میں یعنی پہلی صف شامل ہونے )کے لیےاُنہیں قُرعہ ڈالنا پڑے تو یقیناً قُرعہ ڈال لیں ))))) متفق  ٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث590 /کتاب الآذان /باب9 ، صحیح مُسلم /حدیث437 /کتاب الصلاۃ/باب28 ،
پس جو لوگ نماز کے لیے مسجد میں جلدی جانے کی بجائے پہلی صف میں اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص کر کے اس پر قابض ہو جاتے ہیں ، وہ جلدی جانے کے اجر و ثواب سے بھی محروم ہوتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس مذکورہ بالا حدیث شریف میں بیان فرمائی گئی تعلیم کے خلاف کام کر کے اپنا نقصان کرتا ہے ،
::: (۲) :::  اپنے مسلمان بھائیوں کو تکلیف دینا  :::
اپنے لیے اگلی صفوں میں جگہ قابو کرنے والا جب وہ آخری وقت میں یا کچھ وقت گذرنے کے بعد مسجد میں آتا ہے اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، انہیں تکلیف دیتا ہوا اپنی قابو کی ہوئی جگہ تک پہنچتا ہے تو مزید گناہ کماتا ہے ،
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جمعہ کا خطبہ اِرشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور پہلے سے موجود لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((اِجلِس فَقد آذيت َ :::بیٹھ جاؤ تم (لوگوں کو )تکلیف دے چکے ہو))))) سنن ابو داؤد /حدیث 1118، صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 714،           
::: (۳) ::: اپنے مسلمان بھائیوں کے دِلوں میں اپنے لیے کچھ بغض یا غصہ وغیرہ پیدا کرنے کا سبب بننا  :::
مسجد میں اپنے لیے جگہ مخصوص کر کے اس پر قبضہ کرنے والا اپنے ہی لیے اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے دل میں غصے ، بغض اور نفرت وغیرہ کا سبب بنتا ہے ، اور یہ کام بھی حرام ہے کیونکہ یہ ممنوع کاموں میں سے ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مُبارک ہے کہ (((((لَا تَبَاغَضُوا ولا تَحَاسَدُوا ولا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخوَانًا ولا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ أَن يَهجُرَ أَخَاهُ فَوقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ::: (آپس میں)بغض مت رکھو اور نہ ہی حسد کرو ، اور نہ ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر پیٹھ پھیرو اور (بلکہ) اللہ کے بندے(اور) ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو ، اور کسی مسلمان کے لیے یہ حلا ل نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان)بھائی سے تین رات سے زیادہ ناراض رہے )))))صحیح البخاری /حدیث5726 /کتاب الآداب /باب62 ، صحیح مُسلم /حدیث2559 /کتاب البر و الصلہ و الآداب/باب7، (یہ مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں)،
::: (۴) ::: اپنے سے پہلے آنے والے کی حق تلفی :::
مسجد میں اپنے لیےجگہ قابو رکھنے والا اپنے  سے پہلے آنے والے اپنے دوسرے نمازی بھائیوں کا حق مارتا ہے کیونکہ پہلے آنے والا کا یہ حق ہے کہ وہ اگلی صفوف میں اور جہاں چاہےاپنی نماز کے لیے جگہ چن لے ،
کسی کی حق تلفی کرنا کے حرام ہونے میں توشاید ہی کسی مسلمان کو شک ہوگا ۔
::: (۵) ::: اپنی قابو کی ہوئی جگہ سے کسی کو اُٹھانا :::
یہ بھی ایک گناہ ہے جس کا شکار کوئی ایسا شخص جو مسجد میں اپنے لیے جگہ قابو رکھتا ہے ، اُس وقت ہوتا ہے جب وہ دیر سے آتا ہے اور اپنی قابو کی ہوئی جگہ پر کسی اور کو بیٹھے دیکھتا ہے اور پھر اسے اپنی قابو کی ہوئی جگہ سے اٹھاتا ہے ، اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کےمندرجہ ذیل حُکم کی خلاف ورزی کا گناہ کماتا ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حُکم مبارک ہے کہ (((((لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ من مَجلِسِهِ ثُمَّ يَجلِسُ فيه ::: کوئی شخص کسی کو اُس کے بیٹھنے کی جگہ سے اُٹھا کر پھر خود وہاں مت بیٹھے )))))صحیح البخاری /حدیث5914 /کتاب الاستئذان /باب 31، صحیح مُسلم /حدیث2177 /کتاب السلام /باب10،
اس حدیث مبارک میں بہت واضح طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اُٹھا کر وہاں کسی دوسرے کا وہاں بیٹھنا گناہ ہے ،
::::::: ایک استثنائی صُورت  :::::::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إذا قَام أحدُكُم مِن مَجلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ إليه فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ:::اگر تُم لوگوں میں سے کوئی اپنی مجلس سے اُٹھتا ہے تو وہ اُس جگہ (پر دوبارہ بیٹھنے ) کا سب سے زیادہ حق دار ہے ))))) صحیح مُسلم /حدیث 2179/کتاب السلام /باب 27،
امام النووی رحمہ اللہ نے  اس حدیث کی شرح میں اِرشاد فرمایا """ قال أصحابنا هذا الحديث فيمَن جلس فى موضع مِن المسجد أو غيره لِصلاة مثلاثم فارقه ليعود بأن فارقه ليتوضأ أو يقضى شغلاً يسيراً ثم يعود لم يبطل اختصاصه بل إذا رجع فهو أحق به في تلك الصلاة دون غيرها ؛ فإن كان قد قعد فيه غيره فله أن يقيمه وعلى القاعد أن يفارقه لهذا الحديث وهذا هو الصحيح عند أصحابنا وأنه يجب على من قعد فيه مفارقته إذا رجع الأول ::: ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ یہ حدیث ایسے شخص کے بارے میں ہے جو مسجد میں یا کسی اور  جگہ نماز ادا کرنے کے لیے بیٹھا ہو اور اُس جگہ کو وقتی طور پر چھوڑ ے مثلا ً وضوء کرنے کے لیے جائے یا کوئی اور چھوٹا موٹا کام نمٹانے کے لیے جائے ، تو اس طرح جانے سے اُس جگہ پر کسی اور کی نسبت  اُس کا حق زیادہ رہتا ہے لیکن صرف اِسی نماز کے لیے جس کے انتظار میں وہ بیٹھا تھا نہ کہ کسی اور نماز کے لیے بھی اُس کا اس جگہ پر حق رہے گا ،  
اگر اُس کی جگہ پر کوئی بیٹھ چکا ہو تو اِس مذکورہ بالا حدیث مبارک کی بنا پر  اُس پہلے والے کو یہ حق ہے کہ وہ بعد والے کو اپنی اُس جگہ سے اٹھا دے اور بعد میں بیٹھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اُس جگہ کو چھوڑ دے ، ہمارے اصحاب کے ہاں یہی بات دُرست ہے،اور یہ کہ اگر پہلے والا واپس آجائے تو بعد والے پر یہ واجب ہے کہ اُس پہلے والےکے لیے جگہ چھوڑ دے۔"""
جو لوگ مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص کر کے اُس پر قابض رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی والا راستہ اپنائیں ، ایسی عبادات اور بظاہر نیک اعمال جو سُنّت کے خلاف ہوں اللہ کے ہاں قبول ہونے والے نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں کسی بھی نیکی کی قبولیت کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے ، (۱) اخلاص للہ ، یعنی وہ کام صرف اور صرف اور خالصتاً اللہ کی رضامندی کے لیے کیا گیا ہو ،اور (۲) اتباعء سُنّت ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کے عین مطابق ہو ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر مسلمان کو یہ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ۔


اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔